کفار سے دوستی رکھنے کا حکم، اور ان کے ساتھ معاملات رکھنے کی حدود
کفار سے دوستی رکھنے کا حکم، اور ان کے ساتھ معاملات رکھنے کی حدود
دین اسلام نے کفار کے ساتھ تعلقات کے باب میں ایسی معتدل اور منصفانہ تعلیمات دی ہیں جو نا تو چھوت
چھات سے نسبت رکھتی ہیں نہ ہی حق و باطل اور حرام و حلال کی سرحدوں سے تجاوز گوارہ کرتی ہیں، جس کا اجمالی خاکہ علمائے کرام کے ارشادات کی روشنی میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں کفار سے تعلقات کے پانچ درجے ہیں۔
- معاملات: شریعت نے غیر مسلموں کے ساتھ خرید و فروخت اور معاملات کو اصل سے جائز رکھا ہے۔ ہاں بلا ضرورتِ شدیدہ اس کو نا پسندیدہ بھی کہا ہے۔
- مواسات: جس کا معنی ہمدردی، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں۔ یہ سب کافروں کے ساتھ جائز ہے۔
- مدارات: جس کے معنی ظاہری خوش خلقی اور اچھا برتاؤ یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔
- قلبی موالات: دلی محبت۔ یہ صرف مؤمنین کے ساتھ خاص ہے، غیر مؤمن کے ساتھ قطعاً کسی حال میں جائز نہیں۔ لقوله تعالىٰ: لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۔(سوره آل عمران: آیت نمبر 28)
- مداہنت: کسی منکر فعل کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے اور منع کرنے کی قدرت کے با وجود اس منکر کو اس سے نہ روکے کہ اس سے مرتکب کی رعایت مقصود ہے یا دین کے ساتھ لا پرواہی اور عدمِ دلچسپی کی بنیاد پر منع نہ کرے یا پھر کوئی دوسری وجہ ہو۔ غرض یہ کہ دین کے ساتھ لا پرواہی برتنا یا کسی دنیاوی غرض کی خاطر حدودِ شرعیہ کا پاس نہ رکھنا مداہنت کہلاتا ہے۔
اوپر ذکر ہونے والے درجات میں سے (1 : 2 : 3) جن کا اجمالی حکم بیان ہو چکا کہ کفار کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ ان تین درجات تک قائم ہو سکتا ہے۔ حدودِ شرعیہ کی پاسداری کرتے ہوئے ان سے معاملات کی اجازت ہے، ان کے ساتھ انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور ظاہری خوش خلقی کا معاملہ کیا جائے، ایسا کرنا شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ تعلیماتِ اسلامیہ کا حصہ ہو کر شرعاً مطلوب بھی ہے۔ اس لیے ان درجات کی حد تک کفار کے ساتھ تعلق پر کسی تفصیلی بحث و تمحیص کی چنداں حاجت نہیں، آخری دو درجے محلِ نظر ہونے کی بنا پر تفصیل طلب ہیں اس لیے ان دو درجوں میں کفار کے ساتھ مراسم کا حکم قدرے وضاحت سے پیش کیا جاتا ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کافروں کے ساتھ ظاہری و دلی محبت کو ممنوع اور جرم قرار دیا ہے۔
1 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ۔ (سورة الممتحنہ : آیت 1)
آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے محبت اور دوستی رکھنا اور اسی طرح ان سے خفیہ محبت و مودت رکھنا جس سے اسلام اور اسلامیان کو نقصان اور ضرر پہنچے ممنوع ہے۔
علاوہ ازیں دسیوں آیت کریمہ زیر نظر ہیں جن سے مجموعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان اور اسلام کے دشمن کفار سے قلبی دوستی حرام اور ممنوع ہے، مثلاً سوره مجادله : آیت نمبر 14 : 15 سوره مائده : آیت نمبر 57 سوره نساء : آیت نمبر 89 : 101 : 146 : 139 : 144 سوره هود : آیت نمبر 113 سوره آل عمران : آیت نمبر 28 : 118 سوره اعراف : آیت نمبر 3 سوره انفال : آ یت نمبر 73 سوره جاثیه : آیت نمبر 19
اسی طرح کفار کے ساتھ معاملات، تعلقات اور مراسم میں اس قدر بے راہ روی اختیار کرنا کہ جس سے مداہنت فی الدین کی ممنوع سرحدوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب لازم آتا ہو قطعاً نا جائز اور حرام ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے۔ وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ۔ (سورة قلم: آیت 9)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین نے دینی معاملات میں مداھنت اختیار کرنے کی حرمت ذکر فرمائی ہے۔
2 لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ۔ (سورة المائدہ : آیت 51)
قال الامام قرطبىؒ اى يعضدهم على المسلمين، بين ان حكمه حكمهم، ثم هذا الحكم باق الى يوم القيمة۔ وقد قال الله تعالىٰ : و لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْض۔ (سوره آل عمران : آیت 118) اى فی نقرة، فانه منهم۔
آیت کریمہ اور تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت، مساعدت اور نصرت کرنے والا بھی کفار ہی میں شمار ہو گا۔ امام قرطبیؒ نے اس کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس شخص (مسلمان) نے اللہ تعالیٰ جل شانہ اور رسول اللہﷺ کی مخالفت اور کفار سے دشمنی کی بجائے یاری و دوستی اور ان کا ساتھی ہوا اور حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی بھی ہے۔ من كثر سواد قوم فهو منهم۔
3 یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا۔(سورة مائدہ: آیت 57)
منشاء خداوندی اس باب میں یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے دین کو موردِ استہزاء اور لہو و لعب ٹھہرائیں وہ تمہاری طرف سے کسی قسم کی روا داری، ہمدردی اور دوستی کے مستحق نہیں، یعنی ان کے ساتھ وہ رویہ رکھنا چاہیے جو انہوں نے تمہارے دین و مذہب کے ساتھ رکھ رکھا ہے۔
ارشاد خداوندی ہیں: لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ۔ (سورة مجادله : آیت 22)
تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی۔
اسی آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا قاضی پانی پتیؒ تحریر فرماتے ہیں۔ هذه الآية تدل على ان ايمان المؤمن يفسد بموادة الكافرين و ان المؤمن لا يوالى الكفار۔ یعنی کفار کی مودت سے مؤمن کا ایمان فاسد ہو جاتا ہے اور مؤمن کفار سے دوستی نہیں کرتا۔
امام قرطبیؒ نے اس میں تعمیم کرتے ہوئے اہلِ ظلم و عدوان سب کو اس حکم کے تحت داخل فرمایا ہے۔
امام محمد بن احمد قرطبیؒ ایک دوسرے مقام پر وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۔ (سورة ہود : آیت 113) کی تفسیر کرتے ہوئے۔ وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا۔ (سورة انعام : آیت 68) نقل کرنے کے بعد اس آیت کریمہ کے مندرجات کے بیان میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اہلِ کفر و اہلِ معاصی کے متارکہ پر دلالت کر رہی ہے۔ کیونکہ ان کی صحبت کے دو اثر ہیں مسلمان کسی ایک میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا، ان کی صحبت سے کفر لازم آئے گا یا پھر معصیت و گناہ۔
امام قرطبی مزید فرماتے ہیں کہ ظالموں (کفار و اہلِ معاصی) کی صحبت اختلاط اور ان کے کاموں میں موافقت وغیرہ یہ عذاب کا سبب و ذریعہ ہیں۔
(آغا خان فاونڈیشن اور علماء کرام کا فتویٰ : صفحہ 7 تا 13)