شیعہ علماء کے بے بنیاد دعوے
مولانا اللہ یار خانؒشیعہ علماء کے بے بنیاد دعوے
1۔ کہتے ہیں کہ مفسرین اہلِ سنت اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آیت ان چار حضرات کے حق میں نازل ہوئی ہے اور اس امر میں روایاتِ متواترہ کثیر ہیں خاص طور پر ابو سعید خدری نے بیان کیا ہے کہ آیت ان کے ساتھ خاص ہے پہلی بات یہ ہے کہ قائل ہونا اور ناقل ہونا دو مختلف چیزیں ہیں نقل میں رطب دیا بس شامل کر دیا جاتا ہے مگر قائل ہونا کسی دلیل کی بنا پر ہوتا ہے بعض مفسرین نے اگر ایسی روایات نقل کر دیں تو ان سے یہ کب ثابت ہوا ہے کہ وہ قائل ہیں کسی ایک محقق مفسر نے آج تک یہ بیان نہیں کیا کہ یہ آیت چار کے حق میں نازل ہوئی
روایات جو پیش کی جاتی ہیں وہ شیعہ کی روایات ہوتی ہیں ان میں بھی یہی بات ہے کہ حضورﷺ نے یہ دعا کی کہ اصل اہلِ بیت میں ان چار کو داخل کیا جائے یہ دعا ہی تو ان حضرات کو نص سے خارج قرار دیتی ہے۔
راہ ابو سعید کا سوال تو یہ ایک دام ہم رنگ زمین ہے ابو سعید کنیت ہے کلبی کی جو مستند تکیہ با شیعہ تھا عطیہ کوفی جو خود مستند شیعہ ہے اس سے نقل کرتا ہے کبھی ابو سعید کی کنیت سے کبھی ابو الہشام کی کنیت سے اور ابو نصر کی کنیت سے اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے ابو سعید خدری کا لفظ بڑھا دیا جاتا ہے اس ذات شریف کا اصلی روپ دیکھنا ہو تو ہماری کتاب تہذیر المسلمین کا مطالعہ کریں۔
2۔ کہتے ہیں کہ آیت انما یرید اللہ الخ مقام مدح شان اہلِ بیت میں واقع ہوئی ہے۔
مدح وشان اپنی جگہ مگر مدح کا بھی محل ہوتا ہے بے محل مدح کیا معنیٰ؟ ازواجِ مطہراتؓ کو نصیحت کی جا رہی ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ نصیحت کرنے والا کتنا شفیق ہے تاکہ مخاطب اسے سن کر شوق و رغبت سے قبول کرے تو اس کا نزول مقام نصیحت ازواجِ مطہراتؓ ہے۔
3۔ کہتے ہیں انما یرید اللہ میں ارادہ خاص ہے اہلِ بیت سے اور وہ بھی خاص اہلِ بیت سے یہ دعویٰ بے سروپا ہے قرآن میں اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں بلکہ ارادہ کا تعلق تطہیر سے ہے شیعہ کے دعویٰ کے مطابق تو یہ مطلب نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار کے سوا نہ کسی کو پاک کیا نہ پاک کرنے کا ارادہ ہے۔
4۔ ارادہ ازالہ رجس میں وہ ارادہ ہے جو علت تام ہو کیونکہ مطلق ارادہ کا تعلق تو تمام مکلفین سے ہے۔
ارادہ کے علت تامہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں قرینہ ہے
تمام مکلفین کے متعلق ارادہ ازالہ رجس ہونا بھی فحش غلطی ہے اگر ایسا ہو تو یغفر لمن یشاء غلط ثابت ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب ازالہ رجس سے مراد عطائے عصمت ہے تو تمام مکلفین معصوم ہو جائیں گے۔
5۔ حضورﷺ نے صرف ان چار کو کملی اوڑھائی لہٰذا یہی چار تطہیر کا محل ہیں۔
حضورﷺ کی کملی کی برکت میں کون شبہ کر سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھو ایک روز چند لمحوں کے لیے حضورﷺ کی کملی اوڑھی تو اتنی برکت ہوئی تو جو عمر بھر حضورﷺ کے ساتھ حضورﷺ کی کملی اوڑھے رہیں وہ برکت سے محروم رہیں آخر یہ کیوں؟ سلیم بن قیس لالی سے سنیے:
کتاب سلیم بن قیس حلالی طبع مطیع حیدریہ نجف اشرف صفحہ 196۔
وکان لرسول اللہﷺ لحاف لیس له لحاف غیرہ ومعه عائشهؓ۔
یعنی رسول کریمﷺ کے پاس صرف ایک لحاف تھا اور اسی لحاف میں حضور اکرمﷺ سیدہ عائشہ کے ہمراہ سوتے تھے۔
یہ شیعہ مذہب کی پہلی کتاب ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے تحزیر المسلمین)۔
آیتِ تطہیر میں سے ازواج النبیﷺ کو خارج کر کے صرف چار کو مختص کر دیا جائے تو یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے بڑھتی ہے چنانچہ فروع کافی کتاب الجہاد میں باب من یجب علیه الجھاد ومن لا یحب میں سیدنا جعفر صادقؒ سے ایک طویل روایت درج ہے جس کا بقدرِ ضرورت حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم ای یدعوا و المؤمنین ثم ذکر من اذن له فی الدعاء الیه بعدہ رسوله فی کتابه فقال ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون ثم اخبر عن ھذہ الامۃ وممن ھی وانھا من ذریته ابراہیم ومن ذریۃ اسمعیل من مکان الحرم ممن لم یعبدوا غیر اللہ قط الذین اخبر عنھم فی کتابه انه اذھب عنھم الرجس وطھرھم تطہیرا الذین وصفناھم قبل ھذا۔
دعویٰ الی الحق میں اللہ اور رسولﷺ کے بعد قرآن کو رکھا (یعنی پہلے اپنی ذات کو رکھا کہ واللہ یدعوا الی دار السلام پھر نبی کریمﷺ کو رکھا کہ ادع الی سبیل ربک پھر قرآن کو رکھا کہ ان ھذا القرآن الخ) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس قوم کا ذکر کیا جنہیں اپنے اور اپنے رسولﷺ کے بعد اپنی طرف بلانے کی اجازت دی اور فرمایا ولتکن منکم الخ پھر اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کا ذکر کیا کہ وہ کس خاندان سے ہو گی اور فرمایا وہ جماعت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہو گی یہ لوگ حرم مکہ کے رہنے والے ہوں گے انہوں نے کبھی غیر اللہ کی عبادت نہیں کی ہوگی یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی یہ مکہ کے رہنے والے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا کہ ان سے اللہ نے ناپاکی کو دور کیا اور ایسا پاک کیا جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے یہ وہی جماعت ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔
ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس کا اس روایت میں ذکر ہے تمام صحابہ مہاجرین کی جماعت ہے مکے کی یہی جماعت ہے جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اذھاب رجس اور تطہیر کی بشارت دی جب بقول شیعہ اذھاب رجس بہت تطہیر سے مراد عصمت ہے تو سیدنا جعفرؒ کے کول کے مطابق تمام صحابہ مہاجرین معصوم ثابت ہوئے پھر ائمہ کی تخصیص کہاں رہ گئی۔
قرآنِ کریم کی آیت اور سیدنا جعفرؒ کے قول میں اتنا فرق ہے کہ قرآنِ کریم میں صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے اور امان کے قول میں صیغہ ماضی اب شیعہ کو امام کا راستہ اختیار کرنے کے لیے دو پہلو میں سے ایک پہلو لازماً اختیار کرنا پڑے گا ورنہ امام کا راستہ اور شیعہ کا راستہ اور۔
اول: یہ کہ اذھاب رجس وہ تطہیر کے معنیٰ مغفرت ذنوب لیں جیسا کہ مفسرین اہلِ سنت بیان کرتے ہیں۔
دوم: اگر یہ نہیں بلکہ اس کا مفہوم عطائے عصمت ہے تو تمام صحابہ مہاجرین کو معصوم تسلیم کریں۔
اگر یہ دونوں منظور نہیں تو اعلان کریں یا نہ کریں ان لوگوں کا سیدنا جعفرؒ سے کوئی تعلق نہیں۔
قرآن سے تو یہ پہلے ہی دستبردار ہو چکے ہیں اگر یہ بہانہ کیا جائے کہ حضورﷺ نے ان چار کو تو اپنی چادر میں لیا تھا مگر سب مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کب چادر اوڑھائی تو ماننا پڑے گا کہ اہلِ بیت بننے کا مدار چادر اوڑھنا ہے تو اس اصول کا ذرا اپنا کر دیکھا دو۔
بہیقی اور ابنِ ماجہ وغیرہ کتب میں ایک واقعہ موجود ہے:
اخرج البیہقی عن ابی سعید المساعدی قال قال رسول اللہﷺ العباس بن عبد المطلب یا ابو الفضل لا تترک منزلک انت وینبوک غدا حتیٰ اتیکم فان لی فیکم حاجۃ فانتظروہ حتیٰ جاء بعد ما اضحی فدخل علیھم فقال السلام علیکم فقالوا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ قال کیف اصحبتم قالوا اصحبنا بخیر و نحمد اللہ تعالیٰ فقال لھم تقاوبوا فرحت بعضھم الی بعض اذا امکنوا اشتمل علیھم بملائه ثم قال یا رب ھذا عمی وصنوا ابی وھئو لاء اھل بیتی استرھم من النار کستری ایاھم بملاتی ھذہ قال فامنت اسکفۃ الباب وحوائط البیت وقالت آمین آمین۔
امام بیہقی نے ابوسعید ساعدی سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب سے فرمایا کہ آپ اور آپ کے بیٹے میرے آنے تک گھر سے نہ نکلنا مجھے تم سے کام ہے سب نے حضورﷺ کا انتظار کیا دوسرے دن حضور ﷺ تشریف لائے سلام دعا کے بعد فرمایا میرے قریب ہو جاؤ وہ سب سرک کر قریب ہو گئے تو آپﷺ نے ان سب کو اپنی چادر میں لے لیا اور دعا کی کہ الہٰی یہ میرا چچا ہے اور میرے والد کی جا بہ جا ہے اور یہ میرے اہلِ بیت ہیں انہیں دوزخ سے یوں محفوظ رکھنا جیسے میں نے انہیں اپنی چادر میں چھپا لیا ہے اس پر کواڑوں اور دیواروں سے آمین آمین کی آواز آنے لگی۔
لیجیے چادر میں لپیٹ لیا گیا دعا بھی کی ھو لاء اھل بیتی بھی کہا پھر بھی سیدنا عباسؓ اور ان کی اولاد اہلِ بیت نہ کہلا سکی اہلِ بیت چار ہی رہے یہ چادر بھی حضورﷺ کی ہی تھی دعا بھی حضورﷺ کی زبان سے نکلی پھر بھی قبول نہ ہو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبولیت دعا کا تعلق اللہ کریم سے نہیں تھا بلکہ شیعہ سے تھا جسے یہ قبول کریں وہ دعا قبول اور جسے یہ حضرات اور رد کر دیں وہ دعا غیر قبول شیعہ نے اپنے لیے اتنا اونچا مقام تجویز کیا ہے حقیقت ہے کہ سفر پر روانہ ہوتے ہی آدمی کا رخ زرا بھی مڑ جائے تو ہر قدم پر منزل سے دور ہی ہوتا چلا جاتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ اس کو توفیق نہ دے اپنے سمت سفر درست کر لے۔
قرآنِ کریم کی آیت اس کا سیاق و سباق لفظ مضمون جو مفہوم پیش کرتا ہے روایات جس کی تائید کرتی ہیں لغت اور عرف جس کو درست کہتا ہے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ٹھیک وہی ہے کہ اہلِ بیتؓ نص قطعی کے اعتبار سے ازواج النبیﷺ ہیں اور حضورﷺ نے شفقت کی بنا پر ان چار حضرات کے لیے دعا کی کہ انہیں بھی اہلِ بیتؓ میں شامل کر لیا جائے۔
مگر شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ آیت کا یہ ٹکڑا یہاں اجنبی ہے ازواج النبیﷺ قطعاً اہلِ بیت نہیں بلکہ وہی چار اہلِ بیت ہیں جن کے لیے دعا کی گئی یہ عقیدہ قرآن کے خلاف لغت کے برعکس اور عرف کے مخالف ہے لہٰذا عقیدہ اہلِ سنت صحیح اور اسلامی عقیدہ ہے۔
اصل مسئلہ تو طے ہو گیا اس سے ضمناً ایک اور مسئلہ بھی حل ہو رہا ہے وھو ھذا:
اللہ تعالیٰ نے ازواج النبیﷺ کو دو راستے دکھائے کہ اگر دنیوی مال دولت درکار ہے تو نبیﷺ سے تمہارا تعلق نہیں اور اگر آخرت کی راہ میں مطلوب ہے تو تمہارے لیے انعامات تیار کر رکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو یہ بات سخت ناپسند کی کہ نبیﷺ کی بیویوں کے پاس مال و دولت ہو تو اسے اپنے نبیﷺ کے لیے یہ پسند تھا کہ وہ مال و دولت جمع کرتا رہے اگر نہیں اور واقعی نہیں تو نبی کریمﷺ نے وہ کون سا مال جمع کر رکھا تھا کہ آج تک نبیﷺ کی میراث کی تقسیم کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا پھر لطف یہ ہے کہ نبیﷺ کہ ورثاء تو متعدد تھے مگر سب خاموش ہیں مگر ایک وارث کے حق میں دہائی دی جا رہی ہے یہ دونوں باتیں ناقابلِ فہم ہیں۔
پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ معاشی پہلو میں حکم دیتا ہے کہ:
لِيُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَةٍ مِّنۡ سَعَتِهٖؕ الخ۔(سورۃ الطلاق آیت نمبر7)۔
صاحبِ وسعت کے ذمہ اس کے حیثیت کے مطابق ہے اور تندرست کے ذمے اس کی حیثیت کے موافق۔
اور عَلٰی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلٰی المُقْتِرِ قَدَرَہُ الخ۔(سورة البقرہ آیت نمبر 236)۔
وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق بچہ پر خرچ کرنا چاہیے۔
صاحبِ وسعت کے ذمہ اس کے حیثیت کے مطابق ہے اور تندرست کے ذمے اس کی حیثیت کے موافق۔
تو نبی کریمﷺ کہ پاس مال کی فراوانی اور وسعت تھی تو اہلِ بیتؓ پر کیوں نہ خرچ کیا اور اللہ کی طرف سے طلاق یا تخییر مابین دولت دنیا اور آخرت کا معاملہ کیوں پیش آیا؟ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے اگر رسول کریمﷺ کے پاس مال نہیں تھا تو ازواجِ مطہراتؓ نے مطالبہ کیوں کیا ظاہر ہے کہ حضورﷺ تو امین تھے غلطی سے انہیں مالک سمجھ لیا گیا وہ تو قوم کا مال تھا حضورﷺ کا ذاتی نہیں تھا۔