Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

وجہ نکاح سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہمراہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

  مولانا اللہ یار خانؒ

وجہ نکاحِ سیدہ ام کلثومؓ ہمراہِ سیدنا عمر فاروقؓ

 کہ کسی مومنہ کا نکاح کافر مرد سے بھی ہو سکتا ہے؟ 

ظاہر ہے کہ ایسا ہونا قرینِ قیاس نہیں لہٰذا اس بارے میں بھی شیعہ کتب کا جائزہ لیتے ہیں۔

(1)۔ مناقبِ شہر بن آشوب جلد 1 صفحہ 275 طبع جدید مطبوعہ قم:

قیل فلم تزوج عمرؓ ابنته قال لاظهاره الشهادتين و بفضل رسول اللهﷺ واراته و استصلاحه وكفه عنه وقد عرض نبی الله لوطؑ بناته على قومه الخ و وجدنا آسيه بنتِ مزاحم تحت فرعون۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کیوں اقرار کیا؟ وجہ یہ کہ سیدنا عمرؓ شہادتین کا اظہار کرتے تھے اور نبی کریمﷺ کی فضیلت کا اقرار کرتے تھے اور حضورﷺ کی بے حد عزت کیا کرتے تھے اور حضور اکرمﷺ سے ہر قسم کی بے ادبی سے باز رہتے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیاں کفار کو پیش کر دی تھیں اور حضرت آسیہ فرعون کی منکوحہ تھیں۔

اس اِقتباس سے ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ کو مسلمان تسلیم کرتے تھے اس لئے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا مگر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ جب سیدنا علیؓ نے انہیں مسلمان تسلیم کیا تو شیعانِ علی اور محبانِ اہلِ بیتؓ انہیں مسلمان کیوں نہیں تسلیم کرتے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے محبانِ اہلِ بیتؓ کے نزدیک محبت کا کمال یہ ہے کہ امام کی ایک نہ سنے اور دھڑلے سے امام کی مخالفت کرے اور اگر امام سے اتنی کمال درجے کی محبت نہ ہو تو یہ راہ نکال لیں کہ سیدنا عمرؓ نے دل میں نفاق چھپا رکھا تھا لیکن یہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ امام کی نگاہ جہاں نہیں آپ کی وہاں ان لوگوں کی نگاہ کیسے پائی گئی امام کو سیدنا عمرؓ کے دل کا حال معلوم نہ ہوا اور صدیوں بعد آنے والے محبانِ امام نے ایکسرے کر کے سیدنا عمرؓ کے دل کا حال معلوم کر لیا۔

اس اِقتباس سے ضمناً ایک اور سحر بھی مل گیا کہ سیدنا علیؓ کے نزدیک اقرار شہادتین ہی مسلمان ہونے کی دلیل تھی تو یہ تیسری پخ جو لگائی ہے اشهدان علیا ولی الله الخ۔ کہاں سے آٹپکی صاف ظاہر ہے کہ اس شہادت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں محض زیب داستان کے لئے یار لوگوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑا ہے۔

اصل سوال کا جواب تو "و کفہ عنہ" پرختم ہو جاتا ہے مگر مصنف نے حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت آسیہ کا حوالہ دے کر بات بڑھا دی کہ اللہ کا ایک نبی جب اپنی بیٹیاں کافروں کو پیش کر سکتا ہے تو اس نکاح میں کیا قباحت ہے جو سیدنا علیؓ نے کیا یعنی سیدنا عمرؓ اگر مسلمان نہ ہو پھر بھی کوئی حرج نہیں قرآنِ کریم نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِی صُدُورُهُمْ أَكْبَر الخ۔ (سورة آلِ عمران آیت نمبر 118)۔

اس واقعہ پر شیعہ مفسرین مقداد نے اپنی تفسیر کنز العرفان طبع ایران جلد 2 صفحہ 229 پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔

قال هوءلاء بناتی ھن أَطْهَرُ لَكُمْ فانه غیر شرعنا فلا يكون حجة فی شرعنا۔

حضرت لوط علیہ السلام کا معاملہ پہلی شریعتوں کا ہے یہ ہماری شریعت میں حجت نہیں۔

تفصیل کے لئے دیکھئے رسالہ بناتِ رسولﷺ۔

(2)۔ طراز المظفری جلد 1 صفحہ 61۔

ایں که صحت نکاح یہاں وجود ظاہر اسلام که عبارت از شہادتین و ادائے نماز بجانب کعبه معظمه و اقرار تجمله شریعت است صورت سے بندد و اگر چند مناکحت آنان که ایمان استوار دارند افضل و با آنکس کہ بہماں تکلیف ظاہر اسلام منضم است مکروہ است ولکن گاه می شود که به سبب ضرورت و وجود کلمه اسلام ایں کراہیت نیز مرتفع می کردد و چون امیر المومنین علیؓ بسبب آں تہدید و تواعد که با حضرت دارند بقبول ایں کار اضطرار یافت چه برجان خود و شیعه خود در ایں امتناع بیم ناک بود ضرورت اجابت کرد۔

ترجمہ: ظاہر اسلام جو کہ شہادتین ادائے نماز اور شریعت کے اقرار سے عبارت کی وجہ سے نکاح صحیح قرار دیا جاتا ہے جن لوگوں کا ایمان محکم ہو ان سے نکاح افضل ہے اور جن کا ایمان ظاہر اسلام تک محدود ہو ان سے نکاح مکروہ ہے لیکن ضرورت کی بنا پر یہ کراہیت بھی اٹھ جاتی ہے اور چونکہ سیدنا علیؓ کو دھمکیاں دی گئیں اس لئے اپنے اور شیعہ کے بچاؤ کے لئے ضرورت پیدا ہوگئی اس لئے آپ نے اجازت دے دی۔

اس بیان سے نکاح کی تین قسمیں معلوم ہوتی ہیں۔

اول وہ جو افضل ہے اس کے لئے ایمان کا استوار اور مستحکم ہونا شرط ہے مگر یہاں ایمان کے استحکام کا کوئی پیمانہ نہیں بتایا لہٰذا آزادی ہے کہ جسے چاہا استوار قرار دیدیا اور جسے چاہا ناقص سمجھ لیا۔

دوم وہ جو مکروہ ہے اس کے لئے اقرارِ شہادتین ادائے نماز اقرارِ شریعت کافی ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہی چلتا ہے اور ہم ظاہر ہی کے مکلف ہیں پھر وہ مکروہ کیوں قرار پائے۔

نیز اسلام کے لئے شہادتین کا اقرار ضروری ہے تو یہ تیسری شہادت جو صرف اذان میں داخل کر لی گئی ہے اور نماز میں موجود نہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے پھر یار لوگوں کا اس پر اصرار کیوں ہے اور اسے شہادتین کے ساتھ ملا کر اسلام کو بگاڑنے کی کیوں کوشش کی جارہی ہے۔ 

سوم وہ جس میں کراہیت نہیں مگر شرط یہ ہے کہ کوئی ضرورت پیش آجائے گویا اس نکاح کا موجب ایک ضرورت تھی لہٰذا اس میں کوئی کراہیت نہیں جب کراہیت نہیں تو اس امر کا صاف اقرار ہے کہ سیدنا عمرؓ کو سیدنا علیؓ نے مومن تسلیم کر لیا ہے۔

(3)۔ مجالس المومنین طبع جدید ایران جلد 1 صفحہ 451 تذکرہ مناظرہ علی بن اسمٰعیل۔

دیگر پرسید که چرا آنحضرت دختر خود بعمر بن الخطابؓ داد گفت بواسطہ آنکہ اظہار شہادتین می نمود بزبان و اقرار بفضل حضرت امیر میکرد۔

ترجمہ: سوال کیا کہ سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی سیدنا عمر بن الخطابؓ کو کیوں دیدی جواب دیا کہ انہوں نے شہادتین کا اقرار کیا اور سیدنا علیؓ کی فضیلت کا اقرار کیا اس لئے نکاح کر دیا۔

سیدنا علیؓ کی فضیلت کا اقرار کیا سیدنا عمرؓ مسلمان تھے "لا اله الا الله محمد الرسول اللہ" پڑھتے تھے اور سیدنا علیؓ کی فضیلت کے قائل تھے لہٰذا سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ شہر بن آشوب نے نبیﷺ کی فضیلت کا ذکر کیا ہے یعنی سیدنا عمرؓ کے کامل الایمان ہونے کی وجہ سے یہ نکاح ہوا۔

(4)۔ طراز المذہب مظفری جلد 1 صفحہ 62:

نخست اینکه امِ کلثومؓ راحسب تکلیف ظاہر شرع و وجود اسلام عمرؓ با عمرؓ تزوریج نموده اند۔

ترجمہ: پہلی بات یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کے مسلمان ہونے اور شریعت کے مکلف ہونے کی وجہ سے سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح کیا۔

(5)۔ الاستغاثه فی بدع الثلاثه جلد 1 صفحہ 93:

ان النكاح انما هو على ظاهر الاسلام الذی هو شهادتان والصلواة الى الکعبة والاقرار بجملة الشريعة وان کان الفضل ترك مناكحة من ضم الیٰ ظاهر الاسلام ضلالا لا يخرجه عن الاسلام الا ان الضرورة متىٰ قادت الیٰ المناكحة الضال مع اظهار کلمةالاسلام زالت الكراهية من ذلك۔

ترجمہ: نكاح كى بنیاد ظاہر اسلام پر ہے وہ ہے اقرار شہادتين کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اور سارى شریعت کا اقرار ہے صرف اظہار اسلام الى پر ترک نکاح افضل ہے گو یہ گمراہی ہے اور اس سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہاں ضرورت پیش آئے تو ایسے گمراہ سے نکاح جائز ہے ضرورت کراہیت کو رفع کر دیتی ہے۔

بات وہی ہے جو طراز المذہب جلد 1 صفحہ 61 کے حوالے سے گزر چکی ہے ہاں اس میں یہ اضافہ ہے که صرف اسلام کا اظہار کرنے والا گمراہ ہے اسلام سے خارج نہیں یعنی سیدنا عمرؓ کے مسلمان ہونے کا اقرار ہے۔