Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حزب اللہ کی شاخیں

  الشیخ ممدوح الحربی

حزب اللہ کی شاخیں

 مطلب نمبر 1:

(بحرینی حزب اللہ کے جرائم )

حزب اللہ چند شیعی رافضی گروہوں کا مجموعہ ہےاس کے بحرین میں سیاسی مقاصد ہیں ان تمام سیاسی تنظیموں میں سے نمایاں اور معروف تنظیم حزب الدعوۃ ہے یہ بھی حزب اللہ کی ذیلی شاخ ہے یہ محمد باقر الصدر کی آراء اور افکار سے رہنمائی لیتی تھی 1981ء میں یہ بالکل ختم ہو چکی ہے بحرین میں حزب اللہ کی ایک شاخ الجمعة الاسلامیہ یہ بحرین کو آزاد کرانا چاہتی ہے اس کا سر براہ محمد علی شیرازی ہے اور حکومت بحرین کے اندر اس کا نمائندہ مادی مدرسی ہے اور اس کا بھائی محمد تقی مدرسی ہے جب انقلاب ایران کی تحریک ایران میں شروع ہوئی تو اس کے قرب و جوار میں تمام شیعی گروہوں کو حکم جاری ہوا تھا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں خصوصاً بحرین کویت اور سعودی عرب میں شیعی نقطہ نظر کا اثر و نفوذ پیدا کیا جائے اور بحرین کا ملک جو کہ پر امن تھا اس کے متعلق ایران کے دارالخلافہ تہران سے شیعہ قیادت کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ یہاں مسلح طور پر شیعہ طرز کا انقلاب برپا کیا جائے تا کہ یہ بھی دینی اور سیاسی نظام میں طہران کے تابع ہو جائے کیونکہ بحرین میں کثیر تعداد میں شیعوں کی آبادی تھی اس لیے انہوں نے آرڈر جاری کر دیا کہ یہاں فساد کریں جبہ اسلامیہ تنظیم نے ایک اہم بیان جاری کیا جو اس کے اہداف و مقاصد کو نمایاں کرتا ہے۔ 

  1.  ہدف یہ بتایا کہ خلیفہ نظام سنی کی حکومت کو گرانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ 
  2.  ہدف ہے جیسا کہ خمینی انقلاب نے ایران میں نظام شیعی قائم کیا ہے ہم نے بحرین میں وہی نظام قائم کرتا ہے۔ 
  3. ہدف یہ ہے کہ بحرین کو خلیجی ریاستوں سے تعاون ختم کر کے اسلامی جمہوریہ ایران سے مستقل رابطہ رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ 

اس ہدف کی تاکید آیت اللہ صادق روحانی نے بھی کی تھی ماہِ فروری 1979ء طہران ریڈیو کے عربی پروگرام میں اس نے یہ اعلان کیا تھا اور اس نے اس پر بہت زور دیا کہ مملکت بحرین میں مسلح انقلاب کے لیے ایک تحریک کی ضرورت ہے جبہہ اسلامیہ تنظیم اخبارات کے ذریعے اپنے گروہی دوروں اور سیاسی دوروں کی راہ ہموار کرتی رہی ہے۔ الوطن السليب، الشعب الثائر الثوره والرساله وغیره اخبارات نے اس بارے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔ عیسیٰ مرہون اس اعلامیہ کو جاری کرنے کا ذمہ دار تھا۔ 

79ء کے آخر میں جبہہ اسلامیہ کے پروگرام کے مطابق شیعہ بحرین کو آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس نے مظاہروں کا پروگرام دیا۔ سعودی عرب کے علاقہ قطیف کے شیعوں نے بھی ان سے تعاون کیا اس کے باوجود ناکام ہوئے ان کے ناک میں دم آیا تو اس نے منامہ کے وسط میں بحرین کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جو رو بعمل نہ ہو سکا۔ 

1980ء میں محمد باقر کے مٹنے کے بعد جو کہ بعث پارٹی کے نظام عراقی کے ہاتھوں انجام کو پہنچا تھا بحرین میں پھر مظاہرے شروع ہو گئے اور بازار منامہ جل کر راکھ ہو گیا۔ 

حزب اللہ بحرینی کے المناک جرائم:

جبہہ اسلامیہ تنظیم نے بحرین میں اسلحہ سپلائی کرنا شروع کر دیا تا کہ بحرین میں آزادی حاصل کریں۔ ماہِ ستمبر 1981ء محمد تقی مدرسی کی قیادت میں جبہہ تنظیم نے بحرین کے حاکم کے خلاف خبیث انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی اور سیاسی قیادت کے صفایا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یوم وطنی کے دن، یعنی ملک کی سالگرہ کے موقع پر کام کرنے کا منصوبہ تیار کیا، یہ تباہ کن منصوبہ بالکل ناکام رہا اور حکومتِ بحرین نے (73) آدمی جو اس ہولناک جرم میں ملوث تھے انہیں گرفتار کر لیا مگر جبہہ اسلامیہ کو توڑنے کے لیے اور ان کی کمر شکنی کے لیے اتنا ہی کافی نہ تھا یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کے قائدین نے بحرین سے آزادی کے لیے اجتماع کیا، ساتھ ایرانی بھی شامل تھے۔ انہوں نے اس پر اتفاق کیا، حزب اللہ بحرینی کے نام سے فوجی دستہ ترتیب دیا جائے اس گروہ کا محمد علی محفوظ سربراہ بنا۔ اس کے تحت یہ پروان چڑھی۔ اس نے تقریباً تین ہزار بحرینی شیعہ اس فوجی دستہ میں شامل کر دیئے اور لبنان اور ایران میں انہیں تربیت دی اس تنظیم کا بڑا شیخ عبد الامیر جمری تھا اس کا نائب جو آجکل ہے وہ شیخ علی احمد سلمان ہے، یہ ان کی جمعیت وفاقی اسلامیہ کا جنرل سیکرٹری بھی ہے اور اس جمعیت کی مجلس کا اہم رکن بھی ہے۔ ہادی مدرسی جبہہ اسلامیہ آزادی بحرین کی تنظیم کا مرشد و راہنما ہے۔ اور اس گروہ کا ستون ہے۔ محمد تقی مدرسی کا بھی اس تنظیم کی مضبوطی میں بے مثال کردار ہے، جب ان کی انقلابی سرگرمیوں کا انکشاف ہوا تو پھر یہ ایران چلے گئے۔ 1994ء کے آخر میں اس تنظیم کی نمایاں کارکردگی ماہِ نومبر و دسمبر میں یہ ہے کہ انہوں نے بحرین میں مظاہرے کرواۓ اور ہیجان پیدا کر دیا۔ افراتفری مچادی شور و شغب برپا کر دیا اور تخریب کاری پھیلا دی یہ چار سال تک، یعنی 1998ء تک انارکی قائم رہی۔ آج تک بحرین میں یہ انارکی دامن پھیلائے بیٹھی ہے۔ حزب الله بحرینی کے مختلف نام استعمال ہوتے ہیں۔ تنظیم العمل المباشر، حرکت اصرار البحرين تنظيم الوطن السليب حماس وغیرہ نام ہیں۔ حقیقت میں یہ حزب اللہ بحرینی کے ہی مختلف روپ ہیں۔ اب اس تنظیم کے سارے نام ایک ہی تنظیم میں ڈھل گئے ہیں جمعیتہ وفاق الوطنی الاسلامی اس کا سیکرٹری جنرل علی سامان ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ جمعیت وفاقی سیاسی نشریاتی ثقافتی حقوق کی بھی علمبردار ہے اور فوجی سرگرمیاں اور تنظیمی معاملات سارے کے سارے حزب اللہ کے سپرد ہیں جو کہ حزب اللہ بحرینی ہے۔ ان کی تنظیم جمیعت وفاق سے خواتین کی تنظیم بھی وجود میں آئی ہے اس کا نام جمعتہ المستقبل النسائیہ ہے اس کی لیڈر شپ ڈاکٹر شعلہ شکیب کے حوالہ ہے جو کہ خالصتاً ایرانی ہے۔ یہ بحرین کی وزارتِ صحت میں ملازم ہے۔ حزب اللہ بحرینی تنظیم اب اپنی ماہانہ نشریات کی دوسرے نام سے اشاعت کرتی ہے، اس کا آغاز لندن سے صوت البحرین کے نام سے کیا تھا اس میں اس نے اپنے مطالبات اہداف و مقاصد اور اپنی سرگرمیوں کو بیان کیا تھا اور اس میں اپنی خبریں بھی شائع کرتی ہے۔ اس کا نمایاں صحافی ڈاکٹر مجید علوی ہے جو کہ استعمر السنی و الخلیفی لدولتہ البحرین کے نام سے کالم لکھتا تھا صلح کے بعد یہ وزارتِ داخلہ میں وزیر بن گیا یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ اتنا مخالف شیعہ صحافی وزارت میں براجمان کر دیا گیا۔ یہ تحریک کئی دوسری جہات سے بھی تعاون حاصل کر رہی ہے۔ خصوصاً بحرین کے ان شیعہ لوگوں سے جو کہ اصحابِ ثروت ہیں جیسا کہ حاجی حسن عالی ہے۔ احمد منصور عالی ہے اور کویت کے اصحابِ دولت میں بھبھانی ہے جو کہ سعودی عرب کا ہے۔ ایک انٹرویو کے مطابق انہیں لندن وغیرہ بیرون ملک سے حاصل ہونے والی رقم کا اندازہ اسی ہزار ڈالر ہے۔ اب کچھ دیر ہوئی ہے (3) ملین ڈالر جو اس تحریک کی ملکیت ہے برطانیہ حکومت کے زیرِ تسلط ہے۔ حزب اللہ بحرینی اس پر کوشاں ہے کہ یہ اسی راہ پر چلے جس پر احرار البحرین کی تحریک چلی تھی وہ ظاہر میں سیاسی اصلاح کا مطالبہ کرتی تھی اور فوجی شعبہ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے متحرک تھی۔

تحریک حرکت اصرار البحرین کی اہم شخصیات:

یہ تحریک بھی ایک شیعہ تحریک ہے اس کا نمایاں لیڈر سعید شہابی ہے۔ یہ خارجی دنیا میں شیعوں کا مشہور ترین دفاع کرنے والا ہے اور رسالہ "العالم" کا مدیر اعلیٰ ہے۔ جو کہ لبنان سے شائع ہوتا ہے۔ اسے بحرین کے شاہ نے ملک میں آنے کا کہا تو اس نے جواب میں کہا: 

انا لا يشرفنی الرجوع الى البحرين وانت تحكمها بالحديد والنار۔ 

میں بحرین میں واپس آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جب تک آپ اس پر آتش و آہن کے زور پر حاکم بنے بیٹھے ہو۔ اس تحریک کا ایک لیڈر منصور عبد الامیر جمری ہے جو رسالہ "الوسط" کامدیرِ اعلیٰ ہے جو کہ بحرین سے لگاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر مجید علوی ہے جو کہ موجودہ وزیرِ داخلہ ہے ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک لیڈر عبد الوہاب حسین ہے جس نے تحریک انقلاب کی قیادت کی اور بحرین میں بغاوت کروائی 1994ء سے لے کر 1998 ء تک اس نے شورش بپاکیے رکھی۔ اس تحریک کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر علی عربی ہے اس نے نجف میں پڑھا اور یہ جامعہ بحرین کا سابقہ استاد بھی رہا ہے اور جعفریہ عدالت کا موجودہ قاضی ہے۔ 

حزب اللہ ایرانی کی تخریبی کاروائیاں:

بحرین میں 1994ء سے لے کر 1998ء تک کے چار سالہ عرصہ میں بہت ہی خطرناک حادثات پیش آئے قتل وغارت، جلاؤ گھیراؤ، تخریب کاری کے متعدد واقعات رونما ہوئے یہ سب کچھ حزب اللہ بحرینی نے کیا اور ایران نے انہیں تربیت دی تھی اور بحرین میں یہ عمل جاری کیا گیا۔ 1995ء میں جنوری کے مہینہ کے آغاز میں کئی دکانیں اور تجارتی منڈیانس منامہ کے بازاروں میں جلا دی گئیں۔ 

حزب اللہ اور اس کے مریدوں نے جلاؤ گھیراؤ، دکانوں اور مدارس کی بڑی تعداد تباہ کر دی اور بہت زیادہ تعداد میں بجلی کے گرڈ اسٹیشن اور عوامی ٹیلیفون کا سامان جو بھی سڑکوں پر نصب تھے سب برباد کر دیئے۔ علاوہ ازیں بحرینی وزارتِ داخلہ میں چکر بازی کرتے رہے ہیں اور جھوٹی افواہیں پھیلاتے رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ شائع کر کے حکومت اور اس کے نظام کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے رہے ہیں۔ 1995ء میں ان کے بھیانک کارناموں کی تمہید شروع ہوئی تھی۔ 1996ء ماہِ مارچ حزب اللہ بحرینی نے "سُترہ وادیاں" کے علاقہ میں ایک ہوٹل جلا ڈالا۔ جس میں سات بنگلہ دیشی بھی راکھ ہو گئے اس سے ان کے سیاہ کینہ کی غمازی ہوتی ہے جو ان کے دلوں میں بھرا ہوا تھا۔ 1996ء (21) مارچ کو اس حزب اللہ نے گیراج کو آگ لگا دی اور اس میں موجود تمام گاڑیوں کو خاکستر کر دیا۔ 1996ء میں 4 مئی کو ایک ہی وقت میں نوے سے زیادہ تجارتی منڈیوں کو آگ لگا دی، انہیں توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بحرین کا اسلامی بنک اور وطنی بنک اور ملکی مرکز کی تجارتی منڈیوں کو بھی لقمہ آتش بنا دیا یہ اس لیے کیا تھا کہ ملک بحرین کی اقتصادی حرکت کا ہا تھ مل کر دیا جائے۔ 13 فروری 1996ء کو تجارتی منڈیاں بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ 15 فروری کو طہران کے ریڈیو سے ایک ترجمان نے عربی زبان میں اعلان کیا کہ بحرین ملک میں عید الفطر کے لیے اجتماع نہ کیا جائے اور 2 مئی 1996ء کو اعلان ہوا کہ بحرین میں سول نافرمانی کریں اور عید الاضحیٰ کا اجتماع نہ کریں اور عید غدیر، عید نوروز سیدنا عمرؓ کو ابولولو مجوسی نے جو شہید کیا تھا فرعتہ الزہراء کے نام سے اسے عید کے طور پر مناتے ہیں، یہ منانے کا اعلان کیا۔ اس سن کے نصف اول میں بھی طہران ریڈیو فتنہ انگیز بیانات اور مرکز گریز رجحانات بے چینی پھیلا تا رہا ہے اور بحرین کی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکساتا رہا ہے اور اس کے برقرار رہنے پر تنقید کرتا رہا ہے اور جو بھی لوگ بحرین حکومت کے خلاف دلوں میں کینہ پروری کے لاوے بھرے بیٹھے تھے انہیں انگیخت کرتا رہا ہے کہ بغاوت کے لیے اٹھیں۔ ریڈیو طہران کی طرف سے 22 مارچ 1996 میں یہ اعلان ہوا تھا:

ان الحكومة البحرينية لا تستطيع ان تقاوم او توقف المد الذی قام به الشعب البحرينی تقصد بذلك مطالب الشيعة وهی قلب نظام الحكم وتحويله لدولة صفوية شيعية اخرى على غرار دولة ايران۔

بحرین کی حکومت شیعی مقاصد و مطالب کا سامنا کرنے کی تاب نہیں رکھتی شیعوں کا مطالبہ یہ ہے کہ بحرین کا نظامِ حکومت بدل دیا جائے اور حکومتِ ایران کی طرز پر صفوی شیعوں کی حکومت بنائی جائے۔

بحرین کی شیعہ تنظیم حزب اللہ نے بحرین میں جو نقصان کیا اور تباہی مچائی اس کا اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً (15) ملین ڈالر ہے۔ ان بڑے بڑے حادثات کے رونما ہونے کے بعد اور ان روح فرسا فسادات کے باوجود شیعہ اور اس کی قیادت کی طرف سے جن کا حکومتِ بحرین کو سامنا کرنا پڑا اور حکومت نے شیعوں کو دبا بھی لیا اس کے باوجود یہ شیعہ طے شدہ اپنے منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بحرین کی حکومت کو یہ انکشاف ہوا ہے 2006ء ماہِ ستمبر میں ایران نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے کہ بحرین کے مختلف علاقوں میں اراضی خریدے اور وہاں کے رہائشیوں کی ترکیب ہی بدل دے کہ ان میں شیعیت پھیلائے اور تمام علاقوں پر شیعوں کے حلیف پھیلا دے اور درپردہ ان جہات سے تنظیموں سے اور شیعی جماعتوں سے جو کہ ایران سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں تعاون لے۔ ان زمینوں کو ایران کے بنک خریدتے ہیں اور بحرین کے دارالخلافہ منامہ میں کئی جگہیں شیعوں کی ملکیت ہو چکی ہیں اور محرق میں بھی ان کے حصے ہیں۔ "حوراء قضیہ" دواوادہ میں اس کا خاص اہتمام انہوں نے کر رکھا ہے۔ محرق اور آلِ بنو علی کے محلوں میں بھی انہوں نے خاص اہتمام سے جگہ خرید رکھی ہے اس محلہ کا نام کریمی ہے اس میں ماتم بھی برپا کرتے ہیں اور اس میں ان کے حسینی مراکز بھی ہیں۔ ہے۔ آخر میں بحرین میں موجود حزب اللہ کی آرزو ہے اس کی تیاری اس نے اس طرح کی ہے کہ ایران کے دارالخلافہ طہران کے قریب انہوں نے اپنے عناصر کے لیے فوجی تربیت دینے کا ایک مرکز بنایا، لبنان سے اسرائیل نے جو آخری جنگ 2006ء ماہِ اگست میں لڑی تھی اس میں بحرین کے شیعوں کی بہت بڑی تعداد بحرین کے شیعوں نے اپنے حزب اللہ لبنانی بھائیوں کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر پوری شرکت کی تھی یہ اس بات پر روشن دلیل ہے کہ دونوں گروہوں کے افرادی تنظیمی اور عقائدی رابطے کسی قدر گہرے ہیں اور بیروت میں حزب اللہ لبنان سے اس حزب اللہ بحرینی کے بے شمار افراد نے احتجاج کرنے اور سول نافرمانی کرنے اور خود کو محفوظ کرنے کے طریقوں کی باقاعدہ تربیت لی ہے بحرین کے اخبارات نے خود اس مسئلہ کا انکشاف کیا ہے کہ یہ خطر ناک کھیل 2007ء میں ماہِ جنوری میں کھیلا گیا ہے۔ بحرین کی جمعیت وفاق الوطنی جو کہ حزب اللہ کی ترجمان ہے اس کے افراد تقریباً سات ہزار سے لے کر دس ہزار تک ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ دلی میلان رکھتے ہیں، ان کی تعداد تقریباً بیس ہزار ہے۔ بحرین کی حزب اللہ جمعیت الوفاق اور حرکت حق، یہ تنظیمیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں یہ بحرین کے ہر جوڑ پر اور اس کی ہر حالت پر اور اس کے ہر ادارہ پر اس کی ہر وزارت پر جب چاہے غلغلہ بپا کردیں اور شور شرابہ کر دیں۔ یہ سارا کام سابقہ وزیرِ خارجہ نزار نے کیا تھا۔ کچھ دیر سے متعصب شیعہ محمد سُتری وزارتِ عدل پر براجمان ہے یہ جب سے اس منصب پر فائز ہے سنی ملازمین کو چن چن کر انہیں فارغ کر رہا ہے اور وہابی کہہ کر بدنام کر کے انہیں نکال رہا ہے۔ 

اور مؤلف کہتے ہیں ہمارا یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے کہ: 

ان كل وزارة او موسسة أو هيئة رسمية او قطاع عام يتولى رئاستها رافضی شيعی يتم تنظيفها من العناصر السنية۔

جو وزارت، ادارہ حکومت سازی یا عام اراضی ہو اس میں شیعہ رافضی کی سرکردگی ہو تو یہ اہلِ سنت کا وہاں سے صفایا ہی کرے گا۔ 

پتہ چلا ہے کہ پٹرول اور کیماوی کمپنی بھی عبد الرحمٰن جواہری کے زیرِ سرپرستی ہے جو کہ اصلی ایرانی شیعہ ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وزارتِ بجلی وزارتِ صحت وزارتِ وزارت، وزارتِ بلدیات میں بھی شیعوں کی کثرت ہے۔ حتیٰ کہ وزارتِ تعلیم و تربیت جہاں اکثر سنی ملازمین تھے آج ان سب وزارتوں میں شیعوں رافضیوں کی بھر مار ہے۔ حتیٰ کہ بحرین میں دس برس بعد تعلیم و تربیت شیعی نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو جائے گی کیونکہ شیعہ افراد کا اس پر غلبہ ہے اور ان کی تشریحات پھیلائی جارہی ہیں اور ان تعلیم گاہوں سے فارغ ہونے والے افراد میں سے (90) فیصد فارغ ہونے والے شیعوں کے بیٹے ہیں۔ اگر اس خطر ناک منصوبہ سے سنی اب بھی آگاہ نہیں ہوئے تو نعوذ باللہ یہ اپنی پہچان کھو بیٹھیں گے۔ بحرین میں شیعہ کی سرگرمیاں اب پردہ راز میں نہیں رہیں، خصوصاً عراق پر امریکیوں کے ظالمانہ قبضہ کے بعد اور متشدد شیعی حملہ کے بعد جو انہوں نے عراق پر پوری دسترس حاصل کر لی ہے۔ اس کے بعد حکومتِ بحرین گروہی اکھاڑ بچھاڑ کے گڑھے میں گر گئی ہے۔ بحرین میں حکومت کا نظام اس شیعی حملہ نے درہم برہم کر دیا ہے اور شیعی تشریحات کو پسند کیا جانے لگا ہے اور یہ بہت ہی زیادہ تیز قدمی کے ساتھ ادھر بڑھ رہے ہیں کہ حکومت کی ہر راہ مسدود کر دیں اور یہ سب کچھ علم کی ترویج اولاد کی تربیت اور عمل کی اہمیت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ 

1996ء کے آخری حادثات کے دوران کویت کا اخبار الانباء لکھتا ہے: 10 جون 1996ء میں حزب اللہ کویتی نے اسلحہ خریدنے پر کمر باندھ لی ہے وہ اسلحہ عراقی فوج کویت میں چھوڑ گئی تھی اسے حزب اللہ بحرینی نے بحرین سپلائی کرنے کا کہا ہے۔ اخبار کہتا ہے: 

ان الاوامر التی صدرت من السلطات الايرانية الى حزب الله البحرينی تضمنت اتباع خطة طويلة المدى لتهريب الأسلحة الى البحرين۔ 

ایران کی حکومت کی طرف سے جو احکام جاری ہوئے ہیں ان میں حزب اللہ کو یہ آرڈر ملا ہے طویل منصوبہ کی تکمیل کے لیے بحرین میں اسلحہ جمع کرے گا۔ 

یہ کام اتنا خفیہ ہوا کہ بحرین کے امن کے ذمہ داروں پر اس کی ایک رسی بھی ظاہر نہ ہو اور پھر فوراً اسے خفیہ ٹھکانوں میں پہنچا دیا جائے۔ بحرین کی حزب اللہ کے ایک قائد احمد کاظم متقی نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم نے ایرانی تاجروں کے ایک منتظم سے ملاقات کی جو کہ احمد شریف ہے۔ 

وفی هذا الاجتماع طرح علينا فكرة لتهريب الأسلحة للبحرين عن طريق البحر۔

ہماری اس ملاقات میں اس نے ہمیں بحرین کے لیے بذریعہ سمندر اسلحہ سپلائی کرنے کا گر بتایا ہے اس کی تائید جاسم حسین خیاط نے بھی کی ہے یہ کہتا ہے: 

ہم نے ایرانی نمائندہ احمد شریف سے یہ ضابطہ طے کیا ہے وہ بحرین میں اسلحہ پہنچائے گا اور جاسم خیاط نے صراحت کی ہے کہ ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ بحرین کی حکومت میں فوجی قوت کے ذریعے انقلاب بپا کیا جائے اور شیعی حکومت قائم کی جائے جس کے ایران کے ساتھ دوستانہ مراسم ہوں۔ 

اس نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ جو پہلی کرج کی تربیت گاہ میں دستہ بھیجا گیا تھا یہ کرج ایران کے دارالخلافہ طہران کے شمال میں ہے تو یہ تعاون ایرانی نمائندہ محمد رضا آلِ صادق اور لواء وحیدی کے ذریعہ ہی بھیجا گیا تھا۔ اپنے مقاصد کی تیاری پر اکسانا 1996ء میں عباس علی احمد جمیل نے خطابات کیے جن میں بحرین کی حکومت کے خلاف سختی پر اتر آنے کی ترغیب تھی اور بحرین کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت تھی اور وہاں یہ اس لیے رکا رہا کہ جماعتوں کو حزب اللہ کی ماتحتی میں رہنے کا طریقہ بتائے۔ عبد الوهاب حسین تو اس حزب اللہ کے لیے بڑے بڑے دورے کرتا رہا ہے اور امن قائم کرنے والوں سے کیسے پیش آتا ہے اس بارے میں لیکچر دیتا رہتا ہے اور تفشیش کرنے والوں سے کیسے بچنا ہے۔ ان کے مشکل سوالات کے جوابات میں کیا کہنا ہے۔ اور حکومت کے خلاف عوام کو کیسے تیار کرنا۔ ہے اور معاشرتی شورش کیسے بپا کرتی ہے۔ 

خطیب عباس حبیل محمد ریاش اور لیڈر عبد الامیر کے ذریعہ احکامات حاصل کیا کرتا تھا۔ مجلسِ وزراء اور بحرین کے وزیرِ اطلاعات نے وضاحت سے کہا ہے کہ حزب اللہ انقلابِ ایران کے بعد پاسدران کی تربیت گاہ میں تربیت حاصل کرتی رہی ہے۔ کرج میں بھی اس نے تربیت لی ہے۔ جب 1996ء کے بعد حزب اللہ بحرینی کو ایران میں رکھنا مشکل ہوگیا تو پھر اسے لبنان میں موجود تربیت گاہوں کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ ان کو فوجی تربیت دی جاتی۔ اسلحہ کی ٹریننگ دی جاتی اور مشین گنیں چلانے اور خود کو اسلحہ اور حملہ سے کیسے بچانا ہے۔ اس کی تربیت دی جاتی۔ معلومات جمع کرنا اور انہیں مرکز تک کیسے پہنچاتا ہے اور خفیہ رازوں کی حفاظت کیسے کرنا ہے اور بحرین کی حکومت میں پراپیگنڈہ مہم کیسے چلانی ہے۔ بحرین میں انتخابات میں شیعی مشارکت کی سرگرمیاں ایران تک کیسے پہنچانی ہیں اور بحرین میں ایرانی مفادات کی قانون سازی کے اداروں میں اور ملک کی بنیادی آسامیوں میں شیعہ کی بھرپور کثرت کیسے ثابت کرنی ہے۔ علاوہ ازیں خلیجی ریاستوں اور دیگر عرب ممالک میں ایران کی طرف رغبت پیدا کرنے کے لیے اور اس کے اثر و رسوخ کے لیے غلغلہ بلند کرتے رہیں وغیرہ حزب اللہ بحرینی کی سرگرمیاں ہیں۔

مطلب 2:

سعودی حزب اللہ اور اس کے جرائم:

ایران میں خمینی انقلاب کے آتے ہی 1979ء میں ایران نے اپنے شیعی نظام کو سعودی عرب میں قائم کرنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ 1400ھ میں قطیف میں شیعہ تحریک اسی نظام شیعی کو چلانے کا ہی شاخسانہ تھی۔ پہلے پہل انہوں نے اپنے مذہبی کوڈ ورڈ شروع کیے تھے (مبدئنا حسینی و قائدنا خمینی) ہمارا آغاز حسینی ہے ہمارا قائد خمینی ہے، کبھی کہتے : (يسقط النظام السعودی) سعودی نظام گر رہا ہے۔ یہ لفظ ان کے زبان زد عام تھا۔ (یسقط فھد و خالد) فہد و خالد ناکام ہوئے۔ شاہ فہد اور شاہ خالد مراد لیتے تھے۔ علھما خمینی انقلاب کے ظہور کے دوران سعودیہ میں شیعوں اور ایرانیوں کے درمیان مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ حسن صفار کو تنظیم بنانے کا حکم دیا اور اس کی تنظیم کو اس کی نگرانی اور رہنمائی میں دے دیا اس تنظیم کا نام یہ تھا "منظمة الثورة الاسلاميه لتحرير الجزيرة العربية" اس تنظیم کے اہداف و مقاصد درج ذیل تھے:

  1.  ایرانی انقلاب کی حمایت کرنا۔ 
  2. جزیرہ عرب کو آزادی دلوانا، مقصد ان کا یہ تھا سعودی حکومت کو سنی فرمانرواؤں کے ہاتھوں سے نکال کر شیعوں کے حوالے کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم یہ فتوٰی دیتی ہے کہ سعودی حکومت اور دیگر سنی خلیجی ریاستیں سب کافرانہ طاغوتی حکومتیں ہیں اور یہ تنظیم خود کو خمینی والے ایران کا ایک حصہ تصور کرتی ہے۔ اور اس کی یہ پختہ رائے اور یہ اس کا عزم ہے کہ سعودی عرب میں ایرانی اسلامی انقلاب کے لیے چار شرائط ہیں۔ 

(شرائط):

  1. سعودی قیادت سعودیہ سے باہر کے علاقوں کو کھلا چھوڑ دے۔ جو تنظیم بھی ہو اور جہاں وہ چاہے تنظیم سازی کرے، ادارے قائم کرے۔ 
  2.  اور شیعوں کے انقلابات ہمیشہ مسلح ہوتے ہیں لہٰذا اسلحہ پر سے پابندی اٹھائی جائے۔
  3.  تنظیم سعودی حکومت میں ویسا ہی اسلامی انقلاب لانا چاہتی ہے۔ جیسا کہ ایران میں آیا اور شیعوں کے انقلابات ہمیشہ مسلح ہوتے ہیں لہذا اسلحہ پر سے پابندی اٹھائی جائے۔ ہے، لہذا اسلحہ پر سے پابندی اٹھائی جائے۔ 
  4. ہماری تنظیم کے زیرِ اثر متعدد چھوٹے چھوٹے تنظیمی ڈھانچے قائم کرنے کی اجازت دی جاۓ۔

تنظیم الاسلامية تحرير الجزيرة العربيہ کا مرکز:

 اس تنظیم کا مرکز پہلے تو ایران میں تھا بعد ازاں کچھ دیر دمشق میں رہا اب مستقل طور پر لندن میں ہے۔

اس تنظیم کے اخبارات: 

یہ ثورہ اسلامیہ کے نام کی تنظیم اپنی نشریات جاری کرتی ہے۔ اس تنظیم نے نظر و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اخبار کا یہ نام اور تنظیم کا نام ان کے مفاد کے مطابق نہیں اور نہ ہی اسے سیاسی ذرائع کی طرف سے قبولیت حاصل ہوگی تو انہوں نے یہ تکنیک اختیار کی کہ 1990ء کے آخر میں 1991ء کے شروع میں اس تنظیم کا نام بدل دیا اس کا نام رکھا۔ 

الحركة الاصلاحيه الشيعية فی الجزيرة العربية۔ 

اور اخبار کا نام مجلہ الجزیرۃ العربیہ رکھا۔ سعودی حزب اللہ نے (الصفا) کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا ادارہ قائم کیا۔ یہ سعودی حکومت کے خلاف جھوٹ بولتا ہے۔ اور سعودی معاشرہ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ یہ اداره (الصفا) مغربی تنظیموں اور یہودیوں کے بیانات اور معلومات جاری کر کے ان کی تقویت کا باعث بن رہا ہے۔ اس تنظیم کے امریکہ میں اور دیگر مغربی ملکوں میں مضبوط تعلقات ہیں۔ یه مجله الجزیرۃ العربیہ 1991ء ماہِ جنوری میں جاری ہوا 1993ء کے نصف تک یہ شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ رسالہ باہر کے یہودیوں کے ساتھ غیر محدود تعاون کرتا رہا ہے وہ یہودی جو سعودیہ کی اسلامی حکومت کے نظام سے انتقام لینے کے آرزومند ہیں، یہ شیعوں کا اخبار ان کا سہارا تھا۔ اور اس کا مقصد یہ تھا اس ملک سعودی میں بدامنی ہو، اور یہ دھرتی بے قرار ہو جائے۔ 

اس رسالہ کا مدیرِ اعلیٰ حمزہ حسن تھا۔ اور عام مدیر عبدالامیر موسیٰ تھا۔ 

حقوقِ انسانی کے نام پر کمیٹی:

شیعوں کا اصل مقصد تو یہ تھا اپنے مطالبات منوانے کے لیے متعدد چھوٹی چھوٹی پارٹیاں قائم کی جائیں یہ تحریک اصلاحِ شیعہ کے نام سے اس لیے وجود میں آئی تھی۔ اس نے ہی یہ جماعت حقوقِ انسانی کے نام سے قائم کی تھی انہوں ظاہر تو یہی کیا کہ یہ ایک خود مختار کمیٹی ہے دراصل ان کے امریکی نظام کے ساتھ گہرے رابطے تھے وجہ یہ ہے کہ امریکی اور یہودی لابیوں کے ساتھ اس تنظیم کے بہت زیادہ گہرے رابطے تھے۔ اس کمیٹی نے ایک اخبار بھی شائع کیا جس کا نام اریبہ مونڑ تھا۔ یہ انگریزی زبان کا ترجمان تھا۔ اس میں سعودی حکومت کے خلاف دل کھول کر اور بڑھا چڑھا کر اور جھوٹوں کا پلندہ تیار کر کے بیان دیے جاتے ہیں۔ اور سعودیہ میں موجود اس تنظیم کے افکار اور آئیڈیا لوجی کو بھرپور طریقہ سے بیان کرتے ہیں۔ 

واشنگٹن میں اس کمیٹی کا نگران جعفر شایب ہے۔ لندن میں صادق جبرال ہے۔ اور اس کا معاون توفیق سیف ہے جو کہ اس کمیٹی کا اب بھی کرتا دھرتا ہے۔ اور اس تحریک کا جنرل سیکرٹری بھی ہے۔ 

اس تنظیم کے اہم نمائندے:

تحریک اصلاح شیعہ کے نمایاں نمائندے درج ذیل ہیں:

  1.  حسن صفار جو کہ اس تحریک کا بانی راہنما اور نگران ہے۔
  2. توفیق السیف یہ اس تحریک کا جنرل سیکرٹری۔
  3.  حمزه حسن ، یہ جزیرہ عربیہ رسالہ کا مدیر اعلیٰ ہے۔ 
  4. میرزا خویلدی ہے۔ یہ نشر و اشاعت کے شعبہ دارالصفا کا مسئوول ہے۔ 
  5. عادل سلمان 
  6. حبیب ابراہیم
  7. فواد ابراہیم 
  8. محمد حسن
  9. زکی میلاد 
  10. عیسی مزعل
  11. جعفر شایب 
  12. صاد جبران
  13. فوزی سیف۔

تحریک اور سعودی حکومت میں اتفاق:

1993ء میں سعودی حکومت اور شیعوں کی اس تحریک کے درمیان اتفاق رائے ہوا۔ حکومت نے چند امور پر تصفیہ کر لیا۔ اس میں یہ بات طے پائی کہ اس تحریک اصلاح شیعہ کے بیرونی تمام دفاتر بند کر دیے جائیں گے۔ اور ان سے جاری ہونے والے تمام رسائل بند کر دیے جائیں گے۔ اور بیرونی سیاسی تمام سرگرمیاں جو حزب اللہ کے مفاد میں کرتے ہیں۔ یہ ختم کرنا ہوں گی۔ اور تحریک اصلاح شیعہ جزیرہ عرب کے نام سے جو تحریک ہے اس کے لیے بھی یہ اپنی سرگرمیاں ختم کرے گی۔ اور یہودی تنظیموں اور بیرون ملک جتنی بھی اجنبی تنظیمیں ہیں ان کے درمیان جو حرکت اصلاح تنظیم شیعوں کی ہے ان کے درمیان قطعاً کسی قسم کا تعلق نہیں ہوگا۔ اور سعودی حکومت کے معاشرہ اور اداروں میں امن و سکون برقرار رکھنا ہوگا۔ خمینی انقلاب کی حقیقت کھل جانے کے بعد کہ یہ ایک فرقہ کی تحریک اور انقلاب ہے۔ جو علاقہ میں سیاسی اثر و نفوذ چاہتا ہے یہ دین اور سیاست دونوں میں تقیہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے تحت کچھ تو ان شقوں کے پابند ہو کر سعود یہ لوٹ آئے ہیں تاکہ نئے دور کا آغاز کریں اور حکومت سعودی کے اندر عمل دخل دیں ۔ لیکن کچھ باقی رہ گئے ہیں جو کہ بیرونی سعودی ہیں تا کہ وہ اپنے مومن بھائیوں کے خبیث منصوبے جو انہوں نے شروع کر رکھے ہیں۔ انہیں پورا کر سکیں۔ یہ بیرون ملک سے اپنے منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ یہ سیاسی سرگرمیاں جو کہ فرقہ واریت کو ہوا دیں وہ نہیں اختیار کریں گے اس کے باوجود یہ باز نہیں آتے۔ 

حزب اللہ سعودی کی فوجی شاخ:

حزب اللہ سعودی کا ایک فوجی دنگ بھی ہے جسے یہ حزب اللہ حجاز کہتے ہیں۔ 1987ء کے دوران تنظيم الثورة الاسلامیة فی الجزیرۃ العربیہ کا فوجی وِنگ وجود میں آیا۔ اور بالاتفاق انہوں نے اس کا نام حزب اللہ حجاز رکھا کبھی حزب الله سعودی بھی کہتے ہیں ان کے رسائل بھی جاری ہوتے ہیں یہ حزب اللہ سعودیہ میں خوفناک عمل وقوع پذیر کرواتا ہے یہ ایرانی پاسداران نے تشکیل دی ہے یہ ایرانی تاجر احمد شریفی کے زیرِ نگرانی ہے بعض سعودی شیعہ جو ایران کی قم یونیورسٹی میں پڑھے ہوئے ہیں اس نے انہیں اس تنظیم میں جمع کر دیا ہے۔ 

حزب اللہ اور تنظیم الام میں فرق:

سعودیہ میں چونکہ شیعوں کی سیاسی مرکزیت مختلف ہے، جہت میں اختلاف ہے اس کے پیشِ نظر حزب اللہ حجاز اور حزب الله الثورۃ الاسلامیہ الخ میں شخصی تصادم بھی ہوا تھا۔ اس وجہ سے نظم و نسق کے ذمہ دار ایرانی منتظم احمد شریفی نے حزب الله سعودی اور تحریک اصلاحِ شیعہ جزیرہ عرب کے درمیان تفریق کر دی ہے کہ یہ اپنے اپنے میدان میں کام کریں گے اور حزب الله سعودی کو مسلح فوجی سر فوجی سرگرمیاں انجام دینے کی امتیازی حیثیت بھی دی ہے۔ 

حزب اللہ سعودی کے جرائم:

اس سعودی ملک کے بارے میں جوان کے دلوں میں کینہ پایا جاتا ہے اس کا اظہار حسن صفار نے ایک شیعی مجلس میں قطیف کے علاقے میں ماہِ اکتوبر 2006ء میں کیا تھا۔ دراصل یہ دبے الفاظ میں دھمکی ہے۔ کہ اگر شیعہ کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو اندرون ملک کے شیعہ انارکی پیدا کریں گے۔ یہ 1400ھ اور 1407ھ میں دھمکی ہی نہ رہی تھی بلکہ انہوں نے اسے پورا کر دکھایا تھا۔ 1407ھ میں حج کے موقع پر حزب اللہ حجاز کے کچھ افراد اٹھے اور ساتھ تحریک ایرانی انقلاب کے پاسداران کا تعاون بھی شامل تھا انہوں نے بہت بڑا مظاہرہ کیا حجاج کرام کو قتل کیا اور عوامی املاک کو تباہ کر دیا۔ اور مسجد حرام میں فتنہ برپا کر دیا۔ اور مقاماتِ مقدسہ میں فتنہ پروری کی۔ حزب اللہ سعودی اور کویتی نے مل کر معیصم کی نماز میں زہریلی گیس چھوڑی جس کی وجہ سے بیت اللہ کے سینکڑوں حاجی زخمی اور شہید ہو گئے۔

9 یا 2 یا 1417ھ مطابق 25۔1994ء میں حزب الله سعودی کے کچھ افراد اٹھے انہوں نے شہر الخبر میں رہائشی علاقوں میں ایک بہت بڑی تیل کی ٹینکی کو آگ لگا دی۔ مجمع کے قریب تیل والا ٹینکر کھڑا کیا اور اس میں آگ لگادی چار منٹ میں وہ ٹینکی بھڑک اٹھی ۔ یہ خبیث مکارانہ حرکت کرنے والے درج ذیل اشخاص تھے۔ 

  1.  هانی صايغ 
  2. مصطفى قصار 
  3. جعفر شویخات
  4. ابراہیم یعقوب 
  5. علی حوری
  6. عبد الكريم ناصر
  7. احمد مغصل
  8. اور عسکری ونگ سے احمد مفصل تھا۔ 

خُبر کے مجمع میں آگ لگانے کے عمل کی حسین مغیص عبداللہ جراش شیخ سعید بحار، شیخ عبد الجلیل سمین نے قیادت کی خُبر کے مجمع پر آگ لگانے کے بعد ہائی صایغ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور امریکہ کے ذریعے اسے سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا عبد الکریم ناصر، احمد مفصل، ابراہیم یعقوب، علی حوری ایران فرار ہو گئے شویخات سوریا بھاگ گیا سوریا گرفتاری کے ایک دن بعد ہی اس کی موت کا اعلان ہوا کہ اس نے خود کشی کر لی ہے اور مر گیا ہے۔ 

دوسرا قول یہ بھی ہے کہ اسے ایران کے کہنے پر کسی ایجنٹ کے ذریعے مروایا گیا تھا تا کہ خُبر کے مجمع میں جو آگ بھڑکانے کی سازش ہے وہ صیغہ راز میں رہے۔ اور اس کا مرکزی کردار ختم ہو جائے۔ 

حزب اللہ کے خفیہ کردار: حزب اللہ سعودیہ کا خفیہ کردار عبد الکریم حسین ناصر ہے۔ یہ حزب اللہ کا قائد ہے۔ فاضل علومی ہے۔ علی مرہون ہے۔ مصطفیٰ معلم ہے۔ صالح رمضان ہے۔ انہیں الخمر کی تخریب کاری سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ اس تخریب کاری کا ارادہ رکھتا تھے مگر گرفتار ہو گئے ۔ احمد مفصل نے یہ تخریب کاری حزب اللہ سعودی کے دوسرے گروپ کے ذمہ لگائی۔ شیخ جعفر علی مبارک بھی ان کا قائد ہے۔ عبد الکریم حبیل بھی، ہاشم الشخص بھی۔ یہ لوگ اس حزب اللہ کے نگران اور سپورٹر تھے۔ کچھ اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی ہیں جنہیں ملا کر اس تنظیم کی عمارت مکمل ہوتی ہے۔ حزب اللہ سعودی کے یہ افرد ایران اور لبنان میں تربیت حاصل کرتے رہے تھے۔ تاکہ یہ اپنے ان گندے منصوبوں کو پورا کر سکیں اور ایک حکومت اسلامی سلفی کو گرانے کی کوشش کریں اس گروہ کے خفیہ آدمی زیادہ تر گرفتار ہو گئے لیکن جو باہر چلے گئے تھے انہوں نے حزب اللہ سے سیاسی اور میڈیائی رابطہ باقاعدہ رکھا ہوا تھا۔ حزب اللہ اب تک ہیجان انگیز نشریات جاری کرتا رہا ہے اور تشدد کی دعوت دیتا ہے۔ اور سعودی حکومت کے مقابلہ پر آنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور سعودی حکومت کو ناجائز قرار دینے پر مصر ہے۔ حزب اللہ انٹرنیٹ پر بڑا اثر انداز ہے اپنی تمام تنظیم الثورۃ الاسلامیہ کی نشریات اس سے جاری کرتا رہتا ہے۔ 

مطلب 3:

حزب اللہ کویتی کا تعارف (اس کی ابتداء):

حزب اللہ کویتی، حزب اللہ لبنانی کے بعد وجود میں آئی۔ حزب اللہ کویتی نے متعدد نام اختیار کیے ہیں۔ ایک نام رکھا تغیر نظام جمہوریہ کویت، صوت الشعب الكويتی الحر تنظیم جہادِ اسلامی، قوت المعظمه الثوریہ فی الکویت حقیقت میں یہ سارے نام حزب اللہ کویتی تنظیم کے ہی ہیں۔ 

حزب اللہ کی تاسیس:

کویت کے شیعوں کی ایک شاخ حزب اللہ کے نام سے معرض وجود میں آئی ہے یہ قم کے حوزہ علمیہ میں زیرِ تعلیم افراد پر مشتمل ہے اس کے زیادہ تر ارکان ایران کے پاسداران انقلاب سے منسلک ہیں انہوں نے ایرانی پاسداری سے ہی تربیت حاصل کی ہے۔ یہ ایک رسالہ النصر بھی جاری کرتی ہے ایران کے دارالخلافہ طہران کے اسلامی ذرائع ابلاغ کے اہداف و افکار ہی ان کا مرکز ہیں۔ یہ رسالہ کویتی شیعوں کو اپنے اہداف اور مصالح کے حصول کے لیے تیاری پر ابھارتا ہے۔ اور پکارتا ہے کہ نظام حکومت بدلنے کے لیے حکومتِ کویت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اور شیعی نظام قائم کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ یہ تنظیم فتنہ انگیزیوں، ہنگاموں آتش رانی قتل و غارت گری اور اغوا کی ترغیب دیتی ہے۔ تاکہ ملک پر اس کا قبضہ ہو اور ایسی حکومت یہاں آئے جو ایران کے تابع ہو۔ حزب اللہ کویتی شیعہ ایرانیوں کا ایک جزو لانیفک ہے۔ علی خامئتی ان کا قائد ہے۔ حزب اللہ کا نظریہ یہ ہے کہ آلِ صباح کا حکومت کرنے کا قطعاً کوئی حق نہیں یہ ہمارا حق ہے۔ 

حزب اللہ کویتی کی سرگرمیاں:

حزب الدعوة الشیعہ، کا مبارک کام قاتلانہ حملہ ہے۔ (25۔5۔1985ء میں امیرِ کویت کی گاڑی سلیف محل کی طرف آرہی ہے۔ وہ دسمان کے محل کے اندر سے آرہی تھی۔ یہ حزب اللہ اپنی تخریب کاری کے لیے کمر بستہ تھی۔ اس نے ٹریفک کھولنے والے اشارے بند کر دیے تا کہ سواری گزر جائے رک نہ جائے۔ ایک جانب کے اشارے کھلے رکھے تا کہ امیرِ کویت کی گاڑی کی طرف جانے والی جانب سے ٹریفک آتی رہے امیر کا خاص حفاظتی دستہ اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ پھٹ جاتی ہے جو اس خاص باڈی گارڈ کی گاڑی کو جلا دیتی ہے۔ محمد غنیزی اور ہادی شمریؒ یہ بھی اس میں جل جاتے ہیں۔ پھر وہ آگ امیر کی دائیں جانب والی گاڑی جو کہ ان کی گاڑی کو روک رہی یہ بھی باڈی گارڈ تھے کو انہوں نے اس آگ والی گاڑی کو شدید دھکا سے فٹ پاتھ کی جانب دھکیل دیا۔ آگ تباہی مچا رہی تھی۔ تاہم امیرِ کویت اس خطر ناک قتل سے محفوظ رہا۔ 12 جولائی 1985ء میں حزب اللہ کویتی نے کویت میں آگ سے تخریب کاری کا منصوبہ بنایا ان خبیثوں کی آگ رانی سے بہت سارے شہری زخمی اور شہید ہو گئے۔ 29 اپریل 1986ء میں کویت کی امن قوتوں نے اعلان کیا کہ 12 افراد طیارہ ہائی جیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ طیارہ شرقِ ایشیا کی طرف روانہ ہونے والا تھا۔ ماہِ اپریل 1988ء میں حزب اللہ نے جابر بن صباح کا کویتی ہوائی جہاز اغواء کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور انہوں نے (لارنکا) قرص کے ایئر رپوٹ پر لے جانے کے لیے اسے قابو میں کر لیا۔ اس دوران دو کویتی عبداللہ خالدؒ اور خالد ایوبؒ شہید بھی ہو گئے۔ ان ظالموں نے ان کے سروں میں گولیاں ماریں اور سب کے سامنے انہیں طیارہ سے نیچے پھینک دیا تاہم یہ طیارہ اغواء نہ کر سکے۔ 1983ء میں حزب اللہ کویتی نے اپنی ماتحت تنظیم جہادِ اسلامی کے ذریعے آگ کے گولے برسائے گرڈاسٹیشن، ائر پورٹ، امریکہ اور فرانس کے سفارت خانے اور تیل کے مرکز، اور رہائش کے مرکز سب کو ایک ہی دن میں نشانہ بنایا۔ سات آدمی شہید ہوئے 62 زخمی ہوئے سب کویتی تھے اور تیل کمپنی میں کام کرتے تھے۔ حزب اللہ کویتی در پردہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ملکِ کویت میں فعال سیاسی مشارکت سے کام لیتی ہے۔ اور تقیہ کے انداز میں اسلامی ملکی الفت کے نام پر خبیث سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں صلح پسندی کے نام پر اپنے اہداف اور ایرانی مطالبات حاصل کرتے ہیں ۔ اس حزب اللہ کے باقی ارکان محمد باقر مہدی۔ عباس بن نخی، عدنان عبد الصمد، ڈاکٹر ناصر صلخوہ ڈاکٹر عبد الحسن جمال ہیں۔ بیانات سے ظاہر ہوا ہے کہ جنوبی عراق پر ایرانی قبضہ ایرانی تاجروں اور پاسداران کے لیے ایک پناہ گاہ بن چکا ہے۔ یہ ایک بنیاد بن چکا ہے کہ جو کویت کے شیعوں کے لیے غذا اور اسلحہ پہنچانے کے کام آرہی ہے جس سے یہ حکومتِ کویت کے خلاف بھڑکاؤ اور اضطرابات پیدا کرتے ہیں۔ ان بیانات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ ایرانی اسلحہ ڈیلر حکومت کویت میں وسیع پیمانے پر اسلحہ سپلائی کرتے ہیں اور یہ حکومت ایران کے پڑوس میں شیعہ جماعتوں کی تخریب کاری اور ان کے خلاف احتجاج کرنے کی ترغیب سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات درست ہے۔  

مطلب 4:

حزب اللہ یمنی کا تعارف:

یہ بھی حزب اللہ لبنانی کی ایک شاخ ہے یہ بھی جرائم پیشہ اور قتل و غارت کی رسیا تنظیم ہے، یہ اتنے زیادہ فتنہ پرور ہیں کہ مسلمان ان گروہوں سے ستائے ہوئے وہاں سے باہر جا رہے ہیں۔ یہ مختلف ناموں سے موسوم ہے۔ شباب مؤمن کے نام سے بھی معروف ہیں یہ بھی فاسد عقائد کی حامل ہے، یعنی زیدی شیعوں سے حزب اللہ بنی ہے، یعنی زیدی شیعوں سے نکل کر اب یہ اثناء عشری رافضی عقائد پر کار بند ہیں۔ ایک بوڑھا ان کا سربراہ ہے جسے حسین بدرالدین الحوثی کہتے ہیں، اس کا باپ بدرالدین الحوثی ہے، یہ اصل میں جارودیہ فرقہ سے ہیں۔ حوثی فرقہ زیدیہ چارودیہ سے منتقل ہو کر جعفریہ اثناء عشریہ میں آ گیا تھا۔ جب یہ ایران گیا۔ اور جعفری گھاٹ سے پانی نوش کیا تو اور اس کے عقیدہ پر پختہ ہو گیا۔ یہ حزب اللہ لبنانی کو دیکھنے لبنان گیا تھا اور ایران بھی گیا تھا یہ 1997ء تک وہاں ٹھہرا پھر یمن لوٹ آیا۔ اور ایرانی سہارے سے اس نے تحریک حوثی تیار کی اس کی تنظیم سازی پر 42 ملین ریال یمنی تقسیم کیے جو حوثی تنظیم کو مضبوط کرنے والوں پر صرف ہوئے۔ سعدہ اور یمن میں تقسیم کیے۔ یہ تعاون سے علیحدہ ہے جو شیعی دیگر اداروں سے آتا رہتا ہے۔ انصارین کا ادارہ جو کہ قم میں قائم ہے الخوئی ادارہ ہے جو کہ لندن میں ہے۔ ثقلین شیعہ کا ادارہ ہے جو کہ کویت میں ہے حزب اللہ لبنانی کے تابع اور بھی بہت سے ادارے ہیں اور بھی شیعہ تنظیمیں ہیں جو اس حزب اللہ یمنی ٹیم کا سہارا بنتی ہیں یمن میں اس کے پاس بہت لمبے چوڑے مال ہیں۔ حکومت یمن کے ایک ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی شیعہ بھی صعدہ میں اشتعال سے پہلے اور اس کے دوران میں حوثی سے مالی تعاون کرتے رہے ہیں۔ 

نوٹ:

مزید استفادہ کے لیے 

  1. اسرائیل اور حزب اللہ، عبد الحلیم محمود 
  2. حزب اللہ حقائق وابعاد، فضیل ابونصر 
  3. رؤية مغايره، عبد المنعم شفیق 
  4. حزب الله من النصر الى القصر (انور قاسم)
  5. حزب الله وسقط القناع احمد فہمی 
  6. الخمینیہ وريثیة الحركات الحاقدة وليد اعظمی 
  7. ماذا تعرف عن حزب الله (علی صادق)۔ 
  8. وجاء دور المجوس عبداللہ غریب۔ ان کتب کا مطالعہ کریں۔