Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

معاش رسول صلی اللہ علیہ وسلم

  مولانا اللہ یار خانؒ

معاشِ رسولﷺ

بچپن میں حضورﷺ نے یہ بکریاں چرائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ تو فرمایا کہ میں بھی چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔

سیدنا جعفر بن عبداللہؓ کی روایت میں تو یہاں تک فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔

آپﷺ کہ دادا عبدالمطلب کی وفات کے آپ کہ چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی مگر حقیقت یہ ہے کہ حضورﷺ نے بچپن میں ہی اپنے کثیرُ العیال اور عسیرُ الحال چچا کی معاشی مدد کے لیے اجرت پر بکریاں چرانے کا کام بچپن میں ہی شروع کر دیا تھا۔

جب حضورﷺ کی عمر 25 برس کی ہوئی تو ابو طالب نے آپ سے کہا میں ایک مفلس شخص ہوں ہم پر تنگی کا دور ہے اور تمہاری قوم کا مال سے لدا ہوا اونٹوں کا قافلہ روانہ ہونے والا ہے سیدہ خدیجہؓ بنتِ خویلد تمہاری قوم کے کچھ لوگوں کو اپنے تجارتی اونٹوں کے ہمراہ تجارت کے لیے بھیجا کرتی ہے مناسب ہے کہ تم بھی اس کے پاس جا کر خود کو اس خدمت کے لیے پیش کر دو امید ہے کہ وہ تمہیں فوراً قبول کر لے گی ادھر اس گفتگو کی خبر کسی نے سیدہ خدیجہؓ کو پہنچا دے انہوں نے فوراً ہی از خود حضورﷺ اس کو بلا بھیجا اور آپ سے کہا کہ میں آپ کو دوسرے لوگوں سے دوگنا معاوضہ دوں گی۔

لما بلغ رسول اللہﷺ خمسا و عشرین سنۃ قال ابو طالب انا رجل لا مال لی وقد اشتد الزماں علینا وھذہ غیر قومک قد حضر خروجھا الی الشام و خدیجہؓ بن خویلد تبعت رجالا من قومک فی عیراتھا فلو جئتھا فعرضت نفسک علیھا لاسرعت الیک۔ 

اس طرح جوانی میں بھی حضورﷺ نے تجارت کر کے اپنے مخلص چچا کے کنبہ کی پرورش کا حق ادا کیا پھر سیدہ خدیجہؓ سے آپ کی شادی ہوئی تو انہی کے مال پر گزر اوقات بھی ہوتی اور اسلام کی خدمت بھی ہوتی رہی۔

مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انصار رضا کارانہ طور پر حضورﷺ کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے سات آٹھ سال بعد انسان نے کھجوروں کے درخت پر ہدیۃً دیئے کہ ان کا پھل حضورﷺ کا اور درخت مالکوں کے رہیں گے۔

جب جہاد فرض ہوا تو آپﷺ نے وہ درخت مالکوں کو لٹا دیے اور فرمایا جعلت رزقی تحت ظل رمعی یعنی اللہ نے میرا رزق تلواروں اور نیزوں کے سائے میں رکھ دیا اس مالِ غنیمت سے حضورﷺ قوت لا یموت لیا کرتے تھے یہی وجہ تھی دو دو ماہ تک حضورﷺ کے گھر آگ نہ جلتی تھی چنانچہ حضور ﷺ نے اس کی وجہ بیان فرما دی کہ:

ما اوحی الی ان اجمع المال واکون من التاجرین ولکن اوحی الی ان سبح بحمد ربک وکن من الساجدین واعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین۔ (مشکوۃ صفحہ 444)۔ 

اسی طرح کنز العمال 2: 52 اور درمنشور میں بھی درج ہے۔

مجھے اس امر کی وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کر کے بڑا تاجر بن جاؤں بلکہ مجھے بذریعہ وحی یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کر اس کے سامنے سجدہ کر وہ اس کی عبادت میں لگا رہے یہاں تک کہ موت آ جائے۔

 قرآنِ کریم میں بھی حضور ﷺ کو تلقین فرمائی گئی:

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ‌ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى۞ وَاۡمُرۡ اَهۡلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَيۡهَا‌ ؕ لَا نَسْأَلُكَ رِزۡقًا‌ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكَ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلتَّقۡوٰى۞۔

(سورة طٰہ آیت نمبر 131۔ 132)۔

اور مت پسار اپنی آنکھیں اس چیز پر جو فائدہ اٹھانے کو دی ہم نے ان طرح طرح کے لوگوں کو رونق دنیا کی زندگی کی ان کے جانچنے کو اور تیرے رب کو دی ہوئی روزی بہتر ہے اور بہت باقی رہنے والی اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور خود بھی قائم رہے اس پر ہم نہیں مانتے تجھ سے روزی ہم روزی دیتے ہیں تجھ کو اور انجام بھلا ہے پرہیزگاری کا۔

کیا صاف صاف ہدایت فرما دی کہ دنیا کے زیب و زینت اور مال و متاع کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے میں نے جو انعام آپ پر کیا ہے اس کے مقابلے میں خسیس دنیا کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی یعنی حضورﷺ کو مال جمع کرنے کی ممانعت فرما دی گئی اور حضورﷺ نے اس ہدایت ربانی پر عمل کرنے کا حق ادا کر دیا۔

مدینہ طیبہ میں آپ کا کام تبلیغ و اشاعتِ دینی ہی تھا اور اس کی اجرت لینے کا ذکر ہی کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے اعلان کرا دیا کہ:

وَ مَاۤ اَسْئٙلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ اللہ الخ۔ یعنی اس کا اجر میں تم سے کیوں لینے لگا وہ تو میں اپنے رب سے لوں گا صاف ظاہر ہے کہ مال جمع کرنے کی تمام صورتیں ختم کر دی گئی معاش کے لیے صرف مال غنیمت رہ گیا تو ترکہ کیا ہوتا اور میراث کی تقسیم کا سوال ہی کیوں کر پیدا ہوتا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآنِ کریم میں تقسیمِ میراث کے صاف احکام موجود ہیں مثلاً:

يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ‌ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ‌ ۚ فَاِنۡ كُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‌ ۚ وَاِنۡ كَانَتۡ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصۡفُ‌ ؕالخ 

یا اسی قبیل یہ دوسری آیات کا تقاضا یہ ہے کہ حضورﷺ کی میراث اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق تقسیم ہو مگر سوال یہ ہے کہ میراث کا حکم تو مال مملوکہ کے لیے ہے اور میراث کے متعلق تمام آیاتِ مملوکہ مال سے تعلق رکھتی ہیں تمام علماء اور مناظرین کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب شیعہ کی طرف سے آیات میراث پیش ہوں تو انہیں صاف کہہ دیا جائے کہ یہ مال مملوکہ سے تعلق رکھتی ہیں اور حضورﷺ کے پاس مالِ فے تھا جس پر نبی کریمﷺ نے کوئی ایسا مال چھوڑا ہی نہیں جس پر آپ کا مالکانہ قبضہ ہو مالِ فے پر آپ کا قبضہ متولیانہ تھا اگر موجودہ حالت سے اس کی تشریح کی جائے تو کچھ ایسی صورت بنتی ہے کہ جب کسی ملک کا صدر یا وزیرِاعظم فوت ہو تو حکومت کے خزانہ کو اس کے ورثہ میں تقسیم کر دیا جائے کیا اس کی کوئی نظیر دنیا میں ملتی ہے ظاہر ہے قومی خزانہ یا بیتُ المال پر حاکم کا قبضہ مالکانہ نہیں ہوا کرتا کہ اس میں میراث کا قانون جاری کیا جائے لہٰذا ان آیات کا کوئی محل اور مورد ہی نہیں ملتا تو ان پر عمل کیسے ہوتا۔

لہٰذا نبی کریمﷺ نے مال جمع کیا نہ ترکہ چھوڑا نہ تقسیمِ میراث کا سوال پیدا ہوا حقیقت یہی ہے اور افسانوں کا کیا اعتبار۔

ذریتِ رسولﷺ

انسان جب اس درجہ جری ہو جائے گی قرآنِ کریم کہ بیان کردہ تاریخی حقائق کا انکار کر دینے میں اور نہ سمجھے تو اس کے لیے کسی حقیقت کا انکار کر دینا کہاں مشکل ہوتا ہے قرآنِ حکیم نے نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کو اہلِ بیتؓ کی ترکیب سے خطاب کر کے تفصیلی ہدایات دیں یار لوگوں نے صاف انکار کر دیا اور کتاب اللہ لغت محاورہ اور عرف سب حدود کو پھاند گئے۔

ازواج کے بعد اولاد کا نمبر آتا ہے تو یہی روش اس ضمن میں بھی اختیار کی کہ نبی کریمﷺ کی بیٹیوں میں سے ایک کو بیٹی تسلیم کیا باقی کا انکار کر دیا اور اس ہٹ دھرمی کے تائید کے لیے ایک طومار گڑھ دیا جس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں نہ مانوں۔

بناتِ رسولﷺ کے سلسلے میں قرآنِ کریم حدیثِ نبویﷺ علم الانساب وغیرہ سے تفصیلی بحث بعد میں آئے گی سب سے پہلے ہم شیعہ کتب سے شواہد پیش کرتے ہیں۔

  1. منتہی الآمال شیخ عباس قمی شیعہ مجتہد طبع جدید مطیع تبریز 1: 108۔109۔

در قرب الاسنا داز حضرت صادق علیہ السلام روایت شدہ است کہ از برائے رسولﷺ از خدیجہؓ متولد شدند طاہر و قاسم و فاطمہؓ و ام کلثومؓ و رقیہؓ و زینبؓ و تزویج نمود فاطمہؓ رابحضرت امیر المومنینؓ و زینب رابابی العاص بن ربیع کہناز بنو امیہ بود وام کلثومؓ رابعثمانؓ بن عفان و پیش ازاں کہ بخانہ عثمانؓ برو برحمت الہٰی واصل شد و بعد ازاد حضرت رقیہ رابا وتزویج نمود۔

قرب الاسناد میں سیدنا جعفرؒ سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے رسول اللہﷺ کے بیٹے طاہر اور قاسم اور بیٹیاں سیدہ فاطمہؓ سیدہ ام کلثومؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ زینبؓ پیدا ہوئی سیدہ فاطمہؓ کا نکاح امیر المومنین سیدنا علیؓ سے ہوا سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابو العاص بن ربیعؓ سے ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے ہوا سیدہ ام کلثومؓ کی وفات کے بعد حضورﷺ نے سیدہ رقیہؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کر دیا۔

2۔ اسی کتاب کے صفحہ 105 پر منہیہ میں لکھتا ہے۔

فرزند نبی قاسم ابراہیم است

پس طاہر و طیب از راہ تعظیم است

یا فاطمہؓ و رقیہؓ و ام کلثومؓ

زینب شمر ارترا سر تعلیم است۔

یعنی شیخ عباس ابو نصر فراہی حضورﷺ کی اولاد امجاد کے متعلق اپنے دو شعروں میں لکھتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے بیٹے قاسم اور ابراہیم ہیں جن کو تعظیم کے طور پر طاہر اور طیب کہتے ہیں پھر (بیٹیوں میں) سیدہ فاطمہؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ کے ساتھ سیدہ زینبؓ کو شمار کر اگر تجھے علم سے کوئی واسطہ ہے۔

2۔ خصائل شیخ صدوق 168:2 پر سیدہ عائشہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا مکالمہ لکھا ہے۔

وقال رسول اللہﷺ‎ یا حمیرا (عائشہؓ) فان اللہ تعالیٰ بارک فی الولود الودود فان خدیجۃ رحمھا اللہ ولدت منی طاھرا وھو عبداللہ وھو المطھرو ولدت منی القاسم و فاطمہؓ ورقیهؓ وام کلثومؓ و زینبؓ۔

اسی خصال کی فارسی شرح میں 188:2 پر لکھتا ہے:

خدیجہؓ کہ خدائش رحمت کندا ذمن دوپسر آورد یک طاہر عبداللہ نام داشت و مطہر لقب داشت دوم قاسم و چہار دختر برائے من آورد فاطمہؓ و رقیہؓ و کلثومؓ و زینبؓ۔

4۔ کشف الغمہ 139:2 طبع جدید مطیع علمیہ قم:

خدیجہؓ اول امرلۃ تزوجھا رسول اللہﷺ‎ و اولاد کلھم منھا الا ابراھیم فانه ماریۃ۔

سیدہ خدیجہؓ پہلی خاتون ہیں جو نبی کریمﷺ کے نکاح میں آئیں اور حضورﷺ کی ساری اولاد انہی کے بطن سے ہے سوائے ابراہیم کے جو سیدہ ماریہؓ کے بطن سے تھے۔

5۔ تمتہ المنتہی 4:1:

ابو العاص بین ربیع قریشی زوج سیدہ زینبؓ دختر رسول ﷺ درسنہ 13 اوفات کرد۔

6۔ مناقب شہر ابنِ آشوب 161:1 طبع جدید:

و اولادہﷺ من خدیجۃ القاسم و عبداللہ وھما الطاہر و الطیب واربع بنات زینبؓ رقیهؓ ام کلثومؓ و فاطمہؓ۔

7۔ تنفیح المقال فی احوال الرجال از علامہ عبداللہ مامقانی شیعہ کی شہرہ آفاق کتاب طبع جدید نجف اشرف 13.52 صفحہ 77:

ان کتب الفریقین مشحونۃ بانھا ولدت للنبیﷺ اربع بنات زینبؓ و ام کلثومؓ و فاطمہؓ و رقیہؓ الی ان قال وبناته فادر کن الاسلام وھاجرن معه واتبعنه وامن به۔

یعنی فریقین (اہلِ سنت اور شیعہ) کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے حضورﷺ کی چار بیٹیاں سیدہ زینبؓ سیدہ ام کلثومؓ سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ رقیہؓ پیدا ہوئیں آپ کی بیٹیاں اسلام لائیں حضورﷺ کے ساتھ ہجرت کی اور حضورﷺ کا اتباع کیا۔

8۔ تنقیح المقال من فصل النساء صفحہ 73:

کانت خدیجهؓ اذ تزوجھا رسول اللہﷺ‎ بنت اربعین سنه و ستۃ اشھر و کان رسول اللہﷺ‎ یومئذ ابن احدی وعشرین سنۃ وولدت له اربع بنات کلھن ادرکن الاسلام وھاجرن وھن زینبؓ و فاطمہؓ و رقیہؓ و ام کلثومؓ۔

یعنی حضورﷺ سے نکاح کے وقت سیدہ خدیجہؓ کی عمر ساڑھے چالیس برس تھی اور حضورﷺ کی عمر اکیس برس سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے حضورﷺ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں سب اسلام لائیں اور سب نے ہجرت کی اور وہ سیدہ زینبؓ سیدہ فاطمہؓ سیدہ رقیہؓ سیدہ ام کلثومؓ۔ 

9۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ 73 پر لکھا ہے:

عن سعدہ بن صدقه قال حدثنی جعفر بن محمد عن ابیه قال ولد لرسول اللہﷺ من خدیجۃؓ القاسمؓ و الطاہرؓ و ام کلثومؓ و رقیہؓ و فاطمہؓ و تزوج ابا العاص بن ربیعہؓ وھو من بنی امیه زینباؓ و تزوج عثمان بن عفانؓ ام کلثومؓ ولم یدخل بھا حتیٰ ھلکت و زوجه رقیہؓ مکانھا۔

سوال یہ کہ منتھی الآمال حضال کشف الغمہ تتمتہ المنتھی مناقب شہر بن آشوب تنفیح المقال وغیرہ کتبِ شیعہ مذہب کی مستند اور چوٹی کی کتابیں ہیں ان میں کہیں سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے حضورﷺ کی چار بیٹیوں کی وضاحت کہیں ان میں سے ہر ایک کے نکاح کا تذکرہ بھی ہے کہیں ان کے نام لے کر چار کی وضاحت موجود ہے پھر شیعہ کس بناء پر یہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی ایک بیٹی تھی۔

اور بناوٹی اور خلافِ حقیقت عقیدہ کی تاریخ کا کھوج لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے بھی نعت رسول کا انکار ابو قاسم کوفی نے کیا جس کی وفات 352 ہجری میں ہوئی یعنی چوتھی صدی ہجری سے پہلے اس انکار کا کوئی نشان نہیں ملتا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ شیعہ کے اہم مسائل جن پر شیعہ مذہب کی رونق کا انحصار ہے وہ نبی کریمﷺ سے صدیوں بعد کی پیداوار ہیں ماتم ہی کو دیکھ لیجئے جس پر شیعہ کی ساری چہل پہل کا مدار ہے صدیوں بعد معز الدولہ کہ عہد میں شروع ہوا۔

ابو قاسم کوفی کی کتاب الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ 90:1 کے حاشیہ پر اس کی رائے خوب تنقید کی گئی ہے چنانچہ لکھا ہے:

وقد خالف صاحب الکتاب فی ھذہ الرأی جماعۃ من اساطین العلماء من الفقھاء والنسا بین ممن لا یستھان بھن منھم العامۃ الشیخ المفید محمد بن محمد بن النعمان البکری بغدادی الی ان قال مانصه ان زینب و رقیہ کانتا ابنتی رسول اللہﷺ والمخالف لذلک شاذ بخلافه۔

یعنی ابو القاسم نے علماءِ فقہ اور نصابین کی ایک بڑی جماعت کے مخالفت کی ہے وہ علماء جو دین شیعہ کے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ابو القاسم کے قول کو تسلیم کرنا اس کثیر جماعت کی توہین ہے ان جید علماء میں شیخ مفید بھی ہیں جن کا صاف عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔

پھر اسی کتاب کے صفحہ 91 پر لکھا ہے:

ھذا رأی الشیخ الجلیل المفید فی ذلک ووافقه تلمیذہ السید الشریف المرتضیٰ علم الھدیٰ وبذلک اتضع الحق۔

یعنی شیخ مفید کے علاوہ اس کے شاگرد سید شریف مرتضیٰ علم الھدیٰ کہ یہی رائے ہے کہ بیٹیاں چار تھیں اس سے حق واضح ہو گیا۔

ابوالقاسم کے اس قول کو رد کرتے ہوئے علامہ عبداللہ مامقانی نے تنفیح المقال صفحہ 79 پر خوب لکھا ہے:

قال ابو القاسم الکوفی فی الاستغاثه فی بدع الثاثه کلام طویل اصرنافیه علی ان زینبؓ التی کانت تحت ابی العاص بن الربیعؓ و رقیہؓ التی کانت تحت عثمانؓ لیستا ببنتی رسول اللہﷺ بل ربیبتاہ ولم یات الا بمازعمه برھانا الی ان قال وان اتعب نفسه الا انه لم یأت الا بمازعمه برھانا الی ان قال وان اتعب نفسه الا انه لم یأت ما یغنی ون تکلف النظر والثبوت وانه کبیت العنکبوت اما اولا فانه یشبه الا جتھاد فی قبال النصوص من الفریقین ون النبیﷺ وعن ائمتنا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ابو القاسم کا یہ قول کہ سیدہ زینبؓ اور سیدہ رقیہؓ بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ تھیں کو بلادلیل محض رائے اجتہاد ہے نصوص کے مقابلے میں اس کی حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں کتبِ فریقین میں حضورﷺ کی چار بیٹیوں پر نصوص موجود ہیں اہلِ سنت کے پاس فرمانِ رسولﷺ موجود ہے اور شیعہ کے پاس ائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ رسول اللہﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔

علامہ مامکانی کی تنقید بجا مگر شیعوں کو کون روک سکتا ہے کہ اماموں کے قول کو رد کر دیں اور ابو القاسم صوفی کے قول کو قبول کر لیں اور شیعوں نے بلاوجہ ابو القاسم کے قول کو ائمہ کے قول پر ترجیح نہیں دی یہ بھی کوئی معمولی آدمی تو نہیں تھا اب اس ابو القاسم کی تصویر شیعہ کتب کے آئینے میں ملاحظہ ہو۔

1۔ تتمتہ المنتہی شیخ عباس قمی صفحہ 309:

ابو القاسم کوفی علی بن احمد بن موسیٰ وفات یافت و اودر آخر عمر مذہبش فاسد شدہ بودو کتابہا بسیار تالیف کردد ہم از کتابہائے ابوالقاسم کوفی کتاب الاستغاثہ است۔

یعنی ابو القاسم نے کتابیں بہت تصنیف کی ہیں مگر آخر میں بے دین ہو گیا تھا واقعی یہ بے دینی کے ہی کرشمے ہیں کہ آدمی ٹھیک دوپہر کے بعد کہہ دے کے آدھی رات ہے اور ایسا کہنے میں اسے کوئی شرم بھی محسوس نہ ہو۔

2۔ شیعہ کتاب نقد الرجال عرف رجال تفرشی از علامہ آقا میر مصطفیٰ طبع طہران 1381 عیسوی:

علی بن احمد ابوالقاسم کوفی رجل من اھل الکوفۃ کان یقول انه من آل ابی طالب و غلافی آخر عمرہ وفد مذھبه وصنف کتب کثیرۃ اکثرھا علی الفساد الی ان قال ثم خلط واظھر مذھب المخمسۃ رأیت له کتبا کثیرا لا یلتفت الیه والمخمسۃ طائفۃ من الغلاۃ یقولون ان سلمانؓ والمقدادؓ و عمارؓ وابا ذرؓ و عمرو بن امیهؓ الغرمی ھم المئکلون لمصالح العالم تعالیٰ اللہ عن ذلک علوا کبیرا۔ (صفحہ 226)

یعنی صاحب نقد الرجال نے شیخ عباس قمی کی تائید ہی نہیں کی اس پر اضافہ یہ کیا کہ ابو القاسم کی اکثر کتب فاسد اور باطل ہیں اس نے دین کو خلط ملط کر دیا بلکہ وہ مخمسہ (پنجتن) کا عقیدہ رکھتا تھا کہ اللہ نے سیدنا سلمانؓ سیدنا مقدادؓ سیدنا عمارؓ سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا عمر بن امیہؓ کو تدبیر کائنات کے اختیار دے دیئمے ہیں اور خود معطل ہو کر بیٹھ گئے ہیں گویا ابو القاسم اونچے درجے کا مشرک تھا ایسے غالی کافر مشرک اور مخبوط الحواس آدمی کی رائے کو شیعہ حضرات ائمہ کے اقوال پر ترجیح نہ دیں تو اور کیا کریں قدر شناسی کا تقاضا یہی ہے۔

صاحب استغاثہ کا مخبوط الحواس ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ان کا ایک بیان ملاحظہ ہو۔

وکان رسول اللہﷺ قد زوج اختھا رقیهؓ من عثمانؓ فبقیت زینبؓ عند ابی العاص بن الربیعؓ بعد ذلک مدۃ یسیرہ ومات عنھا ابو العاصؓ ثم ماتت رقبۃ عند عثمانؓ فخطب بعد موتھا زینبؓ فزوجھا رسول اللہﷺ منه و ماتت عندہ۔

اور نبی کریمﷺ سیدہ رقیہؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کیا اور اس کے کافی مدت بعد تک سیدہ زینبؓ سیدنا ابو العاصؓ کے پاس رہی پھر سیدنا ابو العاصؓ فوت ہوئے پھر سیدہ رقیہؓ کی وفات ہو گئی تو سیدنا عثمانؓ نے سیدہ زینبؓ کی خواستگاری کی اور نبی کریمﷺ نے سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کر دیا اور سیدہ زینبؓ کی وفات سیدنا عثمانؓ کے گھر ہی میں ہوئی۔

اس بیان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کسی نے ترنگ میں آکر کہا تھا "کہ علم سائنسی دریاؤ کہیں کا ٹانکا کہیں لاگت ہے" اسی طرح ابو القاسم کی معلومات بھی دریاؤ ہے اور استغاثہ تو سمندر ہے کہیں کا ٹاؤن کا کہیں لاگت ہے کیونکہ یہ حقیقت مسلم فری کی ہے کہ سیدہ زینبؓ دخترِ رسولﷺ زوجہ سیدنا ابو العاصؓ کی وفات 7 ہجری کے اواخر یا 8 ہجری کے اوائل میں ہوئی اور یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا ابو العاصؓ کی وفات 12 ہجری یا 13 ہجری میں ہوئی جیسا کہ تتمہ المنتہیٰ سے نقل کیا جا چکا ہے مگر اس مخبوط الحواس نے ترتیب ہی الٹ دی سیدنا ابو العاصؓ کو پہلے مار ڈالا اور سیدہ زینبؓ کی باری بعد میں آئی اس سے بھی بڑی حماقت کا اظہار اس وقت کیا جب بہن بھائی کا نکاح جائز رکھا ایسے مخبوط الحواس مجتہد کی بات کو ائمہ کے قول پر ترجیح نہ دیں تو دین شیعہ کی برتری کیونکر ظاہر ہو۔

اسی طرح ابو القاسم اور ایسے ہی کچھ دوسرے شیعہ علماء نے سیدہ خدیجہؓ اور ان کی بہن ہالہ بنتِ خویلد کی وفات کو پہیلی بنا کے رکھ دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہالہ پہلے فوت ہوئی اس کی بیٹیوں کی پرورش سیدہ خدیجہؓ کے گھر میں ہوئی اس بناپ اور وہ بناتِ رسولﷺ کہلائی جانے لگیں حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ پہلے فوت ہوئیں اور ان کی بہن کی وفات ان کے بعد مدینہ میں ہوئی۔

جیسا کہ البدایہ والنہائیہ 128:3:

ثم قال البخاریؒ حدثنا اسماعیل بن خلیل اخبرنا علی بن سحر عن ھشام بن عروہ بن ابیه عن عائشۃؓ قالت استاذنت ھالۃ بنت خویلد اخت خدیجۃؓ علی رسول اللہﷺ‎ فعرف استئذان خدیجۃؓ فارتاع فقال اللھم ہالۃ فغرت فقلت ماتذکر من عجوز من عجائز قریش حمراء الشدقین ھلکت فی الدبر ابدلک اله خیرا منھا وھکذا رواہ مسلم عن سویلد بن سعید عن علی بن سھر وھذا ظاھر۔

بخاریؒ نے کہا ہے کہ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ہالہ بنتِ خویلد نے جو سیدہ خدیجہؓ کی بہن تھی حضورﷺ کے گھر آنے کی اجازت طلب کی حضورﷺ نے سمجھا کہ سیدہ خدیجہؓ اجازت طلب کر رہی ہیں پس حضورﷺ تیار ہوئے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ ہے سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں مجھے غیرت آئی میں نے کہا کہ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو آپ کیا یاد کرتے ہیں جو سرخ چہرے والی تھی زمانہ ہوا کے فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا نعم البدل عطا کر دیا ہے اسی طریقہ کے مسلم نے روایت کی ہے اور ظاہر ہے۔

اس رو وائرس ہے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ:

  1. ہالہ نے نبی کریمﷺ سے اجازت مانگی اور استیذان کا حکم مدینہ میں نازل ہوا۔
  2. سیدہ خدیجہؓ کا انتقال مکہ میں ہی ہو گیا تھا۔
  3. ہالہ کے استیذان کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب سیدہ عائشہؓ بیتِ رسولﷺ میں تھیں۔
  4.  سیدہ عائشہؓ کا نکاح سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد ہوا۔
  5.  ہلکت فی الدھر کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ: سیدہ خدیجہؓ مدتوں پہلے فوت ہو چکی تھیں۔

لیکن یار لوگ پھر بھی بڑے وثوق سے کہا کرتے ہیں کہ ہالہ فوت ہو گئی اور اس کی بیٹیاں سیدہ خدیجہؓ نے اپنے گھر میں پالیں واقعی آدمی لٹھ لے کے عقل کے پیچھے پڑا ہو تو اس سے بھی اونچی باتیں کہہ سکتا ہے۔

ایک بہانہ:

کچھ شیر نما کا کہنا ہے کہ شیعہ کتاب قرب الاسناد کی حدیث میں مسعدہ بن صدقه سنی راوی ہے لہٰذا قابلِ قبول نہیں۔

بظاہر بہانہ تو خوب ہے مگر حقائق اس کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ:

  1. قرب الاسناد کی روایت کو علامہ مجلسی شیعہ نے اپنی کتاب حیات القلوب میں نقل کیا ہے۔
  2. علامہ مامقانی شیعہ نے اپنی کتاب تنقیح المقال میں نقل کیا ہے۔
  3.  یہ روایت سیدنا جعفرؒ سے مروی ہے اور یہ مسعدہ بن صدقہ وہ ہے جو اصحابِ سیدنا جعفر صادقؒ سے ہے سکہ بندرافضی ہے۔
  4. جس مسعدہ بن صدقہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ سنی ہے یا شیعہ وہ سیدنا باقرؒ سے روایت کرتا ہے اور چار بیٹیوں والی روایت کا راوی نہیں۔

5تنقیح المقال میں تذکرہ مسعدہ بن صدقہ میں ہے کہ:

مسعدہ بن صدقه یکنی ابا بشر روی عن ابی عبداللہ وابی الحسن له کتب منھا کتب خطب امیر المومنین فظاہر النجاشی من حیث عدم غمزہ فی مذھبه مسعدہ بن صدقه دو ھیں: احدھما یروی عن الباقرؒ وھو العاصی تبری والا خری یروی عن الصادق والکاظم والذی یروی عن الباقرؒ تبری۔

مسعدہ بن صدقه جسکی کنیت ابو بشر ہے یہ روایت کرتا ہے کہ سیدنا جعفرؒ سے ابو الحسن سے اس کی کتابیں ہیں ان سے امیر المومنین کے خطبے بھی ہیں اور علامہ نجاشی نے اس کے مذہب پر کوئی تنقید نہیں کی مسعدہ بن صدقہ دو ہیں ایک سیدنا باقرؒ سے روایت کرتا ہے یہ سنی ہے تبری مذہب کا ہے دوسرا سیدنا جعفرؒ اور موسیٰ کاظم سے اور جو سیدنا جعفرؒ سے روایت کرتا ہے وہ تبری فرقہ کا ہے یا سنی ہے۔

روضہ کافی اور فروع کافی میں مسعدہ بن صدقہ سیدنا جعفرؒ کی حدیث کا راوی ہے اسی طرح تہذیب الاحکام میں باب فضل المساجد اور باب وصیت میں مسعدہ بن صدقہ راوی سیدنا جعفر صادقؒ کا ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ مسعدہ سیدنا باقرؒ سے روایت کرتا ہے وہ تبری فرقہ کا ہے جو شیعہ فرقہ میں سے ہے (ملاحظہ ہو فرق الشیعہ از علامہ نو بختی شیعہ) یا سنی ہے اور جو سیدنا جعفرؒ سے روایت کرتا ہے وہ شیعہ ہے اور یہ چار بیٹیوں والی روایت اس مسعدہ کی ہے جو شیعہ ہے اور سیدنا جعفرؒ سے روایت کہتا ہے اور قرب الاسناد روایت میں وہی مسعدہ جو سیدنا جعفرؒ سے روایت کرتا ہے اور شیعہ ہے لہٰذا یہ محض فرار کی راہ ہے کہ مسعدہ کو سنی کہہ کر اس کی روایت سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔

بناتِ رسولﷺ کے سلسلے میں مہمات کتبِ شیعہ سے اقتباس دینے کے بعد ہم اس مسئلہ کو قرآن کریم علم انساب اور تاریخ کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔