تنظیم حزب اللہ کی حقیقت اور حزب اللہ کی حقیقت
الشیخ ممدوح الحربیتنظیم حزب اللہ کی حقیقت
پیش لفظ
تنظیم حزب اللہ عقائد کے لحاظ سے ایک سخت خطرناک قسم کی تنظیم ہے اس کے اہداف و مقاصد بالکل واضح ہیں یہ مسلح فوجی انقلاب برپا کر کے مختلف حکومتوں پر غلبہ کی آرزو لیے میدانِ عمل میں اتری ہے کہ شیعہ مذہب کو غلبہ دے ایک گروہی تنظیم ہے یہ ولایت الفقیہ کے نقطہ نظر پر قائم ہے اس نے رضا شاہ پہلوی کو معزول کر کے ایران میں خمینی حکومت کی راہ ہموار کی ان دنوں میں ہی خمینی نے حزب اللہ تنظیم کے سربراہ حسن نصر اللہ کی تعریف کی تھی اور اس کی سرگرمیوں کو سراہا تھا ہمیں وہ دن اب بھی یاد ہیں جب بقول ان کے اسلامی جمہوریہ ایران کے یوم تاسیس کا خمینی نے اعلان کیا تھا تو بہت سارے سنی لوگ بھی اس کے دھوکہ میں آ گئے بلکہ بعض تو اتنے دیوانے ہو گئے کہ دور دراز سے سفر کر کے خمینی کو اس حکومت کے قیام پر تہنیتی پیغام دینے پہنچ گئے ان کا خیال تھا کہ اب بس اس ایران میں صحیح اسلامی حکومت آنا ہی چاہتی ہے مگر یہ ان کے خواب ادھورے رہ گئے اور ان کی امنگوں کا خون ہو گیا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ خمینی کا ہدف و منزل یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں شیعیت کی نشر و اشاعت کرے اور اس شیعی گروہ کو وجود میں لانے کا اس حکومت ایرانی کا یہی مقصد وحید ہے کہ شیعہ غالب آئیں لبنان میں 1982ء میں اس شیعی تنظیم حزب اللہ کی بنیاد رکھی گئی یہ لبنانی شیعوں کی تنظیم امل کی مرہون منت ہے جو کہ حکومتِ ایران کے سہارے چل رہی تھی وجہ یہ ہوئی کہ حزب اللہ اور امل دونوں کے درمیان یہ دوڑ پیدا ہوئی کہ ایک دوسرے سے زیادہ اثر و نفوذ پیدا کریں اور لبنان کی شیعہ آبادی میں اپنی برتری قائم کریں اسی کشمکش میں یہ دونوں دھڑے بدترین لڑائی کا شکار ہو گئے تاہم اسی کشمکش میں حزب اللہ نے لبنان کے جنوبی علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ زیادہ پھیلا دیا اور یہ چھا گئی یہ بات ہم بلا مبالغہ کہتے ہیں کہ لبنان میں حزب اللہ دراصل ایرانی حزب اللہ ہے اس تنظیم کے تاسیسی بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے اور ان الفاظ میں ان کے سربراہ نے اپنا تعارف کروایا ہے ہم کون ہیں اور ہمارا مقصد کیا ہے؟ کہتا ہے:
اننا ابناء أمة حزب الله التی نصر الله طليعتها فی ایران۔
ہم حزب اللہ عظیم کے فرزند ہیں ایران میں نصر اللہ اس تنظیم کا روح رواں ہے ہم نے دنیا میں اسلامی حکومت کی نئے سرے سے بنیاد رکھی ہے ہم ایک ہی حکیمانہ اور عادلانہ قیادت کو مانتے ہیں جو خمینی کی صورت میں میسر آئی ہے یہ مسلمانوں کی تحریک کا منبع ہیں اور عمدہ سرگرمیوں کا مرکز ہیں ابراہیم امین جو لبنان کے علاقہ کی حزب اللہ کا قائد رہنما ہے اس نے 1987ء میں کہا تھا:
نحن لا نقول: اننا جزء من ایران نحن ايران فی لبنان ولبنان فی ایران۔
ہم صرف یہی نہیں کہتے کہ ہم ایران کی حکومت کا ایک حصہ ہیں بلکہ ہمارا تو اعلان ہے کے لبنان میں ہمارا ایران ہے اور ہمارا لبنان ایران میں ہے۔
یعنی ہم ایران میں ہوں یا لبنان میں ہم ایران ہی تصور کرتے ہیں۔
یعنی کس نہ گوید بعد ازیں تو دیگرم من دیگری۔
حزب اللہ کی حقیقت:
مطلب نمبر 1
حزب اللہ کے بانی سربراہ:
(1)۔ بانی صجی طفیلی ہے۔ یہ 1947ء میں پیدا ہوا یہ عرب علاقوں میں سے ایران کے حلیف و وفادار ہونے میں نمایاں ترین ہے۔ لیکن آخر میں اس سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اس نے عراق میں فقہ حاصل کی پھر صدام حسین کی سطوت وقوت سے مرعوب ہو کر ایران کے شہر قم کے مضافات میں چلا گیا اس کے بعد تہران چلا گیا۔ 1979ء میں پھر لبنان لوٹ آیا یہ اپنے علاقہ میں بھوکوں کا باپ کے نام سے مشہور تھا۔ صجی طفیلی نے 1982ء میں حزب اللہ کی بنیاد رکھی اور سب سے پہلا حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ 1998ء میں جو فساد ہوئے ہیں یہ ان میں ملوث تھا اس پر الزام ہے کہ اس نے بہت زیادتی کی ہے، زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے:
ان دعمه للفلسطينين خطابی و شکلی فقط۔
کہ فلسطین کی یہ زبانی اور رسمی حمایت کرتا ہے اصل میں حمایتی نہیں۔
یہ لبنان کے وزیر اعظم حریریؒ کے مخالفوں میں تھا۔ یہ الزام لگاتا تھا کہ حریری حزب اللہ کو لبنان میں غیر مسلح کر رہے ہیں۔
(2)۔ بانی محمد حسین فضل اللہ ہے۔ یہ نجف میں پیدا ہوا تھا یہ 1966ء میں لبنان آیا بعض کا خیال ہے یہ معتدل مزاج تھا، دوسرا تبصرہ ہے یہ معتدل نہ تھا یہ بہت شاطر اور چالاک تھا یہ انگلیوں پر نچانے کا ماہر تھا۔
(3)۔ بانی حسن نصر اللہ ہے اس کا پورا نام حسن نصر اللہ بن عبد الکریم نصر اللہ ہے، اسے عرب کے خمینی کے نام سے لقب دیا جاتا ہے، یہ بیروت کے فقیرہ محلہ میں 1960ء میں پیدا ہوا، یہ سخت تنگدستی کی حالت میں پروان چڑھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم لبنان میں ہی حاصل کی، 1976ء میں نجف گیا، وہاں اس نے دو سال پڑھا اور یہ عباس موسوی بقاعی سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد بعلبک چلا گیا اور عباس موسوی کے مدرسہ میں پڑھتا رہا۔ یہ مدرسہ نجف کے مدرسہ کے معیار پر شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ حرکت امل تنظیم میں مسؤول مقرر ہوا۔ اور 1986 میں حزب اللہ میں شرکت اختیار کر لی۔ 1988ء میں آخر یہ قم گیا اس نے ایران اور سوریا کے ساتھ مضبوط روابط استوار کر لیے حسن نصر اللہ کا خیال ہے کہ ایران اور سوریا کے درمیان تعلقات کی مضبوطی لبنانی حزب اللہ کی کوششوں سے ہوئی ہے۔ اور اس کا خیال ہے کہ ایران ہی ایک واحد ملک ہے جو صحیح اسلام کے مطابق چل رہا ہے۔ 1992ء میں عباس موسوی کے قتل کے بعد جو کہ اسرائیل کے ہاتھ سے مارا گیا تھا مجلس شوریٰ نے مکمل رائے دہی سے حسن نصر اللہ کوحزب اللہ کا سر براہ بنا دیا اور یہ انٹرنیٹ پر لبنان میں خود کو امام خمینی کا نمائندہ گردانتا ہے ۔ 1993ء سے لے کر 1995 تک دوبارہ اسے سر براہ حزب اللہ منتخب کر لیا گیا ہے اور موسیٰ صدر کو اس کا جانشین بنایا گیا ہے۔ دیکھیں یہ عجیب اتفاقات اور اختلافات ہیں کہ حسن نصر اللہ ایران کے حالیہ صدر محمود احمد نژادی کا گہرا دوست تھا۔ یہ ایشیا کے کسی ملک میں محکمہ خبر رساں ایجنسیوں میں شمولیت کے لیے تربیت لینے گئے تھے وہاں ان کی دوستی ہوئی اب اس کے دس برس بعد لبنان میں ملے تھے۔
اتفاقات ہیں زمانہ کے حزب اللہ کی دیگر شخصیات میں حسن خلیل، راغب حرب نعیم قاسم شامل ہیں۔
قناة المنار:
(4)۔ حزب اللہ مذہبی رسومات کا ترجمان چینل ہے یہ 1991ء میں پہلی مرتبہ منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ یہ قناة چینل خود کو اپنے پروگرام میں بتاتا ہے کہ یہ ہر موضوع پر گفتگو کا موقع دے گا اور تعاون کرے گا اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ گروہی تعصب سے بالاتر ہے۔ انھا تبتعد عن الاثارة کہ یہ انتشار پھیلانے سے پاک ہے حالانکہ یہ بالکل اس کے برعکس ہے کیونکہ یہ عاشورہ کی مجالس کو عام کرتا ہے جو کہ شیعوں کو بھڑکاتی ہیں اور سنی لوگوں کے خلاف اختلافات کو ہوا دیتی ہیں۔
مطلب نمبر 2:
حزب اللہ کے اہم مقاصد:
(1)۔ حزب اللہ کا اعلانیہ پیغام یہی ہے کہ یہ ایک اسلامی تحریک ہے جو لبنان پر اسرائیلی قبضہ کے مقابلہ میں وجود میں آئی ہے اور فلسطین میں مقدس مقامات کی آزادی کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تو مسلمانوں کو فریب میں ڈالے ہوئے اور حزب اللہ کے خفیہ منصوبوں سے نظریں پھیرنے کے لیے کہتا ہے اور یہ اپنے دلی میلانات اور جذبات پر پردہ پوشی کے لیے کہتے ہیں۔ وگرنہ حکومت ایران کے تعاون سے یہ حزب اللہ انسانیت اور اجماعیت کی خدمت کے نام پر فرقہ واریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
(2)۔ ان کا خفیہ ہدف یہ ہے کہ حقیقت میں حزب اللہ کا رازدارانہ منصوبہ جو ہے وہ یہ ہے کہ لبنان میں شیعیت کا پرچار ہو اور ہمیشہ کے لیے شیعی وجود لبنان میں باقی رہے۔ اور دولتِ لبنان کی قوت کے ذرائع پر ان کا غلبہ رہے اور دولت ایران کے لیے پورے علاقہ میں ایسا کام کرے کہ وہ جب چاہے اسے لتاڑ دے۔ یہ ایران کے قومی ، دینی مصلحتوں کے محافظ ہیں اور کچھ نہیں۔ یہ بھی اس کی خفیہ منصوبہ بندی ہے کہ دولت لبنان عمارت کی بنیاد کو ایسی ضرب لگائے اور ایسی جنگ میں اسے مبتلا کر دے جس کی وجہ سے حزب اللہ لبنان پر غالب آ سکے۔ عالمِ اسلام میں ایرانی تحریک پھیلانے کا یہ بھی ایک حصہ ہے اسی کو قائم رکھنے کے لیے ہلال شیعہ ایران میں اور لبنان میں اور خلیج کی دیگر ریاستوں میں اپنے معاونین کے ذریعہ اس منصوبہ کے مطابق کام کر رہا ہے۔
مطلب نمبر 3:
حزب اللہ کو سہارا کون دیتا ہے؟
حزب اللہ کی مالی تمام ضروریات ایران پوری کرتا ہے۔ 1990ء میں یہ تقریباً تیس ملین امریکی ڈالر تھی ۔ 1991ء میں پچاس ملین ڈالر اخراجات کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ 1992ء میں ایک سو بیس ملین ڈالر اندازہ لگایا گیا تھا 92ء میں ایک سو ساٹھ ملین ڈالر اخراجات تھے۔ 93ء میں یہ تمام مالی معاونت ایران حزب اللہ لبنانی کو دیتا ہے صرفہ صرف اس لیے کہ اس کے قدم عربی علاقہ میں جمے رہیں۔ ان اخراجات کا میزانیہ رفسنجانی کے عہد حکومت میں تقریباً 280 ملین ڈالر کی بلند سطح تک پہنچ گیا تھا ۔ یہ اتنے بھاری بھرکم اخراجات ، ایران حزب اللہ لبنانی کے لیے اس لیے برداشت کر رہا ہے یہ ایران کی ہدایت کو عملی جامہ پہنائے اور اس ملک کے اندرونی تنازعات میں دخل اندازی نہ کرتے ہوئے ایران کے ہر حکم کو واجب التعمیل سمجھے اور یہ ساری مالی معاونت ایران اپنی جارحانہ بنیاد کو مضبوط کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے پوری کر رہا ہے اور اس نے ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بہت ساری جائیداد خرید رکھی ہے۔
دراصل ایران نے ان اخراجات سے حزب اللہ کا اخلاص خرید رکھا ہے وہ باقاعدہ ایران کا ہی ایک گروہ ہے۔ حزب اللہ کے جنگجو کی ماہانہ تنخواہ لبنانی کرنسی کے مطابق پانچ ہزار ہے یہ بھی 1986ء کی بات ہے۔ اس وقت یہ جنگجو کی سب سے اعلیٰ اجرت تھی اب تو کئی گنا بڑھ گئی ہوگی یہی وجہ تھی کہ حرکت امل کے جنگجو اس کی صفوں سے نکل کر حزب اللہ میں ملازمت اختیار کرنے لگ گئے تھے تا کہ مال زیادہ کمائیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد حرکت امل سے نکل کر لبنانی حزب اللہ سے منسلک ہو گئی۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ ایران حزب اللہ کے لیے شریان کی حیثیت رکھتا ہے اور حزب اللہ کا یہ بنیادی مرکز ہے اس کی ہدایت کے مطابق یہ تنظیم سرگرمیاں کر رہی ہے اور لبنان میں حسن نصر اللہ کے درمیان اور حکومتِ ایران کے درمیان مسلسل رابطہ ہے۔ یہی حسن نصر اللہ جو کہ حزب اللہ کا سیکرٹری جنرل ہے اسکا بیان ہے:
اننا نرىٰ في ايران الدولة التی تحكم بالاسلام والدولة التی تناصر المسلمين والعرب وعلاقتنا بها علاقة تعاون ووثام ولنا صداقات مع أركانها كما ان المرجعية الدينية تشكل الغطاء الدينی والشرعی لكفاحنا المسلح۔
حکومتِ ایران جو کہ اسلام کی برتری کے لیے کام کر رہی ہے اور مسلمانوں اور عربوں کی نصرت و حمایت کرتی ہے اس کے اور ہمارے درمیان مضبوط تعاون اور ہمنوائی موجود ہے اس کے ارکانِ حکومت جو کہ دینی اور شرعی خطوط پر اسے استوار کرنے کا مرکز ہیں یہ ہماری مسلح جدوجہد کی باقاعدہ پشت پناہی کر رہی ہے۔
حزب اللہ کی عملی تاسیس کے وقت ایران نے اس کی معاونت حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں ٹریننگ دینے کے لیے دو ہزار افراد اپنے ایرانی پاسداران بھیجے تھے یہ پاسداران اسی دوران لبنانی علاقوں میں جن پر حزب اللہ کا ہولڈ تھا کے ساتھ اپنا عقیدہ بھی عام کرتے رہے ہیں۔ اس کا طریقہ کاریہ تھا انہوں نے ہسپتال، مدارس اور خیراتی ادارے قائم کیے کہ لوگ ان سے متاثر ہوں، اس کے لیے طہران میں حزب اللہ کا با قاعدہ دفتر ہے جو کہ ایران کا دارالخلافہ ہے اور یہ رسائل اور دیگر منشورات کے ذریعے اپنے مذہب اور اپنی کار کردگی کا لوگوں کو تعارف کرواتے ہیں اور یہی دفتر اس کام بھی آتا ہے کہ حکومتِ ایران کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے جو بھی تجاویز اور احکام ملتے ہیں یہ لبنان کے دارالخلافہ حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری کے دفتر میں منتقل کرتا ہے۔
مطلب نمبر4
ایرانی تحریک کے پاسداران اور حزب اللہ کے درمیان تعلق:
خصوصی نامه نگار حزب اللہ کی سرگرمیوں کے بارے میں یہی تبصرہ کرتے ہیں کہ اس کی عسکری قوت کوئی مستقل نہیں، یہ تو ایک ایرانی پاسداران کی شاخ ہے اور اس کا بنیادی مقصد لبنان کے شیعوں کی انسانیت کے نام پر بھلائی کرنا ہے۔ باقی ان کا ٹرینینگ لینا اور مسلح جدو جہد کرنا اور فوجی سامان اکٹھا کرنا اور ان ایرانی پاسداران کی صلاحیتوں سے عملی طور پر فوج میں فائدہ اٹھانا یہ صرف ایرانی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے ہے اس سے کسی ملک پر حملہ کی صلاحیت پیدا کرنا مقصد نہیں ۔ حالانکہ یہ خلاف واقع چیز ہے۔ ضرب اللہ سے ایران کا تعلق رکھنے کا اہم مقصد دیگر ممالک پر تسلط جمانا ہے۔ 1982ء میں اسرائیلی قبضہ کے مقابلہ میں جب کہ یہ خمینی کا ابتدائی دور تھا اس نے کئی تحریکی کارکنان لبنان بھیجے تھے۔ درپردہ یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ اسرائیل کے مقابلہ میں مشترکہ معاونت کے لیے گئے ہیں۔ جب کہ ان کا اصل ہدف حزب اللہ کو لبنانی میدان میں اعلانیہ غالب کرنا تھا اور سالوں پر محیط حزب اللہ کی سرگرمیوں کی بنیاد استوار کرنا تھا جو اب تک جاری ہیں۔ جب سوریا کے رستے سے لبنان میں موجود ایرانی تحریک کے کارکن اندر گھس آئے تو حزب اللہ نے ان سے مکمل تعاون کیا، حالانکہ انہوں نے جنگ میں عملی حصہ نہ لینے کا عہد کیا ہوا تھا مگر ان تحریک ایران سے وابستہ کارکنوں کو حزب اللہ نے با قاعدہ تیاری کرنے میں عسکری قوت کو اضافہ دینے میں پورا تعاون کیا تھا اور ایرانی تحریک کے ہر کارکن کو بھرپور انداز میں خمینی انقلاب کے نظریات پھیلانے کا اختیار مل گیا۔ یہ خمینی انقلاب کے داعی جو طہران سے آئے تھے انہیں خمینی انقلاب کی زبانی اشاعت کرنے کی مسلح جدوجہد سے بھی زیادہ فکر تھی۔ کیونکہ اسلحہ کے زور پر وہ فائدہ نہ تھا جو خمینی انقلاب کے لیے مناسب فضا تیار کرنے کا فائدہ تھا اور یہ طہران کے کارکنوں سے سارا تعاون لبنانی حزب اللہ نے کیا تھا۔
مطلب نمبر 5:
حزب اللہ کی ٹریننگ کا معاملہ (حزب اللہ کی ٹرینگ چند مراحل سے گزرتی ہے):
مرحلہ (1): ایرانی تحریک کے پاسداران جن کی تعداد دو ہزار ہوتی ہے یہ عملی فوجی مشق حاصل کرتے ہیں، شہروں اور بستیوں کے میدانی علاقوں میں بکھر جاتے ہیں، ان کا بڑا ان کی نگرانی کرتا ہے، انہیں "عشاقِ شہادت کے نام سے پکارتے ہیں یہ ان رضا کاروں کا زبردست استقبال کرتے ہیں اور اسے مشق کا پہلا دورہ کہتے ہیں۔ یہ مشقیں لینے والے باقاعدہ جنگ کی صورت میں بعد میں لڑائی کی مہارت میں حصہ لیتے ہیں اور ان ایران کے تحریکی پاسداران کو حزب اللہ کے جنگجو مشقیں کراتے ہیں ان مشقوں میں جو کہ مرحلہ وار ہوتی ہیں آٹھویں مرحلہ پر جہاز اغواء کرنے اور ہیرے غرق کی مشقیں کرائی جاتی ہیں، بعض حکومتوں میں حزب اللہ نے یہ کیا بھی ہے خصوصاً حکومتِ کویت قابلِ ذکر ہے حزب اللہ نے اس کے جہازوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی۔
مرحلہ (2): لبنان سے ان پاسدارانِ ایران کی اکثریت کو نکالے جانے کے بعد بھی اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ ڈیڑھ سو سے لے کر ڈھائی سو تک افراد جو ترتیب یافتہ ہیں لبنان میں باقی رہیں گے بلکہ بعض نے لبنانی شیعوں کے خاندان میں شادی بھی کر رکھی ہے اور لبنانی اسماء والقاب بھی اختیار کر رکھے ہیں۔ لیکن 1990ء کے بعد طہران کی پاسداران کی قیادت نے لبنان میں تربیت یافتگان کی اکثریت کو تبدیل کر دیا ہے اور ہر چھ ماہ بعد تبدیلی کرتے ہیں کیونکہ یہ انکشاف ہوا تھا کہ پاسداران کے کچھ عناصر اسرائیل کو رپورٹ کرتے ہیں اور قرارداد میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً پاسداران اسی (80) افراد القدس لشکر میں موجود ہیں جو لبنان کے متعلق معلومات اکٹھی کر رہے تھے۔ یہ 2001ء کی بات ہے آخری اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان پاسداران کے حزب اللہ لبنانی کے ساتھ اندرونی گہرے روابط ہیں اس وجہ سے انہیں نکال دیا، لبنان نے حزب اللہ سے ان عناصر کا صفایا کر کے انہیں خاص تربیت کے نام پر طہران، اصفہان، مشہد اور اہواز بھیجا گیا ہے اور تین ہزار حزب اللہ کے افراد بھی ان مشقوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اس جنگی تربیت میں راکٹ لانچر پھینکنے، توپ کے متعلقہ اسلحہ کی ٹریننگ، جہاز فائر کرنے کے طریقے اور بغیر سارٹ کیے جہاز اڑانے کے طریقے بحری جنگ کے طور طریقے، الیکڑانک جنگ اور تیز رفتار آبدوزیں چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اور نئے جنگی طریقوں کی عملی تربیت دی جاتی ہے اور تقریباً سو افراد نے خود کش حملوں کی تربیت لی ہے جیسا کہ تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے عناصر فدائی حملے کرتے ہیں اسی طرح انہوں نے تربیت لے رکھی ہے۔
مطلب 6:
حزب اللہ کو اسلحہ کہ سپلائی
فوجی نامہ نگاروں کے بقول حزب اللہ کے پاس بہت اعلیٰ قسم کا اسلحہ ہے جو ایک منظّم چھوٹی سی فوج کے پاس ہوتا ہے میزائل حزب اللہ کا اہم ہتھیار ہے اس کے پاس بعض میزائل ایسے ہیں جو ساڑھے آٹھ کلو میٹر تک مار کرتے ہیں ایک آرش کے نام سے مشہور میزائل ہے یہ (29) کیلو میٹر تک مار کرتا ہے 2006ء میں فلسطین کے شمالی علاقہ میں اسرائیل کے خلاف زیادہ تر اسی کا استعمال ہوا تھا علاوہ ازیں حزب اللہ کے پاس (2) میزائل شاہین ہیں ان کا نشانہ (930) کلو میٹر تک ہے
اوریم (220) میزائل بھی ہے جو تیس کلو میٹر تک مار کرتے ہیں اور ان کے پاس بھی فجر میزائل بھی ہیں ان کی تعداد (3) ہے اور ان کی مار (43) کلو میٹر تک ہے اور ان کے پاس (5) فجر ہیں اور ان کی مار (75) کلو میٹر تک ہے فجر میزائل ایران کو چائنہ اور شمالی کوریا کے تعاون سے ملے ہیں ان کے پاس رعد میزائل بھی ہے جو ایران نے خود تیار کیا ہے یہ روس کے فرد میزائل کے معیار کا ہے (70) کلو میٹر تک یہ مار کرتا ہے یہ 2004ء میں تیار ہوا تھا یہ (75) میٹر تک اپنا ہدف پر درست لگتا ہے یہ سو کلو گرام سے بھی بھاری ہے اسے داغنے کے لیے میگزین تک لانے کے لیے کسی چیز پر لاد کر لایا جاتا ہے قناۃ المنارہ جو کہ حزب اللہ کا ذاتی چینل ہے جو ان کی ترجمانی کرتا ہے کہتا ہے:
جوحیفا پر میزائل گراۓ گئے تھے یہ رعد(3) کی قسم سے تھے۔
مرحلہ3: حزب اللہ کے پاس زلزال کے نام سے بھی میزائل ہے "جاٹورز" اخبار نے بیان کیا ہے یہ خاص فوجی اخبار ہے کہ حزب اللہ زلزال قسم کے ایرانی ساخت کے سو میزائلوں کی مالک ہے تقریباً (200) کیلومیٹر تک ہے اور یہ میزائل 2006ء میں جنگ (تموز) میں ان کے استعمال پر پابندی تھی اور فجر اور زلزال میزائل کا نام بھی خفیہ رکھ کر استعمال کرتے ہیں اور یہ میزائل عام مشینوں سے بھی نہیں اٹھائے جاتے بلکہ بھاری مشینری سے اٹھانے پڑتے ہیں اور انہیں وہاں رکھتے ہیں جہاں دشمن کا خطرہ کم ہوتا ہے حزب اللہ لبنانی کے پاس چار سو چھوٹی توپیں ہیں اور درمیانی سائز کے ٹرک بھی ہیں جن پر لاد کر لاتے ہیں۔آرش، نور، اور جدید قسم کے میزائل بھی ان کے پاس ہیں۔ عقاب العملاقہ جو (333) ایم ایم کا ہے یہ بھی حزب اللہ کے پاس ہے 1985ء میں ایران نے حزب اللہ کو میزائل دینے شروع کیے ہیں اور اب تک جاری ہیں حزب اللہ لبنانی کے پاس روی ساخت کے میزائلوں کے توڑ میں صفر (GT4) (AT3) (SPG2) حاصل کر لیے ہیں (TOW2) جو کہ امریکی ساخت کے ہیں یہ میزائل بھی حاصل کر لیے ہیں اب فوجی نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو (میرکافا FQR) اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کرنے والے میزائل جو کہ اس دنیا کا جدید ترین میزائل ہے یہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ اسرائیلی ٹینک کو آگ سے بھسم کر دیتا ہے یہ حزب اللہ خفیہ طور پر حاصل کرتا ہے اسرائیل سے امریکہ لیتا ہے اور امریکہ سے آہستہ آہستہ خفیہ انداز میں ایران تک پہنچتا ہے سوریا بھی حزب اللہ کو اسلحہ دیتا ہے، زیادہ تر اس میں ٹینک شکن اسلحہ ہوتا ہے یہ بھی بالواسطہ لیتا ہے یہ روس کی جانب سے سوریا پہنچتا ہے سوریا آگے حزب اللہ کو دیتا ہے اور مرحلہ وار یہ اسلحہ پہنچتا ہے یہ اسلحہ جو حزب اللہ کو ملتا ہے یہ آٹو میٹک ہوتا ہے۔ یا آر بی جی (IT10) اور آر، بی، جی (29) وغیرہ یہ تمام اسلحہ جو حزب اللہ کو مل رہا ہے یہ ٹینک شکن ہے اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے والا ہے سوریا نے حزب اللہ کو مزید (کورینٹ میزائل دیا ہے) جو کہ روسی ساختہ ہے یہ لیزر کی مدد سے نکلتا ہے اور اس کی ریج تین میل تک ہے یہ تو حزب اللہ لبنانی نے تسلیم کیا ہے کہ ایران کے کچھ سام میزائل ہمیں موصول ہوئے ہیں جو روسی ساختہ ہیں اور یہ چھوٹے ہیں جو کندھے پر رکھ کر چلائے جاسکتے ہیں لیکن یہ خاص انداز میں بنتے ہیں علاوہ ازیں وہ میزائل جو چینی ڈیزائن میں ہیں، یہ بحری بیڑہ سے دانے جاتے ہیں (802,801) ان کے نام ہیں۔ ان میں سے ایک (40) کلومیٹر تک مار کرتا ہے اور تقریباً سو کلو گرام کا گولہ پھینکتا ہے اور دوسرا میزائل (120) کلو میٹر اس کی رینج ہے جو گولہ اس سے نکلتا ہے اس کا وزن تقریباً (180) کلو گرام ہے اور پھیلنے والا مواد اس میں ڈالا ہوتا ہے جو میچ پر گرنے کے بعد نشانہ کی جگہ سے آگے پھیل جاتا ہے اور مزید تباہی مچاتا ہے لبنان میں آخری جنگ کے موقع پر 2006ء میں یہ میزائل داغا گیا تھا تا کہ اسرائیلی بیڑے کو تباہ کیا جائے۔ حزب اللہ کے پاس ایک دستہ ہے جو (غواص غوطہ خور) کے نام سے مشہور ہے ایک دستہ بحری کمانڈوز کا ہے ۔ جن کے پاس چائنہ کے بنے ہوئے بیڑے ہیں یہ سمندر میں کسی کو بھی ہدف بنا سکتا ہے۔ ایران نے حزب اللہ کو بغیر پائلٹ اڑنے والے طیارے بھی بڑی تعداد میں دیے ہیں۔ ان کی گنتی کا کسی کو علم نہیں یہ مہاجر (4) کی طرز پر ہیں حزب اللہ لبنانی نے ان کا نام بدل دیا ہے مرصاد 1 رکھا ہے یہ راڈار الیکٹرانکس نظام سے لیس ہے یہ طیارے (2000) فٹ بلندی تک اڑتے ہیں اورا یک گھنٹہ میں (120) کلومیٹر طے کر جاتے ہیں حال ہی میں ایران نے مہاجر (4) طیارے تیار کیے ہیں جو کہ (1000) فٹ بلندی تک پرواز کر سکتے ہیں اور اتنی تیز رفتاری ہے کہ (160) کلومیٹر ایک گھنٹہ میں طے کرتے ہیں تموز کی جنگ میں 2006ء میں ہوئی تھی اس میں ان کا آزادانہ استعمال کیا گیا تھا ایک تو اسرائیلی دارالخلافہ تل ابیب کی جانب روانہ ہوا تھا۔ تاہم اسرائیلی ایف سولہ طیاروں نے انہیں مار گرایا۔ اس مہاجر (4) پر دس مشین گنیں فٹ ہو جاتی ہیں یہ ہے داستان جس طرح حزب اللہ اسلحہ حاصل کرتا ہے۔
مطلب نمبر 7:
حزب اللہ کی خفیہ سرگرمیوں کا جائزہ:
(1)۔ حزب اللہ سرنگسازی اور فوجی علاقوں میں فیٹکونج ویتنام کی تنظیم کے مشابہہ انداز پر کام کرتی ہے۔ یہ علاقوں کی تعداد یا فوجی نقطہ نظر سے اس کا اندازہ لگاتی ہے۔ تقریباً 75 فوجی نقاط تیار کرتے ہیں جو جنوب لبنان سے لے کر جنوبی بیروت کے علاقے تک پھیلے ہوتے ہیں۔ انہیں مستقل دستوں کی شکلوں میں منظم کرتے ہیں ان کے ذریعے ایرانی پاسداران انقلاب کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ کہ وہ سینکڑوں انجینئروں ٹیکنیکل آدمیوں کو آگے بھیج سکیں اور شمالی کوریا کے ذریعے ایرانی ڈپلومیسی ہے اور دفتروں میں کام کرنے والوں اور لبنان میں ایران کے ہمنواؤں اور ملازموں کے روپ میں انہیں دوسرے ملکوں میں داخل کرتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً 25 کلومیٹر پر زیرِ زمین محفوظ باڑ لگا رکھی ہے ہر خانہ ایک دوسرے سے مربوط ہے جہاں سے آسانی کے ساتھ حزب اللہ کا ہر جنگجو دوسری سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔ ان پاسدارانِ انقلاب نے زمین میں تہہ خانے بھی تیار کر رکھے ہیں جہاں انہوں نے میزائل اور خوراک کے ذخائر جمع کیے ہوتے ہیں یہ آٹھ میٹر تک گہرے ہوتے ہیں انہوں نے تقریباً (20) میزائل زمین میں نصب کر رکھے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کے قریب میں جتنے خانے تھے وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ختم ہو گئے تھے۔
(2)۔ لبنان میں سنی لوگوں کی رہائشوں پر حزب اللہ قبضہ کر لیتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو جہاں سنی لوگوں کے مکان ہیں یا مساجد ہیں وہاں اسلحہ اور خوراک کے ذخائر اور ان کی چھتوں سے میزائل داغنے کے بہانے شیعوں کو انتظامی کاروائی سے بچانے کے لیے ان پر قبضہ کر لیتے ہیں سنیوں کی بستی مرد چین میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔ بلکہ یہ حزب اللہ والے قصداً سنیوں کے قافلوں کے قریب سے اسرائیل پر گولے برساتے ہیں تا کہ اسرائیل رد عمل کے طور پر جب حملہ کرے تو یہ سنی قافلے اس کی زد میں آئیں اور حزب اللہ کے جنگجو محفوظ رہیں اسرائیلی حملہ کے دوران ایک ٹرک داخل ہوتا ہے جو کہ حزب اللہ کے زیر اثر تھا۔ اس میں سینکڑوں گولے لدے ہوئے تھے یہ سنیوں کے علاقہ کی طرف آرہا تھا، اچانک داؤ دے کر ایک قریبی عیسائی علاقہ میں چھپ جاتا ہے اس کا مقصد تھا حملہ سنیوں پر جو یہ اوجھل رہیں اور جوان کے تہ خانوں کا انکشاف ہوا ہے ان سے اسرائیل کی توجہ ہٹ جائے ان کی اس چکر بازی سے بے شمار معصوم لوگ مارے گئے اسرائیل کے طیاروں نے پر امن آبادی کو ہلاکت سے دوچار کر دیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب کا اہم نقطہ جس پر ان کی نظر مرکوز رہتی ہے وہ یہ ہے کہ میزائلوں پر مقررہ دستوں کی نگرانی کریں تقریباً دو سو آدمی جو ماہر فن اور ٹیکنیکل آدمی ہیں اور ایران سے خصوصی تربیت یافتہ ہیں وہ نگرانی کرتے ہیں حزب اللہ کے پاس میزائلوں کے شعبہ کے متعلقہ تین دستے ہیں، ان کے اوپر بیس افراد ہیں جوان کی ٹیکنیک پر نگران ہیں اور چار پاسداران انقلابِ ایران کے مدیر ان کے کام کی جگہ اور مرکز کی نگرانی کرتے ہیں۔ ساتھ حزب اللہ کے چار افراد ہوتے ہیں ہر علاقہ میں ان کا قائدہ ہوتا ہے۔ 2006ء میں جنگی دفتر میں مصر اور اردن کی مشارکت سے پاسداران انقلاب نے اپنے مراکز کو بہت مضبوط رکھا تھا اور حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جو رابطہ تھا وہ اور پختہ ہوا اور فوجی معلومات حاصل کرنے پر پاسداران انقلاب کے چار آدمی مقرر تھے۔ اور یہی پاسدارانِ انقلاب اس پر بھی مقرر ہوتے ہیں کہ جب انہیں اطلاع ملے یا خطرہ محسوس کریں کہ اسلحہ سپلائی کرنے اور ذخیرہ کیے ہوئے اسلحہ کے بارے میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری ہوگی تو ان کے ذمہ ہے کہ اس کو حملہ سے بچانے کے لیے انہیں محفوظ مقامات تک جو ان سے بھی زیادہ خفیہ ہیں اسے وہاں منتقل کر دیں۔
مطلب نمبر 8:
حزب اللہ کا نظامِ جاسوسی:
سوری فوجیں جب لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوئیں، جمیل اسد اور سورمی نمائندوں کے درمیان مذاکرات طے پاگئے۔ علاوہ ازیں پاسداران انقلاب ایران اور حزب اللہ کے رفقاء آپس میں مل گئے ہوریوں کے غلبہ کے سامنے ہر چیز سرنگوں ہوگئی تھی اس وقفہ میں بھی حزب اللہ نے بڑی ہولناک معلومات حاصل کیں یہ لبنان کی ایک ایک حرکت کی معلومات تھیں۔ حزب اللہ ان نمائندوں سے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ان مذاکرات میں شامل تھے لبنان میں سوریوں کے بعد تمام اداروں کی معلومات ان کے ہاتھ آئیں۔ حکومتِ بیروت کے رفیق حریری ایئر پورٹ پر آنے جانے والوں مسافروں کے متعلق خصوصی معلومات رکھتے تھے۔ حزب اللہ اپنے کارندوں کے ذریعے جب چاہے اور جو چاہے ایئر پورٹ کے متعلق اور بیرون کے منافع اندوزی کے اہم مراکز کے متعلق اندرونی سرگرمیاں آمد و رفت مال لوڈ کرانے اور مسافروں کے متعلقہ، جہازوں اور کشتیوں پر سامان لوڈ ہونے کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اس میں حزب اللہ کے جاسوس اور حرکت امل کے جاسوس تعاون کرتے ہیں اور جو مقام حملہ کے لیے موزوں تر ہیں ان کے متعلق ان کا اہتمام زیادہ کرتے ہیں۔ فوج، ایئر پورٹ، امن عام اندرونی امن کے متعلقہ چیزوں کی معلومات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ لبنان میں سودی دور سے لے کر اب تک یہ ساری معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے یہ کارندے معلومات حاصل کرتے ہیں اس کے بعد یہ یومیہ دس صفحات پر مشتمل معلومات ساری کی ساری حسن نصر اللہ تک پہنچاتے ہیں وہ کچھ وقت لگا کر ان پر غور کرتا ہے تا کہ وہ سیاسی صورتِ حال اور امن و امان کا جائزہ لے سکے۔ پندرہ برس سے حزب اللہ کا یہ صدر آ رہا ہے اس میں اس کا کوئی مدِ مقابل سامنے نہیں آ رہا۔
مطلب نمبر 9:
حزب اللہ کا تنظیمی نیٹ ورک:
حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مجلسِ جہاد کا پابند ہوتا ہے۔ یہ شعبہ، فوج، شعبہ امن کے ارکان پر مشتمل کمیٹی ہوتی ہے اس کا پھر نائب سیکرٹری ہوتا ہے، اس کے بعد شعبہ امانت عامہ کا ہوتا ہے اس کے بعد اس کی تابع شاخیں بنتی ہیں سیکرٹری جنرل کی مجلس کے ارکان کے تحت مجلس تنفیذی ہے مجلس سیاسی ہے، مجلس قضائی ہے اور مجلس تخطیط یعنی وہ مجلس جو منصوبہ بندی کرتی ہے۔
(1)۔ مجلسِ سیاسی:
اس مجلس کا سر براہ ابراہیم امین السید ہے یہ اسلامی فرقوں، وطنی جماعتوں ہیجی گروہوں فلسطینی تنظیموں سے رابطے رکھتی ہے۔ میڈیا، یعنی اخبارات، ریڈیو، ٹیلیویژن سے رابطہ رکھنا اور نمائندوں اور کارندوں اور آزادی کی جدو جہد اور خارجی تعلقات کے متعلقہ رابطہ بھی اس مجلس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
(2)۔ مجلسِ جہادی:
یہ کمیٹی سیاسی معاملات سیکرٹری تک محدود رکھتی ہے۔ یہ دوسری سرگرمیاں جاری رکھتی ہے یہ فوجیوں پر مشتمل ہے۔ کچھ ارکانِ مجلس مفیدی سے بھی اس میں ہوتے ہیں۔ فوجی اور ارکانِ امن کمیٹی اور مجلس شوریٰ سے بھی ارکان اس میں ہوتے ہیں اور پارلیمانی معاملات بھی اس مجلس کے ذمہ ہیں۔ مجلس شوریٰ حزب اللہ میں نظام کو محکم کرتی ہے اس کے ساتھ ارکان ہوتے ہیں باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ اس میں دو ارکان ایران سے ہیں۔ عماد مغنیہ مجلسِ جہاد کا ریئس ہے یہ نائب سیکرٹری کے عہدہ کے برابر مرتبہ رکھتا ہے اگرچہ اس کا اصل میدان فوجی معاملات کا بھرپور خیال رکھنا ہے۔ اس آدمی کی ایران کی خبررساں ایجنسی کے ہاں اکثر آمد ورفت ہے اس کی وجہ سے لبنان سے ایران کا مسلسل رابطہ رہتا ہے اور ہر ایک بات لبنان کی ایران پہنچ جاتی ہے۔ اصحابِ شوریٰ کے ضمن میں ہی مجلسِ اجتماعی اور مجلسِ عسکری اور مجلسِ سیاسی ہے۔
(3)۔ نظرِ ثانی اور توثیق کا مرکز مشاورت ہے یہ حزب اللہ کا مخصوص تدریسی مرکز ہے۔ اس کا سربراہ ڈاکٹر علی فیاض ہے، بعض تو اسے حزب اللہ کا نگران اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ الشراع اخبار کے بیان کے مطابق یہ حزب اللہ کی خفیہ قیادت ہے۔ یہ حرکتِ امل کے انداز کی تحریک ہے۔ عماد مغنیہ اور اس کا سسر مصطفیٰ بدرالدین اس کے روح رواں ہیں، حکومت کویت میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ یہ امیر کویت کے قتل کی سازش بھی کرتے رہے ہیں۔ بیروت میں ایرانی وزراء جتنے بھی ٹھکانے بنا رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر پاسدارانِ انقلابِ ایران ہیں ان میں اتفاق کی بدولت لوگوں کی نظروں سے یہ پاسداران چھپے رہتے ہیں۔ حزب اللہ کو پتہ ہے کہ عیسیٰ طباطبائی یہ لبنان میں ایران کے اداروں کا بانی ہے اداراہ الامداد الشہید، جہاد، البناء وغیرہ کا یہی موجد ہے۔ یہی طباطبائی حزب اللہ کے خفیہ منصوبے ان کی تربیت اور ان کی ترقی کے لیے سارے کام اپنی نگرانی میں سرانجام دیتا تھا۔ یہ 1974 ء سے لبنان میں موجود ہے۔
(4)۔ حزب اللہ والے اپنی تنظیمی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بند کمرے میں کانفرنس بلاتے ہیں اس میں اندرونی حالات و حادثات تغیر پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے قائد ان میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ ایک ان کی میٹنگ ہر تین سال کے بعد منعقد ہوتی ہے جس میں مرکزی مجلس کے اہم اور اساسی ارکان اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ (300) ارکان پر مشتمل ہے اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کا انتخاب ہوتا ہے اور اس اجلاس میں سیکرٹری جنرل اور نائب سیکرٹری اور بنیادی مسئولین کا انتخاب ہوتا ہے یا پھر پہلے ہی کو برقرار رکھنا ہو تو اس کی تجدید کی جاتی ہے جیسا کہ بار ہا دفعہ (حسن نصر اللہ ہی کا انتخاب ہو رہا ہے)۔