Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تعداد بنات رسولﷺ

  مولانا اللہ یار خانؒ

تعداد بناتِ رسولﷺ

  يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزۡوَٲجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ يُدۡنِينَ عَلَيۡہِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّۚ الخ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 59)۔

  1. لفظ بنات جمع قلت ہے جس میں نو تک تعداد آسکتی ہے ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی:             
  2.  نزولِ آیت کے وقت حضور اکرمﷺ کی جوان بالغہ بیٹیاں تھیں جنہیں پردہ کا حکم دیا گیا ان دونوں امور کی تاویل کر کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

لفظ بنات جمع کا صیغہ محض تعظیم کے لیے ہے مراد صرف ایک بیٹی سیدہ فاطمہؓ ہے۔                     

الجواب: آیت میں احکام تکلیفیہ بیان ہو رہے ہیں عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے یہ مقام مدح و ثنا نہیں ہے ہاں کوئی قرینہ موجود ہو تو مراد لیا جا سکتا ہے مگر یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں۔                

 نبی کریمﷺ کی نواسیوں یعنی سیدہ فاطمہؓ کی بیٹیوں کی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ الجواب: نزولِ آیت کے وقت کوئی جوان بالغہ نواسی موجود نہیں تھی یہ تکلیفی خطاب ہے غیر مکلف مخاطب نہیں ہو سکتا۔              

لفظ اِبن اور بِنت اور اسکی جمع بنات بیٹی نواسی وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے ہاں اگر لفظ ولد ہوتا تو صرف حقیقی بیٹیاں مراد ہوتیں۔

الجواب: حصہ اول کا جواب اوپر نمبر 2 کے تحت آ چکا ہے رہا لفظ ولد تو یہ ہمیشہ حقیقی بیٹیوں کے لئے نہیں بولا جاتا قرآنِ مجید میں متنبیٰ ادعائی بیٹوں پر بھی یہ لفظ بولا گیا کما قال اللہ تعالیٰ:

وَقَالَ ٱلَّذِى ٱشۡتَرَٮٰهُ مِن مِّصۡرَ لِٱمۡرَأَتِهِ أَڪۡرِمِى مَثۡوَٮٰهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ أَوۡ نَتَّخِذَهُ الخ۔ (سورة یوسف آیت نمبر 21)۔ 

وَقَالَتِ ٱمۡرَأَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَيۡنٍ۬ لِّى وَلَكَ‌ۖ لَا تَقۡتُلُوهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ أَوۡ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا الخ۔ (سورة القصص آیت نمبر 9)۔

 دونوں موقعوں پر لفظ ولد بولا گیا اور مراد متنبیٰ ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ لفظ بنات حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور حضور اکرمﷺ کی ایک سے زیادہ بیٹیاں تھیں اب یہ دیکھنا ہے کہ کتنی تھیں۔      

  1.  آیت میں لفظ بنات ہے جو جمع قلت ہے اس لئے آیت سے صاف ظاہر ہے کہ تین سے زیادہ بیٹیاں تھیں۔        
  2.  اصولِ کافی معہ شرح صافی باب التاریخ جلد 1 صفحہ 147:     

وتزوج خدیجہؓ وھو بضع عشرین سنۃ فولد لہ منھا قبل مبعثہ القاسمؓ ورقیہؓ و زینبؓ و ام کلثومؓ و ولد لہ بعد المبعث الطیب والطاھرؓ والفاطمہؓ۔     

ترجمہ: جب حضورﷺ کی عمر بیس برس سے کچھ اوپر تھی سیدہ خدیجہؓ سے نکاح ہوا اور بعثت سے قبل سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے آپ کے لڑکے قاسم اور لڑکیاں سیدہ رقیہؓ سیدہ زینبؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد طیب طاہر اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئے۔

شارح نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:      

پس زادہ شد برائے اواز خدیجہؓ پیش از رسالت او قاسمؓ و رقیہؓ وزینبؓ و امِ کلثومؓ وزادہ شد برائے او بعد از رسالت او طیبؓ و طاہرؓ و فاطمہؓ۔                      

اصولِ کافی کے بیان سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کی چار بیٹیاں تھیں جو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے ہوئیں۔ (3)۔ تذکرہ مسلمین صفحہ 6: 

تزوج خدیجہؓ وھو ابن بضع و عشرین سنۃ فولدت لہ قبل مبعثہ رقیہؓ و امِ کلثومؓ و زینبؓ۔                  

ترجمہ: جب حضورﷺ کی عمر بیس برس سے کچھ زائد تھی سیدہ خدیجہؓ سے نکاح ہوا اور بعثت سے پہلے سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے حضورﷺ کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ زینبؓ۔

 حیات القلوب جلد 1 صفحہ 79 از ملا باقر مجلسی:

و بسند معتبر منقول است کہ سلیمان بن خالد بحضرت صادقؒ عرض کرد کہ فدائے توشوم مردم گویند کہ آدم دختر خودرا بہ پسران خود تزویج کرد فرمود کہ بلے مردم چنین می گویند لیکن اے سلیمان مگر نمیدانی کہ رسولِ خداﷺ فرمود کہ اگر میدانستم کہ آدم دخترش بہ پسرش نکاح کردہ ہر آئینہ من زینبؓ را قاسم می کردم ودین آدم را ترک نمی کردم۔               

ترجمہ: معتبر سند کے ساتھ نقل ہے کہ سلیمان بن خالد نے سیدنا جعفر صادقؒ سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لڑکیوں کے نکاح اپنے بیٹوں کے ساتھ کئے فرمایا ہاں لوگ ایسے ہی کہتے ہیں مگر سلیمان تجھے علم نہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ‎ نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے سے کیا تو میں سیدہ زینبؓ کا قاسم سے کرتا اور دینِ آدم کو ترک نہ کرتا۔                        

اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدہ زینبؓ سیدنا قاسم ابنِ رسول اللہﷺ کی حقیقی بہن تھیں یہ قولِ رسول اللہﷺ ہے اور بیان کرنے والے سیدنا جعفر صادقؒ ہیں۔        

 استبصار جلد 1 صفحہ 245:           

 فقال ابو عبداللہ وان زینبؓ بنتِ النبیﷺ توفیت وان فاطمہؓ خرجت فی نساءھا فصلت علی اختھا۔                      

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا کے سیدہ زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ فوت ہوئی تو سیدہ فاطمہؓ عورتوں کے ساتھ گھر سے نکلیں اور اپنی بہن کا جنازہ پڑھا۔

سیدنا جعفر صادقؒ نے اس روایت میں سیدہ زینبؓ کو۔

  رسول اللہﷺ کی حقیقی بیٹی فرمایا۔ ب۔ سیدہ زینبؓ کو سیدہ فاطمہؓ کی حقیقی بہن فرمایا۔ ج۔ سیدہ فاطمہؓ کا اپنی بہن کے جنازہ کے لئے گھر سے نکلنا ذکر کیا۔                

 خصال شیخ صدوق جلد 2 صفحہ 167:     

عن ابی عبداللہ قال ولد رسول اللہﷺ عن خدیجہؓ القاسمؓ والطاھرؓ و عبداللہؓ وامِ کلثومؓ ورقیہؓ و زینبؓ و فاطمہؓ وتزوج علی بن ابی طالب فاطمہؓ وتزوج ابوالعاصؓ بن الربیع وھو رجل من بنی امیہ زینبؓ تزوج عثمان بن عفانؓ ام کلثومؓ فماتت ولم یدخل بھا فلما ساروا الی بدر زوجہ رسول اللہﷺ رقیہؓ ثم قال رسول اللہﷺ یا حمیرا فان اللہ تبارک وتعالیٰ بارک فی الودود المولود و ان خدیجہؓ رحمھا اللہ ولدت منی طاھرا وھو عبداللہ وھو المطھر ولدت منی القاسم وفاطمہؓ و رقیہؓ و امِ کلثومؓ و زینبؓ۔                

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ سیدہ خدیجہؓ سے حضور اکرمﷺ کے دو بیٹے سیدنا قاسمؓ اور سیدنا طاہرؓ اور چار بیٹیاں سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ زینبؓ اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدہ علیؓ بن ابی طالب سے ہوا سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابوالعاصؓ بن الربیع اموی سے ہوا سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوا رخصتی سے پہلے وہ فوت ہوگئی پھر حضور اکرمﷺ نے سیدہ رقیہؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کر دیا جب بدر کی طرف جانے لگے پھر حضورﷺ نے فرمایا اے حمیرا (سیدہ عائشہؓ) اللہ نے اس عورت میں برکت رکھی ہے جو بچوں سے محبت کرتی ہے اور سیدہ خدیجہؓ اللہ اس پر رحم کرے اس سے میرے بیٹے سیدنا طاہرؓ اور سیدنا قاسمؓ اور میری بیٹیاں سیدہ فاطمہؓ سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ زینبؓ پیدا ہوئیں۔        

اس روایت سے معلوم ہوا کہ:

  1.  حضور اکرمﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے اپنی چار بیٹیوں کے نام سیدہ عائشہؓ کے سامنے بیان فرمائے۔ ب۔ حضورﷺ نے یہ بھی بتایا کہ یہ میری ساری بیٹیاں سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔       
  2. پھر سیدہ خدیجہؓ کے لئے دعا فرمائی۔         
  3.  سیدنا جعفر صادقؒ نے نہ صرف چار بیٹیوں کے نام لئے بلکہ ان کے نکاح کی تفصیل بھی بتائی۔                
  4.  سیدنا جعفر صادقؒ نے اس روایت کی تصدیق فرمائی۔

حیات القلوب جلد 2 صفحہ 718: 

بہ سند معتبر از حضرت صادقؒ روایت کردہ است کہ از برائے رسول خداﷺ متولد شدند طاہرؓ و قاسمؓ و فاطمہؓ و امِ کلثومؓ و رقیہؓ و زینبؓ و فاطمہؓ را آنحضرت امیر المومنین تزویج نمود و تزویج کردبا ابوالعاص بن ربیعہ کہ از بنی امیہ بود زینبؓ راو بعثمان بن عفانؓ امِ کلثومؓ را و پیش از آنکہ بخانہ آں رود برحمت الٰہی واصل شد و بعد از و حضرت رقیہؓ رابا و تزویج نمود۔  

 حیات القلوب جلد 2 صفحہ 718:  

وابن بابویہ بہ سند معتبرآں روایت کردہ است کہ از برائے رسول خداﷺ متولد شد از خدیجہؓ قاسمؓ و طاہرؓ و نام طاہر عبد اللہ بودوام کلثومؓ و رقیہؓ و زینبؓ و فاطمہؓ حضرت امیر المومنینؓ فاطمہؓ را تزویج نمود و زینبؓ را ابو العاصؓ بن ربیعہ واومردے بوداز بنی امیہ و عثمانؓ بن عفان امِ کلثومؓ را تزویج نمود و پیش از آنکہ بخانہ او برد برحمت الٰہی واصل شد پس بجنگ بدر رفتند حضرت رسول خداﷺ رقیہؓ را باو تزویج نمود۔         

ملا باقر مجلسی کی بیان کردہ ان دو روایات سے ثابت ہوا۔                     

  1. سیدنا جعفر صادقؒ کا ایمان ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی چار بیٹیاں سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے ہوئیں ان کے نام سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ فاطمہؓ ہیں۔  
  2.  سیدنا جعفر صادقؒ نے ان کے نام ہی نہیں لئے بلکہ ان کے نکاح کی تفصیل بھی بیان فرمائی۔
  3. ملا باقر نے ان روایات کی سند کو معتبر قرار دیا۔  
  4. حضور اکرمﷺ کو سیدنا عثمانؓ بہت محبوب تھے اس لئے اپنی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے ان کے نکاح میں دے دیں اگر حضورﷺ کو سیدنا عثمانؓ کے خلوص اور ایمان کے متعلق شبہ بھی ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرتے اگر کوئی کج فہم یہ کہے کہ حضورﷺ نے ڈر کے مارے ایسا کیا یا تقیہ کیا یا مال و دولت کے لالچ میں یہ کیا تو ایسا شخص نہ شانِ رسالت سے واقف ہے نہ اس کا رسولﷺ پر ایمان ہے۔           

 حیات القلوب جلد 2 صفحہ 330: 

شیخ طبرسی و علی بن ابراہیم قمی و دیگراں روایت کردہ اند واز جملہ آں ہا عثمانؓ بود و رقیہؓ دختر حضرت رسولﷺ کے زن او بود۔    

علامہ طبرسی و علی بن ابراہیم قمی جو سیدنا حسن عسکری کا شاگرد ہے دونوں اقرار کرتے ہیں کہ سیدہ رقیہؓ حضرت رسول کریمﷺ کی بیٹی تھی اور سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں تھی۔      

 حیات القلوب جلد 2 صفحہ 89: 

ملا باقر مجلسی نے سیدہ عائشہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جس کے بعد رسول اکرمﷺ نے سیدہ عائشہؓ کو خطاب کر کے فرمایا:                      

پس حضرت رسول اللہﷺ درخشم شد و گفت بس کن ای حمیراؓ کہ خدا برکت میدہد زنے راکہ شوہر رابسیار دوست داردو بسیار فرزند آورد و خدیجہؓ خدا اور رحمت کنداز من طاہرؓ و مطہر رابہم رسانید کہ او عبداللہؓ بود و قاسمؓ را آورد و رقیہؓ و فاطمہؓ و زینبؓ و امِ کلثومؓ از و بہم رسید۔            

 حیات القلوب جلد 2 صفحہ 391 بدر کے قیدیوں کہ فدیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:  

تا آنکہ زینبؓ دختر رسول اللہﷺ کہ زوجہ ابو العاصؓ بن ربیعہ بود گردن بند خود راکہ حضرت خدیجہؓ باد دادہ بود برائے فدیہ شوہر خود ابو العاصؓ فرستاد۔ 

اس حدیث کو شیخ طبرسی نے اخراج کیا ہے جو معتبر علمائے شیعہ سے ہے شیخ طبرسی اور ملا باقر مجلسی کا اقرار ہے کہ سیدہ زینبؓ رسول خداﷺ کی بیٹی تھی۔  

مندرجہ بالا گیارہ اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ:

  1.  قرآن مجید کی آیت سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ کی بیٹیاں تین سے زیادہ تھیں۔   
  2.  حضور اکرمﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ سیدہ خدیجہؓ سے میری چار بیٹیاں سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔
  3. سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ رسول خداﷺ کی چار بیٹیاں تھیں جو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔
  4. سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ زینبؓ کو سیدنا جعفر صادقؒ نے حقیقی بہن فرمایا اب اگر کوئی کہے کہ رسولﷺ کی ایک ہی بیٹی تھی تو اول وہ قرآن کی آیت پیش کرے کہ ایک ہی بیٹی تھی پھر رسولﷺ کا قول پیش کرے کہ میری ایک ہی بیٹی تھی پھر سیدنا جعفر صادقؒ کا قول پیش کرے کہ حضورﷺ کی ایک ہی بیٹی تھی اگر ایسا نہ کر سکے اور یقیناً نہیں کر سکتا اور پھر بھی اس بات پر اصرار کرے کہ حضورﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی تو ایسا شخص سیدنا جعفر صادقؒ کا مخالف رسول اللہﷺ کا مخالف اور قرآن کا منکر ہے۔   

اب ذرا شیعہ محدث سید نعمت اللہ کی زبانی یکجا تفصیل سنئے:          

انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 124:     

فاول امرأة تزوجها خديجةؓ بنتِ خويلد وكانت قبله عند عتيق بن عائذ المخزومی فولدت له جارية ثم تزوجها ابو هالة إلاسدى فولدت له هند بن ابى هاله ثم تزوجها رسول اللهﷺ و ربى ابنها هند فاول ماحملت ولدت عبدالله بن محمد و الطيب و الطاهر ولدت له القاسم اكبر ولده إلى أن قال و انما ولدت له ابنان و أربع بنات زينبؓ و رقيهؓ و ام كلثومؓ و فاطمهؓ فاما زينبؓ بنت رسول اللهﷺ فتزوجها ابو العاص بن الربيع فى الجاهلية فولدت له جارية اسمها امامة تزوجها علىؓ ابن ابى طالب بعد وفات فاطمةؓ و قتل أمير المؤمنين عليه السلام و عنده أمامة فخالف عليها بعده المغيرة بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب وماتت زينبؓ بالمدينة لسبع سنين من الهجرة واما رقيهؓ فتزوجها عتبة بن ابى لهب فطلقها قبل أن يدخل بها ولحقها منه اذىٰ فقال اللهم سلط على عتبة كلبا من كلابك فتناوله الاسد من بين اصحابه و تزوجها بعده بالمدينة عثمانؓ بن عفان فولدت له عبدالله و مات صغيرا نقره ديك على عينيه فمرض فمات و توفيت بالمدينة زمان بدر فتخلف عثمانؓ على دفنها منعه ذلك ان شهد بدر وقد كان عثمانؓ هاجر الى حبشة و معه رقيةؓ واما امِ كلثومؓ فتزوجها ايضاً عثمانؓ بعد اختها رقيةؓ و توفيت عنده الى ان قال وقد تقدم اختلاف اصحابنا فى ان رقيهؓ ام كلثومؓ هل همار بيبتاہ ام ابنتاه و الحال عندنا لا يتفاوت لان عثمانؓ فی زمن النبیﷺ كان مظهر الاسلام وكان النبیﷺ يريد تاليف قلوبهم و دخول الاسلام إليها فكان يلاطفهم بانواع اللطائف من الأموال والمناكحات وغيره۔ 

ترجمہ: پہلی عورت جس سے رسول کریمﷺ نے نکاح کیا سیدہ خدیجہؓ تھی آپﷺ سے پہلے سیدہ خدیجہؓ کا نکاح عتیق سے ہوا تھا اس سے ایک لڑکی ہوئی پھر ابوہالہ اسدی سے نکاح ہوا اور اس سے ایک لڑکا ہند ہوا پھر حضورﷺ سے نکاح ہوا اور اس کے لڑکے ہند نے حضورﷺ کے گھر پرورش پائی اس سے حضورﷺ کے لڑکے قاسم اور طاہر ہوئے سیدہ خدیجہؓ سے حضورﷺ کے دو لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں سیدہ زینبؓ سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابو العاصؓ بن ربیعہ سے زمانہ جاہلیت میں ہوا اسکی بیٹی سیدہ امامہؓ پیدا ہوئی جس سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے وفاتِ سیدہ فاطمہؓ کے بعد نکاح کیا جب امیر المومنین قتل کئے گئے سیدہ امامہؓ ان کے گھر تھی پھر اس سے سیدنا مغیرہؓ بن نوفل نے نکاح کیا اور سیدہ زینبؓ 7 ہجری میں مدینہ میں فوت ہوئی سیدہ رقیہؓ کا نکاح عتبہ بن ابی طالب سے ہوا رخصتی سے پہلے اس نے طلاق دے دی حضورﷺ کو اس سے ایذا پہنچی تو فرمایا کہ اللہ اس پر اپنا کوئی کتا مسلط کر چنانچہ شیر اسے کھا گیا پھر سیدہ رقیہؓ کا نکاح مدینہ میں سیدنا عثمان بن عفانؓ سے ہوا اس سے ایک لڑکا عبداللہ ہوا جسے بچپن میں ہی مرغ نے آنکھوں کے درمیان ٹھونگ ماری وہ بیمار ہوا اور بدر کے زمانہ میں مدینہ میں فوت ہوا سیدنا عثمانؓ اسکی تجہیز و تکفین کی وجہ سے بدر کی جنگ میں شامل نہ ہو سکے اور سیدنا عثمانؓ نے حبشہ ہجرت کی تو سیدہ رقیہؓ ساتھ تھی اور سیدہ رقیہؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ کا نکاح سیدہ امِ کلثومؓ سے ہوا وہ انہی کے گھر فوت ہوئیں      

اس بارے میں شیعوں کے اختلاف کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ کیا سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ رقیہؓ ربیبہ تھیں یا بیٹیاں ہمارے نزدیک اس میں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ حضورﷺ کے زمانہ میں سیدنا عثمانؓ نے اسلام کا اظہارِ کیا اور حضورﷺ کی ایسے لوگوں کی تالیفِ قلب اموال اور مناکحات سے کیا کرتے تھے۔

انوارالنمانيہ کی اس عبارت سے ذیل کے امور ثابت ہوئے:

  1.  سیدہ خدیجہؓ کا پہلا نکاح عتیق بن عائذ سے ہوا جس سے ایک لڑکی پیداہوئی (ہندہ)۔                       
  2.  نکاحِ ثانی ابوہالہ سے ہوا جس سے صرف ایک لڑکا پیدا ہوا "ہند" جس نے حضورﷺ کے گھر پرورش پائی۔یعنی سیدہ خدیجہؓ جب حضورﷺ کے نکاح میں آئیں تو ان کی کوئی لڑکی موجود نہ تھی جن کو ربیبہ بنایا جاتا صرف ایک لڑکا ہند تھا جس کی پرورش حضورﷺ کے ہاں ہوئی۔          
  3.  حضورﷺ کے نکاح میں آنے کے بعد سیدہ خدیجہؓ سے چار لڑکیاں پیدا ہونے کا ذکر کیا ہے سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ فاطمہؓ۔ 
  4. سیدہ زینبؓ کی وفات 7ھ میں ہوئی اور حیات القلوب جلد 2 صفحہ 719 کے مطابق سیدہ امِ کلثومؓ کی وفات بھی 7ھ میں ہوئی اور سیدہ رقیہؓ تو سیدہ ام کلثومؓ سے پہلے فوت ہوچکی تھیں۔
  5. ابتداء میں صاحبِ انوار النعمانیہ نے اقرار کیا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ سے حضورﷺ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔پھر تین کو ربیبہ بنانے کا کیا مطلب کیا اپنی بیٹی کو بھی ربیبہ بنایا یا کہا جاتا تھا۔                      

اس سے ایک اور بات بھی واضح ہوگئی کہ عیسائیوں سے مباہلہ کے موقع پر جو باہر آئی بیٹی وہی تھی اگر اور بیٹیاں ہوتیں تو وہ کیوں نہ باہر آتیں؟ بات یہ ہے کہ آیت مباہلہ 9ھ کے آخر میں نازل ہوئی اور حضورﷺ کی تین بیٹیاں 7ھ میں وفات پاچکی تھیں اب مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے قبر سے کیوں کر باہر آتیں۔ حضور اکرمﷺ کی حقیقی بیٹیوں کو ربیبہ کہنے کا تکلف اس لئے کیا گیا کہ کہیں سیدنا عثمانؓ کامل الایمان قرار نہ دیے جائیں۔                       

دوسرا پہلو یہ اختیار کیا گیا کہ ان تین بیٹیوں کو سیدہ خدیجہؓ کی ہمشیر زاد بتایا گیا مگر باب اول میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کی حقیقی بہن صرف ہالہ تھی اس کا ایک بیٹا ابوالعاص تھا کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔    

ملا باقر مجلسی نے دونوں قول نقل کر کے خود ان کی تردید کر دی۔ 

حیات القلوب جلد 2 صفحہ 719: 

قول اول: کہ رقیہؓ و امِ کلثومؓ دخترانِ خدیجہؓ بودند از شوہر دیگر کہ پیش از حضرت رسولﷺ داشتہ بود و حضرت ایشاں تربیت کردہ بود۔  

ترجمہ: سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ خدیجہؓ کی بیٹیاں تھیں سابقہ خاوندوں سے اور رسولِ خداﷺ نے صرف انکی تربیت کی تھی۔   

قول دوم: بعض گفتہ اند کہ دختران ہالہ خواہر خدیجہؓ بودند جواب دیا وبرنفی ایں دو قول روایات معتبرہ دلالت میکنند۔            

ترجمہ: بعض کہتے ہیں کہ سیدہ خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں ان دونوں قولوں کی تردید اور نفی معتبر روایات اور احادیث سے ہوتی ہے۔

اور حیات القلوب جلد 2 صفحہ 723 پر سیدنا باقرؒ سے بہ سند صحیح مرقوم ہے:

وابنِ ادریس بہ سند صحیح از امام باقرؒ روایت کردہ است کہ حضرت رسول خداﷺ‎ دختر بدو منافق داد یکے ابوالعاصؓ پسر ربیعہ وآں دیگرے کہ عثمانؓ بود۔

ترجمہ: ابنِ ادریس نے صحیح کے ساتھ سیدنا باقرؒ سے روایت کی ہے کہ حضورﷺ‎ نے دو منافقوں کو بیٹیاں دیں سیدنا ابوالعاصؓ بن ربیع دوسرا سیدنا عثمانؓ تھا۔

ابنِ ادریس نے سیدنا باقرؒ سے جو روایت کی ہے اس کا پہلا حصہ ایک حقیقت کا اقرار ہے دوسرا حصہ سیدنا باقرؒ کے ذمے تہمت ہے سیدنا باقرؒ سے یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ کوئی ایسی بات فرمایئں جس سے شانِ رسالت کی توہین ہوتی ہو۔ 

باقر مجلسی کے قولِ دوم کے متعلق سید ابو القاسم کوفی کا مضحکہ خیز بیان دیکھئے۔

الاستغاثہ جلد 1 صفحہ 81:

والابنتان طفلتان و کان فی حدثان بتزویج كانت هاله أخت خديجةؓ فقيرة وكانت خديجةؓ من الأغنياء المومنين بكثرة المال فأما هند بن ابى هاله فإنه لحق بقومه وعشيرته بالبادية وبقيت طفلتانِ عند أمها هالة أخت خديجةؓ فضمت خديجةؓ اختها هالة مع الطفلتين إليها وكفلت جميعهم وكانت هالة أخت خديجةؓ هى الرسول بين خديجةؓ وبين رسول اللهﷺ‎ فى حال التزويج فلما تزوج رسول اللهﷺ‎ بخديجةؓ ماتت هالة بعد ذلك بمدة يسيرة و خلفت طفلين زينبؓ و رقيهؓ فى حجر رسول اللهﷺ‎ وحجر خديجةؓ فربهما۔

ترجمہ: حضور اکرمﷺ سے نکاح کے وقت سیدہ خدیجہؓ کی دو خورد سالہ دو لڑکیاں تھیں اور ہالہ ہمشیرہ سیدہ خدیجہؓ غریب تھی اور سیدہ خدیجہؓ مالدار تھیں پس ہند بن ابی ہالہ اپنے قبیلہ کے ساتھ جنگل میں چلا گیا اور یہ خورد سالہ دو لڑکیاں اپنی ماں کے پاس رہ گئیں جو ہالہ بنتِ خویلد ہمشیرہ سیدہ خدیجہؓ تھی سیدہ خدیجہؓ نے اپنی بہن ہالہ اور اس کی دونوں بچیوں کو اپنے گھر رکھ لیا اور ان کی کفالت کرنے لگی سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ حضورﷺ کے نکاح میں یہ ہی ہالہ وکیل تھی جب حضورﷺ کا سیدہ خدیجہؓ سے نکاح ہوگیا تو کچھ عرصہ بعد ہالہ مر گئی اور یہ دونوں لڑکیاں سیدہ زینبؓ اور سیدہ رقیہؓ حضورﷺ کے گھر سیدہ خدیجہؓ کے پاس پرورش پاتی رہیں۔

استغاثہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ناول نگار کسی مخصوص مقصد کی بنا پر اپنے ذہن میں ناول کا ایک ڈھانچہ تیار کرچکا ہے اب اس کے لئے اپنی پسند کے مطابق کردار تیار کر رہا ہے جس کا رشتہ جس سے جی چاہا جوڑ دیا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔

بہرحال اس میں ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صاحبِ استغاثہ نے سیدہ زینبؓ کو ہالہ کی بیٹی قرار دیا ہے اور حیات القلوب جلد 2 صفحہ 493 مرقوم ہے۔

وہمین جماعت اموال ابو العاصؓ ابن الربیع راکہ پسر خواہر خدیجہؓ و شوہر زینبؓ بود۔

ان دونوں علماء کے بیان کو جمع کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلا کہ سیدنا ابو العاصؓ کا نکاح اپنی حقیقی بہن سے ہوا صاحبِ استغاثہ کی تحقیق کی داد دینی چاہیے انہیں اپنی اس تحقیق پر اتنا ناز ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ علماء تو علمِ انساب سے جاہل ہیں کہتے ہیں:

وجادلونى اشد مجادلة فى أنهم من خديجةؓ اى من ولد خديجهؓ فاعلمتهم ان ذلك جهل منهم بنسبهم۔

سید ابو القاسم نے اپنے علم کے زور سے حقیقی بہن بھائی کو میاں بیوی بنا دیا اور علماء کو اپنی جہالت کی بنا پر یہ ہمت نہ ہو سکی واقعی ہر مردے و ہر کارے۔

پہلے باب میں معتبر حوالوں سے تفصیل دی جا چکی ہے کہ:

  1.  سیدہ خدیجہؓ کی حقیقی بہن ہالہ تھی اور ہالہ کا صرف ایک لڑکا ابوالعاص تھا۔
  2. دوسری بہن جس کی ماں دوسری تھی اس کا نام رقیقہ تھا۔
  3. رقیقہ کی صرف ایک لڑکی تھی جسکا نام امیمہ تھا۔

اب سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ رقیہؓ کو ربیبہ ثابت کرنے کے لیے ان کی کوئی تیسری بہن تلاش کرنی پڑے گی اور تین خواتین کو اس کی بیٹیاں بنا کر سیدہ خدیجہؓ کے ہمراہ حضور اکرمﷺ کے گھر آنا ثابت کرنا پڑے گا تاریخ اس معاملے میں ساتھ نہیں دیتی اس کا تو اعلان ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کی ایک حقیقی بہن اور ایک ماں کی طرف سے سوتیلی اور ان دونوں کے ہاں اس نام کی لڑکی پیدا ہی نہیں ہے ہوئی۔

پس افسانہ نگاری اور ناول نویسی کا سہارا لینا پڑے گا اس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

حیات القلوب جلد 2 صفحہ 728 سید مرتضیٰ اور شیخ طوسی نے روایت کی ہے۔

چوں آ ں حضرت خدیجہؓ را تزویج نمودا و باکرہ بود و بعقد شوہر دیگر پیش آں حضرت نیامدہ بود۔

ملاباقر کہتا ہے کہ: قول اول اشہر است۔

قولِ اول وہ ہی ہے جو متعدد روایات میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے پہلے خاوند عتیق بن عائذ اور ابو ہالہ تھے۔

ان علماءِ کرام کے مختلف بیانات کو جمع کرنے سے انسان اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ واقعی ان حضرات نے تاریخ کو ناول اور افسانہ بنا دیا مثلاً:

  1.  رسول اللہﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے سیدہ خدیجہؓ کا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی سے پھر ابو ہالہ سے ہوا۔ (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 91)۔
  2.  سیدہ خدیجہؓ سے رسول اللہﷺ کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ فاطمہؓ۔ (اصول کافی جلد 1 صفحہ 147)۔ (وفصال شیخ صدوق جلد 2: صفحہ 167)۔ (وحیات القلوب سیدہ 2: صفحہ 718)۔
  3. سیدہ خدیجہؓ کی بہن صرف ہالہ تھی اس کا ایک ہی لڑکا تھا جس کا نام سیدنا ابو العاصؓ تھا۔ (نسبِ قریش صفحہ 230)۔
  4.  حضور اکرمﷺ کی بیٹی سیدہ زینبؓ کا نکاح ہالہ کے بیٹے سیدنا ابو العاصؓ سے ہوا تھا۔ (شیخ صدوق جلد 2 صفحہ 167)۔
  5.  سیدہ خدیجہؓ کی سوتیلی بہن صرف رقیقہ تھی جس کی ایک بیٹی امیمہ تھی۔ (نسبِ قریش صفحہ 229)۔
  6. سیدہ خدیجہؓ کے ہاں عتیق سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ (ہندہ) (انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 124)۔
  7.  سیدہ خدیجہؓ کے ہاں ابو ہالہ سے صرف ایک ہی لڑکا ہند پیدا ہوا۔ (انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 124)۔
  8.  اس میں ہمارے (شیعہ) علماء کا اختلاف ہے کہ سیدہ زینبؓ سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ رسول اللہﷺ کی بیٹیاں تھیں یا ربیبہ تھیں۔ (انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 124)۔
  9. سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ ہالہ کی بیٹیاں تھی۔(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 719)۔
  10. سیدہ زینبؓ اور سیدہ رقیہؓ ہالہ کی بیٹیاں تھیں اور حضورﷺ کی ربیبہ۔ (الاستغاثہ جلد 1 صفحہ 81)۔
  11.  ابو ہالہ کا بیٹا ابو العاص ہالہ کا شوہر تھا۔ (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 493)۔
  12.  جب آنحضرتﷺ کا نکاح سیدہ خدیجہؓ سے ہوا تو وہ کنواری تھیں۔ (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 728)۔

ان متضاد بیانات کو پڑھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تاریخی واقعات ہیں ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ناول نویسی ہے جب چاہا جس کردار کو چاہا جیسے چاہا بدل دیا۔

بناتِ رسولﷺ کو ربیبہ کہنا تاریخی اعتبار سے اور علم الانساب کے لحاظ سے بالکل غلط ثابت ہوگیا اب ربائب کو بنات کہنا قرآنی اعتبار سے غلط ملاحظہ کیجئے۔ 

(انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 125)۔

فزيد بن حارثهؓ و كأن لخديجهؓ إشتراه لها حكيم بن حزام باربعمائة درهم فوهبته لرسول اللهﷺ فاعتقه و زوجه ام ايمنؓ فولدت له اسامهؓ فتبناه رسول اللهﷺ فكان يدعى زيدؓ بن رسول اللهﷺ حتىٰ انزل الله تعالىٰ ادعوهم لاباءھم الخ۔

ترجمہ: سیدنا زید بن حارثہؓ سیدہ خدیجہؓ کے غلام تھےحکیم حزام نے انہیں سیدہ خدیجہؓ کے لئے 440 درہم میں خریدا تھا سیدہ خدیجہؓ نے یہ حضور اکرمﷺ کو ہبہ کر دیا تھا حضور اکرمﷺ نے انہیں آزاد کر دیا سیدہ امِ ایمنؓ سے نکاح کر دیا ان سے سیدنا اسامہؓ پیدا ہوئے ان کو حضور اکرمﷺ نے متنبی بنا لیا ان کو سیدنا زیدؓ بن رسول اللہ بلایا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ادعوهم لاباءهم الخ۔

یہی بیان تفسیر حسن عسکری صفحہ 271 پر بھی موجود ہے۔

فترکوا ذلک وجعلوا یقولون زید اخو رسول اللہﷺ۔

معلوم ہوا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ربائب یا متبنیٰ کو اپنے والد کے بغیر کسی دوسرے کی طرف نسبت کر کے بلانا حرام ہوگیا اور ترک کر دیا گیا ربیبہ کا معاملہ تاریخی اور قرآنی ہر دو اعتبار سے غلط ثابت ہو گیا شیعہ علماء کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ حضورﷺ‎ کی چار بیٹیاں تھیں: سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ فاطمہؓ شیعہ مذہب کی حدیث کی چوٹی کی کتاب کافی ہے جس کے مصنف محمد یعقوب کلینی ہیں جن کو حجتہ الاسلام اور ثقۃ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتے ہیں یہ کتاب ان کے بقول امام مہدی کی منظور شدہ اور تصدیق شدہ ہے کافی میں ثقہ الاسلام نے جو بیان کیا ہے وہ معمولی سا ہے صاحب علی بن ابراہیم قمی کا شاگرد ہے یہ سیدنا حسن عسکری کا شاگرد ہے تو صاحبِ کافی کی رائے دراصل سیدنا حسن عسکری کی رائے ہوئی تو کافی میں بیان ہو چکا ہے کہ حضور اکرمﷺ کی سیدہ خدیجہؓ سے چار بیٹیاں تھیں حوالہ گزر چکا ہے۔  

بناتِ رسولﷺ کے نکاح کے متعلق چند غلط فہمیاں اور انکا ازالہ

  1.  حضور اکرمﷺ نے اپنی بیٹیوں کے نکاح کے وقت اس امر کا کوئی خیال نہ کیا کہ اپنی بیٹیاں مسلمانوں یا کافروں یا منافقوں کے نکاح میں دے دی جائیں اس لئے آپﷺ‎ نے ابولہب اور سیدنا ابو العاصؓ بن الربیع اور سیدنا عثمان بن عفانؓ کو بیٹیاں دے دیں۔ 
  2. یہ بات کوئی انوکھی نہیں کیونکہ فرعون کے گھر آسیہ مسلمان اور حضرت نوح السلام علیہ اور حضرت لوط السلام علیہ کی بیویاں کافر تھیں۔ مخالفین کی طرف سے یہ دو غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں یا پیدا کی جاسکتی ہیں اس لئے ان کا ازالہ ضروری ہے۔ 

حیات القلوب جلد 2 718۔719:

   ازاں باشد که حق تعالیٰ حرام گرداند دختران دادن بکافراں باتفاق مخالفان حضرت زینبؓ را بابو العاص تزویج نمود در مکه وقتے کہ او کافر بود و ہم چنین رقیهؓ و امِ کلثومؓ بنا بر میاں مخالفان بعتبه و پیشتر عتبہ کہ پسران ابو لہب بود ند کافر بوند تزویج نمودہ بود۔

ترجمہ: پیشتر اسکے کہ کافروں کو لڑکی کا رشتہ دینا حرام قرار دیا گیا مکہ میں حضورﷺ نے سیدہ زینبؓ کا نکاح ابوالعاص بن الربیع سے کیا جبکہ وہ کافر مشہور تھا اور سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح ابولہب کے بیٹوں سے کیا جب کہ کافروں سے لڑکی لینا دینا حرام نہیں کیا گیا تھا۔

دوسری جگہ و مشہور آنست کہ دختران آںحضرتﷺ چہار نفر بود ندو ہمہ از حضرت خدیجہؓ بوجود آمدند اؤل زینبؓ وحضرتﷺ پیش از بعثت و حرام شدن دختر بکافراں دادن اور ابی العاصؓ بن الربیعہ تزویج نمود۔

ترجمہ: مشہور مذہب یہی ہے کہ آنحضرتﷺ کی 4 بیٹیاں تھیں اور چاروں سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھیں اول سیدہ زینبؓ جس کا نکاح رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوالعاصؓ سے اس وقت کیا جب کافر کو لڑکی دینا حرام قرار نہیں دیا گیا تھا۔

معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے عتبہ اور عتیبہ سے اپنی بیٹیوں کا نکاح اس وقت کیا جب کافروں کو بیٹی کا رشتہ دینے کی ممانعت کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا اور حکم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ حضورﷺ کی بعثت اور نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے یہ نکاح ہوئے اور حلال و حرام کی تعیین تو نزول وحی کی وجہ سے ہوئی پھر عتبہ اور عتیبہ سے جدائی بھی ہو گئی رہا سیدنا ابوالعاصؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کا سوال تو سیدہ زینبؓ 7ھ میں فوت ہوئیں اسی طرح سیدہ امِ کلثومؓ بھی 7ھ میں فوت ہوئیں ابتدائے وحی سے طویل عرصہ تک اپنے خاوندوں کے نکاح میں رہیں اگر یہ دونوں کافر یا منافق تھے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآنِ مجید نے حکم دیا:

  1. وَلَا تُنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤۡمِنُواْ‌ۚ الخ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 221)۔
  2. فَلَا تَرۡجِعُوهُنَّ إِلَى ٱلۡكُفَّارِ‌ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ۬ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّونَ لَهُنَّ‌ۖ الخ۔ (سورة الممتحنہ آیت نمبر 10)۔
  3.  وَلَا تُمۡسِكُواْ بِعِصَمِ ٱلۡكَوَافِرِ الخ۔ (سورة الممتحنہ آیت نمبر 10)۔

 یہ احکام بڑے واضح ہیں کہ مسلمان عورت مشرک کے نکاح میں مت دو یہ حلال نہیں کہ مسلمان عورت کافر مرد کے نکاح میں رہے کیا نبی کریمﷺ نے ان احکام کا مفہوم نہیں سمجھا؟ اگر سمجھا تو ان پر عمل کیوں نہ کیا؟ کیا نبی الله کہ کسی حکم کی نافرمانی کر سکتا ہے؟ کیا یہ شانِ نبوت کے منافی نہیں؟ اگر سیدنا ابوالعاصؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کافر تھے تو نبیﷺ نے اپنی بیٹیاں وہاں کیوں رہنے دیں الله کے حکم کی تعمیل کیوں نہ کی اس الجھن کا حل صرف یہ ہے کہ: 

  1.  یہ تسلیم کرو کہ سیدنا ابوالعاصؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ مسلمان تھے اور سچے مسلمان تھے۔
  2. یا یہ تسلیم کر لو کہ نبی الله کا باغی ہوتا ہے۔

اگر پہلی بات تسلیم نہ کی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی دوسری کو صحیح تسلیم کرتا ہے پھر اس کا اسلام سے کیا تعلق رہ جاتا ہے؟ اب ایک الجھن اور باقی رہ جاتی ہے کہ یہ کافر نہیں تھے بلکہ منافق تھے یعنی ان کے دلوں میں کفر تھا اور زبان پر اسلام اور ایمان کا اقرار اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے چند مقدمات قابلِ غور ہیں: 

  1.  کیا نکاح و طلاق کا تعلق دین سے ہے یا نہیں؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو جو اسے دین کا حصہ نہ سمجھتا ہو۔
  2.  نکاح و طلاق جب دین ہی کا حصہ ہے اور دین میں حلال و حرام کی تمیز نہ کی جائے تو دین میں فساد ہی فساد ہے دین کہاں رہ جاتا ہے۔
  3. کیا دین کے متعلق کوئی بات نبی اپنی خواہش سے کرتا ہے یا خدا کے حکم سے؟ جواب ظاہر ہے کہ وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ۝ إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡىٌ۬ يُوحَىٰ۝۔ (سورة النجم آیت نمبر 3۔4)۔
  4.  نکاح و طلاق دین کا ایک حصہ ہے نبی دین میں ہر بات خدا کے حکم سے کرتا ہے تو نبیﷺ نے اپنی بیٹیوں کے نکاح خدا کے حکم سے کیے۔

تفسیر مظہری صفحہ 472:

قال رسول اللہﷺ ان الله ابى ان اتزوج او ازوج إلا أهل الجنة۔

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کو قطعی طور پر ناپسند ہے کہ میں جنتیوں کے بغیر کسی سے نکاح کروں یا نکاح کر کے دوں۔

اور شرح فقہ اکبر صفحہ 133:

إنه عليه صلوة والسلام قال له (عثمانؓ) والذى نفسى بيده لو ان عندى مائة بنت يمتن واحدة بعد واحدة زوجتك اخرى هذا جبرئيل أخبرنی ان الله يامرنى ان ازوجكها۔

ترجمہ: حضور اکرمﷺ نے سیدنا عثمانِ غنیؓ سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میری ایک سو بیٹاں ہوتی تو میں ایک کی موت کے بعد دوسری تیرے نکاح میں دیتا جاتا یہ جبرائیلؑ ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔

یہ بات اس وقت ہوئی جب سیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد سیدنا عثمانؓ نے حضور اکرمﷺ نے سیدہ ام کلثومؓ کا رشتہ پوچھا تھا یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی جہاں سے رشتہ لیتا ہے اور جہاں رشتہ دیتا ہے وہ بذریعہ وحی بحکمِ خدا دیتا ہے۔

اصولی طور پر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین کی ہر بات نبی خدا کے حکم سے بتاتا ہے سیدنا عثمانؓ کے نکاح کے معاملے میں نبی اکرمﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے ارشاد بھی فرما دیا اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں سیدنا عثمانؓ سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ معاذ اللہ! اگر سیدنا عثمانؓ منافق تھے تو:

  1.  کیا علیم بذات الصدور اور عالم غیب خدا کو علم نہیں تھا کہ سیدنا عثمانؓ کے دل میں کھوٹ اور نفاق ہے۔
  2.  اگر علم تھا تو اپنے نبی کو حکم کیوں دیا اگر نبی کریمﷺ از خود کرنے لگے تھے تو منع کیوں نہ کیا جبرائیلؑ کو بھیج کر نکاح کرنے کا حکم دینے کے بجائے نکاح سے منع کرنے کا حکم دینا چاہیے تھا۔
  3. اگر خدا کو سیدنا عثمانؓ کے نفاق کا علم نہیں تھا تو ایسے بے خبر خدا پر ایمان لانے کی ضرورت کیا ہے معلوم ہوا کہ علیم بذات الصدور اور عالم الغیب خدا کو علم تھا کہ سیدنا عثمانؓ کامل الایمان اور سچا مسلمان ہے اس لیے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کر دو اور نبیﷺ کی عبودیت کا اندازہ کیجئے کہ فرماتے ہیں میری سو بیٹیاں ہوتی تو سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دیتا جاتا اگر پہلی زندہ نہ رہتی اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ ایک طرف اپنے نبی کو حکم دے کہ: 

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ جَـٰهِدِ ٱلۡڪُفَّارَ وَٱلۡمُنَـٰفِقِينَ وَٱغۡلُظۡ عَلَيۡہِمۡ‌ۚ الخ۔ (سورة التحریم آیت نمبر 9)۔ 

اور دوسری طرف حکم دے منافق کو ایک بیٹی تو دی تھی اب دوسری بھی دو اور رسول کریمﷺ کے متعلق یہ امر بھی بعید از عقل ہے کہ اللہ کے حکم کے مطلق پرواہ نہ کریں وہ جس سے جنگ کرنے کا حکم دے وہ اسے بیٹیاں دینے لگیں۔

تقابل کے لئے ایک نظیر ملاحظہ ہو: انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 242۔

فإن تزوج فلا تزوجوه وان مرض فلا تعودوه۔

ترجمہ: اگر کوئی (بے نماز) مسلمانوں سے رشتہ مانگے تو اسے رشتہ نہ دو اگر وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی بیمار پرس نہ کرو۔

مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ بے نماز کو رشتہ مت دو یہ حرام ہے اور بے نماز بہت بڑا گناہ گار سہی پھر بھی مسلمان تو ہے ۔مگر نبی کو حکم دیا جاتا ہے کہ منافق کو بیٹی دے پس معلوم ہوا کہ نہ خدا بے خبر ہے نہ رسولﷺ اس کا نافرمان ہے نہ سیدنا عثمانؓ منافق ہے بلکہ:

سخن شناس نہ دلبر اخطا اینجاست۔

رہا فرعون اور آسیہ کا معاملہ تو اس میں چند امور قابلِ غور ہیں:

  1.  جب ساحرینِ فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں شکست ہوئی تو وہ فوراً ایمان لے آئے۔ آسیہ نے شکستِ ساحرین کے بعد ایمان کا اظہار کیا وہ بھی فوری طور پر ایمان لائی۔
  2. آسیہ کا ایمان اجمالی تھا کیونکہ تورات تو غرقِ فرعون کے بعد نازل ہوئی۔
  3. آسیہ نے جب ایمان کا اعلان کیا تو فرعون نے اسے قتل کر دیا۔
  4.  موسوی شریعت اور تھی محمدی شریعت اور ہے۔

لہٰذا اس سلسلے میں فرعون اور آسیہ کو نظیر بنانا محض تکلف بے جا ہے زوجہ نوح علیہ السلام اور زوجہ لوط علیہ السلام کے متعلق دو امور قابلِ توجہ ہیں۔ 

  1.  ان کی شریعت جدا تھی۔
  2.  ان کی بیویاں قوم کے ساتھ ہلاک ہوگئیں۔ 

لہٰذا ان کو نظیر بنانا بے محل اور بے معنیٰ ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق مفسرین نے وضاحت کی ہے: 

قَالَ يَقَوْمٍ هُوءُلاءِ بَنَاتِی هُنَّ أَطْهَرُ لَكُم وكان فی امته يجوز تزويج الكافر بالمسلمة فان تزويج المسلمات من الكفار كان جائزا۔

ترجمہ: یہ میری لڑکیاں ہیں تمہارے لئے پاکیزہ ہیں اور حضرت لوط علیہ السلام کی شریعت میں کفار کا نکاح مسلمانوں سے جائز تھا۔

وقال مجاهد وسعيد بن جبير اراد نساء قومه واضافهن الى نفسه لان کل نبی ابو امته من حيث الشفقة والتربية و هذا القول اولى لان اقدام الانسان على عرض بناته على الاوباش والفجار مستبعد لا يليق لاهل المرءة فكيف بالانبياء وايضا بناته لا تكفى الجمع العظيم امابنات امته ففيهن كفاية لكل۔ (تفسير جمل)۔

ترجمہ: اور مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس لفظ سے حضرت لوط علیہ السلام کی مراد اپنی قوم کی لڑکیاں تھیں اپنی طرف اس لئے نسبت کی کہ نبی اپنی قوم کے لئے باعتبار شفقت اور تربیت کے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور یہ قول افضل ہے کیونکہ کوئی انسان گوارا نہیں کرتا کہ اپنی بیٹی کسی اوباش اور فاسق فاجر کو دے تو جو بات اہلِ مروت کے ہاں معیوب ہو وہ بھلا نبی کو کیسے زیب دیتی ہے اور لوط علیہ السلام بھلا اپنی دو بیٹیاں ساری قوم کو کیسے پیش کر سکتے تھے لہٰذا بناتِ امت ہی مراد ہے۔

اس عبارت سے واضح ہے کہ: 

  1. حضرت لوط علیہ السلام کی شریعت میں کافر اور مومن کا نکاح جائز تھا۔
  2. اس کے باوجود حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کے متعلق نہیں فرمایا تھا۔
  3.  امت کی عورتیں نبی کی بیٹیاں ہی سمجھی جاتی ہیں۔ 

اس لئے سیدنا عثمانؓ کے نکاح کے سلسلے میں حضرت لوط علیہ السلام کی نظیر بے محل اور تکلف محض ہے اب ایک جاہلانہ اعتراض بھی بیان کر دینا غیر مناسب نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ سید زادی کا نکاح غیر سید سے کیسے جائز ہے رسولﷺ کی بیٹیاں تو سید زادیاں ہوئی اس کے جواب میں کہہ دینا کافی ہے کہ سید کا اطلاق حسنینؓ کی اولاد پر کیا جاتا ہے گو یہ تحقیقی مسئلہ نہیں پھر بھی اگر اسے درست تسلیم کیا جائے تو سیدنا علیؓ کو سید کیسے کہیں گے۔ (حیات القلوب جلد 3 صفحہ 45)۔

واکثر گویند که بنابر احتمالات کہ مذکور شد می باید که حضرت امیر المومنین داخل عترت نباشد جواب میگوئم کے کہ عترت را مخصوص با ولا داوی داند شیعه می گوئند که حضرت امیر المومنین ہر چندکہ ظاہر لفظ عترت آنحضرت را شامل نیست اما پدر عترت است و مہتر۔

ترجمہ: اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مذکور شدہ احتمالات کی وجہ سے امیر المومنین عترت یعنی اہلِ بیتؓ یعنی سادات میں داخل نہیں میں جواب میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص سادات کو امیر المومنین کی اولاد کے ساتھ مخصوص کرتا ہے تو شیعہ کہتے ہیں کہ اگرچہ امیر المومنین کو ظاہر لفظ کے اعتبار سے سادات میں شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ سادات کے والد ہیں اور ان سے بہتر ہیں۔

بات صاف ہوگئی کہ سیدنا علیؓ در حقیقت سید نہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر سید سیدوں سےافضل ہے لہٰذا اس کو بیٹی دینا بھی افضل ٹھہرا اگر خود سیدنا علیؓ سید ہیں تو ان کے تمام بھائی اور ان کی تمام اولاد پر سید کے لفظ کا اطلاق درست ہے ان کو سید کیوں نہ کہا جائے اور: 

انوار النعمانیه جلد 1 صفحہ 125:

اما اولاده فهم سبعة وعشرون ولدا ذکر او انثی۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ کی اولاد 27 لڑکے لڑکیاں ہیں 18 لڑکے اور 9 لڑکیاں)۔

اگر سیدنا علیؓ کو سید کہا جائے تو ان کے بچوں کو سید زادے اور سید زادیاں کیوں نہ کہاجائے صرف سیدنا حسنینؓ اور ان کی اولاد کو ہی سید کیوں کہا جائے۔ 

آخر میں سیدنا عثمانؓ کے متعلق سیدنا علیؓ کی رائے کا ذکر کر دیتا ہوں:

نہج البلاغه جلد 1 صفحہ 373:

نلت من صهره مالم ينالا۔

ترجمہ: (اے سیدنا عثمانؓ) تو رسول اکرمﷺ سے رشتہ دامادی کی وجہ سے اس بلندی مرتبہ کو پہنچا جہاں سیدنا صدیقؓ سیدنا فاروقؓ نہ پہنچے۔

سیدہ امِ کلثومؓ:

اہلِ بیتِ رسولﷺ میں کانٹ چھانٹ کا سلسلہ ازواجِ مطہراتؓ سے شروع ہو کر بناتِ رسولﷺ پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اور آگے چلتا ہے چنانچہ اس عادت کے تحت عیار لوگوں نے سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے سیدنا علیؓ کی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کے وجود کا بھی انکار کر دیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ تاریخ اس حقیقت کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ سیدنا عمرؓ کا سیدنا علیؓ کا داماد بن جانا محبانِ اہلِ بیتؓ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ایسے واقعات پر غور کرنے کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ اس کے متعلق کوئی روایت ملتی ہے یا نہیں دوم یہ کہ وہ امر واقعہ ہے یا تاریخی حقیقت ہے یا نہیں علمائے اصول پہلے کو روایت دوسرے کو درایت کہتے ہیں اس غور و فکر کے بعد نتیجہ پر پہنچنے کی اصولی صورت یہ ہے اگر کوئی روایت مخالف واقعہ اور درایت آجائے تو قبول نہ ہوگی اس اصول کے اطلاق کے سلسلہ میں رسالہ اعتقاد یہ شیخ صدوق کے مقدمہ میں شیخ مفید کے مناقب کے سلسلے میں ایک مناظرہ کے حالات درج ہیں کہ بغداد میں شیخ مفید نے قاضی عبد الجبار معتزلی پر اعتراض کیا تھا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ سے خلافتِ سیدنا علیؓ  ثابت ہوتی ہے تو قاضی عبد الجبار نے جواب دیا کہ یہ ایک روایت ہے اور خلافتِ صدیقی امر واقعہ تاریخی حقیقت اور درایت ہے اور درایت کے مقابلہ میں روایت قابلِ قبول نہیں اس قسم کا ایک مناظرہ قاضی ابوبکر باقلانی کا بھی ملتا ہے اس میں یہی جواب دیا گیا مگر قاضی عبد الجبار کے جواب پر شیخ مفید نے سوال کیا کہ جنگِ جمل اور صفین میں امامِ حق سیدنا علیؓ کے مقابلے میں جو لوگ تھے ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے تو قاضی عبد الجبار نے جواب دیا کہ ان کی آخر صلح ہو گئی اور ہر فریق اپنے کئے پر تائب ہو گیا تو شیخ مفید نے کہا قاضی صاحب! جنگِ جمل و صفین درایت ہے اور توبہ یا صلح روایت ہے لہٰذا درایت کے مقابلہ میں روایت کو کیسے قبول کیا جائے گا اس پر قاضی عبد الجبار خاموش ہو گیا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ روایت جو مقابلہ درایت آتی ہے وہ دو طرح کی ہوتی ہے اول یہ کہ اس واقعہ یا درایت کی تکذیب کرتی ہو وہ روایت نا قابلِ قبول ہوگی دوم یہ کہ روایت کا تعلق صاحبِ واقعہ یا صاحبِ درایت سے ہو وہ قابلِ قبول ہے اس واقعہ میں صلح کا تعلق جنگ سے نہیں بلکہ فریقین سے ہے کہ اس واقعہ کے بعد کے حالات کیسے گزرے تو روایت نے بتا دیا کہ ان میں صلح ہوگئی تھی لہٰذا اس روایت نے واقعہ کی تصدیق کر دی اور ظاہر ہے کہ صلح ہمیشہ بعد جنگ ہوتی ہے اسی طرح سیدہ ام کلثومؓ دخترِ سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہونا واقعہ اور درایت ہے لہٰذا جو روایت اس کی تکذیب کرے وہ مردود ہے علمائے شیعہ میں سے مورخ شہیر عباس قلی خان سپرے نے طراز المذہب مظفری جسے فاسخ التواریخ سے تعبیر کیا جاتا ہے جلد 1 صفحہ 60 طبع تہران 1346ھ میں اختلاف نکاحِ سیدہ امِ کلثومؓ پیش کر کے اسے مختلف فیہ قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے دلیل یہ دی ہے کہ:

  1.  بعض روایتوں میں آتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے خود سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کیا۔
  2. بعض میں آتا ہے کہ سیدنا عباسؓ کو اس کا اختیار دیا۔
  3.  بعض میں آتا ہے کہ ذلک فرج غضبناہ۔ (معاذاللہ)
  4.  بعض میں آتا ہے کہ سیدہ ام کلثومؓ کے نکاح میں مہر 40 ہزار درہم باندھا گیا۔
  5.  بعض میں آتا ہے کہ چار ہزار مقرر ہوا۔
  6. بعض میں آتا ہے کہ 500 مقرر ہوا۔
  7. بعض میں ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے 40 ہزار دینا چاہا تو جواب ملا کہ مہر کی رقم والدہ کے مہر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
  8.  بعض کہتے ہیں کہ سیدہ امِ کلثومؓ سے سیدنا عمرؓ کا بیٹا زید پیدا ہوا اور دونوں ماں بیٹا اکٹھے مر گئے۔
  9. بعض کہتے ہیں کہ بیٹا زید زندہ رہا۔
  10.  بعض کہتے ہیں زندہ اولاد کوئی نہیں ہوئی۔ 

ان اختلافات پر غور کرنے سے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یقینا نکاح ہوا نمبر 1 سے نمبر 3 تک نکاح کی صورت میں اختلاف ہے نکاح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں نمبر 4 سے نمبر 7 تک مہر کی رقم میں اختلاف ہے اور ظاہر ہے کہ مہر اس وقت مقرر ہوتا ہے جب نکاح ہوا لہٰذا یہ اختلاف بھی نکاح ہونے کی تصدیق کرتا ہے نمبر 8 سے نمبر 10 تک بیٹے کے زندہ پیدا ہونے یا زندہ رہنے میں اختلاف ہے پیدا ہونے میں کوئی اختلاف نہیں لہٰذا یہ اختلاف بھی نکاح ہونے کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ 

خلاصہ یہ ہوا کہ عباس قلی کے بیان کردہ اختلافات سے یہ نتیجہ نکلا کہ یقیناً نکاح ہوا مہر بھی مقرر ہوا اور بیٹا بھی پیدا ہوا یہاں تک تو صرف اصولی بحث تھی اب تاریخی شواہد پیش کئے جاتے ہیں۔ 

ثبوتِ نكاح سیدہ امِ كلثومؓ

1۔ طراز المذہب جلد 1 صفحہ 57:

و خود دریں جاگوئند و توضیح کنند که امِ کلثومؓ دختر امیر المومنین داد از بطن مطهر حضرت صدیقہ کبریٰ فاطمه الزهراء صلوات الله علیها است که عمر بن الخطابؓ محض برائے شرف و بقائے پیوند بایں وصلت مبادرت نمود۔

ترجمہ: اور خود اس جگہ وضاحت کرتے ہیں کہ سیدہ امِ کلثومؓ دخترِ سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی اور سیدنا عمرؓ نے اہلِ بیتؓ سے تعلق کرنے اور شرف حاصل کرنے کے لئےان سے نکاح کیا۔

(2)۔ طراز المذہب صفحه 58:

رزیل اسامی بنات مكرمات امیر المومنین علی علیہ السلام گوید جناب امِ کلثوم کبریٰؓ دختر فاطمۃ الزہراء علیها السلام درسرائے عمر بن الخطابؓ بود و از دے فرزندے بیادرده چنانچه مذکور شد و چون عمر مقتول شد محمد بن جعفرؓ بن ابی طالب اور اور تخت نکاح آورد و بعد از وفات محمد عون بن جعفرؓ بن ابی طالب آنحضرت را تزویج نمود۔

سیدنا علیؓ کی بیٹیوں کے نام کے بیان میں: 

سیدہ امِ کلثومؓ دخترِ سیدہ فاطمہؓ سیدنا عمرؓ کے نکاح میں تھی اس سے ایک بیٹا پیدا ہوا جیسا کا ذکر ہو چکا ہے جب سیدنا عمرؓ شہید ہو گئے وہ سیدنا محمد بن جعفرؓ کے عقد میں آئی اور سیدنا محمد بن جعفرؓ کی وفات کے بعد سیدنا عون بن جعفرؓ بن ابی طالب سے ان کا نکاح ہوا۔ 

(3)۔ طراز المذہب جلد 1 صفحہ 65:

می گوید در خبر صحیح است که عمر بن الخطابؓ جناب امِ کلثومؓ دخترِ فاطمہ الزہراء سلام الله علیها را از پدرش امیر المومنین از بهر خویشتن خواست گاری کرد۔

ترجمہ: صحیح روایت میں ہے سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدہ امِ کلثومؓ دخترِ سیدہ فاطمہؓ کے لئے ان کے باپ امیر المومنین سیدنا علیؓ سے خواستگاری کی۔ 

(4)۔ منتہی الآمال علامہ عباس قمی شیعه طبع جدید جلد 1 صفحہ 186:

و زینب صغریٰ است که مکناه است بامِ کلثومؓ و مادر ایشان حضرت فاطمہ الزہراؓ سيدة النساء است و اما امِ کلثومؓ حکایت تزویج او باعمرؓ درکتب مسطور است و بعد از او صبیح عون بن جعفرؓ و از پس زوجه محمد بن جعفرؓ گشت۔ 

ترجمہ: امِ کلثومؓ دخترِ سیدہ فاطمہؓ کے سیدنا عمرؓ کے ساتھ نکاح کے حالات کتابوں میں درج ہیں اس کے بعد سیدنا عون بن جعفرؓ اور ان کے بعد سیدنا محمد بن جعفرؓ سے انکا نکاح ہوا۔

(5)۔ مناقبِ آلِ ابی طالب شیخ ابو جعفر رشید الدین محمد بن علی بن شہر بن آشوب م588 طبع جدید مطبع قم جلد 3 صفحہ 304 پر اولاد سیدنا علیؓ کے اعداد و شمار دیئے گئے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے کتنے بچے پیدا ہوئے۔ 

(6)۔ طراز المذہب جلد 1 صفحہ 58:

امِ کلثومؓ دختر علیؓ ابنِ ابی طالب علیہ السلام را مادرش فاطمه الزهراؓ دختر رسول خداﷺ است تزویج نمود و چهل هزار درهم درصداقش مقرر داشت و ازدے رقیه و زید بدید گشت۔

سیدنا علیؓ کی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کی والدہ سیدہ فاطمہؓ دخترِ رسول خداﷺ تھیں ان کے نکاح کا مہر 40 ہزار درہم مقرر ہوا اور ان کے بطن سے رقیہ اور زید پیدا ہوئے ان اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ: 

  1. سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا علیؓ کی بیٹی تھی۔
  2.  سیدہ امِ کلثومؓ کی والدہ سیدہ فاطمہؓ تھیں۔ 
  3.  سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہوا سیدہ امِ کلثومؓ کے بطن سے سیدنا عمرؓ کا بیٹا زید پیدا ہوا۔

مذہبی تعصب کی بناء پر حقائق پر جس قدر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ علمائے النساب ان رشتوں کو مذہبی تعصب کی عینک سے نہیں دیکھتے بلکہ تاریخی حقائق کے طور پر اقوام و افراد کے باہمی تعلق کی بناء پر لکھتے ہیں تمام علمائے النساب نے یہ لکھا ہے کہ سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا علیؓ کی بیٹی تھی سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے تھی اور سیدنا عمرؓ سے اس کا نکاح ہوا۔ 

بھانت بھانت کی بولیاں:

(1)۔ سیدہ امِ کلثومؓ دختر علیؓ تھی دخترِ سیدہ فاطمہؓ نہ تھی۔ 

گزشتہ اوراق میں شہادتیں پیش کی جا چکی ہیں کہ جس سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہوا وہ دخترِ سیدہ فاطمہؓ تھی دخترِ سیدہ فاطمہؓ ہونے کا انکار اور دخترِ سیدنا علیؓ ہونے کے اعتراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضیلت کا تعلق سیدہ فاطمہؓ کی ذات سے ہے سیدنا علیؓ  سے نہیں کیا شیعہ کے نزدیک سیدنا علیؓ کی بیٹی ہونا ایک عام آدمی کی بیٹی ہونے کے برابر ہے؟ کہ درخور اعتناء ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی زندگی میں کوئی دوسری شادی نہیں کی ان کی وفات کے بعد سیدہ اُمامہؓ بنتِ ابی العاصؓ اور بنتِ زینبؓ سے کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی۔ 

منتهی الآمال شیخ عباس قمی جلد 1 صفحہ 188:

بعد وفات فاطمهؓ بنا بر وصیت آنحضرت امامهؓ دخترِ خواهراں مخدره را تزویج کر دو ترویج امامهؓ ازپس سه3 شب واقع شد۔

پھر اسی صفحہ پر ہے کہ سیدہ امامہؓ سے سیدنا علیؓ کا لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمد اوسط تھا۔

محمد اوسط که مادر او امامهؓ دختر زینبؓ دختر رسول خداﷺ بود۔

ترجمہ: یعنی سیدہ امامہؓ سے لڑکا پیدا ہوا لڑکی کوئی نہیں ہاں اس جگہ شیخ عباس نے سیدہ زینبؓ کا دخترِ رسولﷺ ہونا تسلیم کر لیا۔

ہاں سیدنا علیؓ کی دوسری لڑکی سیدہ ام کلثومؓ صغریٰ بھی تھی جیسا کہ:

مناقبِ شہر بن آشوب 304: 

وولد من ام سعيد بنتِ عروه بن مسعود الثقفى نفسيه وزوج ام کلثوم۔

سیدنا علیؓ کی بیٹی نفسیہ کی ماں ام سعید تھی اور اس نفسیہ کی کنیت امِ کلثوم۔

 صغریٰ من کثر بن عباس بن صغریٰ تھی۔

عبد المطلب۔

منتہی الامال جلد 1 صفحہ 187 شیخ عباس قمی شیعی:

و نقل شد که نفیسه مناة بامِ کلثوم صغریٰ بوده و کثیر بن عباس بن عبد المطلب اور اتزویج نمود۔

انوار النعمانیہ سید نعمت اللہ محدث الجزائری طبع قدیم جلد 1 صفحہ 125 و نفسیه و هی امِ كلثوم الصغرىٰ واما نفسيه فكانت عبدالله اكبر بن عقيل۔

ثابت ہوا کہ سیدنا علیؓ کی دوسری بیوی ام سعید سے نفسیہ پیدا ہوئی اور اسی نفسیہ کی کنیت امِ کلثوم صغریٰ ہے اس کا نکاح کثیر بن عباس سے ہوا یا بقول سید نعمت اللہ عبداللہ اکبر بن عقیل سے ہوا بہرحال سیدنا عمرؓ سے نہیں ہوا جس سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہوا وہ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے تھی لہٰذا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ جس سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہوا وہ دخترِ سیدہ فاطمہؓ نہیں تھی۔

(2)۔ سیدہ امِ کلثومؓ جو سیدنا عمرؓ کے نکاح میں آئی وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی بیٹی تھی۔ 

کہا جاتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد ان کی بیوی سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے ہوا سیدہ امِ کلثومؓ اپنی ماں سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے ہمراہ سیدنا علیؓ کے ہاں آئی اور یہیں پرورش پائی اس بے بنیاد دعویٰ کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ پہلے سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب کے نکاح میں آئی اور اس سے سیدنا جعفرؓ کے تین بیٹے پیدا ہوئے سیدنا عبداللہؓ سیدنا محمدؓ اور سیدنا عونؓ پھر جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے نکاح میں آئی تو سیدنا محمد بن ابی بکرؓ پیدا ہوا اس حد کو لیکر سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سیدنا علیؓ کے گھر آئی پھر اس کے بطن سے سیدنا علیؓ کا بیٹا یحییٰ پیدا ہوا سیدہ اسماءؓ کی کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ 

جیسا کہ منتہی آلامال جلد 1 صفحہ 87 یکی مادر او اسماء بنتِ عمیس است۔

انوار نعمانیه جلد 2 صفحہ 125:

يحيىٰ امه اسماء بنتِ عمیسؓ و توفى صغيرا قبل ابيه و اخوته لامه عبداللهؓ و محمدؓ وعونؓ ابناء جعفرؓ بن ابی طالب وقبل محمد بن ابی بکرؓ۔

محدث الجزائری نے تصریح کر دی کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سے تین بیٹے سیدنا جعفرؓ کے ہوئے ایک بیٹا سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہوا اور ایک بیٹا سیدنا علیؓ کا ہوا اور تینوں خاوندوں سے کوئی لڑکی سرے سے پیدا ہی نہیں ہوئی لہٰذا اس دعویٰ کی کوئی بنیاد نہیں کہ سیدہ ام کلثومؓ سیدنا ابوبکرؓ کی بیٹی تھی۔ 

(3)۔ کہا جاتا ہے کہ سیدہ امِ کلثومؓ زوجہ سیدنا عمر فاروقؓ اوائل زمانہ خلافتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ میں قریباً 50ھ میں فوت ہوگئی اور اکثر کتب میں موجود ہے کہ سیدہ امِ کلثومؓ کربلا شام اور کوفہ میں ہمراہ قافلہ موجود تھی تو کیا دوبارہ زندہ ہو کر پھر کربلا گئی اور 50ھ میں پھر مرگئی اکثر کتب میں موجود ہے کہہ کر اپنی بے وزن بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاریخ کی ایک ہی کتاب کو دیکھ لیا ہوتا جسے آپ کے ہاں ناسخ التواریخ کہا جاتا ہے اس میں جلد 1 صفحہ 52 پر موجود ہے۔

وازیں اخبار معلوم می شود که ام کلثوم بنتِ علیؓ که در یوم الکلف و سفر شام با اهل بیت خیر الا نام بود ارین صدیقہ طاہرہ نیست بلکہ ہماں ام کلثوم صغریٰ است که مادرش ام سعید بنت عروہ بن مسعود الثقفی است وهم آن روایت که آورده اند که بعد از هلاکت عمرؓ امِ کلثومؓ را امیر المومنین برائے خود آورد و دیگر اشارت نکرده اند مؤید ہمیں است که در زمان امام حسنؓ وفات یافت۔

ترجمہ: ان اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ جو سیدہ امِ کلثومؓ بنتِ سیدنا علیؓ کربلا اور سفر شام میں قافلہ کے ہمراہ تھی وہ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے نہیں تھی بلکہ یہ وہی امِ کلثوم صغریٰ ہے جس کی ماں امِ سعید بن عروہ ہے اور نیز ان روایات میں آیا ہے کہ سیدنا عمرؓ کی شہادت کے بعد سیدہ امِ کلثومؓ کو سیدنا علیؓ اپنے گھر لے آئے بھی اس کی مؤید ہے کہ سیدنا حسنؓ کے زمانے میں وفات پائی۔

پھر یہی صاحب ناسخ التواریخ جلد 1 صفحہ 53 پر لکھتا ہے کہ ایک مورخ لکھتا ہے کہ امِ کلثومؓ رادر مجلس یزید بدید۔ مگر دوسری طرف حال یہ ہے کہ نویسنده در جائے دیگر بطورے بایں داستان لب می کشاید که حضرت امِ کلثومؓ زوجہ عمرؓ دریں مجلس حضور نداشته است۔

یہ ہے اکثر کتب کا حال کہ خود ہی دعویٰ کیا اور خود ہی تردید کر دی پھر اسی طراز المذہب یعنی ناسخ التواریخ جلد1 صفحہ 59 پر وازیں جملہ اخبار معلوم میگردد که جناب امِ کلثومؓ که در کربلا و شام حضور یافته امِ کلثوم صغری زوجہ عبدالله الاصغر بن عقیل است۔

ان روایات سے ظاہر ہے کہ جو امِ کلثوم کربلا اور شام میں موجود تھی وہ امِ کلثوم صغریٰ زوجہ عبدالله الاصغر بن عقیل ہے۔

غالباً اب تو بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ 50ھ میں مرنے والی سیدہ ام کلثومؓ دوبارہ زندہ ہو کر قافلہ کربلا کے ساتھ نہیں گی تھی بلکہ دوسری سیدہ ام کلثومؓ تھی جو اس وقت بقید حیات تھی۔ 

(4)۔ سیدنا عمرؓ کا نکاح ایک جننی سے ہوا سیدہ امِ کلثومؓ دخترِ سیدہ فاطمہؓ سے نہیں ہوا

انوار نعمانیه جلد1 صفحہ 25:

جب سیدنا عباسؓ نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ مجھے اجازت دے دیں کہ سیدہ ام ِکلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کردوں تو:

فلما رای امیر المومنين مشقة كلام الرجل على العباسؓ وانه سيفعل معه ما قال ارسل الى جنيته من اهل النجران يهودية يقال لها سخيفه بنت حروزيه فامرها فتمثلت فی مثال امِ كلثومؓ وحجبت الابصار عن امِ كلثومؓ وبعث بها الى الرجل فلم تزل عنده حتىٰ انه استواب بها يوما وقال ما فی الأرض سحر اهل بیت اسحر من بنی هاشم ثم اراد ان يظهر للناس فقتل واخذت الميراث وانصرفت الی نجران و اظهر امیر المومنين ام كلثومؓ فاقول وعلى هذا فحدیث اول فرج غصبناه محمول على التقية او الاتقاء من عوام الشيعة كمالا يخفىٰ۔

ترجمہ: جب سیدنا علیؓ نے سیدنا عباسؓ پر سیدنا عمرؓ کی سخت کلامی دیکھی اور سمجھا کہ سیدنا عمرؓ وہ کر گزریں گے جو کہہ رہے ہیں تو نجران کی ایک یہودی جننی کی طرف نجران میں آدمی بھیجا جننی کا نام سخیفہ تھا سیدنا علیؓ نے جننی کو حکم دیا اور اس نے سیدہ امِ کلثومؓ کی شکل اختیار کر لی اور سیدہ امِ کلثومؓ کو چھپا دیا اور اس جننی کو سیدنا عمرؓ کی طرف بھیج دیا گیا اور وہ ہمیشہ سیدنا عمرؓ کے پاس رہی حتیٰ کہ سیدنا عمرؓ کو ایک روز شک پڑ گیا اور فرمایا زمین پر بنی ہاشم سے بڑا کوئی جادوگر نہیں پھر ارادہ کیا کہ حقیقت ظاہر کر دیں مگر قتل کر دیئے گئے اور وہ جننی میراث لے کر نجران چلی گئی اور سیدنا علیؓ نے سیدہ امِ کلثومؓ کو ظاہر کر دیا میں کہتا ہوں اس بات پر کہ حدیث پہلی فرج جو ہم سے غصب کی گئی تقیہ پر محمول ہوگی یا عوام شیعہ سے بچنے کے لئے ہوگی۔ 

پھر ناسخ التواریخ جلد 1 صفحہ 60:

ایں اخبار باحکایت جنیه منافات نداردچه ایں حکایت است مکتوم که جزبر خواص خویش معلوم نداشته اند و معنیٰ آیت حدیث چنیں است که غصبناه ظاهرا۔

ترجمہ: یہ روایات جننی کی حکایت سے کوئی منافات نہیں رکھتیں کیونکہ یہ حکایت سوائے خواص کے کسی کو معلوم نہیں تھی اور اس حدیث کے معنیٰ یوں ہوں گے بظاہر جو غصب کی گئی۔

مگر اس ضمن میں اصولِ کافی میں یہ ملتا ہے کہ:

العباسؓ ساله (علیؓ) عن يجعل الامر اليه فجعله اليه۔

ترجمہ:  سیدنا عباسؓ نے کہا سیدنا علیؓ سے کہ یہ معاملہ میرے سپرد کر دیں اور سیدنا علیؓ نے سیدنا عباسؓ کو اختیار دے دیا۔

یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں: 

  1.  کیا اصولِ کافی مستند اور معتبر ہے یا انوار نعمانیہ؟۔
  2. اگر اصولِ کافی کے متعلق شیعہ کا عقیدہ وہی ہے کہ ھذا کاف لشیعتنا تو سیدنا علیؓ نے سیدنا عباسؓ کو جو اختیار دیا تھا اس کا تعلق اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ سے تھا یا یہودی جنیہ سےتھا؟۔
  3.  انوار نعمانیہ میں جو "ارسل" لکھا ہے سیدنا علیؓ نے کس کو بھیجا تھا۔
  4.  کیا اسکو اصل شکل میں جننی نظر آئی؟ اصل شکل میں کیسے نظر آیا کیونکہ روایت کے مطابق اس نے سیدنا علیؓ کے پاس آنے کے بعد سیدہ امِ کلثومؓ کی شکل اختیار کی؟۔
  5.  وہ جننی نکاح کے بغیر حضرت کے پاس بھیج دی گئی۔
  6. سات سال سیدنا عمرؓ کے پاس رہی دو بچے زید اور رقیہ پیدا ہوئے تو اتنی مدت تک سیدہ امِ کلثومؓ کہاں رہی؟۔
  7.  کیا سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی کو ایسی قید تنہائی میں رکھا کہ کسی کو خبر نہ ہونے پائے کہ ایک سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا عمرؓ کے پاس ہے اور ایک سیدنا علیؓ کے گھر میں۔
  8. (8)۔ اور یہ جو لکھا ہے کہ ولما مات عمرؓ اتى علىؓ ام كلثومؓ فاخذ بيدها فانطلق بھا تو کیا سیدنا علیؓ جننی کو گھر لے گئے۔
  9.  مگر انوار نعمانیہ میں ہے کہ جننی میراث لے کر نجران چلی گئی یہ کیا معمہ ہے؟۔
  10. جننی سے شریعت میں نکاح حرام ہے اگر سیدنا علیؓ نے نکاح کیا تو فعل حرام کے مرتکب ہوئے اور بغیر نکاح کے بھیجی تب بھی فعل حرام کا ارتکاب کیا۔ 
  11.  اصل سیدہ امِ کلثومؓ سات سال تک تو کہیں چھپائے رکھی اس کے بعد کی اس کی زندگی پر بھی کوئی روشنی ڈالی جائے۔
  12. (صاحبِ طراز المذہب جلد 1 صفحہ 59) پر لکھتا ہے و تمسک باذیال جنیتہ یہو یہ چنداں وجوبے ندارد یعنی جننی کا واقعہ ہی سرے سے بناوٹی ہے۔
  13. اگر یہ واقعہ درست ہے تو سیدنا علیؓ جیسا بزدل اور کسے ظاہر کیا گیا ہے۔
  14.  صاحبِ طراز آگے صفحہ 60 پر لکھتا ہے کہ جننی کا واقعہ اور اول فرج غصبناہ میں کوئی منافات نہیں کیونکہ ظاہر میں تو واقعی بجبرِ سیدہ ام کلثومؓ سے نکاح پڑھایا گیا اور جننی کا واقعہ خواص کے بغیر کسی کو معلوم نہیں اور ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں۔
  15.  انوار نعمانیہ کا موقف یہ ہے کہ اول فرج غضبناه محمول على التقيه اوالانقاء عن عوام الشيعة جس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنی رضا مندی سے اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کیا مگر شیعہ کے ڈر سے تقیہ کر کے کہہ دیا کہ غصبناہ کیا شیر خدا کے ساتھ اس کردار کا کوئی جوڑ ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سیدنا علیؓ نے اپنی خوشی سے سیدنا عمرؓ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا کیونکہ ہم مذہب جو تھے مگر شیعوں کے ڈر سے تقیہ کر کے کہہ دیا کہ جبراً مجھ سے نکاح کرایا گیا ہے۔

حقیقت کے اعتبار سے اس بیان شدہ واقع پر غور کیا جائے تو یہ ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جتنا سوچو معمہ در معمہ بنتا چلا جاتا ہے مگر اللہ جزائے خیر دے سید نعمت اللہ محدث الجزائری کو کہ اس عقدے کا حل بتا دیا۔

وانما الاشكال فی تزويج على عليه السلام ام كلثومؓ لعمر بن الخطابؓ وقت تخلفه لانه قد ظهرت منه المناكير وارتد عن الدين ارتد ادا اعظم من كل ارتداد فاذا ارتد على هذا النحو من الارتداد فكيف ساغ فی الشريعة مناكحة وقد حرم الله تعالىٰ نكاح اهل الكفر والارتداد واتفق عليه علماء الخاصة فنقول قد تفمح الاصحاب عن هذا بوجوهين الاول فقد استفاض فی اخبارهم عن الصادق عليه السلام لما سئل عن هذه المناكحة فقال انه اول فرج غصبناه و تفصيل هذا ان الخلافة قد كانت اعز علی امیر المومنين عليه السلام من الاولاد والبنات والازواج والاموال وذلك ان بها نظام الدين و اتمام السنة ورفع الجور و احیاء الحق وموت الباطل وجميع فوائد الدنيا والأخرة فاذا لم يقدر على الدفع عن مثل هذا الامر الجليل الذی ما تمكن من الدفع عنهو التقية باب فتحه الله سبحانه للعباد وامرهم بارتكابه والزمهم به كما اوجب عليهم الصلواة والسلام حتىٰ انه ورد من الائمة الطاهرين عليهم السلام لا دين لمن لا تقية له فقبل عذره عليه السلام فی مثل هذا الامر الجزئی۔

ترجمہ: سیدنا عمرؓ کے خلافت کے وقت سیدنا علیؓ کا سیدہ امِ کلثومؓ کو سیدنا عمرؓ کے نکاح میں دے دینے میں اشکال ہے کیونکہ خلافت کے وقت سیدنا عمرؓ سے بڑی برائیاں ظاہر ہوئیں اور دین سے ایسے پھر گئے تھے کہ اس سے بڑا کوئی ارتداد نہیں پس ایسے مرتد سے شریعت میں نکاح کیسے جائز ہوا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کافر اور مرتد سے نکاح حرام کیا ہے اور اس پر شیعہ علماء کا اتفاق ہے ہم کہتے ہیں کہ علمائے شیعہ نے اس اعتراض سے دو طرح جان چھڑائی ہے پہلی یہ کہ شیعہ روایات سے ظاہر ہے کہ جب سیدنا جعفرؒ سے پوچھا گیا اس نکاح کے متعلق تو جواب دیا کہ یہ پہلا فرج ہے جو ہم سے غصب کیا گیا تفصیل اس کی یہ ہے کہ خلافتِ سیدنا علیؓ کو اپنی اولاد بیٹیوں بیویوں اور مال سے زیادہ محبوب تھی کیونکہ خلافت سے دین کا نظام قائم ہوتا ہے اتمامِ سنت ہے دفع ظلم احیائے حق اور باطل کی موت ہوتی ہے اور تمام دینی اور دنیوی فوائد اس سے وابستہ ہیں پس جب سیدنا علیؓ کو قدرت نہ تھی کہ سیدنا عمرؓ کو خلافت سے باز رکھیں اور تقیہ ایسا باب ہےاللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے کھول دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تقیہ اختیار کریں اور تقیہ کو ایسا ہی واجب کر دیا ہے جیسے نماز اور روزہ یہاں تک کہ ائمہ طاہرین سے روایت ہے کہ جس نے تقیہ نہ کیا اس کا کوئی دین ہی نہیں لہٰذا سیدنا علیؓ کا عذر بھی اس جزئی امر میں قبول کیا گیا۔

واما الشبهة الواردة على هذا وهى انه يلزم ان يكون عمرؓ زانيا فی ذلك النكاح وهو مما لا يقبله العقل بالنظر الى ام كلثومؓ فالجواب عنها من وجهين احدهما ان ام كلثومؓ لا حرج عليها فی مثله لا ظاهرا ولا واقعا وهوظاهر واما هو (عمرؓ) فليس بزان فی ظاهر الشريعة لانه دخول مترتب على عقد باذن الولي الشرعی واما فی الواقع وفی نفس الامر فعليه عذاب الزانی بل عذاب كل اهل المساوى والقبائح الثانی فی القطصی) ان الحال لما اٰل الى ما ذكرنا من التقية فيجوز ان يكون قد رضى عليه السلام قبلك المناكحة رفعا لدخوله مسلك غير الوطى المباح۔

ترجمہ: دوسرا شبہ یہ ہے کہ لازم آئے گا کہ سیدنا عمرؓ زانی ہو اور سیدہ امِ کلثومؓ کے بارے میں عقل اسے قبول نہیں کرتی اس کا جواب دو طرح ہے ایک یہ کہ اس نکاح میں سیدہ امِ کلثومؓ پر اس کا کوئی گناہ نہیں تھا ظاہراً نہ واقعہ کے لحاظ سے جہاں تک سیدنا عمرؓ کا تعلق ہے وہ ظاہری شریعت میں وہ زانی نہیں کیوں کہ نکاح ولی شرعی کی اجازت سے ہوا لیکن واقعہ میں اس پر زانی کا عذاب ہوگا بلکہ ہر بدکار کی برائی کا عذاب ہوگا دوسرا یہ کہ جب سیدنا علیؓ نے تقیہ کر لیا تو جائز ہے کہ سیدنا علیؓ اس نکاح پر راضی ہو گئے ہیں کیونکہ ایسا نہ ہو تو ولی غیر مباح میں داخل ہوتا ہے۔

یعنی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ:

(1)۔ سیدنا علیؓ نے سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح اپنی خوشی سے کیا مگر شیعہ کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ سیدنا عمرؓ مرتد تھے (معاذ اللہ) اور شریعت میں کافر سے نکاح کرنا حرام ہے تو سیدنا علیؓ نے ایسا کیوں کیا تو جواب دیا ہے کہ سیدنا علیؓ کو خلافت اس قدر عزیز تھی کہ اس کے لئے اپنی اولاد ازواج اور اموال قربان کر دینا پسند کرتے تھے یعنی یہ عقدہ حل ہو گیا کہ کوئی جبر نہیں تھا بلکہ اپنی خوشی سے خلافت کی خاطر یہ قربانی دے دی قربانی تو بڑی ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ قربانی دینے کا خلافت سے کیا تعلق ہے کیا انہیں کہا گیا تھا کہ یہ قربانی دو تو خلافت ملے گی بات پھر الجھ گئی۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار کی خاطر یہ قربانی دینا کوئی بڑی بات نہیں اس گئے گزرے زمانے میں بھی لوگ اقتدار کے لئے بیٹیوں بیویوں اور مال کی قربانی دیا کرتے ہیں اور اس کثرت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بھلے مانی سے اقتدار تک پہنچنے والے خال خال ہی ملتے ہیں لہٰذا سیدنا علیؓ کی یہ قربانی تو کوئی خاص وزن نہیں رکھتی۔

اس کی توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ سیدنا علیؓ کو صرف اقتدار محبوب نہیں تھا بلکہ وہ اقتدار کو ایک بہت بڑی خوبی تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے وہ یہ اقتدار حاصل کر کے دین کا نظام درست کریں گے حق کا احیاء کریں گے باطل کو مٹائیں گے گویا تمام دنیوی اور اخروی فوائد خلافت سے وابستہ ہیں واقعی نصب العین بڑا بلند ہے دین کی خاطر تو اس سے بڑی قربانی دینا بھی معمولی بات ہے مگر جب انہیں خلافت ملی تو انہوں نے شیخینؓ کے طریقے سے ہٹ کر ایک کام بھی نہیں کیا ان کے عہد کی پالیسی آئینِ احکام وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ کے پیشتر وہ یہی کام کرتے چلے آئے تھے اتنا ضرور فرق پڑا کہ سیدنا علیؓ کے عہد میں سلطنتِ اسلامی کا پھیلاؤ رک گیا انہوں نے ایک انچ زمین کا اضافہ بھی اسلامی مملکت میں نہیں کیا دوسرا سوال یہ ہے کہ جب سیدنا علیؓ نے خلافت کی خاطر اپنی خوشی سے یہ قربانی دی تو غصبِِ فرج کی تہمت کیوں لگاتے ہو تو جواب یہ دیا کہ شیعوں سے خطرہ تھا اس لئے ان کی خاطر اس پر تقیہ کا لیبل لگا دیا ایک تیر سے دو شکار ایک تو شیعہ مطمئن ہو گئے دوسرا تقیہ کا ثواب مل گیا کیونکہ تقیہ اسی طرح واجب ہے جیسے نماز اور روزہ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ان سے بھی افضل ہے کیونکہ نماز اور روزہ کے لئے وقت مقرر ہے بلکہ تقیہ ہر وقت ہر حال اور ہر لحظہ فرض ہے بھی تو کہا گیا ہے کہ جہاں تقیہ نہیں وہاں دین نہیں گویا نماز روزہ تو محض تبرک کے طور پر ہے اصل دین تو تقیہ ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ تقیہ کا ثواب تو مل گیا مگر زنا کے گناہ سے کیسے بچیں گے تو اس کا حل یہ بتایا کہ جہاں تک سیدہ امِ کلثومؓ کا تعلق ہے ان کے متعلق تو زنا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا رہے سیدنا عمرؓ تو شریعت کے لحاظ سے وہ زانی نہیں کیونکہ ولی شرعی کی اجازت سے نکاح ہوا مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ زانی ہیں بلکہ دنیا بھر کے زانیوں کا عذاب انہیں ہوگا مگر کیوں؟ اس لئے کہ سیدنا عمرؓ جو ہوئے مگر اسی سانس میں دوسری بات بھی کہہ دی کہ جب سیدنا علیؓ نکاح پر راضی ہوئے خواہ حقیقتاً خواہ تقیہ کر کے بہرحال راضی ہو گئے لہٰذا یہ وطی مباح میں داخل ہے یااللہ یہ کیا پہیلی ہے کہ وطی مباح بھی ہے اور دنیا بھر کا عذاب بھی سیدنا عمرؓ کے لئے تیار ہے۔ 

بک گیا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی! 

صحاحِ اربعہ اور سیدہ ام کلثومؓ بنتِ سیدنا علیؓ

اہلِ سنت کے ہاں کتابُ اللہ کے بعد صحاحِ ستہ کا جو درجہ ہے شیعہ کے ہاں صحاحِ اربعہ کو وہی مقام حاصل ہے اس لئے اس مستند ذخیرے سے اس امر کا ثبوت پیش کیا جائے گا کہ سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا علیؓ کی بیٹی تھی۔

(1)۔ فروعِ کافی جلد 6 صفحہ 115 116 باب متوفی عنہا زوجها طبع ایران۔

عن ابی عبدالله قال سالته ای (راوی) عن المرأة المتوفى عنها زوجها تعتد فی بيتها او حيث شاءت قال بل حيث شاءت ان علياً عليه السلام لما توفى عمرؓ اتى امِ كلثومؓ فانطلق بها الى بيته۔ 

ترجمہ: راوی کہتا ہے میں نے سیدنا جعفرؒ سے بیوہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ اپنے گھر میں عدت گزارے یا جہاں چاہے تو آپ نے فرمایا جہاں چاہے کیوں کہ سیدنا عمرؓ فوت ہوئے تو سیدنا علیؓ سیدہ امِ کلثومؓ کو اپنے گھر لے آئے۔

یہاں یہ وضاحت نہیں کہ جسے گھر لے گئے وہ اصل بیٹی تھی یا جننی تھی ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل بیٹی تھی جننی کو اپنے گھر لے جانے میں انہیں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے بلکہ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ ان کے گھر میں دو سیدہ امِ کلثومؓ ہو جاتیں۔

(2)۔ الكافی كتاب النكاح باب فی تزويج امِ كلثومؓ۔

زرارہ کہتا ہے قال الامام ذلک فرج غصبناه۔

ترجمہ: سیدنا جعفرؒ نے فرمایا یہ وہ فرج ہے جو ہم سے چھین لی گئی۔

واقعی کمزوروں سے لوگ بیٹیاں چھین ہی لیا کرتے ہیں اور حمیت بالکل ہی جاتی رہے تو وہ شکوہ بھی نہیں کرتے۔

(3)۔ فروعِ کافی کتاب النکاح باب فی تزويج امِ كلثومؓ

عن ابی عبدالله قال لما خطب اليه قال له امير المومنين انها صبية قال فلقى العباسؓ فقال له ابی بأس فقال ما ذاك قال خطبت الى ابن ابیک فردنی اما والله لا عودن زمزم ولا ادع لكم مكرمة الاهدمتها ولا قيمن عليه شاهدين بانه سرق ولا قطعن يمينه فتاه العباس فاخبره وسأله ان يجعل الامر اليه فجعله اليه۔ 

ترجمہ: واقعی شیرِ خدا کہہ کر اس سے ایسا کردار منسوب کرنا صرف محبانِ اہلِ بیتؓ کو زیب دیتا ہے کوئی اور بھلا کہاں ایسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کر سکتا ہے ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب سیدنا علیؓ نے تقیہ کر کے سیدنا عمر فاروقؓ کو امیر المومنین تسلیم کر لیا تو تقیہ کر کے ہی انہیں داماد تسلیم کر لینے میں کیا قباحت ہے البتہ ایک الجھن رہ جاتی ہے کہ بقول شیعہ امام برحق ہے اور بقول شیعہ کافر کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر رہا ہے یہ امامت کیسی ہے اور یہ شریعت کونسی ہے؟ اس الجھن سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کو کامل الایمان تسلیم کرو تو سیدنا علیؓ کا ایمان بچ سکتا ہے مگر کوئی اس الجھن سے نکلنا نہ چاہے تو اس پر جبر تو نہیں کیا جا سکتا۔

(4)۔ استبصار كتاب النكاح باب العدة جلد 3 صفحہ 184 185:

ان علياًؓ لما توفى عمرؓ اتی امِ كلثومؓ فانطلق بها الى بيته۔

(5)۔ استبصار (ايضاً)

ان علياًؓ لما مات عمرؓ اتی امِ کلثومؓ فاخذ بيدها فانطلق بها الى بيته۔

(6)۔ تہذيب الاحكام طبع ایران جلد 8 صفحہ 16

ان علياًؓ لما توفى عمرؓ اتی امِ كلثومؓ فانطلق بها الى بيته

(7)۔ تہذيب الاحكام جلد 9 صفحہ 362 كتاب الميراث

عن جعفرؓ عن ابيه قال ماتت امِ كلثومؓ بنت علىؓ وابنها زيد بن عمر بن الخطابؓ فی ساعة واحدة لا يدرى ايهما قبل فلم يورث احدهما من الأخر وصلى عليهما ضجيعا۔

(8)۔ فروع کافی کی ایک روایت پہلے بیان ہو چکی ہے

صحاحِ اربعہ کی یہ روایات سیدنا جعفرؒ اور سیدنا باقرؒ سے مروی ہیں ان میں سے چھ حدیثیں ایسی ہیں کہ وہی راوی اور وہی الفاظ ہیں جو کافی میں ہیں پھر استبصار اور تہذیب سے اختصار ان علیاًؓ سے بقدرِ ضرورت نقل کی ہیں۔

اوائل خلافتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ میں سیدہ امِ کلثومؓ اور ان کے بیٹے زید کی وفات ہوئی۔ 

انکارِ نکاح پر تبصرہ:

(1)۔ ناسخ التواریخ صفحہ 63 پر لکھتا ہے کہ:

شیخ (مفید ) اصل ایں واقعه را انکارمی نماید برائے بیان آنست که از طرق اهل بیت بعید است و گرنه بعد از ورود این جمله اخبار وجود ایں مناکحت انکارش عجیب می نماید دهم از حضرت ابی عبداللہ مردیست ان علياؓ لما توفى عمرؓ اتی امِ کلثومؓ فانطلق بها الى بيته بروجود این قضیه تصریح می نماید۔ 

ترجمہ: شیخ مفید اس واقعہ سے اس بنا پر انکار کرتا ہے کہ اہلِ بیتؓ کے طریقہ کے خلاف ہے مگر ان تمام روایات کے بعد انکار کرنا تعجب کی بات ہے اور سیدنا جعفرؒ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمرؓ فوت ہوئے تو سیدنا علیؓ سیدہ امِ کلثومؓ کے پاس آئے اور ان کو اپنے گھر لے آئے روایت اس قصہ کے وجود پر صریح دلالت کرتی ہے۔

(2)۔ اس کتاب کے جلد 1 صفحہ 59 پر درج ہے۔

علامه مجلسی در بحارالانوار بعد از نگارش برنے اخبار میں نویسد که از حضرت ابی عبد الله مردیست که در باب ترویج ام کلثومؓ فرمود ان ذلك فرج غصبناه وبردایتی فرمود اول فرج غصب منا امِ كلثومؓ۔ 

ترجمہ: یعنی شیعہ مورخ عباس قلی خان اس انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے صاف لکھتا ہے کہ شیخ مفید کے پاس عدمِ نکاح سیدہ امِ کلثومؓ  ہمراہِ سیدنا عمر فاروقؓ کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ انکار در حقیقت ائمہ معصومین کے فرمان کا انکار ہے یہ احادیث امام سے منقول ہو کر صحاحِ اربعہ میں درج ہیں تو حدیث امام کسی عالم کے قول سے کیسے مردود قرار دی جاسکتی ہے۔

(3)۔ مجالس المومنین جلد 1 صفحہ 195:

محمد بن جعفرؓ بعد از فوت عمر بن الخطابؓ همشرف مصاہرت حضرت امیر المومنین مشرف گشته امِ کلثومؓ را باعدم کفاعت از روئے اکراہ در جہالہء عمرؓ بود تزویج نمود۔ 

ترجمہ: سیدنا عمرؓ کے ساتھ سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح غیر کفو ہونے کی وجہ سے بجبر کیا گیا تھا تو سیدنا عمرؓ کی وفات کے بعد سیدنا محمد بن جعفرؓ نے امیر المومنین کے ساتھ رشتہ مصاہرت کا شرف حاصل کرنے کے لئے سیدہ امِ کلثومؓ سے نکاح کر لیا۔

یہاں بڑی فنکاری سے انکار کیا گیا ہے جس میں اقرار بھی پایا جاتا ہے کہ نکاح تو ہوا مگر جبراً ہوا اور برضا و رغبت نکاح نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ معاملہ کفو کا تھا اور سیدنا عمرؓ کفو سے نہ تھے یہ سہارا بھی بڑا بودا ہے کیونکہ شیعہ فقہ میں کفو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا شیعہ کتب میں دفتر کے دفتر بھرے ہیں کہ شیعہ کفو کے قائل نہیں طوالت سے بچنے کے لئے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے شرائع الاسلام از علامہ حلی کفو کے سلسلے میں لکھتا ہے:

يجوز نكاح الحرية العبد والعربية العجمی والهاشمية غير الهاشمى۔

ترجمہ: آزاد عورت کا نکاح غلام سے جائز ہے عربی عورت کا نکاح عجمی مرد سے ہو سکتا ہے اور ہاشمی عورت کا نکاح غیر ہاشمی مرد سے جائز ہے۔

اس کی شرح مسالک الافہام میں شہیدِ ثانی شیخ زین الدین نے لکھا ہے(جلد اول کتاب النكاح)۔

وزوج النبیﷺ ابنته عثمانؓ وزوج ابنته زینبؓ بابی العاصؓ بن الربيع و ليسا من بنی هاشم و كذلك زوج علىؓ ابنته امِ كلثومؓ من عمر وتزوج عبدالله بن عمرؓ بن عثمانؓ فاطمة بنت الحسينؓ وتزوج مصعب بن الزبيرؓ اختها سكينه وكلهم من غير هاشم۔ 

ترجمہ: نبی کریمﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کیا اور اپنی بیٹی سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابوالعاص بن الربیعؓ سے کیا یہ دونوں ہاشمی نہیں تھے اسی طرح سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کا سیدنا عمرؓ سے کیا اور سیدہ فاطمہ بنتِ حسینؓ کا نکاح سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ہوا اور اس کی بہن سکینہ کا نکاح سیدنا مصعب بن زبیرؓ  سے ہوا اور یہ سب غیر ہاشمی تھے۔

شارح نے پانچ رشتے بطورِِ ثبوت پیش کر دیئے کہ ہاشمی اور غیر ہاشمی کے درمیان ہوئے۔

ان میں کفو کا سوال پیدا نہیں ہوتا مختصر یہ کہ کفو کا مسئلہ فقہ جعفری میں مطلق قابلِ لحاظ نہیں یہ فقہ جعفری کا متفق علیہ فیصلہ ہے۔

اس نکاح کے باوجود انکار کی بحث کو فیصلہ کن مرحلہ پر پہنچانے کے لئے ہم ایک مشہور شیعہ مورخ کو پیش کرتے ہیں جس نے اپنی کتاب طراز المذہب میں ایک مستقل باب تزویج امِ کلثومؓ ہمراہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ باندھا ہے جو صفحہ 48 سے صفحہ 68 تک پھیلا ہوا ہے اس میں سے چند اِقتباس درج ذیل ہیں۔

  1.  از جناب امِ کلثومؓ دختر امیر المومنین یاد کرده اند و در جمله مسطور داشته اند و از فرزندش زید و رقیه که عمر بن الخطابؓ پدید آورد اسم برده اند۔ (صفحه 48) 
  2. عمرؓ بخدمت امیر المومنین پیام کرد ام کلثومؓ را خطبه کرد و علی علیه السلام امِ کلثومؓ را بایدی تزویج فرمود و عباسؓ بن عبد المطلب با جازت امیر المومنین علیؓ بن ابی طالب متولی امر تزویج شد و عمرؓ را از امِ کلثومؓ پسری پدید آمد که زیدش نامیدند و او با ما در خود امِ کلثومؓ بیک وقت جہاں را بداد کردند و بر هر دو تن نمازگزاشتند و بعد از هلاک عمرؓ عون بن جعفرؓ بن ابی طالب جناب امِ کلثومؓ را در حباله نکاح در آورد۔ (صفحه 49)۔
  3. امِ کلثوم کبریٰؓ که قبل از وفات رسول خداﷺ بجہاں آمد و عمر بن الخطابؓ اور تزویج نمود و زید الاکبر ورقیه از عمرؓ بزادوام کلثومؓ و پسرس زید در دقت واحد بمردند۔ (صفر 52)۔
  4. از جمله فرزندانِ عمر بن الخطابؓ زید و فاطمه که مادر ایشان امِ کلثومؓ دختر علیؓ ابنِ ابی طالب از حضرت فاطمهؓ دختر رسول خداﷺ است۔ (صفحہ 57)۔
  5. در سال ہفدہم روئے داده باشد جناب امِ کلثومؓ از هشت ونه سال کمتر نتواند داشت چنانچه در بیت الاحزان مذکور داشته۔ (صفحہ 66)۔