مکارمہ وغیرہ کا آپس میں اختلاف اور افراد مکارمہ کے اوصاف
الشیخ ممدوح الحربیمکارمہ وغیرہ کا آپس میں اختلاف
آج کے مکارمہ اسماعیلیوں میں افتراق و انتشار پیدا ہو چکا ہے یہ حسینیہ فرقہ اور محسنیہ فرقہ میں بٹ چکے ہیں اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اسماعیلی مکارمہ کا جو داعی ہوتا ہے یہ اپنی وفات کے نزدیک اپنے خلیفہ کے متعلق وصیت کرتا ہے 1413ھ کی بات ہے اسماعیلی مکارمہ کا داعی کفیل بن حسن مکرمی تھا اس کا نائب محسن بن علی مکرمی تھا۔ یہ بیت المال کا مسؤل تھا محسن اپنے پیروکاروں میں حددرجہ معظم اور مقدس تھا اور یہ حسین کا خلیفہ تھا۔ حسین کی وفات کے بعد جب انہوں نے وصیت نامہ دیکھا تو اس میں محسن کے برعکس حسین بن اسماعیلی کو خلیفہ لکھا تھا یہ طائف کا رہنے والا تھا۔یہ وصیت تو محسن مسؤل پہ بجلی بن کے گری کیونکہ اگر اس وصیت پہ عمل ہو جائے تو اس کا منصب و مرتبہ اور جو پیروکاروں کے دل میں اس کی تعظیم جا گزین تھی سب ختم ہو جاتی اس نے اس وصیت کو ناقابلِ نفاذ قرار دے کر حسین بن علی سے بغاوت کر دی اور خود کو مکارمے اسماعیلیہ کا داعی بنا کر کھڑا کر دیا اس وقت یہ مکارمہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک حصہ محسن کے ساتھ ہو لیا دوسرے حصے نے حسین بن علی سے تائید کی حسین کے تائید کنندگان اس کے پاس طائف گئے وہ بہت خوش ہوا۔ پھر وہ اسے نجران لے گئے تاکہ وہ اسے اس کا منصب سپرد کرے اور وہ خشیوہ کو ٹھکانہ بنا لے جو کہ اب بھی ان کا مرکزی مقام ہے۔ محسن نے جادو کر کے حسین بن اسماعیل کو اس منصب سے مرحوم کر دیا۔ جادو نے حسین کے دل میں ایسا اثر کیا کہ خشیوہ سے اسے نفرت ہو گئی اور وہ بیمار پڑ گیا جس بنا پر محسن خشیوہ پر قابض ہو گیا اور بیت المال پر اپنا اثر و نفوذ پھیلا دیا۔ حسین بن اسماعیل اپنے علاقہ رحضہ میں ٹھہرا رہا حسین کے مریدوں نے محسن کے ناک میں دم کر دیا۔ 1416ھ میں محسن بیت المال کی مسئولیت اور جامع کبیر سے دستبردار ہو گیا اورحسین آخر کار یہ دونوں چیزیں واپس لینے پر قادر ہو گیا۔ اور مؤلف کتاب کہتے ہیں: اختلاف اب بھی قائم ہے یہ مکرمی اسماعیل حسینہ اور محسنیہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
افراد مکارمہ کے اوصاف:
مکارمہ اسماعیلیوں کی شخصی عادات میں یہ چیز ممتاز نظر آتی ہے کہ یہ سفید پگڑی سر پر باندھتے ہیں اور باقاعدہ سر پر پیچ دیتے ہیں۔ اور یہ اپنا لباس ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہیں اور اسے سنت قرار دیتے ہیں اور ان میں سے دین دار پوری داڑھی بھی رکھ لیتا ہے مگر رخساروں کی جانب سے اسے منڈوا کر رکھتا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کی عادات سنی لوگوں سے مخالف ہوتی ہیں۔ انہوں نے تقریباً اکثر معاملات میں ان سے اپوزیٹ (opposite )چلنا ہے۔ یعنی:
خرد کا نام جنوں، جنوں کا خرد رکھ دیا۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔