Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

بہاںٔیوں کے ٹھکانے

  الشیخ ممدوح الحربی

بہاںٔیوں کے ٹھکانے

دنیا میں بہائیوں کی تعداد تقریباً 6 ملین ہے۔ ان کی زیادہ تعداد ایران میں ہے، کچھ تعداد عراق، سوریا، لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں ہے۔ یہاں تو ان کا مرکز ہے۔ مصر میں بھی افریقہ، بادیس، اوبابا، یوگنڈا، یوساکا، زمبابوے میں بھی یہ پائے جاتے ہیں۔ اور ان کی بڑی بڑی مجلسیں ہوتی ہے۔ جنوبی افریقہ میں تقریباً ان کی بیس دن کانفرنس ہوتی ہے، کراچی میں بھی ان کی ایک محفل ہوتی ہے جسے یہ محفل ملیّ کا نام دیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی ان کا کافی عمل دخل ہے۔ لندن، فرینکفرٹ میں ان کا ایک بہت بڑا اجلاس ہوتا ہے۔ سڈنی، اسٹریلیا، شکاگو، متحدہ امریکہ کی جو ریاستیں ہیں ان میں ان بہائیوں کی ایک بہت بڑی عبادت گاہ ہے۔ اسے مشرق الافکار کا نام دے رکھا ہے۔ یہاں سے ان کا ایک رسالہ نجم الغرب کے نام سے جاری ہوتا ہے۔ نیویارک میں بہائیوں کے نوجوانوں کی ایک تنظیم قافلہ الشرق والغرب کے نام سے ہے۔ جو ان کے ابتدائی اصولوں پر قائم ہے ان کی ایک کتاب دلیل القافلہ کے نام سے مشہور ہے۔ ایک کتاب اصدقاء العلم کے نام سے ہے لاس اینجلس، بروکن اور نیویارک میں ان کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، اور وہ متحدہ امریکہ کی ریاستوں میں یہ لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ایک یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اقوامِ متحدہ چینف کے اقوامِ متحدہ کے مرکز میں نیروبی میں افریقہ میں انہیں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خصوصاً اقوامِ متحدہ کی اقتصادی کمیٹی کے ارکان میں ان کا رکن مجلس شوریٰ کا ممبر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خاندانی شعبہ کے پروگرام میں یونیسف میں اقوامِ متحدہ کے معلومات کے دفتر میں انہیں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ عبدالبہاء نے 1912ء میں فلسطین عکا سے امریکہ کا دورہ کیا یہ وہاں تقریباً آٹھ ماہ رہا تھا اس کے اس دورہ میں برطانیہ فرانس کا دورہ بھی شامل تھا۔ 1994ء میں نیویارک امریکہ میں بہائیوں کی تعداد 2 بلین بیس لاکھ کے قریب شمار کی گئ تھی۔ ایران بہائیوں کا بنیادی مرکز ہے، اور اس فرقہ کی جنم بھومی ہے۔ اور یہ سر زمین اس کی نشوونما کے لیے بہت ہی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے اس ملک میں ان کا وجود مضبوط ہیں۔

اداره معارف اسلامیہ نے پانچ لاکھ سے لے کر دس لاکھ تک بتائی ہے۔ یہ سرسری اندازہ ہے باریک بینی سے نہیں لگایا گیا۔ 1955ء میں ان کی طرف سے ایک قرار داد پیش کی گئی تھی کہ ملک کے نظام میں ہمیں بھی حصہ دار بنایا جائے۔ انہوں نے حکومت کے خلاف شور شرابہ بھی کیا فوج اور دیگر محکموں میں بھی شور و غُل بپا کیا۔ جس کے نتیجے میں بہائیوں کی عبادت خانے گرا دئیے گئے اور ان کا روپیہ منجمد کر دیا گیا۔

علامہ احسان الہٰی ظہیر شہیدؒ نے بہاںٔیوں کے ایران میں واقعات و حالات کے متعلق لکھا ہے، یہ درپردہ اپنی سرگرمیاں مضبوط کر رہے تھے، اور اس کے زیادہ تر نوجوان جو متعہ اور جنسی شہوت رانی کی تلاش میں رہتے تھے، تاہم ایران میں بہائیوں کے خلاف سخت ترین جماعت حاجتیہ وجود میں آئی۔ جو 1953ء میں وجود میں آئی۔ 2005ء میں جب احمد نژاد کی حکومت ایران میں قائم ہوئی ہے۔ اس کے بعد اس تنظیم کی قوت میں اور اضافہ ہوا ہے۔ جس سے یہ بہائی دب گئے ہیں۔ فلسطین کا شہر حیفا عربی علاقوں میں بہائیوں کا مرکزی ٹھکانہ ہے۔ ان کے نزدیک عکا جگہ بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ کیونکہ بہاؤالدین کی قبر وہاں ہے۔ یہ نماز میں ان کا قبلہ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ اس کی قبر کا طواف کرتے ہیں، اس کے اوپر سجدہ کرتے ہیں، ایسا ہی ان کے بڑے شیعہ اپنے معصوم إماموں کی قبروں پر کیا کرتے تھے۔ یہ بہائی فلسطین میں ایک سالالہ کانفرس منعقد کرتے ہیں۔ 2001ء میں حیفا شہر میں ان کے مرکزی عبادت خانہ کے ارد گرد قبہ عباس کے نام سے ایک قبہ بنایا گیا ہے۔ جو دو ہزار مربع میٹر پیمائش والا ہے اور (250) ملین ڈالر سے زیادہ اس پر اخراجات ہوئے ہیں اسرائیلی قوتوں نے باقاعدہ ان سے تعاون کیا ہے اس میں پانچ ہزار افراد شریک ہوئے تھے، اور دنیا کے ستر (70) ٹیلی ویژن اسٹیشن اسے کوریج دے رہے تھے، اور یہودی ذرائع ابلاغ بہائیوں کی خبروں کو بڑے اہتمام کے ساتھ انہیں نمایا کوریج دے رہے تھے۔ بلکہ یہودی اسرائیلی ذرائع ابلاغ تو بہائیوں کے افکار کی ترویج و اشاعت زور و شور سے کرتے ہیں، اور ان کی عیدوں کے موقع پر پیغام تہنیّت بھی دیتے ہیں۔ دو روز عید رضوان وغیرہ پر مبارک باد دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو ان بہائیوں کا عالمی اجتماع سابقہ اسرائیلی حکومت کے سربراہ بن کورین کی زیرِ صدارت منعقد ہوا تھا اور اسرائیل میں بہائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے پر انہوں نے اسرائیل کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے ایک مرکز حیفا میں قائم رکھا ہے اس کا نام انہوں نے بیتُ العدل رکھا ہے بہاؤالدین یہ نقطہ نظر بہت دیر سے لیے پھرتا تھا مگر اسے قائم کئی سال کے بعد کیا تھا۔ اس میں روحیہ ربانی نے جدوجہد کی جو شوقی افندی کی بیوہ تھی۔ یہ اصل میں کندہ قبیلہ سے تھی۔ اس کا اصل نام ماری ماکسویل تھا اس نے تقریباً (35) برس سفر جاری رکھا اس کے ایک سفر کی مدت چار برس مسلسل رہی یہ جنوبی افریقہ کے صحراء میں متعہ کروانے کے لیے دادِ عیش دینے کے لیے محو گروش رہی۔ اس نے کئی فلمیں بھی بنائیں اور کتابیں طبع کیں اشعار کہے اور مختلف لغات میں لیکچر دیئے روحیہ ربانی نے 1973ء میں شوقی افندی سے شادی کی یہ تقریباً نوے برس کی عمر پا کر 2000ء میں مر گئی اور فلسطین کے شہر حیفا میں دفن ہوئی۔

ملک اردن میں جو بہائی پائے جاتے ہیں یہ فلسطین ہی سے آئے تھے شروع میں سے یہ عدسیہ کے علاقے میں آئے لواء لااغوار کے شمالی علاقوں میں اترے انہیں آلِ واکد زرعی زمینیں عطاء کیں، تاکہ یہ گزران کر سکیں، بہاںٔیوں نے وہاں قصرِ واکد تعمیر کیا۔ بہاںٔیوں نے اس محل میں اپنی عبادت گاہ کا مرکز اور مدرسہ بنایا یہ اردن میں اب تک ان کے آثارِ قدیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آلِ واکد کے ساتھ ان کے تعلقات بہت دیر سے لے کر اب تک مضبوط ہیں۔ اردن میں تقریباً بہائیوں کی تعداد آٹھ سو ہے امریکی اخبار کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بہائی دینی آزادی کے نام پر اردن کے شریعت کے متعلقہ محکموں پر تنقید کرتے ہیں، اور شخصی معاملات اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے احتجاج کرتے ہیں بعض اخبارات کے مطابق بہائیوں نے جو اردن کے شرعی محکموں کے خلاف معاملہ اچھالا تھا اس کا ذکر کیا ہے مثلاً اخبار الرایۃ الاسلامیہ نے تو اس کا خصوصی ذکر کیا تھا۔ مال میں سونا مارکیٹ میں بہائیوں کا اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے اور ان کی کتابیں اور بعض نشریات بھی ہے عمان میں ان کا علاقہ طبرپور میں ایک قبرستان بھی ہے۔ اور عمان میں ہی جبلِ تاج میں ان کا مدرسہ رحمت کے نام پر ادارہ ہے۔ مصر میں بہائیت نے علی محمد کے تعاون سے پاؤں جمائے ہیں۔ یہ 1912ء میں ولی عہد تھا۔ یہ محمد علی امریکہ میں عبدالبہاء سے ملا اور اخبارات میں اس کی تعریف کی، محمد علی جب واپس آیا تو یہ بہائیوں کا معاون بن کر آیا۔ محمد علی کا سیکرٹری احمد فاںٔق تھا۔ یہ بہاںٔیوں کا بہت بڑا لیڈر تھا۔ اس کی منشی ایک خاتوں تھی۔ جو بہت ہی خوبصورت تھی یہ بہاںٔیت سے وابستہ تھی اور اس کی داعیہ تھی۔ اس کی وجہ سے بھی بہائیوں کو مصر میں بہت بڑا سہارا مل گیا۔ یہ سابقہ مصر حکومتوں کے خاندان سے تھی ملا علی تبریزی اور مرزا حسن فرسانی کے سرپرستی میں مصر میں بہائیت بہت زیادہ پھیلی تھی۔ عبدالکریم طہرانی مرزا ابو الفضائل جورفاد قانی جو کہ قاہرہ میں ہی 1914ء میں مر کر قاہرہ ہی میں دفن ہوا۔ یہ بہاںٔیوں کا بہت بڑا داعی تھا۔ عبدالبہاء کے بعد یہ ہی بڑا داعی تھا۔ یہ مصر میں طویل عرصہ زندہ رہا شروع میں اس نے بہائیت کے ساتھ اپنی وابستگی اور ایمان و نسبت کا ذکر نہ کیا مگر خفیہ زہر پھیلاتا رہا۔ جب اسے جان کی امان ملی تو اسے پورے وثوق کے ساتھ علی الاعلان پھیلاتا رہا اور پورا ان کا دفاع کرتا رہا، جھگڑتا رہا اور اخبارات میں بہاںٔیت کا دفاع کرتا رہا، خصوصاً اخبار المقنطف میں دھوکہ بازی میں اتنا زیادہ آگے جا چکا تھا کہ اس نے بہاںٔیت کی دعوت لیڈروں، سیاسی لوگوں اور قائدین تک پہنچا دی، اور انہیں بہائیت کے جال میں پھنسا دیا، مصطفیٰ کامل اس کی مدح سرائی کرنے لگا۔ اور اس کی الدر البہیہ کی اپنے اخبار اللوا میں تعریف کی المأيد اخبار کے ایڈیٹرز کو بھی پھنسانے ہی والا تھا مگر شیخ رشید رضا نے اپنے رسالہ المنار میں ایسا زبردست اور مضبوط جرأت مندانہ حملہ کیا کہ لوگوں کو علم ہوا کہ یہ تو ایک بت پرستی کا فرقہ ہے۔ یہ پڑھ کر المؤید کا ایڈیٹر بھی اس فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچ گیا شیخ حسونہ فوادی کے عہد میں ازہر یونیورسٹی میں بھی بہائیوں نے ہنگامہ آرائی کی تھی لیکن انہیں وہاں سے نکال دیا گیا ان کے مشہور داعی درج ذیل ہے۔

فرج اللہ کردی یہ مصر میں بہاںٔیوں کی کتابیں طبع کرواتا تھا۔ شیخ الجزاوی کے عہد میں ازہر میں کرد بہاںٔیوں کی نشاندہی ہوئی، انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا لیکن انگریز جو اس وقت مصر پر قبضہ چاہتے تھے۔ ان کے دیگر مطالبات پورے کرنے کے خلاف رک گئے۔ اور بہائیوں نے ان کے ماتحت اور ان کی نگرانی میں کام شروع رکھا۔ اس وقفہ میں انہوں نے کئی محفلیں منعقد کی۔ اہم ترین وہ تھی جو اپنے مرکز قاہرہ میں منعقد کی الدر مرداش، ہسپتال، کے قریب اس کا انعقاد کیا تھا۔ تاہم بہائیوں کے سر پر ایک شدید ضرب لگی کہ ان کا اہم ترین داعی الحاج عبدالکریم طہرانی اسلام میں واپس لوٹ آیا اس نے اس فرقہ کے معاملہ کی خوب نقاب کشائی کی۔

1960ء میں حکومتِ مصر نے یہ حکم جاری کیا کہ بہائیوں کے اجلاس پر پابندی ہے اور ان کی املاک قبضہ میں لے لی جائیں۔ اور کوئی بھی بہائی مذہب کے نام کی سرگرمی منع ہے۔ اس بیان کے بعد 1984ء میں مصری پولیس نے اکتالیس افراد حسین بیکار کی قیادت سمیت قبضہ میں لیے۔ یہ المصریہ اخبار کا صحافی تھا اور یہی ان کی مصر کے مرکزی اجلاس کا اہم کردار تھا سوڈان اور شمالی افریقہ کے بہائیوں کا رئیس تھا عدالت نے اسے تین سال تک قید کرنے کا فیصلہ سنایا اور ایک ہزار مصری پونڈ جرمانہ بھی کیا۔ لیکن نئی عدالت نے اسے 2001ء میں بری کر دیا مصر کی حکومتی اداروں نے اور سوہاگ کی نگرانی میں شرعی عدالت نے بہائیوں کی عقیدہ کی خرابی واضح کی اور یہ بیان دیا کہ بہائیوں کی تمام کتابوں پر پابندی ہے جیسا کہ لعھد والمیثاق ہے۔ (المجموعہ والمبارکہ) ہے یہ ان رسائل کا مجموعہ ہے جو بہائی دین پھیلانے کا باعث تھے اور   مفاوضات عبدالبہاء کو بلجیکا کی حکومت کے دارالنشر سے طبع ہوئی تھی ان سب پر پابندی ہے۔ 2006ء میں مصر کی عدالت علیا نے یہ حکم جاری کیا کہ بہائی دین ایک رسمی دین نہیں یہ ایک شخصیت پرستی دین ہے، لہٰذا اس کی تدوین و اشاعت پر پابندی ہے۔ انڈونیشیا کے سربراہ عبدالرحمٰن وحید کے عہد میں وہاں بہائی پائے گئے تھے اس دور میں انہیں حریت گفتار حاصل ہوئی اور سربراہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس سے پہلے یہ خفیہ کام کرتے تھے۔ انہوں نے 2000-21-3 میں یہاں علی الاعلان اجلاس منعقد کیا۔ سربراہ انڈونیشیا وحید خود اس میں شریک ہوا تھا۔ اور ان کی عید کی مبارک باد دی۔

برازیل میں بہاںٔیوں کے ارکان ہیں انہوں نے 1982ء میں بہاںٔیوں کی یاد میں ایک جلسہ کیا تھا۔ جب بہاءاللہ مرا تھا اس کی موت کی برسی پر قاںٔم کیا تھا۔ مغربی ممالک میں سے بھی لوگ ان بہاںٔیوں کے دین میں داخل ہیں۔ یہ بات بڑی غمناک اور المناک ہے خلیج کی ریاستوں، بحرین، امارات، عمان میں بھی یہ بہائی پائے جاتے ہیں اور نہایت ہی رازداری کے ساتھ تجارت، سونا اور حساس تجارتی مقامات پر ان کی سرگرمیاں مرتکز ہیں۔ ان کو انہوں نے مرکزِ نگاہ بنا رکھا ہے کہ ان پر قابض ہوں۔