Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

بہائیوں کے فقہی احکام اور بہائیوں کی مقدس کتابیں

  الشیخ ممدوح الحربی

بہائیوں کے فقہی احکام

اوپر اب بیان کر چکے ہیں بہائیوں کا قبلہ ان کا امام بہاء اللہ ہے اور وہ نماز باجماعت نہیں پڑھتے صرف نمازِ جنازہ باجماعت پڑھتے ہیں۔ 

اور یہ تین نمازیں پڑھتے ہیں۔

19 ایام کے روزے رکھتے ہیں۔

مسافر، بیمار، دودھ پلانے والی، نفاس والی، حاںٔضہ عورت اور کمزورں پر کوئی نماز نہیں۔

ان کے لیڈروں شیرازی اور مازندرانی کے یومِ ولادت پر یہ روزہ نہیں رکھتے۔

اور میت کو بغیر غسل سفید کپڑا میں لپیٹ کر دفن کر دیتے ہیں۔ اس کی انگلی میں عقیق کی انگوٹھی پہنائی جاتی ہے اور تابوت میں خواہ وہ لکڑ کا ہو یا لوہے کا یا پیتل کا ہو یا بلور کا وہ میت دفن کرتے ہیں اور گہری جگہ پر یہ میت داخل کرتے ہیں۔

 ان کے ہاں بیوی کی شادی نہیں ہوتی مرنے والے کے نوے دن کے بعد کر سکتی ہے اگر پچانوے دن ہو جائیں تو پھر نہیں کر سکتی۔

 بول و براز ان کے نزدیک پاک ہے۔

بہائیوں کی اہم عیدیں یہ ہیں:

1: عیدِ نوروز یہ ہر سال مارچ کی 13 تاریخ کو ہوتی ہے۔ 2: ولادتِ بہاؤالدین کی عید ہے اسے عیدِ میلاد الشمس بھی کہتے ہیں، یہ ہر سال محرم کے مہینہ میں ہوتی ہے۔ 3: عید دعوت الباب ہے۔ یہ جمادی الاولیٰ کی پانچ تاریخ کو ہوتی ہے۔ 5: عیدِ رضوان ہے یہ 21 اپریل سے شروع ہوتی ہے 2 مںٔی کو ختم ہوتی ہے۔ یہ عید اس دن کی یاد میں منائی جاتی ہے جب بہاءاللہ نے نجیب پاشا باغ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تھا۔ اس میں بہاء اللہ نے کہا تھا کہ میں اللہ ہوں۔ نعوذبالله۔

بہائیوں کی مقدس کتابیں:

ان کی مقدس کتابیں ہیں۔ ایک کتاب البیان العربی ہے یہ باب شیرازی نے لکھی ہے۔ ایک کتاب الاقدس ہے یہ حسین مازندرانی کی ہے۔ ایک کتاب الایقان ہے۔ ایک کتاب الطب ہے ایک لوح الحکمۃ والبشارات والھیکل ہے۔ ان تمام کتابوں کو بہائی نہایت ہی مقدس مانتے ہیں۔ اور تمام کتابوں سے افضل قرار دیتے ہیں۔ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ اللہ کی وحی سے نازل ہوئی ہیں۔ محمد علی شیرازی کہتا ہے: 

البیان العربی کتاب منزل من اللہ ہے، یہ قرآن کی ناسخ ہے، بلکہ جنوں اور انسانوں کو چیلنج ہے کہ اس کی مثل یہ نہیں لا سکتے۔

البیان کی لوح الاول میں لکھتا ہے: 

انا قد جعلناك جلیلا للجلالیل وانا قد جعلناك به عظیما عظیمانا للعاظیمین وانا جعلناك نورا نورانا للنورین۔ الخ

کہ ہم نے اسے سب سے زیادہ ہر جلیل القدر سے جلیل بنایا ہے، ہم نے اسے سب سے بڑا عظیم بنایا ہے، ہم نے اسے سب سے زیادہ نور والا بنایا ہے۔ سب سے زیادہ رحمان بنایا ہے، سب سے بڑا مالک، سب سے بڑا بلند، سب سے بڑا بشارت دینے والا بنایا ہے۔ 

یہ ساری ان کے بقول ان کی وحی کی یہ تعریف ہو رہی ہے۔ جنوں اور انسانوں کے چیلنج میں بولتا ہے: 

یوم یکشف عن ساقھم ینظرون الی الرحمٰن۔

جس دن ان کی پنڈلی کھولی جائے گی یہ رحمٰن کی طرف دیکھیں گے۔

میدانِ حشر کے بارے میں کہتا ہے:

یلیتنا اتخذنا مع الباب سبیلا۔

کاش! کہ ہم بابیہ کے ساتھ رستہ اختیار کرتے۔

ام الکتاب میں کہتا ہے: 

لو اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا الکتاب بالحق علی ان یستطیعوا ولو کان اھل الارض ومثلھم معھم علی الحق ظھیرا۔

اگر انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس حق کتاب کی مثل لائیں تو اہلِ زمین اور ان کی مثل ان کے ساتھ مل جائیں اور آپس میں مدد کریں پھر بھی نہ لا سکیں گے۔

یہ ہے اس گمراہ کی ہرزہ سرائی کہ میری کتاب منزل من اللہ ہے جب کہ اللہ کی کتاب جو کہ حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی ہے اس کے کسی جانب سے جھوٹ اور باطل نہیں آتا اور وہ اپنے حروف میں جنوں اور انسانوں کو چیلنج کرتا ہے دونوں پر غور کرنے سے خود ہی واضح ہوتا ہے کہ دجال کی بات اور عقل سے پیدل والی گفتگو کس کی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قرآن پاک نورِ حق ہے اور اللہ عزوجل کا سچا کلام ہے اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔

ان کتابوں پر تبصرہ:

بہاءاللہ نے الاقدس کتاب لکھی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس میں وارد تمام احکام مشیتِ الٰہی سے نازل ہوئے ہیں، اس کا کہنا ہے: 

وان الاحکام المنزلة فیه نسخت ما قبله من الاحکام ۔

اس میں نازل شدہ احکام نے پہلے سارے احکام منسوخ کر دیئے ہیں۔

کیونکہ یہ انسان کی ضروریات اور زمانہ کی گردشوں کے مطابق نازل ہوئے ہیں حالانکہ اس کتاب کو بنظرِ غائر دیکھیں تو ان کے امام کا ردی پن اور اس کے ناقابلِ اعتبار اقوال اور فحش غلطیاں اور جو کچھ اس نے چوری شدہ عبارات نقل کیں یہ سب کچھ اس کتاب سے نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے بہاءاللہ کی اس کتاب کا انداز وہی ہے جو اس کے شیخ باب نے اپنی کتاب البیان میں اختیار کیا تھا اس نے کوشش کی ہے کہ اسے قرآن پاک کے انداز پر بیان کرے لیکن اس کی حقیقت کھل گئی ہے اور اس کا کھوٹا پن خود بخود ظاہر ہو رہا ہے، اور اس نے یہ کتاب پیش کر کے خود کو رسوا کیا ہے۔ یہ ایک ایسا طرزِ کلام ہے کوئی بھی مہذب آدمی بغیر کسی توقف کے یہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے، اور اس کے جملوں کے ترتیب و ترکیب میں تکلف ہے، مثلاً وہ لکھتا ہے:

انا امرناکم بکسر حدود النفس والھوٰی الا ما رقم فی القلم الاعلی انه لروح الحیوان لمن فی الامکان وقد ماجت بحور الحکمة والبیان بما ھاجت نسمة الحیوان۔

ہم نے تمہیں حدود نفس کو توڑنے کا حکم دیا ہے، مگر اعلیٰ قلم میں لکھا ہے۔ یہ حیوان کی اس کے لیے جو امکان میں ہے حکمت کے سمندر موجزن ہوئے اور حیوان کی روح ہیجان انگیز ہوئی۔

ان میں قرآنِ پاک کی مانند سجع بندی والا کلام لانے کی اس نے کوشش کی ہے اور ایک جملہ دوسرے سے کاٹ کر علیحدہ کرنے کی تگ و دو کی ہے اور ملا ملا کر بھی لایا ہے، لیکن کلام الرحمٰن اور اس دجال کے کلام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قزوینی نے اپنی کتاب البہاںٔیہ فی المیزان میں ان کے کلام کے کچھ نمونے بیان کیے ہیں:

(1)۔ بسم الله السطی ذی السلوطیاتی ذی المسطلطیاط بسم الله ذی التساںٔیطات بسم الله ذی المسلوطیات۔

(2)۔ انا جعلناك عز انا عزیزا المعازین، قل جعلناك حبانا حبیبا للحابیبین۔

(3)۔ بسم الله الا قد القدام القادم القدمان المقتدم القیدوم۔ 

(4)۔ بسم الله الاجمل الجمل الجمیل ذی المجالیل ذی الجمالین ذی الجملاء۔ (کتاب المقدس)

اور ان کی کتاب الاقدس بھی ردی افکار کا مجموعہ ہے اور گھٹیا معانی پر مشتمل ہے اور بے مقصد احکام ہیں جو معاشرتی زندگی سے جہالت کا ثبوت ہیں۔ ایک کہتا ہے:

من یدعی الباطن وباطن الباطن قل ایھا الکذاب تاالله ما عندك انه من القشور ترکنا ھالکم کما تترك العظام للکلاب۔ 

جو باطن کا دعویٰ کرتا ہے اور باطن کے باطن کا بھی کہہ دو اے کذاب اللہ کی قسم تمہارے پاس چھلکا ہے جو ہم نے تمہارے لیے چھوڑا ہے، جس طرح ہڈیاں کتوں کے لیے چھوڑی جاتی ہیں۔

غور فرمائیں! یہ اسلوب و انداز اللہ کا ہوسکتا ہے قطعاً نہیں یہ تو کسی غیر مہذب کی بات ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اور حماقتوں کا اعتراف کیا ہے پتہ چلتا ہے۔ جیسے ذبح کرنے والے ویسے ہی کھانے والے کی صورت ہے۔ گرمیوں میں وضو ایک مرتبہ ہے اور سردیوں میں ہر تین دن بعد کرنا ہے کتنا کھلا تضاد ہے۔ بڑے ہی ردی اور رکیک انداز پر قرآن پاک سے الفاظ و انداز چرانے کی کوشش کی ہے سورة الرعد کی ایک آیت سے بڑے بھونڈے انداز سے سرقہ کرتا ہے:

انا الذین نکسوا عھد الله فی اوامرهٖ ونکسوا علی اعقابھم اولٓںٔک من اھل الضلال لدی الغنی المتعال۔ 

اسی طرح اس دجال نے سورۃ بقرہ سے بھی آیات کو چرا کر اور آیات بدل کر اور درمیان میں کلمات کا اضافہ کر کے لوگوں کو قرآن پاک کا دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ تیار کیا ہے۔ اس کی کتاب اقدس میں ہے: 

قل لو اجتمع من فی السموات والارض وما بینھما ان یاتوا بمثل ذالک الانسان لن یستطیعون ولن یقدرون ولو کانوا کل بکل مستعین۔ 

اس میں علمِ نحو کے قاعدوں کے خلاف لکھا ہے کہ لن جمع کے نون کے گرا دیتا ہے۔ یستطیعون الخ تک آیا ہے، اگر اس جاہل کو پتہ ہی نہیں۔ ان یاتوا میں مؤنث کی ضمیر آتی تھی یہ مذکر کی لے آیا ہے اتنا بڑا جاہل اور دجال تھا۔

اس نے سورۃ الاسراء پارہ 15 سے الفاظ چرائے ہیں۔ احادیث سے بھی اس نے چوری کی ہے۔ بخاری و مسلم میں آتا ہے (لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیه ما یحب لنفسه) یہ دجال اس حدیث سے چوری کرتے ہوئے لکھتا ہے: 

لا ترضوا لاحد ما لا ترضونه لانفسکم۔ (الاقدس)

ان کی یہ کتاب دسیوں لغوی و نحوی غلطیوں سے لبریز ہے یہ اللہ کی وحی نہیں ہو سکتی یہ تو کسی عقل سے پیدل ردی قسم کی ذہنی مریض کا کلام ہی ہو سکتا ہے اور اللہ کے کلام کا مقابلہ ناممکن ہے اس جیسی کتاب تو ایک جاہل بھی لا سکتا ہے کتاب مقدس میں کہتا ہے:

اغنمسوا فی بحر بیانی لعلکم تطلعون۔ 

بیان کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاؤ تاکہ تم مطلع ہو جاؤ۔

قرآن پاک میں سورۃ نور پارہ 18 میں (يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ۬ مُّبَـٰرَڪَةٍ۬ الخ۔)(سورۃ النور آیت 35)۔

 یہ کہتا ہے اس مبارک درخت سے مراد مرزا بہائی علی حسین ہے۔ سورۃ ابراہیم 14 میں آیت:

(يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱلۡقَوۡلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِى ٱلۡأٓخِرَةِ‌ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّـٰلِمِينَ‌ۚ وَيَفۡعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ۝(سورۃ ابراہیم آیت 27)۔

اس میں دنیا کی زندگی میں ایمان حضرت محمدﷺ پر لانا ہے، اور آخرت پر ایمان سے مراد ہے کہ مرزا حسین علی بہائی کے ساتھ ایمان لایا جائے۔

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝ وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝ وَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۝ وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۝ وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ۝ وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۝ وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۝ وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ۝ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ۝(سورۃ التکویر آیت 1 تا 10)

بہائیوں کا گمراہ امام کہتا ہے، سورج لپیٹے جانے سے مراد ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کا زمانہ ختم ہو جائے گا، اور یہ بہائی شریعت میں تبدیل ہو جائےگا، اور پہاڑ چلائے جائیں گے اس سے مراد کہ نئے نئے دستور ظاہر ہوں گے، اونٹنی معطل ہونے سے مراد ہے کہ بڑے بڑے انجن گاڑیوں کے وجود آ جائیں گے، اور اونٹ بے کار ہو جائیں گے، درندے اکٹھے ہونے کا مطلب ہے کہ چڑیا گھر بنائے جائیں، سمندر جوش ماریں گے، اس سے مراد کہ کشتیاں اس میں چلیں گی، نفس ملائے جائیں گے اس سے مراد ہے کہ یہود و نصاریٰ اور مجوسی وغیرہ سب ایک دین میں مل جائیں گے، وہ بہائی دین ہے۔ زندہ درگور سے پوچھا جائے گا اس کا مطلب ہے کہ ان دنوں میں پیٹ کے بچے مر جائیں گے، ان سے ملکی قوانین کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اوپر بیان کردہ ان کی تفسیر کے بعد ہر صاحبِ دانش ان کی جہالت اور ان کے افکار کی رذالت اور دینی و دنیاوی سخافت اور ردی پن سے فوراً آگاہ ہو جاتا ہے۔ 

مزید تفصیلات درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔

البہائيہ والبابيہ وموقف الاسلام منہا (سہير الفيل) الموسوعة الشاملة للفرق المعاصره (اسامه شحاذه) اور ہیثم کسوانی) الموسوعة الميسره للندوة العالميه للشباب الاسلامی (البہائيہ والبابيہ) علامہ احسان الہٰی ظہيرؒ (فرق معاصرة) ڈاکٹر غالب عواجی (سلسله ماذا تعرف عن للشيخ احمد حسين (الراصد الاليكترونيه)

 جو کہ انٹرنیٹ میں موجود ہے۔