دار الافتاء جامعتہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ شیعہ کو شہید کہنا جائز نہیں
دار الافتاء جامعتہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ
جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے ترجمان ماہنامہ بینات اس بارے میں شیعہ نمبر پہلے ہی شائع کر چکا ہے۔ ہم اب بھی اسی موقف پر قائم ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ رئیس دار الافتاء جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
نوٹ: درج ذیل فتویٰ جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے ایک سائل کے جواب میں جاری کیا گیا۔
سوال: ماضی قریب میں مختلف امام بارگاہوں پر حملے ہوئے اور بہت سے بے گناہ افراد مارے گئے۔ واقعتاً ملکِ پاکستان میں یہ سب کام مناسب نہیں۔ سوال یہ ہے کہ امام بارگاہوں میں ہلاک ہونے والے اہلِ تشیع افراد کو شہید کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ شہید اسلام کی اصطلاح ہے جو صرف مسلمان کے لیے بولا جاتا ہے۔ جبکہ شیعہ باتفاقِ اہلِ سنت غیر مسلم ہے۔ اسی طرح غیر مسلم کو شہید کہنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ فقہاء کرام نے شہید کے لیے جو شرائط لکھی ہیں ان میں مسلمان ہونا ہے۔ جیسا کہ
در مختار میں مزکور ہے۔ الشهيد هو كل مكلف مسلم طاهر قتل ظلما ولم يجب بنفس القتل مال الخ قال علامة الشامی تحت قوله مسلم اما الكافر فليس بشهيد
شیعہ اثناء عشری چونکہ اپنے کفریہ عقائد تحریفِ قرآن، سبِّ شیخینؓ، تہمتِ حضرت عائشہ صدیقہؓ، عقیدہ امامت وغیرہ کی بناء پر باتفاق علماء امت دائرہ اسلام سے خارج و کافر ہیں۔ جیسا کہ در مختار میں ہے۔ ان الرافضی اذا كان يسب الشيخينؓ و يلعنهما فهو كافر نعم لا شك فی تكفير من قذف السيدة عائشةؓ او انكر صحبة الصديقؓ او اعتقدا لالوهية فی علىؓ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے: من انكر امامة ابی بكر الصديقؓ فهو كافر و هؤلاء القوم خارجون عن ملة الاسلام و احكامهم احكام المرتدين۔
لہٰذا ایسے عقائد رکھنے والا شیعہ اثناء عشری اگر مارا جائے تو اس کو شہید نہیں کہا جا سکتا۔ چونکہ اعزازِ شہادت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی کافر کو شہید کہے۔ البتہ وہ مظلوم ضرور ہیں کہ کسی غیر مسلم کو نا حق قتل کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں۔
(فتوىٰ امام اہلِ سنت مع تائيد علماء اہلِ سنت: صفحہ، 106)