مکارمہ اسماعیلیوں کے عقائد
الشیخ ممدوح الحربیمکارمہ اسماعیلیوں کے عقائد
ان کے عقائد پر بحث سے پہلے ہم اسماعیلی مکارمہ کی کتابوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
- ان کی ظاہری کتب ہیں۔
- باطنی کتب
جو ان کی ظاہری کتب ہیں وہ تو عوام کے لیے بھی جائز ہیں۔ خواہ وہ اسماعیلی ہو یا غیر ہو۔ ان میں انہوں نے اپنے مذہب کے عقائد اور افکار اور تعلیمات کی حقیقت کو پتہ نہیں چلنے دیا خفیہ رکھا ہے کچھ ظاہری مسائل بیان کیے ہیں۔ اور جو ان کی باطنی کتب ہیں اور جس عقیدے کے یہ تابع ہیں یہ وہ کتب ہیں ان پر یہ عوام کو مطلع نہیں ہونے دیتے صرف خواص پر ہی آشکار کرتے ہیں۔ انہوں نے ان کی تلاوت سے اپنوں کو بھی روک رکھا ہوتا ہے۔ انہیں پڑھنے کی یا ان سے آگاہ ہونے کی بھی تب اپنوں کو اجازت دیتے ہیں جب ان سے یہ پختہ عہد لیتے ہیں کہ یہ ان کی آگے کسی کو خبر نہ دیں گے۔ حسین بن علی بن ولید ان کا داعی اپنے ایک خاص مرید سے یہ عہد لیتا ہے کہ اس باطنی کتاب سے آگے کسی کو مطلع نہ کریں بس اسے اپنے تک رکھیں۔اس کے الفاظ یہ ہیں:
”میں تجھ سے یہ عہد لیتا ہوں کہ تو اس کتاب پر اسے ہی مطلع کرے گا جسے میں اجازت دوں گا۔ اس پر میں اللہ کا تاکید شدہ عہد لیتا ہوں جو اس نے اپنے مقرب فرشتوں سے لیا ہے اور مرسل نبیوں سے لیا ہے اپنے دین کے ہادی اماموں سے لیا ہے۔ اگر تُو نے یہ عہد پورا نہ کیا تو یہ سب ائمہ تجھ سے بری ہیں تیرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کہتا ہے“
لا نسخت منه حرفا ولا اقل ولا اکثر ولا وقف علیه الا انت او من اذنت له بالوقوف علیه وانک تعید الی ھذا النسخة بعد ان تفرغ من قراءتھا واللہ علی ما نقول وکیل (مقدمہ المبدأ والعماد)
”نہ تو اس میں سے ایک حرف نقل کرے گا اور نہ ہی اس سے کسی کو آگاہ کرے گا مگر اس کے لیے جسے میں اجازت دوں گا۔ اور یہ نسخہ پڑھنے کے بعد مجھے واپس کر دے گا۔ جو بھی ہم عہد و پیمان کر رہے ہیں اللہ اس پر وکیل ہے۔“
میں مؤلف کتاب کہتا ہوں:
مکارمہ اسماعیلی ہمیشہ اپنی کتابوں کو صیغہ راز میں ہی رکھتے آ رہے ہیں۔ اب جب بھی مکرمی اسماعیلی داعی کے پاس آئیں گے آپ ان کے عقیدے کے بارے میں پوچھیں یا ان کتابوں کے بارے میں دریافت کریں جن میں ان کا عقیدہ مرکوز ہو تو یہ پوری غفلت کا اظہار کرتے ہوئے صرف ایک کتاب آپ کے ہاتھ میں تھما دیں گے جو کہ صحیفۃ الصلاۃ ہے۔ یہ نماز کے متعلق چند فقہی مسائل پر مشتمل ہے۔ مگر بعض طبع خانوں نے ان اسماعیلی باطنی فرقہ کی کتابوں کو شائع کر دیا ہے جو انہیں ان کے داعیوں سے ہاتھ لگی تھیں جن سے ان کے مذہب کی بھیانک صورت سامنے آئی۔ جس کو اللہ نے فطرتِ سلیمہ دے رکھی اور وہ فلسفہ الحاد کی بے یقینی کے اندھیروں میں گرنے کے بجائے کتاب و سنت کے روشن میناروں کی طرف آتا ہے۔
مکارمہ کا اللہ کے بارے میں عقیدہ:
یہ اللہ پاک کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی صفت کے ساتھ موصوف نہیں۔ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے تنزیہہ کے نام پر اس کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں ان کا ایک اہم گھر ابراہیم حامدی اسماعیلی کہتا ہے۔
فلا یقال الیه حیا ولا قادر ولا عالما ولا عاقلا ولا کاملا ولا تاما ولا فاعلا ولا یقال عنه ذات لان کل ذات خاملة للصفة (کنز الولد)
”اللہ تعالیٰ کو نہ تو زندہ کہا جائے گا نہ قادر نہ عالم نہ عاقل نہ کامل نہ تام نہ فاعل نہ ہی اسے ذات سے تعبیر کیا جائے گا کیونکہ ہر ذات صفت کی حامل ہوتی ہے۔
غور فرمائیے! یہ اللہ تعالیٰ کو اسم اور صفت سے خالی قرار دے رہا ہے۔“
امامت کے بارے میں مکارمہ کا نظریہ:
ان کا امامت کے متعلق نظریہ درج ذیل نکات کے گرد گھومتا ہے۔
1) نقطہ یہ ہے کہ امامت دین کے اساسی ارکان میں شامل ہے۔ ان کا قاضی نعمان لکھتا ہے:
بنی الاسلام علی سبع دعائم الولایة وھی افضلھا واطھارة والصلاة والزکاۃ والصوم والحج والجہاد (دعائم السلام جلد1 صفحہ 2)
اسلام کی بنیاد سات چیزوں پہ ہے:
- ولایت و امامت ہے جو ان میں سے سب سے افضل ہے۔
- طہارت
- نماز
- زکوٰۃ
- روزہ
- حج
- جہاد
2) نقطہ یہ ہے کہ ان مکارمہ کا امام واجبِ اطاعت ہے ان کا داعی معز لکھتا ہے:
ان اللہ قد فضلنا وشرفنا واختصنا واجتبانا وافترض طاعتنا علی جمیع خلقه (المجالس و اوالمسایرات)
”اللہ تعالیٰ نے ہمیں شرف اور فضل سے نوازا ہے اور ہمیں خصوصیت سے اور انفرادیات سے نوازا گیا ہے اور ساری مخلوق پر ہماری اطاعت فرض کر دی گئی ہے۔“
3)ان کا عقیدہ ہے کہ زمین کبھی امام سے خالی نہیں ہوئی خواہ وہ امام ظاہر ہو یا مستور ہو ان کا داعی حسن بن نوح کہتا ہے۔
ان الارض لا تخلو طرفة عین من قائم بحق لھدایة عباد اللہ وخلقه اما ظاھرا مشھودا او باطنا مستورا (الازھار صفحہ 189)
”یہ سرزمین ایک لمحہ بھر بھی اللہ کے بندوں اور اس کی مخلوق کی ہدایت کے لئے امام حق کے لیے خالی نہ ہوگی خواہ وہ ظاہر ہو یا غائب ہو۔“
4) امامت کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ امام جو بھی ہو گا سیدنا علیؓ کی اولاد سے ہو گا یعنی حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے ہو گا۔ اس کے بعد سیدنا حسینؓ کی اولاد سے ہو گا سیدنا حسنؓ کی اولاد سے نہ ہو گا۔ اس کے بعد اسماعیل کی اولاد سے ہو گا۔ اس کے بعد کسی کی اولاد سے نہ ہو گا۔ (دعائم السلام:جلد1: صفحہ 89 المصابیح فی الاثبات الامامہ للکرمانی: صفحہ 109)
5) ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ہر امام معصوم ہے۔ ان کے عقیدے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر بعد والا امام سابقہ اماموں سے افضل ہوتا ہے۔نعمان کہتا ہے:
لا یاتی امام الا اعطاہ اللہ فضل الامام الذی مضی قبله وعلمه وحکمته (المجالس و المسایرات)
”ہر آنے والے امام کو اللہ تعالیٰ گزشتہ امام سے افضل بناتا ہے۔ علم و حکمت بھی گزشتہ امام سے بہتر ہوتا ہے۔“
حامدی مکرمی کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض نے نبوت کا اقرار کیا ہے۔ لیکن آپ کے وصی کو تسلیم نہیں کیا رسول اللہﷺ کا اقرار ان کے لیے مفید نہیں کیونکہ آپﷺ نے سیدنا علیؓ کے متعلق جو خلافت کی وصیت کی تھی اسے تسلیم نہیں کیا۔
اسماعیلی مکارمہ کا نظریہ تقیہ:
تقیہ کے بارے میں تمام شیعہ فرقے بڑے فخر سے اقرار کرتے ہیں۔ یہ جعفر صادق سے جھوٹ نقل کرتے ہیں:
التقیہ دینی و دین آبائی۔ (اسرار النطقاء: صفحہ 92)
تقیہ میرے اور میرے آباء کا دین ہے۔
دیگر ائمہ سے بھی نقل کرتے ہیں کہ ہمارا راز چھپا کہ رکھو۔ جس نے ہمارا راز پھیلایا اس نے ہمارا حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
باطنی تاویل:
اسماعیلی بڑے فخر سے اپنا یہ نظریہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ظاہر اور باطن کے درمیان تفریق کرتے ہیں:
ان الظاھر ھو الشریعة و الباطن ھو الحقیقة و صاحب الشریعة ھو الرسل محمد صلوات اللہ علیه و صاحب الحقیقة ھو الوصی علی بن ابی طالب (الفتخار صفحہ :71 للسجستانی)
شریعت ظاہری علم ہے اور باطنی علم حقیقت ہے۔ محمدﷺ صاحبِ شریعت ہیں اور حضرت علیؓ صاحبِ حقیقت ہیں۔
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اکرمﷺ کی نبوت میں شریک بھی ٹھہرایا غالی صوفیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اسماعیلی مکارمہ کہتے ہیں کہ رسالت سات افراد میں مشتمل ہے۔ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمدﷺ اور امام قائم میں۔
(اثبات النبوت: صفحہ 131، الایضاح: صفحہ 43،کنزالولد: صفحہ 268)
مکارمہ داعیوں کا جادو سے مستفید ہونا:
اسماعیلی مکارمہ جادو سے کام لینے میں مشہور ہیں۔ یہ ان سے متداول ہے کہ یہ جادو کا استعمال کرتے ہیں۔ان کی کتابوں میں ہے کہ جنوں اور شیطانوں سے وسیلہ لیں۔ ان کی خاص ترین کتاب میں ہے جو ہر مکرمی کے گھر میں موجود ہوتی ہے اس میں لکھا ہے:
مقری، مغیشم، شمشا، بریشا، کباکبا، کبا، ینجلی، ینجلی، ینجلی یہ سب شیطانوں اور جنوں کے نام ہیں۔ اں کے توسل سے مدد مانگ رہے ہیں۔(صحیفة الصلاۃ الکبرٰی صفحہ 662)
مکارمہ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں مؤقف:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سبِّ وشتم کرنے میں دوسرے شیعوں کی مانند ہی ان کا نظریہ ہے کہ بات ان کے نظریہ میں پوشیدہ نہیں۔ عام مکارمہ میں مشہور ہے کہ یہ سبِّ وشتم کرنا ہمارا مذہب ہے بلکہ مکارمہ فرقے والے جب کسی کو غصہ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: جو سیدنا ابو ہریرہؓ کو عذاب ہے وہی تجھے ہو (العیاذ باللہ)اور اہلِ سنت کو ابو ہریرہؓ اور سیدہ عائشہؓ کی قوم قرار دے کر گالی دیتے ہیں۔ اور مکارمہ کا عقیدہ ہے کہ ستارے بذاب خود مؤثر ہیں اور ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق وہی کرتے ہیں۔ ان کا امام حامدی کہتا ہے:
بچے کی تصویر کشی شمس، زحل، قمر کے اشتراک سے عطارد ستارہ کرتا ہے۔ دل شمس کی قوت سے پیدا ہوتا ہے، بچے کے پاؤں زحل کی قوت سے اور سر قمر کی قوت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور عطادر مکمل تصویر کشی کرتا ہے۔ اور زہرا ستارہ مذکر یا مؤنث بناتا ہے۔ (کنزالولد: صفحہ 142)
مکارمہ کا عقیدہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے دین درج ذیل افراد سے سیکھا:
حضرت ابی بن کعبؓ سے وصیتوں کا علم سیکھا اور زید بن عمرو سے طہارت کا علم سیکھا اور حضرت عمرو بن نفیلؓ سے نماز سیکھی اور زید بن اسامہؓ سے زکوٰۃ اور حضرت خدیجہؓ بنتِ خویلد سے حج کے فرائض سیکھے ہیں۔ (کنزالولد: صفحہ 210)
مکارمہ کے نزدیک عقل ہی تمام الہٰی صفات کا محل ہے اور یہی عقل ہے جو اس کی طرف نماز میں متوجہ کی جاتی ہے۔ یہ خارجی مظہر ہے یہ جس کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اسے حجاب کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک عقل الہٰ حقیقی ہے، انسان اللہ کی ذات تک اس عقل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا یہی صفات کی علت غایہ ہے۔ اور یہ کہتے ہیں، سورۃ قلم میں جس قلم کا ذکر ہے اس سے مراد یہی عقلِ اول ہے، یہی عقل خالق و مصور ہے ان کے نزدیک نفسِ کلی سے مراد لوحِ محفوظ ہے ان کے نزدیک عقل نفسِ سابق اور نفسِ تالی ان تینوں کے ذریعہ تمام موجودات پائی جاتیں ہیں۔ (مطالع الشموس- الذخیرۃ فی الحقیقۃ)
یہ ایسی خرفات ہیں جو قرآن پاک میں مذکور نہیں نہ ہی رسول اکرمﷺ نے ان کا ذکر کیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ان کی تردید کرتا ہے:
فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞(سورة البقرہ: آیت 256)
ترجمہ: اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
اللہ وحدہ ہی صفات جمال و کمال اور اسماء حسنٰی کا مستحق ہے۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ کی صفات غیر میں جلوہ گر ہوجاتی ہے یا کوئی دوسرا اسماءِ الہیٰ اور صفات میں سے معمولی بھی حقدار ہے تو وہ کافر و مشرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو بے مثل پیدا کرنے والا ہے۔ کسی برائی سے پھرنے اور کوئی بھی طاقت اللہ ہی سے ہے آسمان و زمین اور جو کچھ اِن میں ہے سب کا وہی خالق ہے۔ وہی امور کی تدبیر کرتا ہے اور قضا و قدر کے فیصلے کرتا ہے اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے۔ وہ اس کا غلام ہے اور زیرِ فرمان ہے اور اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں اور اس کی جبروت و سلطنت کے سامنے پست ہے کوئی چیز وجود پذیر نہیں ہوسکتی جب تک اللہ اسے وجود نہ بخشے۔ کسی کو بقاء نہیں وہی باقی رکھتا ہے اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی نفع نہیں پا سکتا۔ ہر حکم ہر اس کی فرمانواری کے تابع ہے۔ ہر چیز، ہر خیر سے وہی نوازتا ہے، وہی صاحبِ کمال ہے، دوسرے سب ناقص۔ عیب ناک فاقہ مست حاجت مند ذلیل و مسکین نادان اور زیاں کار ہے۔ جسے چاہے اپنے فضل سے نواز دے۔ سب راہِ گم گشتہ ہیں۔ ہدایت یافتہ وہی ہے جسے وہ راہِ راست پہ رکھے۔
سب بھوکے مرتے ہیں، وہ جسے چاہے رزق میں فراوانی دے، سب برہنہ لباس ہیں جسے چاہے وہ لباس زیبِ تن کرائے، سب فقیر ہیں جسے چاہے غناء عطا کرے، وہ لا شریک ہے کوئی مرسل نبی، کوئی مقرب فرشتہ، کوئی عقل اول، کوئی نفس کلیہ، کوئی وصی اس کا شریک نہیں اگر کوئی ان کی شراکت کا عقیدہ رکھتا ہے یہ کافر و مشرک اور دائمی دوزخی ہے دینِ اسلام کا معاند و مخالط ہے۔ یہ حقیقتِ توحید سے نا آشنا ہے اور رسول اکرمﷺ جو نورِ ہدایت لے کر آئے ہیں اِسے قبول نا کرنے کی ضد پر اڑنے والا ناہنجار ہے۔