Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مکارمہ اسماعیلیوں کی عبادات

  الشیخ ممدوح الحربی

مکارمہ اسماعیلیوں کی عبادات

1) ان کی سب سے پہلی عبادت وضو ہے۔ یہ مکارمہ فرقہ والے وضو سنی لوگوں کی مانند ہی کرتے ہیں مگر یہ وضو کی ابتداء میں لفظوں میں نیت کرتے ہیں اور ہر عضو دھوتے وقت مخصوص دعا کرتے ہیں۔ ان کی (کتاب) صحیفتہ الصلاۃ میں آتا ہے۔

وىتمضمض بالماء ثلاث مرات ویقول فى مرة الله‍م اسقنى من كأس محمد نبیك

ترجمہ: اور تین مرتبہ پانی کے ساتھ کُلی کرے اور ہر مرتبہ کہے اے میرے اللہ مجھے محمدﷺ کے جو کہ تیرے نبی ہیں پیالہ سے سیراب کر دے۔

اور وضو میں یہ قدم بھی نہیں دھوتے۔ ان کا صرف مسح کرتے ہیں جیسا کہ دیگر شیعہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن آج کل مکارمہ میں بعض لوگوں کو نجران میں دیکھا گیا ہے کہ یہ پاؤں دھوتے ہیں یہ جرابوں موزوں پہ مسح کے قائل بھی نہیں اور نہ ہی ان میں نماز پڑھتے ہیں۔

2) یہ ان کی اذان کی عبادات ہیں۔ اسماعیلی مکارمہ کی اذان اہلِ سنت کی اذان سے مختلف ہے۔ اس میں اضافہ ہے۔ ان کی اذان یہ ہے ، اور یہ ساری اذان سنیوں کی مانند ہے۔

اشہد ان محمد رسول کے بعد دو دفعہ ان علیا ولی اللہ کا اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح حی علی الفلاح کے بعد دو دفعہ حی علی خیر العمل کا اضافہ کرتے ہیں۔ زیدی شیعہ بھی اسی طرح کرتے ہیں اور مزید یہ کہتے ہیں:

محمد و علی خیر البشر و عترتھما خیر العتر

3) ان کی عبادت نماز ہے۔ مکارمہ اسماعیلیوں کی نماز سنیوں کی نماز سے کافی ملتی جلتی ہے مگر چند امور مختلف ہیں، یہ نماز کے وقت زبان سے نیت ادا کرتے ہیں اور اللہ اکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے ہیں:

وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا مسلما وما انا من المشرکین۔ ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک له و بذالک امرت وانا اول المسلمین لا شریک له وبذالک امرت وانا اول المسلمین

پھر کہتے ہیں:

علی ملة ابراھیم و دین محمد و ولاىة علی و ابرا الیه من اعدائه الظالمین

یہاں وہ ظالم دشمنوں سے مراد رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تین خلفائے راشدینؓ لیتے ہیں جو بقول ان کے یہ خلافتِ سیدنا علیؓ کے غاصب ہیں۔ یہ اکیلے نماز پڑھیں یا باجماعت پڑھیں آمین نہیں کہتے نہ آہستہ نہ بلند آواز میں دونوں طرح آمین نہیں کہتے ہاتھ بھی سینے پہ نہیں باندھتے لٹکا دیتے ہیں۔ ہر اسماعیلی کے پاس ایک خاص جائے نماز ہوتا ہے۔ جس پر یہ نماز پڑھتا ہے اور نماز تیزی سے پڑھتا ہے ان کی نماز میں خشوع و خضوع نہیں ہوتا نہ ہی یہ اطمینان کرتے ہیں۔ نماز کے بارے میں ان کی عجیب و غریب عادت ہے کہ جب ان میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ بستہ ہو تختیاں چابیاں ہوں یا اوراق ہوں یا کاپیاں۔ سنی بھی ایسے کرتے ہیں خصوصاً حرمین شریف میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ تاہم اسے نماز کی علامت نہ بنایا جائے ویسے عادتاً رکھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں جبکہ سنی سترہ رکھنا نماز میں واضح طور پہ درست سمجھتے ہیں۔ اور یہ ظہر اور عصر کی نماز جمع کرتے ہیں اور مغرب کے ساتھ ہی عشاء پڑھ لیتے ہیں۔

4) مکارمہ فرقہ کی مساجد بھی میدان میں اور نماز باجماعت کا اہتمام بھی ہے۔ یہ اپنی کھیتوں کے قریب اپنی مساجد تعمیر کرنے کی بہت فکر رکھتے ہیں یہ بات بہت ہی حیران کن ہے اور خبردار کرنے والی ہے ان کی مساجد میں قالین وغیرہ نہیں بچھائے جاتے یہ صرف مصلوں پہ اکتفاء کرتے ہیں۔ مکارمہ کی مساجد میں خصوصاً خشیوہ کی مرکزی مسجد میں صفوں کو درجہ کے لحاظ سے درست کیا جاتا ہے۔ پہلی صف میں اصحابِ ہجرت کھڑے ہوتے ہیں یہ وہ لوگ جو یمن سے ہجرت کر کہ ادھر آتے ہیں۔ دوسری صف میں تاجر حضرات اور بڑے عہدوں پر فائز لوگ کھڑے ہوتے ہیں اس کے بعد صفوں پہ عوام کھڑی ہو اور جن مساجد میں اہلِ ہجرت نہ ہوں وہاں تاجر حضرات اور سربرآوردہ لوگ پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یہ نماز باجماعت صرف اس امام کے پیچھے پڑھتے ہیں جسے داعی مکرمی نے مقرر کیا ہو یا پھر اس کا نائب ہو ان کے ائمہ ایک ممتاز علامت رکھتے ہیں ان کے امام کے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں انگوٹھی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور داڑھی والا ہوتا ہے مگر رخساروں پہ منڈوائی ہوتی ہے۔ یہ اہلِ سنت کی مساجد میں قطعاً نماز نہیں پڑھتے اگر مجبوراً پڑھیں بھی تو اسے دوبارہ لوٹاتے ہیں جیسا کہ حرمین شریف میں بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کی جمعہ کی نماز نہیں ہوتی اس لیے یہ جمعہ ادا نہیں کرتے اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جمعہ امام عادل متقی و پرہیزگار کی موجودگی میں ہی ممکن ہے ظاہر ہے ان کا جمعہ نہ پڑھانا خود پہ زبردست تنقید ہے کہ ان کا امام اور داعی ان صفات سے عاری ہے یا تو یہ نماز جمعہ پڑھیں یا اپنے امام کے متقی نہ ہونے کا اعتراف کریں۔ ان کے تاریک مذہب سے نکل کر نورِ ہدایت پانے والے ہمارے بھائی نے بتایا:

اتینا الی المسجد واذا بالصف الاول التجار الناس فی المسجد یتکلموں و یتحدثون ثم اقمیت الصلاۃ فی تمام الساعة الواحدۃ وعشرین دقیقة ظھرا

”ہم مسجد میں آئے تو پہلی صف میں تاجر کھڑے تھے اور لوگ باتیں کر رہے تھے اس کے بعد ایک بج کر بیس منٹ پر نماز کھڑی ہوئی جبکہ اس وقت سنی مسجدوں میں سوا بارہ بجے جماعت کھڑی ہوتی تھی ہم یعنی مکارمہ نے چار رکعت جہری نماز پڑھی اس کے بعد امام نے خطبہ دیا اور عوامی انداز پر ہی اس کی قرات کی اس امام کا نام محسن تھا اس کے خطبے کے دوران لوگ باتیں کر رہے تھے اس نے سات منٹ کا وقفہ دیا اس کے بعد نماز عصر ہوئی یہ خطبہ نمازیں وغیرہ سارے کام باون منٹ پہ ختم ہوئی اس کے بعد ہم امام کے پاس سلام کرنے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینے کے لیے حاضر ہوئے۔“

اسماعیلی مکارمہ کی موسمی نمازیں:

یہ مکارمہ اسماعیلی رجب کی سترہ رات کو نماز ادا کرتے ہیں ان کی کتاب صحیفہ الصلاۃ الکبرٰی صفحہ 313 پر ہے یہ اسے نہایت مقدس کتاب تصور کرتے ہیں۔

ان لیلة السابع عشر من رجب لھا فضل عظیم لأن فی مصباحھا بعث النبیﷺ والعامل فیھا له اجر عشرین سنه۔ یصلی فیھا(22) رکعات یقرء فیھا(22) سورۃ من قصارالمفصل۔

”رجب کی 17 تاریخ کی رات بہت شرف و فضل والی ہے کیونکہ اس کی روشنی میں حضور اکرمﷺ مبعوث ہوئے اس رات عمل کرنے والے کو بیس برس کی عبادت کرنے کا ثواب ملتا ہے۔اس میں 22 رکعت پڑھیں اور بروج سے لے کر آخر تک بائیس سورتیں پڑھیں۔“

میت پر نماز پڑھنے اور اس کو دفن کرنے کا طریقہ:

یہ مکارمہ اسماعیلی اس چیز کو اپنے لیے بہت بڑے شرف کی بات تصور کرتے ہیں مکرمی مذہب کا داعی یا اس کا نائب ان کی میت کو قبر میں اتارے تو نذرانہ اور بڑھ جاتا ہے اور جب وہ قبر میں آذان کہے تو اور ترقی ہو جاتی ہے۔ اور جب امام اپنے ہاتھ سے قبر کھودے تو نذرانہ کی رقم اور بڑھ جاتی ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب مرنے والا مکمل طور پر مر جائے تو اس کے عزیز و اقارب اس کی قبر کے قریب بکری ذبح کریں اسے یہ عقیقہ کہتے ہیں۔ اس بکری کی ہڈیوں کو نہیں توڑتے ان کو ثابت ہی اس کی قبر میں رکھ دیتے ہیں اس کی مینگنیاں بھی ساتھ دفن کر دیتے ہیں اور اسے بہت ہی باعثِ اجر عمل تصور کرتے ہیں۔

روزہ:

مکارمہ اسماعیلی رمضان کی آمد کے لیے چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ بلکہ لیپ کے سال کے مطابق بنائے ہوئے نقشہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان کی کتاب میں لکھا ہے:

ان اشھر السنة لا تتغیر فشھر تام و شھر ناقص و بھذا یکون رمضان دائما تاما (صحیفة الصلاۃ)

”سال بدلتا نہیں مہینہ یا پورا ہوتا ہے یا ناقص ہوتا ہے۔ ہمیشہ رمضان 30 دن کا آتا ہے اس لیے یہ ہمیشہ تیس روزے رکھتے ہیں۔“

ایک روزہ یہ 18 ذوالحج کا بھی رکھتے ہیں۔ جسے یہ غدیرِ خم کا روزہ کہتے ہیں۔ اسے شیعوں کے تمام فرقے رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت علیؓ کر خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔

مکارمہ کا حج:

ان کا حج بھی جیسے کہ اوپر اسماعیلیوں کے بارے میں گزرا ہے اسی طرح ہوتا ہے تمام مسلمانوں کے برعکس 8 ذوالحج کو ہی عرفات میں چلے جاتے ہیں یہ بھی لیپ کے حساب سے حج کرتے ہیں ایک دن یا دو دن پہلے ہی عرفات چلے جاتے ہیں۔  (سلک الجواہر صفحہ 82)