Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

گروہ بہایہ اور بابیہ کا تعارف اور عقائد

  الشیخ ممدوح الحربی

گروہ بہایہ اور بابیہ کا تعارف 

مقدمہ

بہائی ایک شیعی تحریک ہے جو 1260ھ بمطابق 1844ء میں وجود میں آئی (اس کا آغاز) یہ تحریک روس یہود اور انگریز کی پیداوار ہے اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی عقیدہ میں فساد پیدا کیا جائے اور مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ کی جاۓ اور مسلمانوں کو ان کے اساسی معاملات سے دور کردیا جاۓ۔

اسلام کا فیصلہ:

علمی مراکز سے اس فرقہ کے بارے میں فتاوٰی جاری ہوۓ ہیں مکہ مکرمہ کا شعبہ مجمع فقہ الاسلامی دارالافتاء مصر دونوں مراکز سے فتوٰی جاری ہوا ہے کہ بہائی شریعت اسلام سے خارج ہیں اور انہوں نے کہا ہے: بس کے خلاف لڑنا جائز ہے اور انہوں نے اس فرقہ کے لوگوں کو بغیر تاویل کے اعلانیہ کافر قرار دیا ہے۔

بہائی فرقہ کے مشہور بانی:

بہائی فرقہ کی بنیاد مرزا علی محمد رضا شیرازی نے 1235ھ میں رکھی تھی۔ چھ برس کی عمر میں اس نے شیعہ کے شیخ سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور تجارت کا طریقہ سیکھنے لگا۔ سترہ (17) برس کی عمر میں پھر پڑھنا شروع کر دیا۔ صوفیوں کی کتابوں، ریاضت سکھانے والی کتابوں اور روحانیت والی کتابیں پڑھنے میں مصروف ہوگیا، اور خصوصاً حروف ابجد کی کتابیں پڑھنے لگا۔ اور باطنی طرزِ عمل کے مطابق تھکا دینے والی بامشقت اعصاب شکن انداز پر ریاضت کرنے لگاـ

1259ء میں یہ بغداد چلا گیا اپنے زمانے کے شیخ کی مجلس میں آنے جانے لگا۔ اس کا نام کاظم رشدی تھا۔ اس کی آراء و افکار پڑھتا رہا۔ اس رشد کی مجلس میں مرزا کی ملاقات ایک روسی جاسوس سے ہوئی۔ جس کا نام کیزاد کوجری تھا۔ یہ اسلام کا مدعی بنا ہوا تھا۔ اسے عیسیٰ مکرانی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ روسی جاسوس اس مجلس کے پیروکاروں کے دل میں یہ بات ڈالتا رہا کہ مرزا محمد علی شیرازی ہی وہ مہدی ہے جس کا انتظار ہو رہا ہے اور حقیقتِ الہٰیہ تک رسائی کا یہی ایک دروازہ ہے، اور رشدی کی وفات کے بعد اسی کا ظہور ہونے والا ہے۔ یہ ساری بات اس جاسوس نے اس لیے کی تھی کہ اس نے پرکھ لیا تھا کہ یہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر سکتا ہے۔ یہی افتراق ڈالنا ہی جاسوس کا مقصد تھا۔

5 جمادی الاولیٰ 1260ھ بروز جمعرات بمطابق 23 مارچ 1844ء میں اس نے اعلان کر دیا کہ مرزا بابِ معرفت ہے اہلِ طریقت شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رشدی کے مرنے کے بعد جو کہ 1259ء میں مرا تھا۔ یہی مرزا ہی بابِ معرفت ہے اس مرزا نے اعلان کر دیا کہ میں اسی طرح پیغمبر ہوں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمدﷺ پیغمبر ہیں، بلکہ شان و مکان میں ان سے زیادہ افضل ہوں۔ رشدی کے تمام شاگرد دھوکے میں آ گئے اور عوام بھی فریب زدہ ہو گئے اور اس پر ایمان لے آئے اس نے اٹھارہ (18) مبشر منتخب کیے کہ اس کی آواز عام کریں، اور انہیں (خروف المی) کا لقب دیا 1261ھ میں یہ گرفتار ہوا۔ اس نے وکیل مسجد کے منبر پر بیٹھ کر توبہ کا اعلان کیا۔ یہ توبہ تاخیر سے ہوئی اس کے پیروکاروں نے زمین میں اودھم مچا رکھی تھی۔ قتل و غارت کا بازار خوب گرم کیا تھا اور مسلمانوں پر کفر کے فتویٰ کی مشین گن چلا رکھی تھی۔ ہائے اس زود پشیماں کا پیشماں ہونا ہے۔ 1266ء میں اس نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میرے اندر اللہ تعالیٰ حلول (اتر آئے ہیں) کر آئے ہیں۔ علماء کے انکار پر اور ان کی تنقید کی وجہ سے بظاہر اس نے توبہ اور اس گندے عقیدے سے رجوع کا اظہار کیا۔ مگر علمائے کرام کو اس پر یقین نہ تھا کیونکہ یہ بزدل تھا اور علمائے کرام کا سامنا کرنے کی ہمت نہ پاتا تھا۔ اس لیے اس کی توبہ نہ ہونے کا ہی فیصلہ ہے۔ اور یہ اسی حالت میں مرا تھا اس کا ایک کاتبِ وحی تھا۔ جسے یزدی کہتے تھے۔ اس نے مرنے سے پہلے توبہ کی اور اس باطل عقیدہ سے اظہارِ برأت کیا 1266ء میں ماہِ رمضان میں ہی وہ یزدی اس مرتد سے علیحدہ ہو گیا تھا۔

(2)۔ اس بابیہ یا بہایہ فرقہ کی بانی قرۃ العین عورت ہے۔ اس کا اصلی نام اُمِ سلمیٰ تھا۔ یہ 1231ھ میں قزوین میں پیدا ہوئی۔ اس نے علوم پڑھے شیعوں کے طریقہ شیعیت کی طرف اس کا میلان تھا اپنے چھوٹے چچا ملا علی شیخی کے ذریعے وہ ان کے افکار و عقائد سے متأثر ہوئی۔ کاظم رشدی کے پاس کربلا میں بابیوں کی رفاقت اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہی اس کی یعنی رشدی کی افکار ساز تھی یہ ایک متأثر کن خطیبہ اور چرب اللسان ادیبہ تھی علاوہ ازیں یہ حد درجہ جمیلہ اور جاذبہ نظر تھی۔ مگر یہ اباحیت کی قائل تھی کہ ہر گناہ جائز ہے۔ یہ اس کا نظریہ تھا بڑی بدکار تھی۔ اسی وجہ سے اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی اور اولاد نے اعلانِ بیزاری کر دیا تھا۔ بزاریم تاج یعنی سنہری بالوں والی کے لقب سے اسے پکارا جاتا تھا۔ 1264ھ ماہِ رجب میں بابیہ فرقہ کے لیڈروں کے ساتھ یہ بھی ایک میٹنگ میں شامل تھی۔ یہ زبردست فنِ خطابت کی ماہر تھی۔ اس نے اپنے پیروکار اور بابیوں کو قید کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر اکسایا۔ اور اس اجتماع میں اس خبیث عورت نے یہ اعلان کیا کہ شریعتِ اسلامیہ منسوخ ہو چکی ہے۔ اور پھر اس نے اس میٹنگ میں شرکت کی جس میں شاہ ناصر الدین قاجاری کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس خبیث کو گرفتار کر لیا گیا اور فیصلہ ہوا اسے زندہ ہی آگ میں جلا ڈالا جائے۔ 

لیکن جلاد نے پہلے ہی اس کا گلا دبا کر مار دیا بعد میں جلا دیا۔ یہ 1268ھ ذوالقعدہ کے شروع کی بات ہے بمطابق 1852ء ہے۔ 

(3)۔ اس باب یا بہائی فرقہ کا بانی مرزا یحییٰ علی ہے۔ یہ بہاء کا بھائی تھا اسے صبح ازل کا لقب ملا تھا۔ باب نے خلافت کی اسے ہی وصیت کی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کا نام ازلیین رکھا تھا۔ اس کے بھائی مرزا حسن بہاء نے اس سے تنازع کیا خلافت میں بھی اختلاف کیا اور الوہیت کے دعویٰ میں بھی اختلاف کیا اور دونوں بھائیوں نے اسی کشاکش میں ایک دوسرے کو زہر دینے کی کوشش کی۔ ان کے درمیان اور شیعوں کے درمیان اختلاف کی شدت نے یہ رخ اختیار کیا کہ انہیں ادرما ترکی میں جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ 1863ء کی بات ہے، وہاں یہودی رہتے تھے۔ صبح ازل کے ماننے والوں اور بہاء کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے عثمانی بادشاہ نے بہاء اور اس کے پیروکاروں کو (عکا) کی طرف جلا وطن کر دیا۔ اور صبح ازل اور اس کے پیروکاروں کو قبرص میں جلا وطن کر دیا یہ وہیں مر گیا۔ یہ 1921ء ماہِ اپریل کی (29) تاریخ تھی اس کی عمر تقریباً (82) برس تھی۔ بہت ساری کتابیں پیچھے چھوڑ کر مرا ہے۔ اس کی ایک کتاب الالواح ہے یہ البیان کی تکمیل ہی ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کی خلافت کے لیے وصیت کی تھی جو بعد میں عیسائی ہوا تو اس کے پیروکار اسے چھوڑ گئے۔

(4)۔ مرزا حسین علی تھا اسے بہاءاللہ کے لقب سے پکارتے تھے۔ یہ 1877ء میں پیدا ہوا تھا اس باب کی خلافت پر اپنے بھائی سے اختلاف کیا تھا اس نے بغداد میں اپنے پیروکاروں اور مریدوں کے سامنے اعلان کیا تھا۔ میں ہی وہ ہوں جو کامل ظہور لے کر آیا ہوں۔ باب نے میری ہی بشارت دی تھی۔ میں ہی اللہ کا رسول ہوں۔ جس میں الوہیت کی روح اتر آئی ہے، اس کی دعوت عقائدِ بہائیہ کے بارے میں دوسرے مرحلہ میں داخل ہوئی ہے۔ حسین علی نے اپنے بھائی صبح ازل کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے اور ادرما ترکی یہودیوں کے ساتھ تعلقات تھے اب بہائی اس سرزمین ترکی کو ارضِ اسرراز کی سرزمین کہتے ہیں۔ یہاں اس نے اپنے بھائی کے بہت سارے پیروکاروں کو قتل کیا تھا۔ 1892ء میں ازیسین میں سے کسی نے اسے مار ڈالا اور عکا شہر کے بہجہ مقام پر دفن کیا گیا۔

اس کی ایک کتاب اقدس ہے جس کا نام البیان و الایقان ہے۔ اس کی کتابوں میں یہودیوں کو سرزمین فلسطین میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔

(5)۔ سربراہ عباس افندی ہے اسے عبد البہاء کے لقب سے پکارتے تھے۔ 23 مئی 1844 میں پیدا ہوا۔ اس کے والد بہاء نے خلافت کی اس کے نام وصیت کی تھی۔ یہ بڑی شخصیت کا مالک تھا زیادہ تر مؤرخین کا خیال ہے اگر یہ عباس نہ ہوتا تو بہائیہ اور بابیہ فرقہ برقرار ہی نہ رہتا۔ بہاںٔیوں کا عقیدہ ہے انہ معصوم غیر مشرع یہ معصوم ہے اور کسی شریعت کا پابند نہیں۔ اس نے اپنے باپ کی ربوبیت میں یہ اضافہ کیا تھا کہ القادر علی الخلق وہ مخلوق پر قادر ہے اس کے بعد عباس افندی نے سویسرا کا سفر کیا۔ صیہونی کانفرنس میں شرکت کی خصوصاً پال کانفرنس جو کہ 1911ء میں منعقد ہوئی۔ اس میں صیہونیت کی تائید کی۔ جنرل لمپی نے اس کا استقبال کیا جب یہ فلسطین آیا تو اسے خوش آمدید کہا۔ برطانیہ نے اسے سر کا خطاب دیا۔ دیگر بلند و بالا تمغے اس کے علاوہ ہیں۔ یہ لندن امریکہ، المانیا، مچر، اسکندریہ، بھی گیا اسلامی بلاک سے ہٹ کر یہ دعوت دینے گیا تھا۔ اس نے شکاکو میں بہائیوں کے ایک بڑے اجلاس کی بنیاد رکھی اور حیفا کوچ کیا۔ 1913ء میں اس کے بعد قاہرہ گیا۔ وہاں یہ1921ء میں مر گیا۔ اس نے اپنے باپ کی تعلیمات لکھی اور یہودیوں کی کتاب تورات کے عہدِ قدیم سے اپنے نظریات کی تائید اقتباسات کا اضافہ کیا۔

(6)۔ شوقی افندی ان کا سربراہ ہوا ہے اس کے دادا عبدالبہاء نے اسے اپنا نائب بنایا تھا۔ ابھی 24 برس کا تھا اسی کے طریقہ کو اپنایا۔ جمیعتیں اور دنیا میں جتنی بھی بہائی تنظیمیں تھی انہیں یکجا کیا، اور اس نے بہائی عدالت کا انتخاب کیا۔ یہ لندن میں حرکتِ قلب بند ہونے سے مر گیا۔ اسی زمین میں دفن ہوا جو حکومتِ برطانیہ نے بہائی فرقہ کو ہدیہ میں دے رکھی تھی۔ 1963 میں نو بہائی افراد بہاںٔیہ فرقہ کے سربراہ منتخب ہوئے۔ بیت العدالت کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی۔ چار امریکی ہیں، دو انگریز ہیں، تین ایرانی ہے۔ یہ فرنانڈوسانٹ کی ریاست میں بنیاد رکھی تھی۔ اس کے بعد اس ریاست کا سربراہ امریکی شہریت رکھنے والا یہودی میثون ہے۔

بابیہ بہاںٔیوں کے عقائد:

(عقیدہ نمبر1):

بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا علی محمد رضا شیرازی، ہر چیز کا خالق ہے۔ اپنے کُن کے کلمہ سے اس نے ہر چیز پیدا کی ہے۔ تمام اشیاء کو ظہور بخشا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز میں حلول کیے ہوئے ہیں۔ یہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ تناسخ یعنی جون بدل کر روح آتی ہے اس کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور کائنات ہمیشہ رہے گی اور ثواب عذاب صرف روح کو ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک خیال ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ (19) کے عدد کو بڑا مقدس مانتے ہیں۔ یہ مہینوں کی تعداد بھی (19) ہی قرار دیتے ہیں. مہینے کے دن بھی (19) شمار کرتے ہیں۔ اس بارے میں محمد رشاد خلیفہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے قدوسیت صرف (19) کے عدد میں ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم بھی اپنے نظم میں (19) قیادت کے مطابق کلمات اور حروف رکھتا ہے۔ لیکن اس کا یہ دعویٰ بے حد غیر معتبر اور علمی معیار سے گرا ہوا ہے۔ بہائی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بوذا ہندوؤں کا نبی تھا۔ کنفیوشیش چین کا حکیم جو ہے یہ بھی نبی تھا برہمن کا اور فارسیوں کا حکیم زرتشت یہ بھی نبی تھے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی چڑھ گئے ہیں۔ یہی عقیدہ بہائیوں کا ہے اور یہ قرآن پاک کی باطنی تاویلات کرتے ہیں۔ جو کہ بالکل غلط ہے انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے منکر ہیں، فرشتوں اور جنوں کی حقیقت ماننے سے انکاری ہیں۔ جنت اور دوزخ کا وجود تسلیم نہیں کرتے اور عورتوں کے لیے پردہ کرنا حرام تصور کرتے ہیں۔ متعہ کو جائز قرار دیتے ہیں مال اور عورت کو کسی ایک کی ملکیت نہیں جانتے بلکہ جو چاہے ان سے فائدہ اٹھائے اور کہتے ہیں: 

دین الباب ناسخ لشریعة محمدﷺ ویؤولون یوم القیامة بظھور البھاء ۔

بابیہ کے دین نے حضرت محمدﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دیا ہے اور یہی روزِ قیامت ہے کہ بہاؤ الدین کا ظہور ہو گیا ہے۔

نمبر 2: ان کا قبلہ اور نماز:

فلسطین میں عکا شہر کی بہجہ جگہ ان کا قبلہ ہے مکہ مکرمہ میں موجود مسجدِ حرام کو یہ قبلہ تسلیم نہیں کرتے، یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کا امام بہاؤ الدین حسین بن علی موجود ہے۔ اور جہاں وہ جگہ بدلتا ہے وہیں ان کا قبلہ بن جاتا ہے۔ یہ زندگی میں ہے جب وہ مر جاتا ہے تو اس کی قبر ان کا قبلہ بن جاتی ہے۔ جو عکا میں میں ہی بناتے ہیں۔ ان کی نماز دن میں تین مرتبہ ہے اور نو رکعات پڑھتے ہیں۔ یہ گلاب کے عرق سے وضو کرتے ہیں۔ اگر یہ میسر نہ آئے تو یہ پڑھنا ہی ان کا وضو ہے (بسم الله الاطھر والمطھر) اسے پانچ مرتبہ دہراتے ہیں۔ یہ سوائے نمازِ جنازہ کے اور کوئی نماز باجماعت نہیں پڑھتے اور ان کی نمازِ جنازہ میں چھ تکبیرات ہیں اور ہر تکبیر میں اللہ ابھی کہتے ہیں۔ بہاء میرا اللہ ہے اور نمازِ جنازہ میں میت پر (19) مرتبہ یہ درج ذیل کلمات پڑھتے ہیں۔

انا کل لله عابدون۔ انا کل لله ساجدون۔ انا کل لله قانتون۔ان کل لله ذاکرون۔ انا کل لله شاکرون انا کل لله صابرون۔

ہم سب اللہ کے لیے عبادت گزار، سجدہ کرنے والے فرمانبردار ذکر کرنے والے شکر کرنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔

ان کی نماز کے اوقات یہ ہے کہ بہائی فرقہ والا جب اپنی فرصت پائے نماز ادا کرے۔ اور جو نمازِ کبریٰ ادا کرے اسے نمازِ صغریٰ یا وسطیٰ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی نمازوں کے تین اوقات ہیں، صبح ظہر اور شام یہ زوال کے وقت جو نماز ادا کر لے تو کبریٰ اور وسطیٰ نماز ان سے ساقط ہو جاتی ہے۔ ان کی کتابِ اقدس میں لکھا ہے: 

قد کتب علیکم فی الصلاۃ تسع رکعات و أوقاتھا ثلاثة الله منزل الآیات حین الزوال وفی البکور والاصال۔ 

تم پر نماز کی نو رکعت فرض ہے اور ان کے تین اوقات اتارنے والے رب نے مقرر کیے ہیں۔ زوال کا وقت صبح کا وقت اور شام کا وقت۔

ان کے نزدیک نماز باجماعت پڑھنا حرام ہے۔ تاکہ مسلمانوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو جائے۔ ان کی کتابِ اقدس میں ہے: 

کتب علیکم الصلاۃ فرادی قد رفع حکم الجماعة الآتی صلاۃ المیت۔ 

تم پر اکیلے اکیلے نماز پڑھنا فرض ہے جماعت کا حکم نمازِ جنازہ میں ہے.

مسافر، مریض، بوڑھا یا کمزور ان سے نماز معاف ہے سفر میں بہائی فرقہ سے متعلق انسان سجدہ میں یہ کہہ دے سبحان اللہ تو اس کے نماز پوری ہو گئی اور ان کی یہ بات ان کے امام حسین بہاء نے پوری زندگی میں ایک بھی نماز نہیں پڑھی، وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ ہے یہ قبلہ ہے جس کی طرف وہ نماز میں توجہ کرتے ہیں۔ اس لیے قبلے کو نماز کی ضرورت نہیں۔

نمبر 3: بہاںٔیوں کا روزہ:

ان کا روزہ (19) ایام کا ہوتا ہے۔ یہ مہینہ علا کے نام سے مشہور ہے۔ ان دنوں میں طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک یہ کھانے سے رک جاتے ہیں۔ اس کے آخر میں نو روز کی عید مناتے ہیں۔ یہ بھی (11) سے لے کر (42) تک ہوتا ہے اس کے بعد روزہ کی پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے۔

نمبر 4: بہائیوں کا جہاد:

انکے نزدیک جہاد کرنا حرام ہے اور دشمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا بھی حرام ہےـ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ استعماری طاقتوں کی خدمت کے لیے کہتے ہیں ـ

نمبر 5: ختمِ نبوت کا انکار:

یہ محمدﷺ کی ختمِ نبوت کو نہیں مانتے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وحی جاری ہے انہوں نے قرآن پاک کے مقابلہ میں کئی کتابیں تیار کی ہیں۔ خطاؤں کا پندہ اور لغوی اغلاط سے پراگندہ اور اسلوبِ بیان میں سراگندہ ہیں۔

نمبر 6: بہاںٔیوں کا حج:

یہ مکہ میں حج کرنے کو باطل قرار دیتے ہیں۔ ان کا حج فلسطین کے مقام عکا کے اندر بہجہ جگہ میں ہے علاوہ ازیں شریعت کی عبادات حدود اور قصاص وغیرہ جو بھی قرآن و حدیث میں ہے یہ ان کو نہیں مانتے نہ ہی عربی زبان بولتے ہیں۔ اس کے تو اتنے شدید مخالف ہیں اسے دوسری بولی پہ بدل دیتے ہیں جیسے یہ نورانی لغت کہتے ہیں، اور ان کا اس لغت کے بارے میں عقیدہ ہے یہی نورانی لغت کائنات کی سیادت عطا کرے گی۔ وغیرہ ذلک من الخرافات۔