Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار کو منشی اور مشیر وغیرہ رکھنے کا حکم


کفار کو منشی اور مشیر وغیرہ رکھنے کا حکم

ایک مرتبہ سیدنا ابو موسٰی اشعریؓ نے سیدنا فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے صوبے کا میزانیہ (بجٹ پیش کیا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بہت پسند آیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کا میزانیہ (بجٹ) لے کر مجلسِ شوریٰ میں آئے اور ان سے فرمایا آپ کا منشی کہاں ہے؟ تاکہ آپ کا یہ میزانیہ اراکینِ شوریٰ کے سامنے پیش کرے؟ تو انہوں نے عرض کیا وہ تو مسجدِ نبوی میں نہیں آئے گا، حضرت فاروق اعظمؓ نے پوچھا کیوں؟ کیا وہ نا پاکی کی حالت میں ہے؟ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جی نہیں، بلکہ وہ نصرانی ہے۔ اس پر سیدنا فاروق اعظمؓ نے ان کو سرزنش کی اور فرمایا:

تم ان نصرانیوں کو اپنے سے قریب کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کو مسلمانوں سے دور رکھا ہے۔ تم ان کو عزت دیتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔ تم ان کو امین (معتمد علیہ) بناتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کو خیانت کار بتلایا ہے۔

ایک اور روایت میں سیدنا فاروق اعظمؓ سے مروی ہے آپؓ نے فرمایا کہ اہلِ کتاب (یہودیوں اور نصرانیوں) کو حکومت کا اہل کار یا افسر مت بناؤ، اس لئے کہ یہ لوگ سود کو حلال سمجھتے ہیں۔ تم سرکاری عہدوں پر اور رعایا پر ایسے لوگوں کو مقرر کرو جو اللہ تعالیٰ جل شانہ سے ڈرتے ہوں۔

نو سو سال پہلے کا حال:

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں۔ لیکن اب اس زمانہ میں تو حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ یہودیوں اور نصرانیوں کو عام طور پر اسلامی حکومتوں میں ذمہ دار افسر اور کلرک مقرر کر دیا گیا ہے۔ اور اس طرح انہوں نے نادان و نا سمجھ عوام پر پورا اقتدار حاصل کر لیا ہے۔

نو سو سال بعد کا حال:

مصنفؒ فرماتے ہیں۔ یہ نوبت تو اب سے نو سو سال پہلے امام قرطبیؒ کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی۔ تو ہم اپنے اس زمانے کے متعلق کیا کہیں جبکہ اسلامی ملکوں میں شریف (دین دار) اور ذلیل (بے دین) لوگ ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔

اپنے ملکوں میں اپنے اوپر ہم نے ان کو کس قدر اقتدار دے رکھا۔ ان کے ساتھ میل جول اور الفت و محبت کے روابط و تعلقات کتنے بڑھا رکھے ہیں؟

حالانکہ ان دشمنانِ دین و ملت کے ساتھ اختلاط اور ارتباط، دوستی و موالات کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سے واضح اور قطعی آیات اور صریح احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ 

(فتاویٰ بینات: جلد، 2 صفحہ، 107)