مسلمانوں کے ملک میں غیر مسلموں کو آزادی کی حدود
مسلمانوں کے ملک میں غیر مسلموں کو آزادی کی حدود
حضرت عبدالرحمٰن بن غنمؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت عمر بن خطابؓ نے اہلِ شام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تو میں نے آپ کے لیے یہ معاہدہ صلح تحریر کیا۔
(بسم اللہ الرحمٰن الرحيم)
یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے بندے عمر امیر المؤمنین (رضی اللہ عنہ) کے لیے فلاں فلاں شہر کے نصاریٰ کی طرف سے تحریری معاہدہ ہے کہ جب آپ لوگ ہمارے پاس آئے تو ہم نے آپ سے اپنی جانوں، اپنی اولاد اپنے اموال اور اپنی ملت والوں کے لیے امان طلب کی اور ہم نے اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یہ معاہدہ کیا ہے کہ ہم اپنے شہر اور اس کے گرد و نواح میں کوئی نیا معبد، گرجا گھر یا راہب کے لیے نیا عبادت خانہ نہیں بنائیں گے اور جو ان میں سے خراب خستہ ہو گیا ہے اس کی تعمیر نو نہیں کریں گے اور مسلمانوں کی حدود میں ان میں سے کوئی چیز بھی آباد نہیں کریں گے۔ اور یہ کہ ہم کسی مسلمان کو دن رات کسی وقت بھی اپنے عبادت خانوں میں آنے سے نہیں روکے گے، اور ان عبادت خانوں کے دروازے مسافروں اور راہ گیروں کے لیے کشادہ کریں گے، اور یہ کہ ہم آنے والے مسلمانوں کی تین دن مہمان نوازی کریں گے۔ اور ان کو کھانا کھلائیں گے، اور یہ کہ ہم اپنے گرجا گھروں اور اپنے مکانات میں کسی جاسوس کو امان نہیں دیں گے، اور مسلمانوں سے کینہ نہیں رکھیں گے ،اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور یہ کہ ہم شرک کا اظہار نہیں کریں گے، اور شرک کی طرف کسی کو دعوت نہیں دیں گے، اور اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام قبول کرنے سے منع نہیں کریں گے اگر وہ مسلمان ہونے کا خواہش مند ہو۔ اور یہ کہ ہم مسلمانوں کی توقیر (عزت) کریں گے، اگر مسلمان آ کر بیٹھنا چاہیں تو ہم ان کے لیے اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، اور یہ کہ ہم مسلمانوں کے لباس ٹوپی، امامہ اور جوتے پہننے اور مانگ نکالنے میں ان کے ساتھ مشابہت اختیار نہیں کریں گے، اور ان کی زبان نہیں بولیں گے، اور ان جیسی کنیت نہیں رکھیں گے، زین پر سوار نہیں ہوں گے، تلواریں نہیں لٹکائیں گے، اور کوئی اسلحہ و ہتھیار نہیں رکھیں گے، اور نہ اپنے ساتھ اٹھائیں گے، اور اپنی انگوٹھیوں پر عربی زبان کندہ نہیں کرائیں گے، اور شراب نہیں بیچیں گے، اور یہ کہ ہم اپنے سروں کے اگلے حصے کے بال کاٹیں گے، اور یہ کہ ہم ہر جگہ اپنے لباس کے پابند ہوں گے، اور یہ کہ ہم اپنی کمر پر زنار باندھ کر رکھیں گے، اور یہ کہ ہم اپنی صلیبیں اور کتابیں مسلمانوں کے راستے میں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم اپنے گرجا گھروں پر صلیب کا نشان ظاہر نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے گرجا گھروں میں ناقوس نہیں بجائیں گے، اور یہ کہ ہم تہوار منانے کے لیے باہر نہیں نکلیں گے، اور یہ کہ ہم اپنے مردوں پر آوازیں بلند نہیں کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی بھی راستے میں ان کے ساتھ آگ کو ظاہر نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قریب نہیں دفنائیں گے، اور جو غلام مسلمانوں کے حصے میں آ چکا ہو اس کو نہیں پکڑیں گے، اور یہ کہ ہم مسلمانوں کی رہنمائی کریں گے، اور ان کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔
راوی (سیدنا عبدالرحمٰن بن غنمؓ) فرماتے ہیں کہ جب میں سیدنا فاروق اعظمؓ کے پاس یہ صلح نامہ لے کر حاضر ہوا تو انہوں نے اس میں یہ اضافہ فرمایا اور یہ کہ ہم معاہدے کی جان اور اہلِ ملت کے تحفظ کی شرط پر پابندی کریں گے، اور ہم مسلمانوں کی دی گئی امان کو قبول کرتے ہیں پس اگر ہم نے اپنے معاہدے کی کسی بھی بات کی خلاف ورزی کی تو ہم خود اپنے ذمہ دار ہوں گے، اور ہمارے لیے کوئی ذمہ (امان و عہد) نہیں ہو گا پھر تمہارے لیے وہ سب کچھ حلال ہو گا جو معاندین اور مخالفین کے لیے ہوتا ہے۔
(فقہ حنفی قرآن و سنت کی روشنی میں: جلد، 2 صفحہ، 359)