Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آیت استخلاف فی الارض

  مولانا اللہ یار خانؒ

آیت استخلاف فی الارض

 وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْئاؕ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ (سورة النور آیت نمبر 55)۔

ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین میں حکومت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے (اہلِ ہدایت) لوگوں کو حکومت دی تھی اور جس دین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند کیا ہے (اسلام) کو ان کے (نفع آخرت کے) لئے قوت دے گا اور ان کے اس خوف کے بعد اس کو لا مبدل به امن کر دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں اور جو شخص بعد (ظہور) اس (وعدے) کے ناشکری کرے گا تو یہ لوگ بے حکم ہیں۔ 

قرآنِ کریم نے اس آیت میں بنیادی طور پر دو امور کا ذکر کیا ہے اول ایک خاص جماعت سے خطاب ہے دوم اس جماعت کو تین انعام دینے کا وعدہ فرمایا ہے ان دونوں امور کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔

اول جن لوگوں سے وعدہ کیا جارہا ہے ان کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ نزولِ آیت سے پہلے ایمان لا چکے تھے اس سے چند ضروری نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

  1.  وہ لوگ اس وعدہ انعام سے خارج ہیں جو نزولِ آیت کے وقت تک ایمان نہیں لائے تھے مثلاً سیدنا امیرِ معاویہؓ چونکہ وہ اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے لہٰذا ان کی خلافت وہ خلافت نہیں جس کا اس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے۔ 
  2.  وہ لوگ بھی اس آیت کے مصداق سے خارج ہیں جو نزولِ آیت کے وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے یا خورد سالی کی وجہ سے قابلِ خطاب نہیں تھے لہٰذا سیدنا حسینؓ اور دوسرے اس سے خارج ہیں اور دوسرے ائمہ شیعہ تو اس کا مصداق نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے تو ان کو خطاب چہ معنیٰ۔

دوسری بات یہ ہے کہ موعود لہ کو وعدہ ہمیشہ اس چیز کا دیا جاتا ہے جو زمانہ حال میں اس کے پاس موجود نہیں ہوتی۔

چنانچہ شیعہ مفسر فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر منہج الصادقین صفحہ 337 طبع طہران میں لکھتے ہیں:

 وعده به چندے باشد که در زمانهء حال نباشد بلکه در زمان مستقل تا باشد۔ 

جس کا مطلب یہ ہوا کہ جن چیزوں کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ مخالفین کے پاس نزولی آیت کے وقت موجود نہیں تھیں۔

امِ دوم وعدہ کی تفصیل ہے تو اس میں تین انعامات دینے کا وعدہ ہے اول خلافت فی الارض دوم تمکین دین یعنی اس دین کا پھیلنا اور مستحکم ہونا جو اللہ کا پسندیدہ دین ہے سوم خوف کے بعد امن کی فضا پیدا ہونا۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ 

کہا جاتا ہے کہ منکم میں ضمیر مخاطب ہے مگر اس میں غائبین بھی داخل ہیں جیسا کہ قرآن کی دوسری تمام آیات کا منشا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ضمیر حاضرین سے خاص ہے اگر کسی مقام پر غائبین کو حاضرین میں داخل کیا جاتا ہے تو وہ خارجی دلائل کی بناء پر ہوتا ہے مثلاً اس پر اجماعِ امت ہے کہ دینِ محمدیﷺ قیامت تک جائے گا لہٰذا اس بنا پر عبادات مثلاً نماز روزہ وغیرہ کے احکام حلال و حرام کے احکام نکاح و طلاق کے احکام اور میراث وغیرہ کے احکام میں غائیبین کو حاضرین میں داخل کیا جاتا ہے ایسا کرنا ضروریات دین سے ہے کیونکہ احکامی آیات اس امر کی متقاضی ہوتی ہیں مگر یہ آیت تو انعامی ہے احکامی نہیں لہٰذا غائبین کو حاضرین میں شامل کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ 

شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں کہ ضمیر حاضرین کی حاضرین کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے چنانچہ شیعہ کتاب معالم الدین فی الاصول کے صفحہ 112۔193۔195 پر یہ بحث موجود ہے۔

 کتاب کا اصل نام معالم الدین فی الاصول وملاذ المجتہدین ہے یہ شیعہ عالم علامہ جلال الدین ابی منصور الشیخ حسن بن زین الدین شہید ثانی۔ (1011 ھجری) کی ہے۔ 

اصل بات یہ ہے کہ غائبین کبھی خطاب میں شامل ہی نہیں ہوتے بلکہ خطاب سے جو حکم ثابت ہوتا ہے اس حکم میں نائبین کو دلیل خارجی سے داخل کیا جاتا ہے اور یہاں حال یہ ہے کہ نہ یہ آیت احکامی نہ کوئی دلیل خارجی موجود پھر غائبین کو مخاطبین میں داخل کسی بنا پر کیا جائے۔

 شہید ثانی اپنی اسی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں: 

ما وضع الخطاب المشافهة نحويا ايها الناس ويا ايها الذين اٰمنوا لا يعم بصيغة من تأخر عن زمن الخطاب وانما يثبت حكمه لهم بدليل آخر۔ 

ترجمہ: جو الفاظ اور صیغے بالمشافہ خطاب کے لئے وضع کئے گئے ہیں مثلا: یاایها الناس اور یاایها الذین اٰمنوا: یہ طلب عام نہیں یہ ان لوگوں کو شامل نہیں جو وقت خطاب موجود نہیں تھے بعد میں آنے والوں کے لئے یہ حکم کسی اور دلیل سے ثابت ہوگا الفاظ خطاب سے نہیں ہو گا پھر لکھتے ہیں: انا نقول احكام الكتاب كلها من قبيل خطاب المشافهة وقد مر انه مخصوص بالموجودين فى زمان الخطاب وان ثبوت حكمه فی حق من تأخر انما هو بالاجماع وقضاء الضرورات باشتراك التكليف بين الكل۔ (صفحہ 193)۔ 

ہم کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے تمام خطابات اور احکام حاضرین کے ساتھ مخصوص ہیں جیسا کہ گزر چکا ہے یہ احکام ان کے ساتھ مخصوص ہیں جو وقتِ نزولِ قرآن موجود و حاضر تھے جو لوگ نزولِ قرآن کے وقت حاضر نہ تھے یا جو پیدا نہیں ہوئے تھے یا مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کے لئے یہ احکام اجماع سے ثابت ہوں گے اور ضروریاتِ دین سے ہے کہ تمام امت دینی اور احکامی تکلیف (یعنی مکلف ہونے) میں مشترک ہے۔ 

اسی طرح شیعہ عالم شیخ مرتضیٰ نے اپنی کتاب "فرائد الاصول" مطبع ایران میں صفحہ 40 پر لکھا ہے کہ حاضرین کی ضمیر حاضرین سے مخصوص ہوگی غائبین اس خطاب حاضرین میں داخل نہ ہوں گے ہاں خطابات سے جو حکم ثابت ہوگا اس میں غائبین کو کسی اور دلیل سے شامل کیا جائے گا۔ 

آیت زیرِ بحث میں کوئی دلیل خارجی موجود نہیں لہٰذا نزولِ آیت کے وقت غیر مکلفین اور بعد میں آنے والے غائبین کو کسی اصول کے تحت آیت میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ 

ہم نے کئی مناظروں میں یہ تحدی کر دی تھی کہ اگر خلفائے ثلاثہؓ کو کامل الایمان صالح الاعمال اور اس آیت کے موعودہ خلیفہ تسلیم نہ کرنے والا قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان رکھنا ثابت کر دے تو ہم شیعہ مذہب کے برحق ہونے کا اعلان کر دیں گے مگر ناممکن بہر حال نا ممکن ہی رہا اور کوئی کوشش بار آور نہ ہو سکی۔ 

قول فیصل 

 یہ آیت کلامِ الٰہی کا ایک حصہ ہے اور کتاب اللہ کے ہر حصے پر ایمان لانا فرض ہے اس لئے اب تین صورتیں ہی ممکن ہیں۔ 

  1. خلفائے ثلاثہؓ کو کامل الایمان صالح الاعمال اور خلیفہ برحق اور اس آیت کا مصداق تسلیم کرلیں۔ 
  2.  نزولِ آیت کے وقت جن حاضرین سے خطاب ہو رہا ہے ان میں سے خلفائے ثلاثہؓ کو چھوڑ کر کم از کم تین آدمی پیش کریں جن کے ہاتھ سے یہ تینوں انعامات خداوندی پورے ہوئے ہوں یعنی استخلاف فی الارض تمکین دین اور امن بعد خوف۔
  3. اعلان کر دیں کہ خدا کو بدا ہوگیا یا یوں ہی طفل تسلی کے طور پر وعدے کرتا رہا۔ 

جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے شیعہ کو اس کی توفیق آج تک تو ہو نہیں سکی اور آئندہ کے لئے بھی توقع نہیں دوسری صورت کے لئے تاریخ میں کوئی نشان نہیں ملتا رہی تیسری صورت تو شیعہ نے اس کو پسند کیا ہے چنانچہ شیعہ عالم اعجاز الحسن بدایونی نے اپنی کتاب "تنبیہ الناصبین" میں تصریح کر دی ہے کہ خدا کے وعدے غلط ہوتے رہتے ہیں۔

ایک اور کوشش:

 کہا جاتا ہے کہ اس آیت کے مصداق سیدنا علیؓ ہیں مگر یہ دعویٰ حقائق کا ساتھ نہیں دیتا مثلاً:

  1.   یہ لغت عرب کے خلاف ہے آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں اور جمع کے لئے کم از کم تین آدمی ہونے ضروری ہیں اور سیدنا علیؓ فرد واحد ہیں۔
  2.   علمائے شیعہ و اہلِ سنت تصریح کر چکے ہیں کہ سیدنا علیؓ کو یہ تینوں انعام مکمل نہیں ملے تمکین دین کے پہلو کو دیکھا جائے تو بزعمِ شیعہ سیدنا علیؓ کے مذہب شیعہ کو ان کے دور میں تمکین حاصل ہونی چاہئیے مگر حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس دین کا اظہار تک نہیں کیا دوسرا پہلو امن بعد خوف ہے تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے عہد میں امن سرے سے نصیب ہی نہیں ہوا تیسرا انعام خلافت فی الارض کا ہے تو سیدنا علیؓ کی خلافت کی حیثیت شیعہ عالم نور اللہ شوستری نے اپنی مایہ ناز کتاب احقاق الحق میں یوں بیان کی ہے۔ 

ان امر الخلافة ما وصل اليه الا بالاسم دون المعنىٰ۔ 

ترجمہ: (یعنی سیدنا علیؓ کو خلافت برائے نام لی تھی) اور شیعہ کے چوٹی کے عالم علامہ محمد یعقوب کلینی نے اپنی کتاب "الروضہ" میں سیدنا علیؓ کے عہد پر ایک جامع تبصرہ لکھا ہے۔

ثم اقبل بوجهه وحوله ناس من اهل بيته وخاصته و شيعته فقال قد عملت الولادة قبلى اعمالا خالفوا فيها رسول اللهﷺ متعمدين لخلافه ناقضين لعهده مغيرين لسننه ولو حملت الناس على تركها و حولتها إلى مواضعها والى ما كانت في عهد رسول اللهﷺ التفرق عنی جندی حتیٰ ابقی و احدی۔ (صفحه 51 طبع ایران نجف اشرف)

 ترجمہ: پھر سیدنا علیؓ مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جس میں آپؓ کے اہلِ بیتؓ خاص معتمد آدمی اور خاص شیعہ تھے اور فرمایا کہ مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام کئے جن میں انہوں نے نبی کریمﷺ کی صریح مخالفت کی اور دیدہ و دانستہ کی نبی کریمﷺ کے ساتھ کئے ہوئے عہد توڑے سنتِ رسول کو بدل دیا اب اگر میں لوگوں کو حکم دوں کہ جو کام خلفاء نے کئے انہیں ترک کر دو اور میں احکامِ الہٰی کو اسی اصل پر لاؤں جس پر زمانہ نبویﷺ میں تھے تو میرا لشکر مجھے چھوڑ دے گا اور میں تمہا رہ جاؤں گا۔

اسی مختصر سی عبارت میں حقائق کی ایک دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے۔ 

  1.  سیدنا علیؓ نے مشاہدہ کیا کہ آپ سے پہلے خلفاء نے اللہ اور رسول کی مخالفت کے احکام دیئے اور کام کئے۔
  2.  انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ خلفاء نے ایسے کام کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کئے بلکہ جان بوجھ کر مخالفت کی۔
  3.  انہیں احساس ہوا کہ یہ احکام بدل دینے چاہئیں اور احساسِ فرض اور احساسِ ذمہ داری کا تقاضا یہی تھا۔ 
  4.  مگر انہوں نے عملاً کوئی ایک حکم بھی نہ بدلا صرف احساس پر ہی رک گئے۔
  5.   انہیں خطرہ تھا کہ جو فوج ان کے گرد جمع ہے اور جس کی طاقت پر حکومت کی بقاء کا مدار ہے وہ باغی ہو جائے گی اگر خلفاء کے زمانے کا کوئی حکم بدلا گیا۔
  6.  ان کی فوج اللہ اور رسولﷺ کی مخالفت ہی پسند کرتی تھی یہاں تک کہ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا نام آیا تو وہ باغی ہو جائیں گے۔
  7.  مگر یہی تو وہ فوج تھی جو خفائے ثلاثہؓ نے تیار کی اور خلفائے ثلاثہؓ کے دور میں سیدنا علیؓ کے ساتھ مل کر کفر کے خلاف برسر پیکار رہی مگر خلفائے ثلاثہؓ سے اختلاف پیدا ہونے کا ایک واقعہ بھی پیش نہ آیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عقیدے اور اسی عملی زندگی پر متفق تھے جو خلفائے ثلاثہؓ نے نبی کریمﷺ سے حاصل کر کے ملک میں لاگو کر رکھا تھا یہی مسلک اہلِ سنت و الجماعت کا ہے اور خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں اسی دین کو تمکین حاصل ہوئی جس کا آیت میں ذکر ہے اور جو اللہ کا پسندیدہ دین ہے وہ دین تو ظاہر بھی نہ ہوا جو بقولِ شیعہ سیدنا علیؓ کا دین تھا لہٰذا اس آیت کا مصداق سیدنا علیؓ نہیں بن سکتے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ

کہا جاتا ہے کہ امن تو سیدنا ابوبکرؓ کو بھی نہ ملا عمر بھر مرتدین وغیرہ سے متصادم ہوتے رہے سیدنا عمرؓ کو بھی نہیں ملا کہ مارے گئے سیدنا عثمانؓ کو بھی نہیں ملا بری طرح مارے گئے اس شبہ کی عبارت سے ظاہر ہے کہ بدامنی سے مراد جنگ کرنا اور مارا جاتا ہے مگر یہ مراد ہی غلط ہے باطل کے خلاف برسر پیکار رہنا اور باطل کو مسلسل ہار پر ہار دیئے جانا بدامنی کی نہیں بلکہ امن یکجہتی اتحاد اتفاق اور وحدت فکر و عمل کی دلیل ہے ہاں گھریلو تنازعات اٹھ کھڑے ہوں تو اسے بدامنی کہا جاتا ہے جیسا کہ سیدنا علیؓ کے عہد میں ہوا خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں جو حالات سامنے آتے ہیں ایسے حالات کا ذکر تو اللہ تعالیٰ مقام مدح پر کرتا ہے چنانچہ نبی کریمﷺ کے ساتھیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ الخ۔ (سورة الفتح آیت نمبر 29)۔

گویا اللہ تعالیٰ نے امن کی تعریف بھی بیان فرمادی اور امن کا وہ نقشہ بھی دکھایا جو خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں دنیا نے دیکھ لیا چنانچہ علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

 قلنا ليس فی ضمن الأمن السلامة من الموت باى وجه كان وليس من شرط الامن رفع الحرب و انما شرطه ملک الانسان لنفسه باختياره لا كما كان اصحاب النبیﷺ بمكة و حقيقة الحال انهم كانوا مقهورين فصار و اقاهرين و كانوا مطلوبين فصاروا طالبين وهذا نهاية الا من والشرف والعزة۔

ترجمہ: ہم کہتے ہیں کہ موت سے بچ جانے کا نام امن نہیں موت تو بہرحال آنی ہے خواہ کسی صورت میں آئے اور کفار سے جنگ نہ ہونا بھی شرائط امن میں سے نہیں امن کے لئے شرط یہ ہے کہ انسان اپنی جان کا مالک ہو اس پر اس کا اختیار ہو وہ صورت امن نہیں جو مکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیش رہی حقیقت یہ ہے مکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مقہور و مغلوب تھے پھر غالب آگئے مکہ میں کفار ان کی تلاش میں رہتے تھے پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تلاش ہونے لگی کہ کفر کا قلع قمع کیا جائے یہ امن شرف اور عزت کی معراج ہے۔

 پھر یہ کہا جاتا ہے کہ آیت کا مصداق تو امام مہدی ہیں مگر یہ بات بھی نہیں بنتی کیوں کہ اول تو نزولِ آیت کے وقت امام مہدی کا وجود ہی نہیں تھا مخاطب کیونکر ٹھہرے پھر بقول شیعہ جب عالم وجود میں آئے تو عالم طفولیت میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے اور کسی غار میں چھپ گئے اور ایسے چھپے کہ صدیاں گزر گئیں مگر غار سے نکلنے کا نام نہیں لیتے خدا جانے یہ امن کی کونسی قسم ہے اس سورۃ میں "لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ" کے معنیٰ تو یوں نہیں گے کہ تمہیں غار پر مسلط کر دوں گا یا غار کو تم پر مسلط کردوں گا تسلط یہ امن یہ اور اس پر دعویٰ یہ کہ آیت کا مصداق امام مہدی ہیں جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی۔

پھر یہ کہا جاتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اصحابِِ ثلاثہؓ کامل الایمان اور صالح الاعمال تھے اللہ تعالیٰ ان پر خوش ہوا اور انعامات کا اعلان کر دیا مگر بعد وفاتِ رسولﷺ حضرات نہ ایمان دار رہے نہ صالح الاعمال لہٰذا وعدہ کے پورا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی خدا کو بدا ہو گیا شیعہ نے بدا کا عقیدہ ایجاد کر کے ایک محفوظ پناہ گاہ تلاش کر لی ہے اس عقیدہ کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب "تحذیر المسلمين عن كيد الكاذبين“ 

آیتِ استخلاف کا مصداق:

اس آیت کا حقیقی مصداق معلوم کرنے کے لئے کیوں نہ ایسا ماخذ تلاش کیا جائے کہ پھر اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے بشرطیکہ اس ماخذ سے سچ سچ کا قلبی اور روحانی تعلق ہو ہاں تعلق کی محض ایکٹنگ ہو تو اختلاف کیا انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ 

چلئے ابوالائمہ سیدنا علیؓ سے ہی پوچھتے ہیں ان کی مشہور کتاب "نہج البلاغہ" شیعہ کے ہاں مستند اور مسلم ہے اس میں صفحہ 145 پر امیر المومنینؓ کا ایک خطبہ درج ہے جو علامہ کمال الدین میثم بن علی بحرانی نے اپنی کتاب "شرح نہج البلاغہ" میں جلد 3 صفحہ 194 پر درج کیا ہے ان کی وفات 679 ھجری ہے۔ 

اس خطبے کا پسِ منظر یہ ہے کہ فارس کی جنگ میں بہ نفسِ نفیس شامل ہونے کیلئے سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا شارح لکھتا ہے: کہ یہ قادسیہ کی جنگ تھی یا نہاوند کی تو سیدنا علیؓ نے فرمایا: 

ان هذا الأمر لم يكن نصره ولا خذ لانه بكثرة ولا قلة وهو دين الله الذی اظهره وجنده الذی اعده وامده حتىٰ بلغ ما بلغ وطلع حيثما طلع و نحن على موعود من الله والله منجز وعده وناصر جنده و مكان القيم بالأمر مكان النظام من الخزر يجمعه ويضمه فاذا انقطع النظام تفرق الخزر وذهب ثم لم يجتمع بحذا فيرا ابدا والعرب اليوم وان كانوا قليلا فهم كثيرون بالاسلام عزیزون بالاجتماع فكن قطبا واستدر الرحى بالعرب واصلهم دونك ناد الحرب فانک ان شخصت من هذه الارض انتقضت عليك العرب من اطرافها واقطارها حتىٰ يكون ماتدع ورائك من العورات اهم الیک مما بین یدیک۔

ان الا عاجم ان ينظروا اليك غدا يقولون هذا اصل العرب فاذا قطعتموه استرحتم فيكون ذلك اشد عليك وطمعهم فیک فاما ما ذكرت من مسير القوم الى قتال المسلمين فان الله سبحانه هو اكره لمسيرهم منك وهو اقدر على تغيير مايكره واما ما ذكرت من مدرهم فانا لم نكن نقاتل فيما مضى بالكثرة وان كنا نقاتل بالنصرة والمعونة۔ 

ترجمہ: بیشک یہ وہ دین ہے جس کے غلبہ یا شکست کا مدار کثرت و قلت پر نہیں بلکہ یہ وہ دین ہے جو اللہ کا ہے اللہ نے اس کی مدد فرمائی ہے اور یہ فوج وہ ہے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اس کی مدد فرمائی ہے یہاں تک وہ دین اس حال تک پہنچا جو تمہارے سامنے ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے اور اپنی فوج کا مددگار ہے اور رئیس سلطنت کی حیثیت وہ ہے جو تسبیح کے دانوں کے لئے ڈور کی ہوتی ہے اگر ڈور ٹوٹ جائے تو سب دانے بکھر جاتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ بکھرے ہوئے دانے پھر جمع نہیں ہوتے عرب قوم اگرچہ اس وقت قلت میں ہے مگر وہ بوجہ قوت اسلام کے کثیر ہیں اور اپنی اجتماعی قوت کی وجہ سے دنیا پر غالب ہیں اس لئے اے فاروق! آپ چکی کے قطب بن کر مرکز میں رہیں اور قوم سے جنگ کی چکی چلوائیں خود اس سے دور مرکز میں رہیں اگر آپ نے مرکز چھوڑا تو اطراف و جوانب سے عرب قوم مرکز پر ٹوٹ پڑے گی اور آپ کی غیر حاضری میں معاملات نازک صورت اختیار کر لیں گے۔ 

کل ایرانیوں نے آپ کو میدانِ جنگ میں دیکھا تو ضرور کہیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے اسے کاٹ ڈالو تاکہ چین سے رہ سکو یہ بات ان کے لئے تمہیں قتل کر دینے اور آپ پر ٹوٹ پڑنے کا محرک بن جائے گی اور یہ جو آپ نے ذکر کیا ہے کہ قوم عجمی مسلمانوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ کو ان کی روانگی آپ کی نسبت زیادہ ناپسند ہے اور جو چیز اسے نا پسند ہے وہ اس کے بدلنے پر قادر ہے اور ان کی کثرت کا جو آپ نے ذکر کیا ہے تو ہم نے کبھی کثرت پر اعتماد کر کے جنگ نہیں لڑی بلکہ ہم تو اللہ کی مدد کے بھروسے پر جنگ کیا کرتے ہیں۔

 پھر اسی کتاب کے جلد 3 صفحہ 196 پر نحن علی موعود کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ثم وعدنا بموعود وهو النصر والغلبة والاستخلاف فی الارض كما قال وعد الله الذين أمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم فی الارض كما استخلف الذين من قبلهم الى آخر الآية وكل وعد من الله فهو منجز لعدم الخلف فی خبره۔

 ترجمہ: پھر ہم سے مدد غلبہ اور خلافت فی الارض کا وعدہ فرماتے ہوئے وعد الله الذين الخ اور ہر وعدہ جو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ پورا ہو کے رہتا ہے کیونکہ خدا کے وعدہ میں خلاف نہیں ہوتا۔

ومن جملة وعده نصر جنده و جنده هم المومنون و المومنون منصورون على كل حال سواء كانوا قليلين او كثيرين۔

ترجمہ: اور اس کے وعدوں سے ایک وعدہ یہ ہے کہ میں اپنے لشکر کی مدد کرتا ہوں اور اللہ کی فوج مومن ہیں اور مومن خواہ تھوڑے ہوں یا زیادہ ہر حال میں اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ 

وعدم الحاجة الى اجتماع كل العرب فی هذه الواقعة وذلك لكثرتهم بالاسلام واستقبال الدولة وعزتهم باجتماع الرأى واتفاق القلوب الذی هو خير من كثرة الاشخاص واراد بالكثرة القوة والغلبة۔

ترجمہ: اور جنگ میں تمام عربوں کا جمع ہونا ضروری نہیں کیونکہ انہی اسلام کی وجہ سے کثرت حاصل ہے دولت و عزت کا رخ ان کی طرف ہے وہ متفق الرائے ہیں ان کے دلوں میں اتفاق اور محبت ہے اور یہ صفات افراد کی کثرت کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں اور کثرت سے مراد قوت اور غلبہ ہے۔ 

پھر جلد3 صفحہ 197 پر فرماتے ہیں۔

و بوعد الله تعالىٰ المسلمين بالاستخلاف فی الارض و تمكين دينهم الذی ارتضىٰ لهم وتبديلهم بخوفهم امناكما هو مقتضى الآية۔

ترجمہ: مسلمانوں کو خلافت خدا کے وعدے کے مطابق ملی اور دین اسلام کو جو خدا کا پسندیدہ دین ہے تمکین خدا کے وعدے کے مطابق ملی اور خوف کے بعد امن خدا کے وعدے کے مطابق ملا جو آیتِ استخلاف کا مقتضٰی ہے۔

 اس طرح درۃ النجفیہ شرح نہج البلاغہ صفحہ 190 پر ہے۔ 

والموعود هو النصرة والغلبة والاستخلاف فی الأرض كما قال تعالى وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ الخ۔ (سورة النور آیت نمبر 55)۔

ترجمہ: اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا ہے وہ مومنوں کی مدد کرنا ہے ان کو غلبہ دینا ہے اور زمین میں خلیفہ بنانا ہے جیسا کہ آیت کا منشا ہے۔

سیدنا علیؓ کے خطبہ اور اس کی شرح سے واضح ہو گیا کہ: 

  1. سیدنا علیؓ نے امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کو ذاتی طور پر جنگ میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا اور آپؓ نے قبول فرمالیا اس سے بڑھ کر باہمی خیر خواہی اور باہمی اعتماد کا ثبوت کیا ہوگا۔
  2.  سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ ہماری فتوحات کی وجہ کثرت نہیں بلکہ اللہ کی مدد ہے جو اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے یعنی سیدنا علیؓ نے اللہ کے وعدے کا مصداق سیدنا صدیقؓ و سیدنا فاروقؓ کو قرار دیا۔
  3.  سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ اللہ کا وعدہ لازماً پورا ہو کے رہے گا یعنی آپؓ کے جانے کی ضرورت نہیں وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے۔
  4.  آخر میں بات واضح کردی کہ خلافت اللہ کے وعدے کے مطابق ملی ظاہر ہے کہ خلافت پہلے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو ملی پھر سیدنا عمر فاروقؓ کو پھر سیدنا عثمانِ غنیؓ کو اور یہ تینوں اللہ کے وعدے کے مطابق ملیں بلا فصل والی بات تو بناوٹی ٹھہری کیونکہ یہ تینوں وعدے تو خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پورے ہوئے۔
  5.  وہ فوج جو سیدنا فاروقِ اعظمؓ بھیج رہے تھے وہی اللہ کی فوج تھی جس کو غلبہ دینے کا اللہ نے وعدہ فرمایا اور غلبہ عطا کر کے وعدہ پورا کر دیا لہٰذا یہی مصداق ہوئی اس آیت کی۔
  6.  سیدنا علیؓ نے شیخینؓ کے عہد کے مسلمانوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں اتفاق متفق الرائے ہونا دلوں میں باہمی محبت ہونا جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں جن کی بناء پر اللہ انہیں غلبہ عطا فرماتا ہے معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ نے اعلان کر دیا کہ شیخینؓ کے عہد میں مسلمان اسی طرح متحدہ متفق اور ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے جس طرح زمانہ نبویﷺ میں حضورﷺ کی تربیت سے تیار ہوئے تھے ان میں اختلاف دشمنی اور بغض کے افسانے یار لوگوں نے زیب داستان کے لئے تیار کر رکھے ہیں یہ لوگ گویا سیدنا علیؓ کو معاذ اللہ جھوٹا سمجھتے ہیں اگر سیدنا علیؓ سے ان لوگوں کا دور کا تعلق بھی ہوتا تو ایسی بے پر کی نہ اڑاتے۔

اسی طرح ایک شیعہ عالم سید رضی الدین ابی القاسم علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن طاؤس الحسن والحسینی متوفی 664ھجری کی کتاب کشف الحجه لثمرة المھجہ مطبوعہ نجف اشرف کے صفحہ 54 پر درج۔

و اعلم يا ولدى يقينا انما فتح بلاد اسلام بعد جدک محمدﷺ بتائید الله جل جلاله وما وعده ان يبلغ اليها نبوته وامره وقد كان جدك الله اخبر جماعة من المسلمين انه يفتح على يد نبوته بلاد کسری و قیصر و كلما فتحوه بعده وكان المسلمون قد جربوا عليه صدقه ووعده وسمعوا القرآن يتضمن ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون وقد ذكر جماعة من اصحاب التواريخ تصديق ما اشرت اليه وعلى خاطرى مما وقفت عليه ما ذكره اعشم فی تاريخه ما معناه ان ابا بكرؓ لما بدأ بانفاذ ابی عبيدهؓ والجيوش الى الروم ومات قبل ان يفتحها وفتحها المسلمون بعده فی ولاية عمر قال له قوم لا تخرج مع العسكر وقال قوم اخرج معهم فقال لابیک علی عليه السلام ما تقول انت يا ابالحسنؓ فقال له على ان خرجت نصرت وان احمیت نصرت فقال له صدقت الى ان قال يا ولدى فهل ترى ما كان فتح البلاد الا بتلك الوعود الصادقة والعناية الالهية الفائقة۔

ترجمہ: بیٹا! یہ یقینی امر ہے کہ اسلامی ملکوں میں جو فتوحات تیرے نانا محمد رسول اللہﷺ کے بعد ہوئیں وہ محض اللہ کی امداد نصرت اور تائید سے ہوئیں اور اس وعدہ کے مطابق ہوئیں جو حضور انورﷺ نے فرمایا تھا کہ میری نبوت اور میرا دین ان شہروں تک پہنچے گا اور یقیناً تیرے نانا محمد رسولﷺ نے مسلمانوں کی جماعت کو خبر دی تھی کہ میری نبوت کے ہاتھ پر قیصر و کسریٰ کے شہر فتح ہوں گے حضورﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب کبھی کوئی شہر فتح کیا حضورﷺ کے وعدہ کے سچا ہونے کی دلیل بنتی گئیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول خداﷺ سے قرآن کی یہ پیشگوئی سن چکے تھے کہ دینِ محمد کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا اور اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو اور مورخین نے میرے اس بیان کی تصدیق کی ہے اور جس حقیقت سے میں واقف ہوں وہ میرے دل میں موجود ہے اس کو اعمش کوفی (شیعہ) نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے سیدنا ابو عبیدہؓ کو فوج دے کر روم کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا اور سیدنا صدیقؓ کی وفات ہوگئی اور یہ ملک خلافتِ فاروقی میں فتح ہوا جب فارس سے جنگ کے موقع پر ایک گروہ نے سیدنا فاروقؓ کو کہا کہ آپؓ جنگ میں شامل نہ ہوں دوسرے نے کہا آپؓ محاذ پر ضرور جائیں تو آپؓ نے سیدنا علیؓ سے پوچھا انہوں نے جواب دیا آپؓ جائیں جب بھی فتح ہوگی نہ جائیں جب بھی فتح ہوگی سیدنا فاروقؓ نے کہا یہ درست ہے بیٹا کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو شہر بھی فتح ہوئے وہ محض ان سچے وعدوں کے مطابق ہوئے جن کے متعلق اللہ اور رسولﷺ نے پہلے ہی بتا دیا تھا یہ محض اللہ کی عنایت سے ہوئے اور اللہ نے اپنے وعدے سچ کر دکھائے تھے۔

اس اقتباس سے کئی اہم امور کی وضاحت ہو گئی۔

  1.  حضور انورﷺ کے بعد جس قدر فتوحات ہوئی وہ خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں ہوئی۔
  2.  شیعہ کا اعتراف ہے کہ اس وعدہ الہٰی کے مطابق ہیں جس کے تحت حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ میرا دین اور میری نبوت یہاں پہنچے گی۔
  3. ثابت ہوا کہ خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ سے ایک تو وعدہ الہٰی پورا ہوا دوسرا انہوں نے حضورﷺ کی نبوت اور حضورﷺ کا دین ان شہروں تک پہنچایا جو ان کے کامل الایمان ہونے کا ہی نہیں بلکہ دین کی خاطر جانبازی کا ثبوت ہے۔
  4.  حضورِ اکرمﷺ نے قیصر و کسریٰ کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے کی خوشخبری دی تھی اور یہ خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں فتح ہوئے۔
  5. شیعہ عالم نے کہا کہ یہ فتوحات ليظهره علی الدین کلہ: کی عملی تفسیر تھیں تو ثابت ہوا کہ خلفائے ثلاثہؓ نے حضورﷺ کے نائب کی حیثیت سے دینِ حق کو ادیان عالم پر غالب کر دیا۔
  6. سید رضی الدین نے کمال صفائی سے اعتراف کیا کہ آیتِ استخلاف کے مصداق خلفائے ثلاثہؓ ہیں۔ 

شیعہ مفسر فتح اللہ کاشانی نے اپنی تفسیر منہج الصادقین جلد 4 صفحہ 307 میں زیرِ آیت وقل رب ادخلنی الخ لکھا ہے۔

پس حق تعالیٰ اجابت دعوت آنحضرتﷺ فرمود و بقوله فان حزب الله هم الغالبون وبقوله ليظهره على الدين كله وبقوله ليستخلفنهم فی الارض: امام جعفر صادقؒ از آبائے کرام خود روایت کرده که رسول خداﷺ ایں دعا دروقتی کردکہ درغاربود۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی یہ دعا ان آیات کو نازل کر کے قبول فرمائی کہ بیشک خدا کی فوج ہی غالب رہنے والی ہے اور یہ کہ اللہ دین حق کو تمام ادیان پر غالب کرے گا اور یہ کہ ان مہاجرین کو زمین میں خلیفہ بنائے گا اور سیدنا جعفر صادقؒ نے اپنے آبائے کرام سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ دعا اس وقت کی جب آپﷺ غار میں تھے۔ (جہاں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ تھے)۔ 

4۔ شیعہ مؤرخ واقدی نے اپنی تاریخ فتوح شام جلد 1 صفحہ 127 اور جلد 1 صفحہ 150 پر لکھا ہے کہ جنگِ یرموک کو مؤرخ قیامت سے تعبیر کرتے ہیں اس جنگ میں عیسائیوں کی پوری قوت میدان میں موجود تھی اور مسلمان 37 ہزار تھے سب سے پہلے سیدنا معاذ بن جبلؓ نے صفوں کے سامنے بآواز بلند آیتِ استخلاف کی قرأت کی اور یاد دلایا کہ اسلام تمام دینوں پر غالب ہوگا اور یہ کام ان مہاجرین و انصار کی تلوار سے ہو گا۔

یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عقیدہ تھا کہ اس آیت کا مصداق خلفائے ثلاثہؓ ہیں یہ وہی بات ہے جو سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمائی تھی۔

یہاں ہم ایک بار پھر وضاحت کر دیتے ہیں کہ ضمیر مخاطب صرف حاضرین کے لئے خاص ہوتی ہے اس کے ثبوت میں شیعہ کی چوٹی کی کتاب معالم الاصول صفحہ 193 کا حوالہ گزر چکا ہے اس پائے کی دوسری کتاب شیخ مرتضیٰ کی فرائد الاصول ہے اس کے صفحہ 40 پر بعینہ وہی الفاظ درج ہیں جو معالم الاصول سے پیش کئے جاچکے ہیں لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاضرین وقت نزولِ آیت کے ساتھ وعدہ فرمایا کہ:

  1.  تمہیں خلافت فی الارض کا انعام دوں گا۔
  2. دین کا محکم و مضبوط ہونا دنیا پر غالب ہونا حدودِ شرعی کا پوری طرح جاری ہونا جہاد کے ذریعے اعلائے کلمۃ الحق ہونا تمہارے ہاتھوں سے ہوگا۔
  3.  خانہ جنگی سے محفوظ رہ کر امن و سلامتی کی فضاء پیدا ہونا تمہارے ہاتھوں سے ہوگا۔

یہ تین نعمتیں بغیر خلفائے ثلاثہؓ کے کسی عیب میں پوری نہیں ہوئی لہٰذا وہی اس کا مصداق ہیں سیدنا علیؓ کا عقیدہ بحوالہ نہج البلاغہ گزر چکا ہے کہ ان کے نزدیک آیت کا مصداق خلفائے ثلاثہؓ ہیں خلفائے ثلاثہؓ کے دور میں سیدنا علیؓ وزیر اور مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور مسلمانوں کی موعودہ فوج میں آپؓ اور آپؓ کے بیٹے سیدنا حسنؓ اس خدائی فوج میں شامل رہے۔

5۔ شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب تتمہ طبع ایران صفحہ 672 پر لکھا ہے:

بحمدللہ بلد اصفہان قبة الاسلام وغط اہلِ اسلام در آں است و مسجد یست در انجا معروف بلسان الارض در طرف مشرق مزار تخت فولاد نزدیک بقبر فاضل ہندی اہلِ اینجا می گوئند که این موضع زمین با حضرت امام حسن مجتبٰیؓ تکلم کرده در زمان که آنحضرت در ایام خلافت عمر بن الخطابؓ بالشکر اسلام بجہت فتوحات بایں مکان تشریف آورده و ازیں جہت اور السان الارض میگوئند و حضرت در انجا نماز خواندہ۔

ترجمہ: خدا کا شکر ہے کہ ہمارے زمانے تک اصفہان قبتہ الاسلام اور اہلِ ایمان کا مرکز ہے یہاں ایک مسجد ہے جسے لسان الارض کہتے ہیں جو مزار تخت فولاد کی شرقی جانب فاضل ہندی کی قبر کے پاس ہے وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کے عہد میں لشکر اسلام کے ساتھ سیدنا حسنؓ فتوحات کی غرض سے تشریف لائے اس زمین نے آپؓ سے کلام کی اسی وجہ سے اس کو لسان الارض کہتے ہیں سیدنا حسنؓ نے یہاں نماز ادا کی۔

شیعہ عالم شیخ عباس قمی نے اصفہان کو قبتہ الاسلام قرار دیا ہے ظاہر ہے کہ یہ حیثیت اس شہر کو سیدنا عمرؓ نے عطا کی دوسری بات یہ ہے کہ فاروقی لشکر میں سیدنا حسنؓ ایک سپاہی کی حیثیت سے اسلامی فتوحات کی غرض سے شامل تھے ظاہر ہے کہ فاروقی فوج اسلامی فتوحات کے لئے نکلی جس کے ایک فرد سیدنا حسنؓ تھے اس فوج میں آپؓ کا شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آپؓ کے والد سیدنا علیؓ کا مشورہ بھی شامل تھا کیونکہ وہ سیدنا عمرؓ کے مستقل مشیر تھے یعنی سیدنا عمرؓ کے عہد میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو رہا تھا جو آیتِ استخلاف میں مذکور ہے۔

6۔ علامہ میثم بحرانی شارح نہج البلاغہ نے بڑی وضاحت سے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کو آیتِ استخلاف کی موعودہ خلافت بیان کیا ہے ان کی فوج کو خدائی فوج کا نام دیا اور جو دین خلفائے ثلاثہؓ نے پھیلایا اس کو دین اسلام تسلیم کیا۔

7۔ فتوح شام شیعہ مؤرخ واقدی جلد 1 صفحہ 184:

جنگِ یرموک میں عیسائیوں کی عظیم فوج کا سپہ سالار ماہان تھا ہرقل کا بڑا معتمد علیہ تھا اس کا پیغام واحدی نے نقل کیا ہے جو ماہان نے ہرقل روم کو بھیجا تھا۔

وقال لهم اسمعوا يا اصحاب الملک وبلغوه عنى انی ما تركت جهدى فی نصرة هذا الدين وحاميت عن الملک وقاتلت عن نعمته و ما اقدر ان اغالب رب السماء لانه نصر عرب علينا و ملكهم بلادنا والآن مالی وجہ ارجع الى الملك۔

ترجمہ: اے شاہ کے مصاحبو! میری بات سنو اور میرا پیغام شاہ ہرقل کو پہنچاؤ کہ میں نے دین عیسوی کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شاہ کی حمایت میں کمی نہیں رہنے دی اس کی مہربانی سے خوب جنگ کی لیکن میں آسمانوں کے رب کے ساتھ لڑنے کی قدرت نہیں رکھتا کیونکہ اس نے ہمارے خلاف عربوں کی مدد کی اور عربوں کو ہمارے شہروں پر مسلط کر دیا میں اب کس منہ سے شاہ کے پاس لوٹ کر آؤں؟۔

ماہان جیسا جرنیل جس نے ایرانیوں سے رومی ملک واپس لیا خدائی فوج کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر رہا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے کہ اس فوج کا مقابلہ کرنا رب العلمین کا مقابلہ کرنے کے مترادف ہے غیروں کی حقیقت پسندی دیکھو کہ خلفائے محمدﷺ کی برتری تسلیم کرنے میں عار نہیں اور اپنوں کی کینہ پروری دیکھو کہ جانشینانِ رسولﷺ کو مسلمان تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ 

چنین دور آسمان کم دیده باشد۔

8۔ روضہ کافی طبع ایران صفحه 225 سیدنا باقرؒ کا خطبہ:

وهم من بعد غلبهم سيغلبون و هم یعنی فارس من بعد غلبهم الروم سيغلبون يعنى يغلبهم المسلمون فی بضع سنين لله الامر من قبل ومن بعد ويومئذ يفرحوا المومنون بنصر الله ينصر من يشاء عزوجل فلما غزا المسلمون فارس و افتتحوها فرح المسلمون بنصر الله عزوجل قال ای (راوی)۔

قلت اليس الله عزوجل يقول فی بضع سنين وقد معنىٰ للمومنين سنون كثيرة مع رسول اللهﷺ وفی امارة ابی بکرؓ وانما غلب المومنون فارس فی امارة عمرؓ فقال الامام اما تسمع لقول الله عزوجل لله الامر من قبل ومن بعد يوم يتم القضا بنزول النصرفيه على المومنين فذلك قوله عزوجل و يومئذ يفرح المومنون بنصر الله ينصر من يشاء الى يوم يتم القضاء بالنصر۔

ترجمہ: اور وه یعنی فارس ان کے یعنی رومیوں کے غلبہ كے بعد غالب ہوں گے یعنی عنقریب چند برسوں میں مسلمان غالب آجائیں گے پہلے اور بعد میں حکم اللہ ہی کا ہے اس روز مومن اللہ کی نصرت سے خوش ہوں گے اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے مسلمانوں نے جہاد کر کے جب فارس کو فتح کیا تو وہ اللہ کی نصرت سے بہت خوش ہوئے۔ 

راوی کہتا ہے میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے چند برس نہیں فرمایا حالانکہ مومنوں پر رسول خداﷺ کے ساتھ بھی کئی سال گزر گئے پھر سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا عہد بھی گزر گیا مگر مومن فارس پر غالب آئے تو عہدِ سیدنا عمرؓ میں تو امام نے کہا کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ نے فرمایا کہ اول و آخر حکم الله کا ہے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق جس روز مومنوں کی نصرت کا وقت آئے گا یہ ہے فرمانِ باری تعالیٰ کہ اس روز مومن خدا کی نصرت کے نزول کی وجہ سے خوش ہوں گے۔

راوی کو آیت کا مفہوم سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی سیدنا باقرؒ نے وضاحت کر دی کہ روم و فارس کی فتح کی تکمیل اہلِ ایمان کے ہاتھ سے ہوئی اللہ کی مدد سے ہوئی اور اہلِ ایمان اس روز بہت خوش ہوئے یعنی فتوحات کا سلسلہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے عہد میں شروع ہوا عہدِ فاروقی میں تکمیل ہوئی دونوں چیزیں اہلِ ایمان کے ہاتھوں ہوئیں سیدنا صدیقؓ و سیدنا فاروقؓ اہلِ ایمان کے سردار ہوئے اور ان کے ہاتھوں اللہ کا وعدہ پورا ہوا کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ۔ (سورة النور آیت نمبر 55)۔

 ثم وعدنا بموعود وهو النصر والغلبة والاستخلاف فی الأرض كما قال وعدالله الذین امنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم فی الارض من جملة وعده نصر جنده و جنده المومنون فالمومنون منصورون على كل حال سواء كانوا قليلين او كثيرين۔ 

ترجمہ: اللہ کے وعدوں میں سے یہ وعدہ بھی ہے کہ اپنے لشکر کی امداد کرے گا اور اس کا لشکر مومن ہیں اور مومنوں کی نصرت کی جاتی ہے ہر حال میں خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ ہوں۔ 

یعنی آیتِ استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے نصرت غلبہ اور خلافت کا وعدہ کیا وہ وعدہ خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پورا ہوا۔

نیز وعدہ تھا اپنے لشکر کی نصرت کا اللہ کا لشکر مومن ہیں اور مومن نصرت یافتہ ہیں لہٰذا خلافت ثلاثہؓ کی فوج اللہ کی فوج ہوئی اور مومن ہوئے جبھی تو ان کی نصرت فرمائی اور اس فوج کے سپہ سالار یعنی خلفائے ثلاثہؓ اکمل الایمان ہوئے اور آیتِ استخلاف کے مصداق ہوئے۔

سیدنا علیؓ اور خلفائے ثلاثہؓ کی بیعت:

حق کی یہ خاصیت ہے کہ اسے خواہ کتنا دبا دیا جائے وہ کسی نہ کسی گوشے سے ظاہر ہو جایا کرتا ہے خلفائے ثلاثہؓ کی شان اور ان کی فضیلت پر پردہ ڈالنے کے لئے اور انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے لئے منظم کوششیں ہوتی رہیں اور ہو رہی ہیں مگر ان دبیز پردوں کو پھاڑ کر ان ظلمتوں کے اندر سے حق کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

فرق الشيعه الى محمد الحسن بن موسى النو بختی طبع نجف اشرف 1966ء صفحہ 38 یہ تیسری صدی کا شیعہ عالم ہے۔

قالت (الشيعة) ان علياؓ كان اولی الناس بعد رسول اللهﷺ بالناس الفضله و سابقته وعلمه وهو افضل الناس كلهم بعده و اشجعهم و اسخاهم و اورعهم و از ھدھم وجازوا امامة ابی بكرؓ و عمرؓ وعدوهما اهلا لذلك المكان والمقام وذكروا ان علیاؓ سلم لهما الامر ورضى بذلك وبايعهما طائعا غير مكره و ترك حقه لهما و نحن راضون كما رضی اللہ المسلمين له ولمن بايع لا يحل لنا غير ذلك ولا يسمع منا احدا الا ذلك وان ولاية ابی بكرؓ صارت رشدا وهدى لتسلیم علی و رضاه۔ 

ترجمہ: شیعہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے سیدنا علیؓ سب سے افضل ہیں کیونکہ وہ فضیلت سبقت اور علم ميں سب سے بڑھ کر ہیں اور اپنی سخاوت شجاعت ورع زہد کی وجہ سے اپنے سے بعد والوں پر فضیلت رکھتے ہیں ان تمام باتوں کے باوجود تمام عمر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے باتفاق رائے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی امامت کو جائز کہا اور ان کو اس منصب اور مقام کا اہلِ تسلیم کیا اور یہ بھی ذکر کیا کہ سیدنا علیؓ نے اپنا حق ان کو دے كر برضا و رغبت ان کی بیعت کی اس میں جبر کو مطلق دخل نہ تھا اور ہم اس پر راضی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہے ان کے لئے اور جنہوں نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی بیعت کی ہمارے لئے بھی اس کے بغیر کوئی رویہ جائز نہیں اور ہم سے کوئی شخص اس کے بغیر نہیں سنے گا اور سیدنا علیؓ کے تسلیم کرنے اور راضی ہونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت سراپا رشد و ہدایت ہے۔

شیعہ کا یہ بیان سیدنا علیؓ کے بیان کی تائید ہے اور تصدیق ہے اور خلافت بلافصل کا حل بھی ہے اگر سیدنا علیؓ کی خلافت کا حق تسلیم بھی کیا جائے تو انہوں نے اپنا حق خلفائے ثلاثہؓ کو دے کر اور برضا ان کی بیعت کر کے بعد کے شیعہ کی اس تہمت کی تردید کردی کہ خلفائے ثلاثہؓ نے حق غصب کیا تھا یہ بات ایک مفروضہ کو تسلیم کر لینے کی بناء پر ہے قرآن و سنت میں سیدنا علیؓ کی خلافت بلافصل کا کوئی نشان تک نہیں ملتا دینِ شیعہ میں یہ امر ضروریات دین میں شمار کر لیا گیا تو یہ غلو کی ایک ایسی انسانی کوشش ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

تیسری صدی کے ایک شیعہ عالم کی صراحت کے باوجود اگر کوئی شخص اس بات پر اصرار ہی کرے کہ سیدنا علیؓ نے جو بیعت کی وہ صرف قولی اور عملی تھی قلبی اور حقیقی نہ تھی تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔

شریعت ظاہری احکام کا نام ہے اور مسلمان ظاہر شریعت کے مکلف ہیں اس لئے حضرت کے ظاہری قول و فعل پر ہی شریعت کے حکم کا اطلاق ہوگا کسی کا دل چیر کے کون دیکھتا ہے اور دیکھ سکتا ہے اگر شریعت کے اس اصول کو سامنے نہ رکھا جائے تو دینی امور تو الگ رہے دنیوی کام بھی تلپٹ ہو جاتے ہیں مثلاً ایک شخص زبان سے لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے

مگر قاضی کے سامنے کہتا ہے کہ میں نے دل سے طلاق نہیں دی تھی صرف زبان سے کہا تھا تو قاضی کیا فیصلہ دے گا یا کوئی شخص مجسٹریٹ کے سامنے زبان سے اقرار جرم کرتا ہے مگر کہتا ہے کہ میرے دل میں تو انکار پوشیدہ ہے تو مجسٹریٹ اس کے موجودہ زبانی اقرار پر فیصلہ کرے گا یا دل کے انکار پر۔

اس بناء پر جب سیدنا علیؓ نے اپنے قول و فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ خلفائے ثلاثہؓ کی امامت کو تسلیم کرتے ہیں ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھتے ہیں تو کسی کا اس پر اصرار کہ دل سے کچھ بھی نہیں کیا تھا بال ہٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا

اس اصول کی شہادت میں سیدنا علیؓ کا ایک بیان ملاحظہ ہو۔

 نہج البلاغہ طبع مصر جلد 1 صفحہ 38 خطبہ نمبر 7 سیدنا زبیرؓ کے متعلق فرماتے ہیں:

 يزعم انه قد بايع بيده ولم يبايع بقلبه فقد اقربا البيعة وادعی الوليجة فليأت عليها بار يعرف والا فليدخل فيما خرج منه۔

ترجمہ: (سیدنا زبیرؓ) یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے ظاہری طور پر ہاتھوں سے بیعت کی دل سے نہیں کی تو حقیقت یہ ہے کہ اس نے بیعت کا اقرار کر لیا اور دعویٰ خلاف باطن کا کرتا ہے تو اس پر کوئی ظاہری دلیل پیش کرے ورنہ وہ داخل ہو جہاں سے خارج ہوا۔

یعنی سیدنا علیؓ نے فیصلہ دے دیا کہ کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہی اقرار بیعت کی دلیل ہے اور یہ کہنا کہ دل سے بیعت نہیں کی درخور اعتنا نہیں۔

زمانہ حال کے شیعہ مجتہد سید علی نقی نے شرح نہج البلاغہ میں اس خطبہ کی شرح میں لکھا ہے:

چوں زبیرؓ نقض عهد کرده در میدان جنگ بآنحضرت برآمد آنجناب باد فرمود تو بامن بیعت کرده واجب است که مرا پروی کنی در پاسخ گفت هنگام بیعت تو توریه نمودم یعنی بزبان اقرار و در دل خلاف آنرا قصد کردم حضرت فرماید زبیرؓ گمان می کند بدست بیعت کرده و دل مخلافت بوده به بیعت خود اقرار کرده و مفر است و ادعا دارد که در باطن خلاف آنرا داشته بنابریں باید که حجت و دلیل بیارد تا راستی گفتار او معلوم شود اگر دلیلے نداشت بیعت او بحال خود بحال خود باقی است باید که مطیع و فرمانبردار باشد۔

ترجمہ: جب سیدنا زبیرؓ عہد توڑ کر میدانِ جنگ میں سیدنا علیؓ کے مقابلے میں آئے تو آپ نے فرمایا تو نے میرے ساتھ بیعت کی ہے اس لئے میری پیروی تم پر فرض ہے سیدنا زبیرؓ نے جواب دیا میں نے بیعت کے وقت توریہ کیا تھا یعنی زبان سے اقرار کیا لیکن دل میں انکار تھا۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ سیدنا زبیرؓ کا خیال ہے کہ اس نے ظاہراً بیعت کی تھی دل سے خلاف تھا یہی تو اس کا اقرار ہے کہ اس نے بیعت کی اسے چاہئے کہ دل کی بات پر دلیل پیش کرے اگر دلیل نہیں تو اس کی بیعت باقی ہے اس لئے اسے چاہئے کہ میرا مطیع اور فرمانبردار رہے۔

سیدنا علیؓ کے اس استدلال کو دیکھ کر کون باور کر سکتا ہے کہ دوسروں پر جس اصول کا اطلاق کرتے ہیں اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں آپؓ نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا کہ قولی اقرار اور عملی اقدام ہی حجت ہے آدمی لاکھ کہے کہ میرے دل میں اس کے خلاف عقیدہ ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

جہاں تک سیدنا علیؓ کا خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا معاملہ ہے غیروں نے ان کے ذمے تہمت لگا دی کہ وہ دل سے اس امر کے خلاف تھے اور یہ حقیقت نفاق کی تہمت ہے مگر اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کا نام تکیہ رکھ دیا بھلا نام بدلنے سے حقائق بھی بدلا کرتے ہیں سیدنا علیؓ نے تو ان اتہام پردازوں کی تردید فرمائی ہے۔

انه بايعنی القوم الذی بايعوا ابابكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ علیؓ ما بايعوهم فلم يكن لشاهد ان يختار ولا للغائب ان يردو انما شورىٰ للمهاجرين والانصار فان اجتمعو على رجلا وسموه اماما كان ذلك لله رضا۔

(شرح نہج البلاغه بحرانی جلد 4 صفحہ 352)۔

ترجمہ: میرے ہاتھ پر ان لوگوں نے بیعت کی جنہوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اسی بات پر بیعت کی جس کا عہد ان لوگوں نے تینوں سے کیا تھا لہٰذا ہر حاضر کا فرض ہے کہ اپنے اختیار سے دستبردار ہو جائے اور پھر غائب پر واجب ہے کہ اس کا انکار نہ کرے اصحاب الرائے تو مہاجرین و انصار ہیں اگر وہ کسی شخص کے حق میں جمع کر لیں اور اس سے اپنا امام بنا لیں تو اللہ کی رضا اسی میں ہے۔

کتنا صاف بیان ہے اور کیسا واضح اصول ہے کہ اہلِ الرائے مہاجرین و انصار ہیں جس شخص کی قیادت پر ان کا اجماع ہو جائے اور اس کو وہ امام تسلیم کر لیں اسی میں اللہ کی رضا ہے گویا آپ نے اعلان کر دیا کہ خلفائے ثلاثہؓ کی قیادت اور امامت پر مہاجرین و انصار کا اجماع ہے لہٰذا یہ فیصلہ اللہ کے ہاں درست اور پسندیدہ ہے۔

بات کتنی واضح ہو حیلہ جو طبائع چور دروازے ڈھونڈ لیتی ہیں چنانچہ اس قول کے متعلق کہا گیا کہ یہ الزامی قول تھا اگر یہ کہتے وقت اس حقیقت کو بھول گئے کہ ائمہ جو بقول شیعہ انبیاء کی طرح معصوم ہیں الزامی زبان میں گفتگو نہیں کیا کرتے بلکہ سیدھے طریقے سے حقائق بیان کیا کرتے ہیں الزامی انداز تو ان کی شان کے بالکل منافی ہے۔

سیدنا علیؓ نے خود اپنے ایک بیان میں اس کی تردید فرمائی ہے۔

امالی شیخ ابو جعفر طوسی مطبع نعمانی نجف اشرف طبع 1964ء جلد2صفحہ 121

وبايعتم ابابكرؓ وعدلتم عنی فبايعت ابابكرؓ كما بايعتموه وکرھت ان اشق عصا المسلمین وان افرق بين جماعتهم ثم ان ابابكرؓ جعلها لعمرؓ من بعده وانتم تعلمون انی اولى الناس رسول اللهﷺ وبالناس بعده فبايعت عمرؓ كما بايعتموه فوفيت له بيعته حتیٰ لما قتل جعلنی سادس ستة فدخلت حيث ادخلنی و کرهت ان افرق جماعة المسلمين و اشق عصالهم فبايعتم عثمانؓ فبايعته وانا جالس فی بيتى ثم اتیتمونی غیر داع لكم ولا مستکره لاحد منکم فبايعتمونی كما بایعتم ابابکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ فما جعلكم احق ان تفو الابی بكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ ببيعتهم منكم ببیعتی قالوا یا امیر المومنين قل كما قال العبد الصالح لا تَثرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِين فقال كذلك اقول يغفر الله لكم وهو ارحم الراحمين۔ 

ترجمہ: تم نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کی اور میری مخالفت کی حالانکہ میں نے بھی سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت اسی طرح کی جیسے تم نے ان کی بیعت کی تھی اور مجھے یہ ناپسند تھا کہ میں مسلمانوں میں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں نااتفاقی ڈالوں اور ان کی جماعت میں افتراق پیدا کروں اور تم جانتے ہو کہ میری قرابت رسول اللہﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ تھی پھر میں نے سیدنا عمرؓ کی بیعت اس طرح کی جیسے تم نے کی تھی اور میں نے سیدنا عمرؓ کے ساتھ کما حقہ وفا کی حتیٰ کے جب وہ شہید ہوئے تو مجھے مجلس شوریٰ کے ارکان میں چھٹا رکن مقرر کیا میں نے سیدنا عمرؓ کی مقرر کی ہوئی رکنیت کو قبول کیا اور میں نے مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنا پسند نہ کیا پھر تم نے سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی اور میں نے بھی کی اور اب میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں اور تم بن بلائے میرے پاس پہنچ گئے اور میں نے کسی شخص کو اپنی بیعت کے لئے مجبور نہیں کیا پھر تم نے میری بیعت کی جن شرائط پر تم نے سیدنا ابو بکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں تم میری نسبت وفاداری کا زیادہ حق دار سمجھتے ہو کہنے لگے اے امیر المومنین آپ بھی فرما دیجئے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آج تم پر کوئی زیادتی نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے تو آپ نے فرمایا میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔

اس اقتباس کے الفاظ پر غور کیجئے:

  1.  یہ سیدنا علیؓ کا اپنا قول ہے کسی اور امام یا کسی مجتہد کا قول نہیں۔
  2.  آپؓ نے دو ٹوک فیصلہ دیا کہ جس طرح تم لوگوں نے خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی میں نے بھی اسی طرح کی تھی اب یا تو ثابت کیا جائے کہ سب نے تقیہ کیا تھا یا تسلیم کر لیا جائے کہ سیدنا علیؓ نے بھی باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح دل سے بیعت کی تھی اسی طرح یا تو ثابت کیا جائے کہ سب سے جبراً بیعت لی گئی تھی یا مان لیا جائے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح حضرت نے بھی برضا و رغبت بیعت کی تھی یہ کما بايعتموه کہہ کر سیدنا علیؓ نے ہر حیلہ جو کج ہیں اور افتراء پرداز کے منہ پر وہ چپت رسید کی ہے کہ قیامت تک اس کی ٹیس اٹھتی رہے گی۔
  3.  اب تو الزامی بیان کہنے والوں کو شرم ہی آنی چاہئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً۝۔ (سورة النساء آیت نمبر 115)۔

حق کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کریمﷺ کی جو مخالفت کرتا ہے اس طرح کہ سابقہ مسلمانوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ نکالتا ہے ہم اسے اس گمراہی میں چلائیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے ۔

سیدنا علیؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے خطاب کرتے ہوئے اس آیت کا حوالہ دے کر بیعت کے سلسلے میں ایک اصول بیان فرمایا:

وانما شورىٰ للمهاجرين والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموه اما ما كان ذلك لله رضا فان خرج عن امرهم خارج بطعن او بدعة ردوه الی ما خرج منه فان ابی قاتلوه علی اتباعه غير سبيل المومنين وولاه الى ما تولی و لعمری معاویهؓ لو نظرت بعقلک دون هواک لتجدنی ابرأ الناس من دم عثمانؓ ولتعلمن اني كنت فی عزلة منه۔ (شرح نہج البلاغہ میثم بحرانی جلد 4 صفحہ 362)۔

ترجمہ: خلافت کے مشورے کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے کسی شخص پر اگر وہ متفق ہو جائیں اور اس کو امام و خلیفہ بنادیں تو ان کا پسندیدہ اللہ کا پسندیدہ ہوگا جو شخص ان کے مشورے کا مخالف ہو اعتراض کرے یا نئی راہ نکالے تو اسے سیدھی راہ پر واپس لاؤ جو مہاجرین و انصار کا فیصلہ ہے اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ کرو کیونکہ وہ مسلمانوں کی راہ سے ہٹ کر اسلام سے نکل چکا اور اللہ تعالیٰ اسے اس طرف پھیرے رکھے گا جدھر وہ پھر چکا اے سیدنا امیرِ معاویہؓ مجھے اپنی جان کی قسم اگر تم نفس کی اتباع کی جگہ عقل سے کام لو تو یقیناً مجھے خون سیدنا عثمانؓ سے بری الذمہ پاؤ گے اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ میں اس قتل سے بالکل علیحدہ تھا۔

اس اِقتباس سے ظاہر ہے کہ:

  1.  سیدنا علیؓ اپنی خلافت کا حق سیدنا امیرِ معاویہؓ سے منوانا چاہتے ہیں مگر کوئی نص نہیں پیش کی حالانکہ اس موقع پر نص سے بڑھ کر کوئی دلیل کارگر نہ تھی۔
  2. آپؓ نے یہ اصول بیان کیا کہ مہاجرین و انصار جس کو خلافت و امامت کا مستحق قرار دیں وہی امام برحق اور خلیفہ راشد ہے اور وہی اللہ کا پسندیدہ ہے یعنی آپؓ نے بتا دیا کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت پر مہاجرین و انصار کا اجماع تھا انہوں نے ان کو خلیفہ چنا ہے لہٰذا خلفائے ثلاثہؓ امام برحق بھی تھے اور اللہ کے پسندیدہ بھی تھے اور یہ بھی واضح کر دیا کہ خلافت و امامت کے لئے نص کی تلاش کی ضرورت نہیں بلکہ مهاجرین وانصار کے اجماع کی ضرورت ہے۔
  3.  مہاجرین وانصار کے فیصلہ کے بعد جو شخص ان کے فیصلہ کو چھوڑ کر نئی راہ نکالتا ہے وہ واجب القتل ہے اور خارج از اسلام ہے یعنی سیدنا علیؓ نے یہ واضح کر دیا کہ انہوں نے تقیہ کر کے خلفائے ثلاثہؓ کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ ان کے فیصلہ کو اللہ کا پسندیدہ فیصلہ سمجھ کر سچے دل سے بیعت کی تھی اگر کہا جائے کہ تقیہ کیا تھا تو ظاہراً وہ جرم سے بچ گئے مگر وہ عنداللہ تو واجب القتل اور خارج از اسلام ہی ٹھہرے اس سے وہ کیسے بچ سکتے تھے۔

لہٰذا سیدنا علیؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو بتا دیا کہ جس طرح میں نے مہاجرین و انصار کے فیصلہ کو اللہ کا پسندیدہ فیصلہ سمجھ کر خلفائے ثلاثہؓ کی بیعت کی اسی طرح آج مہاجرین و انصار کے میرے حق میں فیصلہ کوتم بھی اللہ کا پسندیدہ فیصلہ تسلم کرو اور میری بیعت کرلو اس اصول پر علامہ بحرانی نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

شرح نہج البلاغه علامه میثم بحرانی جلد 4 صفحہ 353:

وحصر الشورى والاجماع فی المهاجرين والانصار لانهم اہل الحل والعقد من امة محمدﷺ فاذا اتفقت كلمتهم على حكم من الاحكام كاجتماعهم على بیعتہ وتسمية اماما كان ذلك اجماعا حقا هو رضی الله ای مرضی لہ وسبيل المؤمنين الذی يجب اتباعه فان خالف امرهم وخرج بطعن فيهم او فيمن اجمعوا علیه کخلاف معاويهؓ طعنه فيه بقتل عثمانؓ و نحوه او بدعة كخلاف اصحاب جمل وبدعتهم في نکث بیعته ردوه الی ما خرج عنه فان ابي قاتلوه على اتباعه غير سبيل المومنين حتى يرجع اليه وولاه الله ما تولى و اصلاه جهنم۔

ترجمہ: اور سیدنا علیؓ نے شوریٰ اور اجماع کو مہاجرین و انصار کی جماعت میں بند کر دیا کیونکہ امتِ محمدیہ میں وہی لوگ اہلِ حل و عقد ہیں اگر مہاجرین و انصار کسی حکم پر متفق ہو جائیں جیسے سیدنا علیؓ کی بيعت پر متفق ہو گئے یہ اجماع ان کا حق ہے اور وہی خدا کا پسندیدہ ہے اور یہی اہلِ ایمان کی راہ ہے جس کی اتباع واجب ہے اور اگر کوئی شخص ان مهاجرین و انصار پر یا ان کے فیصلہ پر طعن کر کے ان كا مخالف ہو جائے جیسے سیدنا امیر معاویہؓ کا ان پر قتل سیدنا عثمانؓ کا طعن کر کے ان کے مخالف ہونا یا اصحابِ جمل کی طرح نئی راہ نکال کے اور بیعت توڑ کے مخالف ہونا سو ایسے شخص کو اسی سیدھی راہ پر لاؤ جہاں سے وہ ہٹا ہے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑو کیونکہ وہ مسلمانوں کی راہ سے ہٹ گیا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اگر نہ لوٹا تو اسے گمراہی پر چھوڑ دے گا اور اسے جہنم میں پہنچادے گا۔

شرح نہج البلاغه درالنجفیہ صفحہ 298 پر بعینہ یہی عبادت موجود ہے اور شرح نہج البلاغہ فیض 301۔834 بھی عبارت فارسی موجود ہے۔

ان شارحین نے سیدنا علیؓ کے قول کی شرح کرتے ہوئے کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہنے دیا انہوں نے واضح کر دیا کہ:

  1. خلافت و امامت کے لئے فیصلہ کن بات مہاجرین و انصار کا اجماع ہے اور بس۔
  2. سیدنا علیؓ اپنی خلافت سیدنا امیرِ معاویہؓ سے منوانا چاہتے تھے اگر اس کے لئے کوئی نص ہوتی تو یقیناً پہلے وہی پیش کرتے۔
  3.  مہاجرین و انصار جس کی امامت اور خلافت پر اجماع کر لیں وہی خدا کا پسندیدہ ہے لہٰذا خلفائے ثلاثہؓ کی طرح سیدنا علیؓ بھی خلیفہء برحق ہیں۔
  4.  مہاجرین و انصار کا راستہ سبیل المومنین ہے اور ان کا اتباع واجب ہے۔
  5.  مہاجرین و انصار کی ذات یا ان کے فیصلے پر جو طعن کرے وہ مسلمانوں کی راہ چھوڑ بیٹھا لہٰذا واجب القتل ہے بقول سیدنا علیؓ ظاہر ہے کہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ کے حق میں مہاجرین و انصار کے فیصلے پر طعن کر کے واجب القتل ٹھہرتے اور مسلمانوں کی راہ کو چھوڑ بیٹھتے۔ 
  6.  یہ اصول سیدنا علیؓ کا بیان اور ان کا فتویٰ ہے لہٰذا جو شخص سیدنا علیؓ کے فتویٰ کو قبول نہیں کرتا وہ مہاجرین و انصار کا مخالف سیدنا علیؓ کا دشمن اور اسلام سے کوسوں دور۔

ایسی واضح بات اور اتنے صاف فیصلہ کا انکار کرنے کے لئے اچھا خاصا فن کار ہونے کی ضرورت ہے چنانچہ اس فن کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزا احمد علی امرتسری نے فرمایا تھا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ چونکہ منصوصی خلافت کے منکر تھے اور اجماعی خلافت کے قائل تھے اس لئے سیدنا علیؓ نے یہ الزامی جواب دیا اور اپنی خلافت کے ثبوت میں مہاجرین و انصار کے اجتماع کا اصول پیش کیا۔

بات تو خوب بنائی گئی مگر لوگ کہتے ہیں کہ المعنیٰ فی بطن الشاعر اس لئے اگر یہ بیان الزامی ہے تو صاحب بیان سیدنا علیؓ کا قول پیش کیا جائے آپ اس واضح بیان میں اپنی پسند کا مفہوم داخل کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں ورنہ آپ بات بنا نہیں رہے بلکہ سیدنا علیؓ کی تکذیب کر رہے ہیں۔

اگر بات وہی ہوتی جو آپ بنا رہے ہیں تو سیدنا علیؓ پہلے اپنا عقیدہ پیش کرتے کہ خلافت منصوصی سے اور میری خلافت پر نص موجود ہے اور اے سیدنا امیرِ معاویہؓ اگر تم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تو تمہارے عقیدے کے مطابق میں ثبوت دیتا ہوں کہ میری خلافت پر بھی مہاجرین و انصار کا اسی طرح اجماع ہوا ہے جیسے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت پر ان کا اجماع ہوا تھا مگر سیدنا علیؓ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنا وہی عقیدہ بیان کیا جو سب مسلمانوں کا تھا کہ مہاجرین و انصار جس کی امامت پر متفق ہو جائیں وہ شخص اللہ کا پسندیدہ ہے اگر اس سیدھی بات کو تسلیم نہ کریں اور اسے الزامی جواب قرار دیں تو اس پر کئی سوال اٹھتے ہیں مثلاً یہ کہ:

ایسے مناسب موقع پر سیدنا علیؓ نے اپنی خلافت منوانے کے لئے نص کیوں نہ پیش کی یہ اقدام ایک طرف تو کتمانِ حق ہے دوسری طرف شیعہ کو گمراہی میں دھکیل دینا ہے اور کتمانِ حق کرنے والوں کے لئے اللہ کی وعید ہے اُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّعِنُونَ۝۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 159)۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا علیؓ کا عقیدہ وہی تھا جو آپؓ نے ظاہر کر دیا۔

سید علی نقی شارح نہج البلاغہ نے اس خطبہ میں تھوڑی سی تحریف کی ہے لکھتے ہیں:

پس بعقیده ءشما که خلافت از جانب خدا و رسول تعیین نشده بلکه باجماع امت بر قرارمی گردد۔

مگر شارح سیدنا علیؓ کے الفاظ میں "بعقیدہ ءشما" کا اضافہ کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ آپ نے فرمایا: انه بایعنی القوم الذی بايعوا ابابكرؓ وعمرؓ و عثمانؓ علىؓ ما بايعوهم علیه یعنی ان لوگوں نے میرے ہاتھ پر ان شرائط پر بیعت کی جن شرائط پر سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی وہ شرائط کیا تھیں یہی کہ کتاب و سنت پر عمل کرنا اور رسولﷺ کے نقش قدم پر چلنا اگر یہاں بعقیدہ ءشما کا اضافہ کریں تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اے سیدنا امیرِ معاویہؓ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ بیعت ہوئی کتاب و سنت پر عمل کرنے پر اور حضورﷺ کے نقش قدم پر چلنے پر مگر میرا عقیدہ یہ نہیں کیا آپ اس لفظ کے اضافہ سے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی شرط یہ تھی کہ کتاب وسنت کی مخالفت کرنی ہے اور رسولﷺ کا اتباع ہرگز نہیں کرتا ہے (معاذ اللہ) اور بعقیدہ ءشما مہاجرین و انصار کے مقرر کردہ خلیفہ کی مخالفت کرنے والا واجب القتل ہے اور خارج از اسلام ہے اور جہنمی ہے مگر میرا عقیدہ یہ نہیں اس لئے اے سیدنا امیرِ معاویہؓ نہ تم واجب القتل نہ خارج از اسلام نہ جہنمی کیا سیدنا امیرِ معاویہؓ سے اپنی خلافت کا حق منوانے کا یہی طریقہ ہے۔

چند تفسیری نکات اور فضیلتِ خلفائے ثلاثہؓ:

اب ہم آیت کے الفاظ کی تشریح اور اس کی تفسیر اور شیعہ کے خیالات پیش کرتے ہیں وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ الخ۔ (سورة النور آیت نمبر 55)۔

وعدہ ان لوگوں سے کیا گیا جو مومن اور صالح ہوں نیز نزولِ آیت کے وقت جو حاضر تھے اس سے واضح ہو گیا کہ یہ وعدہ رسول اللہﷺ سے نہیں بلکہ آپ کے متبعین سے ہے کیونکہ نبی تو بعثت کے وقت سے ہی خلیفہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کو خلافت کا وعدہ دینا ایسا ہے جیسے خلیفہ کو کہا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں خلافت وہیں گے یہ تو تحصیل حاصل ہے۔

"منکم" میں "من" بعضیہ ہے بیانیہ نہیں کیونکہ ضمائر پر جو "من" داخل ہوتا ہے وہ حضیہ ہوتا ہے لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ خلافت فی الارض دو قسم ہے لغوی اور شرعی

لغوی کا مطلب یہ ہے کہ ایک کو ہٹا کر دوسرے کو اس کی جگہ مکان دینا وطن بنانا وغیرہ شیعہ علماء نے یہ معنیٰ کئے ہیں کہ مکہ اور دوسری جگہوں سے ہجرت کر کے مدینہ وطن بنانا ہے مگر آیت میں لغوی معنیٰ مراد نہیں کیونکہ ایک جگہ سے منتقل ہو کر دوسری جگہ متوطن ہونا مومن صالح فاسق کافر سب کو حاصل ہے اور قرآن نے "وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ" کی قید لگائی ہے اور ایمان کی قید لگائی ہے لغوی معنیٰ مراد لینے سے یہ دونوں قید میں لغو اور بے معنیٰ ہو جاتی ہیں تیسری قید "الارض" کی ہے قرآن نے جہاں کہیں خلافت یا حکومت کے ساتھ الارض کی قید لگائی ہے وہاں یقینا تسلط اور حکومت مراد ہوتی ہے جیسے :

  1.  إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِيفَة الخ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 30)۔
  2. يَا دَاوُوُدُ فَاجْعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِی الْأَرْضِ الخ۔ (سورة ص آیت نمبر26)۔
  3.  وَكَذَالِكَ مَكَّنَا لِيُوْسُفَ فِی الْأَرْضِ الخ۔ (سورة یوسف آیت نمبر 56)۔
  4.  الَّذِينَ إِن مَّكَّنَاهُمْ فِی الْأَرْضِ الخ۔ (سورة الحج آیت نمبر 41)۔

اس قید سے وہ خلافت اس وعدہ سے خارج ہے جو شیعہ کے ہاں دینی وہمی روحانی خفی غیر ظاہری اور غیر جلی وغیرہ کے لفظوں سے تعبیر کی جاتی ہے گو خلافت سے خلافتِ لغوی بھی مراد ہوتی ہے مگر اس آیت میں لغوی مراد نہیں ہو سکتی اس خلافت کو رب العالمین نے سابقہ خلافتوں کے ساتھ تشبیہہ دی ہے كما استخلف الذين من قبلهم سابقہ خلافتوں کے متعلق قرآن مجید نے یہ فرمایا کہ: 

  •  وَأَتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا۝۔ (سورة النساء آیت نمبر 54)۔

 ہم نے ان کو بہت بڑے ملک کی حکومت دی۔

  •   إِذْجَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً الخ۔ (سورة المائدہ آیت نمبر 20)۔

اکثر مفسرین نے اس آیت سے خلافتِ حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد لی ہے کہ ان کے بعد ان کے تین خلفاء حضرت یوشع بن حضرت طالب اور حضرت یوساقوس مراد ہیں ان تینوں خلفاء کے حالات خلفائے ثلاثہؓ سیدنا صدیقؓ و سیدنا فاروقؓ و سیدنا عثمانؓ سے ملتے جلتے ہیں بعض مفسرین نے حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت مراد لی ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام حاکم ہوئے۔

ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ دونوں مراد ہو سکتی ہیں اس تشبیہہ سے واضح ہوگیا کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت ہمرنگِ نبوت اور علی منہاج النبوت تھی صرف ظاہری دنیوی حکومت نہیں تھی۔

آیت میں اللہ تعالیٰ نے موعودین کے ساتھ خلافت کے ساتھ تمکین دین و استحکام دین کا وعدہ بھی فرمایا ہے ان نعمتوں کو پورا کرنے کا خلفائے ثلاثہؓ کو آلہ بنایا ہے

اس حقیقت کا اظہار سیدنا علیؓ نے ان الفاظ میں فرمایا: 

درة النجفیہ شرح نہج البلاغہ طبع قدیم صفحه 392 اور شرح میثم بحرانی جلد 5 صفحہ 423 سیدنا فاروقؓ کی تعریف میں فرمایا:

ووليهم وال فا قالم و استقام حتىٰ ضرب الدين بحيرانه۔

اور حاکم ہوا مسلمانوں کا ایک حاکم اور اس نے قائم کیا دین کو حتیٰ کہ دین نے اپنا سینہ زمین پر رکھ دیا والی سے مراد سیدنا عمرؓ بن الخطاب ہے۔

ان الوالہ هو عمر بن الخطابؓ ( ميثم)۔ 

والی سے مراد سیدنا عمر بن الخطابؓ ہے۔

ان الوالى هو عمر بن الخطابؓ (ورة النجفيه)۔

والی سے مراد سیدنا عمر بن الخطابؓ ہے۔

وضرب بحرانه كناية بالوصف المستعار عن استقراره و تمكنه كتمكن البعير البارك من الأرض۔

سینہ زمین پر رکھ دیا کنایہ ہے اس سے مراد قرار پکڑنے اور تمکن ہونے کے جیسے بیٹھنے والا اونٹ جب زمین پر سینہ ٹیک دیتا ہے تو جم کے بیٹھ جاتا ہے۔

یعنی سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ آیتِ استخلاف میں جو تمکین دین کا وعدہ ہے وہ سیدنا عمرؓ کے ہاتھ سے پورا ہوا سیدنا علیؓ کے عقیدہ کے مطابق سیدنا عمرؓ نہ صرف کامل دیندار ہیں بلکہ دین کے ایسے خادم ہیں کہ انہوں نے دین اسلام کو استحکام بخشا۔

اور شیعہ تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن جلد15 صفحہ 152: 

وليمكنن لهم دينهم الذی ارتضىٰ لهم قال تمكين الشیء اقراره فی مكان وهو كناية عن ثبات الشیء من غير زوال و اضطراب و تزلزل بحيث يوثر اثره من غير مانع ولا حاجز فتمكن الدين هو کونه معمولا به فی المجتمع من غير كفر به واستهانة بامره۔

ترجمہ: کسی شے کے تمکن ہونے سے مراد قرار پکڑنا ہے یہ کنایہ ہے شے کا اپنی جگہ پر ثابت و قائم ہونا اس طور پر کہ نہ زوال ہو نہ اضطراب نہ تزلزل اس حیثیت سے کہ دین کسی مانع یا رکاوٹ کے بغیر پورا اثر کرے پس تمکین دین یہ ہے کہ پورے دین پر عمل ہو اس طرح کہ نہ انکار کا شائبہ رہے نہ دین کے احکام کی توہین کا۔ 

سیدنا علیؓ کے کلام سے ثابت ہوا دین کو تمکین حاصل ہوئی سیدنا عمر فاروقؓ کے ہاتھ سے اور تمکین سے مراد یہ ہوئی کہ دین کو وہ قوت حاصل ہوئی جسے زوال اور تزلزل کا اندیشہ نہ رہا ثابت ہوا کہ آیتِ استخلاف میں تمکین دین کا وعدہ سیدنا عمرؓ جیسے کامل الایمان خلیفہ کے ہاتھوں پورا ہوا۔

موعودہ خلافت سے مراد ان خلفاء کی خلافت ہے جن کے عہد میں قیصر و کسریٰ اور دیگر سلطنتیں مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئیں چنانچہ:

تفسری منسج الصادقین جلد 6 صفحہ 335:

در اندک فرصتے حق تعالیٰ بوعده مومناں وفا نموده جزائر عرب و دیار کسریٰ بلاد روم بدیشان ارزانی داشت۔

ترجمہ: تھوڑی سی مدت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا کہ جزائر عرب مملکت کسری اور روم کے علاقے مومنوں کے ہاتھوں فتح ہوئی۔ 

یعنی یہ وعدہ اس عہد میں پورا ہوا جسے خلافتِ علی منہاج النبوہ کہتے ہیں اس کے بعد کی حکومت کو نبی کریمﷺ نے ملک عضوض کا نام دیا ہے یہ وہ حکومت ہے جس کا ظاہر زمین پر تسلط ہو اور باطن میں پورے دین کو نہ سنبھال سکے اس میں من وجہ ہدایت ہوئی ہے من وجہ عدم ہدایت۔

تیسری قسم وہ حکومت یا ریاست عامہ ہے جو ظاہراً و باطناً خدا اور سولﷺ کی بغاوت کی آئینہ دار ہو ایسی حکومت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت مقرر ہوتی ہے جب کسی قوم کوسزا دینا یا تباہ کرنا مقصود ہو۔

وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهِ الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً۝۔ (سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 16)۔

ترجمہ: جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عيش لوگوں کو حکم دیتے ہیں پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچاتے ہیں تب ان پر حجت تمام ہو جاتی ہے پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں۔

لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ الخ۔ (سورة النور آیت نمبر 55)۔

شیعه تفسیر صافی "اللہ ليجعلنهم خلفاء بعد نبيكم۔ ترجمہ: اللہ ان کو نبیﷺ کے بعد خلیفہ بنائے گا۔ 

یعنی موعودہ خلافت وہی ہے جو نبی کریمﷺ کے بعد متصل خلفائے ثلاثہؓ کو اللہ نے عطا کی اور تفسیر مجمع البیان شیخ ابو علی طبرسی:

ليورثنهم ارض الكفار من العرب والعجم فيجعلهم سكانها و ملوكها۔

ترجمہ: یعنی ان کو کفار کی زمین کا عرب و عجم میں وارث بناؤں گا ان کی زمین میں ان موعودہ مومنین کو سکونت دوں گا اور ان کو حاکم و بادشاہ بناؤں گا۔

عرب و عجم کی کفار کی زمین کو فتح بھی خلفائے ثلاثہؓ نے کیا اور اس پر حکومت بھی انہوں نے کی۔ 

تفسیر شیعه مجتهد طباطبائی صفحه 153:

انها رأيت الاستخلاف واردة في اصحاب النبیﷺ و انجز الله وعده لهم باستخلافهم فی الارض وتمكين دينهم و تبدیل خوفهم امنا بما اعز الاسلام بعد رحلة النبیﷺ فی ايام الخلفاء الراشدین والمراد باستخلافهم استخلاف الخلفاء الاربعة بعد النبیﷺ والثلاثة الأول منهم ونسبة الاستخلاف الى جميعهم مع اختصاصه ببعضهم وهم الاربعة او الثلاثة من قبيل نسبة امر البعض الى الكل كقولهم قتل بنو فلان۔

ترجمہ: یہ آیت نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں اپنا وعدہ یوں پورا کیا کہ انہیں زمین کی خلافت دی ان کے دین کو استحکام دیا ان کے خوف کو امن سے بدل دیا اسلام کا غلبہ اس کا سبب بنا یہ سب نبی کریمﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے عہد میں ہوا استخلاف سے مراد خلفائے اربعہؓ ہیں یا خلفائے ثلاثہؓ ہیں تمام کی طرف خلافت کی نسبت کنایہ ہے خلافت بعض کی کل کی طرف جیسے کہا جاتا ہے فلاں قوم نے قتل کیا (حالانکہ سب لوگ قتل نہیں کرتے اسی طرح تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خلیفہ نہیں ہوئے یہاں بھی نسبت بعض کی کل کی طرف ہے ) ( شیعہ مفسر نے من کو تبعیضیہ تسلیم کیا ہے )۔

بات اتنی واضح ہے کہ مزید تجزیہ اور تبصرہ کی محتاج نہیں اِقتباس کا نتیجہ یہ ہے:

  1. یہ آیت حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی یعنی اس کا مصداق مہاجرین و انصار ہیں۔
  2.  اللہ تعالیٰ نے ان سے خلافت و حکومت دینے کا وعدہ کیا اور وہ وعدہ پورا کر دیا یعنی خلفائے ثلاثہؓ جو انہیں مہاجرین و انصار میں سے ان کی خلافت وہی موعودہ خلافت ہے۔
  3. ان کے ہاتھوں دین حق کو استحکام دیا۔
  4.  خوف کے بعد امن دے کر یہ وعدہ بھی پورا کیا۔
  5. شیعہ مجتہد نے تسلیم کیا کہ یہ وعدہ نبی کریمﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے عہد میں پورا ہوا۔
  6. اصل میں یہ وعدہ خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پورا ہوا مگر خلفائے راشدین کہنا صرف کنایہ ہے خلافت بعض کی کل کی طرف۔

 شیعہ مجتہد نے سیدنا علیؓ کی تقلید کی آپ نے خلفائے ثلاثہؓ کو سب سے پہلے خلفائے راشدین کے لقب سے یاد کیا یہاں شیعہ مجتہد نے بھی خلفائے ثلاثہؓ کو خلفائے راشدین لکھا۔

 شیعہ مجتہد نے من کو تبعیضیہ تسلیم کیا ہے۔

 تاریخی شہادت:

لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ ابنِ شہر آشوب و غیره روایت کرده اند که روزے آنحضرتﷺ نظر کرد سوئے ذرا عہائے سراقہ بن مالک که باریک و پرمود بود پس فرمود که چگونه خواهد بود حال تو در هنگام کہ دست رنجہائے بادشاہ عجم رادردست ہا کردہ باشی پس چون در زمان عمرؓ فتح مدائن کردند عمرؓ او را طلبید ودست رنجهائے بادشاہ عجم را در دستہائے او کردہ فرمود چون مصر را فتح کنید قبطیاں را مکشید که مادر ابراهیم ماریه از ایشاں است و فرمود که رومیه را فتح خواهید کرد چوں آنرا فتح کنید کلیسائے کہ جانب شرقی آں واقع است آن را مسجد کنید۔

(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 271)۔

ترجمہ: ابنِ آشوب وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ایک روز نبی کریمﷺ کی سراقہ بن مالک کے بازوؤں پر نگاہ پڑی کہ باریک اور بالوں سے پر تھے فرمایا کہ وہ کیا منظر ہوگا جب تم نے شاہِ عجم کنگن ان کلائیوں میں پہن رکھے ہوں گے پس جب عہد فاروقیؓ میں مدائن فتح ہوا تو سیدنا عمرؓ نے سراقہ کو بلایا اور شاہِ فارس کے کنگن اس کی کلائی میں ڈال دیئے حضورﷺ نے پھر فرمایا کہ جب تم مصر فتح کرو تو قبطیوں کو قتل نہ کرنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ماں (ماریہ) اسی قبیلہ میں سے ہے اور جب رومیہ کو فتح کرو تو مشرقی جانب جو گرجا ہے اس کو مسجد بنانا۔

یعنی نبی کریمﷺ نے پیشگوئی فرمائی تم میرے بعد ایران کو فتح کرو گے اور شاہِ ایران کے کنگن سراقہ کے ہاتھ میں ہوں گے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھوں حضورﷺ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور انہوں نے حضورﷺ کا فرمان پورا کر دیا کہ شاہِ ایران کے کنگن سراقہ کو پہنائے گویا لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کا خدائی وعدہ پورا ہوا کہ حضورﷺ کے بعد خلیفہ سیدنا عمرؓ نے ایران کو فتح کیا۔

دوسری بات حضورﷺ نے فرمائی کہ تم مصر کو فتح کرو گے تیسری بات رومیہ فتح کرو گے یہ پیشگوئیاں بھی سیدنا عمرؓ کے عہد میں پوری ہوئیں سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے وہاں مسجد بنوائی یعنی لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کے مصداق سیدنا عمرؓ کو تسلیم کیا گیا۔ 

حیات القلوب جلد 2 صفحہ 277 عفیف راوی کہتا ہے:

من باعباس گفتم کہ ایں چہ دین است کہ ماندیدم ہرگز گفت ایں محمد بن عبدالله است و دعویٰ میکند کہ خدا اور افرستاده است میگوئید کہ گنجہائے کسریٰ و قیصر برائے او فتح خواهد شد۔ 

ترجمہ: میں نے سیدنا عباسؓ سے کہا یہ کیسا دین ہے کہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہا یہ محمد بن عبداللہ ہے دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو بھیجا ہے کہتا ہے کہ کسریٰ و قیصر کے خزانے اس کے لئے فتح ہوں گے یعنی سیدنا عباسؓ نے جواب دیا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے رسول اللہﷺ کے لئے فتح ہوں گے۔

یعنی سیدنا عباسؓ نے جواب دیا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے رسول اللہﷺ کے لیے فتح ہوں گے اور یہ پیشگوئی خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی۔

حیات القلوب جلد 2 صفحہ 280:

آنحضرت بمسجد آمد و بحجر اسماعیل ایساتد و بصدائے بلند ندا کرد کہ اے گروہ قریش وای طوائف عرب شمارا می خوانم بسوئے شہادت بوحدانیت خدا و ایمان آوردن پیغمبری امن وامر می کنم شما را که ترک کنید بت پرستی راواجابت نمائیند مرا در آنچه شمارا باآن می خوانم تا بادشاہان عرب گردیدو گروه عجم شمارا فرمانبرداران گردند و در بهشت باد شاہاں باشید۔

ترجمہ: نبی کریمﷺ مسجد حرام میں آئے حجر اسمٰعیل علیہ السلام کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا کہ اے گروہ قریش اور اے قبائل عرب میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کی توحید اور میری رسالت کی شہادت دو اور میں حکم دیتا ہوں کہ بت پرستی چھوڑ دو اور جو میں کہتا ہوں اسے قبول کرو تاکہ تم عرب کے بادشاہ بن جاؤ اور عرب کے لوگ تمہارے حکم کے تابع ہو جائیں اور تم بہشت میں بھی بادشاہ بنو۔

حضورﷺ کی یہ سب پیشگوئیاں حضورﷺ کے سچے جانشین خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں پوری ہو ئیں اور اللہ کے وعدے ليستخلفنهم فی الارض کی عملی تفسیر خلفاء ثلاثہؓ کے عہد میں سامنے آگئی۔

  1. حملہ حیدری علامہ بازل جلد 1 صفحہ 16حضورﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا:

 که ای عم چه بدمیکنم من به قوم بیا بدازاں حکم ایشان رواج ز ملک عرب تادیار عجم

رہے مینایم کہ یو مافیوم ستانند از خسرواں ساج و باج گزارند برحکم ایشان قدم۔

ترجمہ: چچا جان میں نے اپنی قوم کے ساتھ کونسی برائی کی ہے صرف یہی کہ میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہوں اگر قوم نے میری بات مان لی تو دنیا ان کے زیر نگیں ہوگی ، عرب و عجم پر ان کا حکم چلے گا۔

اس پر ابوجہل نے پوچھا کہ وہ کونسا کلمہ ہے جس کے کہنے پر یہ حکومت مل سکتی ہے تو حضورﷺ نے فرمایا:

(2)۔ که گوئند از صدق بے اشتباه نباشد جزالله دیگر اله۔

ترجمہ: انہیں چاہئے کہ صدقِ دل سے اقرار کریں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں۔

حضور کی یہ پیشگوئی خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پوری ہوئی۔

حمله حیدری بازل جلد 1 صفحہ 235:

شاہِ ایران نے باذان کو حضورﷺ کی گرفتاری کے لئے بھیجا تو حضورﷺ نے فرمایا:

(3)۔ بگویند اول جواب سلام رسانید آنگه زمن این پیام که از قدرت قادر ذوالجلال شود پاک گیتی ز کفر و ضلال! همه اہل ایران وائل یمن! بزودی در آیند در دین من۔ 

ترجمہ: شاہ کو میر اسلام کہنا اس کے بعد یہ پیغام دینا کہ اللہ کی قدرت سے اللہ کی زمین کفر اور گمراہی سے پاک ہو جائے گی اور اہلِ ایران اور اہلِ یمن جلد ہی میرے دین میں آجائیں گے۔

دنیا کو کفر و ضلال سے پاک کیا تو خلفائے ثلاثہؓ نے اور اہلِ ایران و یمن کو دینِ محمدی کا گرویدہ بنایا تو خلفائے ثلاثہؓ نے دین خلفائے ثلاثہؓ دین محمدی تھا۔

حمله حیدری بازل جلد 1 صفحہ 229 قیصر روم نے فتح اسلامی کی خوشخبری خود دی۔

که بر کشور ما بزودی شوند مسلط گرد ہے کہ ختنه کنند۔

ترجمہ: ہماری سلطنت پر جلد ہی ایک ایسی قوم مسلط ہو جائے گی جن میں ختنہ کا رواج ہے یہ پیشگوئی بھی خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پوری ہوئی۔

لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کی تفسیر اور واقعہ خندق:

(1)۔ شیعہ تفسیر مجمع البیان صفحه 341 وہ سخت پتھر جو حضورﷺ کی ضربوں سے ٹوٹا اور حضورﷺ نے فرمایا:

اما الاولىٰ فان الله عزوجل فتح علی بها اليمن واما الثانية فان الله عز وجل فتح على بها الشام والمغرب واما الثالثة فان الله عز و جل فتح على بھا المشرق فاستبشر المسلمون۔ 

ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا کہ میری پہلی ضرب پر اللہ نے مجھ پر یمن فتح کیا دوسری پر شام اور مغرب میرے لئے فتح ہوئے تیسری ضرب پر مشرق اس خوشخبری سے مومن خوش ہوئے۔ 

حضورﷺ نے تینوں فتوحات کے ساتھ علی فرمایا: مگر یہ ملک فتح ہوئے خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں گویا حضورﷺ نے خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ فرمایا کیونکہ خلفائے ثلاثہؓ نے حضورﷺ کے مشن کی تکمیل کی۔

(3)۔ تفسیر قمی علی بن ابراہیم شاگرد امام حسن عسکری جلد 2 صفحہ 178۔

ثم اخذ هو لا فضرب ضربة فبرقت برقة فنظرنا فيها الى قصور الشام ثم ضرب اخرى فبرقت برقة فنظرنا فيها الى قصور المدائن ثم ضرب اخرى فبرقت برقة اخرى فنظرنا فيها الى قصور اليمن فقال رسول اللهﷺ اما انه سيفتح الله عليكم هذه المواطن التي برقت فيها البرق۔ 

ترجمہ: پھر حضورﷺ نے ھول لے کر ایک ضرب لگائی اس سے روشنی اٹھی جس میں ہم (صحابہؓ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے شام کے شاہی محل دیکھے دوسری ضرب پر روشنی اڑھی تو مدائن کے شاہ محل دیکھے تیسری ضرب پر روشنی اٹھی تو ہم (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے یمن کے محل دیکھے تو حضورﷺ نے فرمایا عنقریب اللہ تعالی تم (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے ہاتھوں یہ ممالک فتح کرے گا جو تم نے اس روشنی میں دیکھے ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں خلفائے ثلاثہؓ کی قیادت میں لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کا وعدہ پورا ہونے کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔

(3)۔ تفسیر صافی طبع ایران صفحه 336۔

ثم اخذ الهول فضرب ضربة فبرقت برقة فنظرنا فيها الى قصور الشام ثم ضرب اخرى فبرقت برقة اخرى فنظرنا فيها الى قصور المدائن ثم ضرب اخرى فبرقت برقة اخرى فنظرنا فيها الى قصور اليمن فقال رسول اللهﷺ اما انه سيفتح الله عليكم هذه المواطن التی برقت فيها البرق۔

(4)۔ تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن جلد 11 صفحہ 293۔

اما الأولى فان الله عزوجل فتح على اليمن واما الثانية فان الله عزوجل فتح على اليمن واما الثانية فان الله عزوجل فتح على بها الشام والمغرب واما الثالثة فان الله عزوجل فتح على بها المشرق فاستبشر بذلك المسلمون۔

(5)۔ تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 289۔

حضرت متین را بدست مبارک گرفت و بسم اللہ گویاں براں سنگ زدو دو دانگ آں سنگ بشکست و نوری ازاں مانند برق نخست مانند مصباح در جوف لیل مظلم و دراں روشنی نظر انور سید اطہرﷺ برقصر ہائے شمام افتاد گفت اللہ اکبر مفاتیح شام بمن دادند و مسلمانان نیز تکبیر کردند و نوبت دوم ضربتے دیگر بر آن زد و دانگ دیگر شکسته شده نوری دیگر از وظاهر گشته قصور یمن بنظر اشرف در آمده گفت الله اکبر مفاتیح یمن در دست من نهادند اہلِ اسلام نیز اللہ اکبر کم کردن سیم باره تمام سنگ را درهم شکست و بنوری کہ ازاں درخشاں شدکو شکہائے کسریٰ بران حضرت مشاهده شد فرمود اللہ اکبر مفاتیح ممالیک فارس بقبضه اقتدار من دادند مومناں دیگر بار به الله اکبر لب گشودند و خوشحالی شدند و گفتند الحمد لله موعود صادق است۔

بات وہی ہے مگر یہاں ذرا کھل کے سامنے آئی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایران شام یمن وغیرہ ممالک حضورﷺ کے زمانے میں فتح نہیں ہوئے تھے بلکہ خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے مگر حضورﷺ نے پتھر توڑتے وقت فرمایا: مفاتح من دادند: که چابیاں مجھے دی گئیں یعنی حضورﷺ نے فرمایا ان ممالک کو فتح کرنے والا ہاتھ میرا ہاتھ ہوگا اور ان ممالک پر قبضہ کرنے والوں کا اقتدار میرا اقتدار ہے اس منظر کے دیکھنے والوں اور اس بات کے سننے والوں نے دیکھ لیا کہ حضورﷺ کی پیشگوئی خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی: ليظهره علی الدین کلہ: کی تفسیر اور تکمیل خلفائے ثلاثہؓ نے کی اور لیستخلفنهم فی الارض: کے مصداق خلفائے ثلاثہؓ ہی بنے۔

(6)۔ روضہ کافی طبع جدید صفحه 182۔

رسول اللهﷺ الهول فضرب بها ضربة فنفرت بثلاث فرق فقال رسول اللهﷺ لقد فتح على فی ضربتی هذه كنوز کسریٰ و قیصر۔

وہی بات صاحبِ روضہ کافی نے کہی کہ فتح علی کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے میرے ہاتھ لگے جس کا مطلب یہ ہے جن کے ہاتھ لگے وہ حضورﷺ ہی کے ہاتھ تھے اور وہ خلفائے ثلاثہؓ کے بغیر اور کون ہے جو اس کا مصداق ٹھہرے۔

(7)۔ حمله حیدری علامہ بازل جلد 1صفحہ 165۔

چه بد ایں باشد چه تعبیر آں تکبیر چوں کشودی زبان!

 بپاسخ چنیں گفت خیر البشر! که چوں جست برق نخست از حجر 

نمودند ایوان کسریٰ بمن! دوم قیصر روم سوم از یمن

سبب راچنین گفت روح الامین کہ بعد ازمن انصار و اعوان دین

 بدال مملکتہا مسلط شوند! بآئین من اهل آن بگردند 

بریں مژده و شکر لطف خدا بہر بار تکبیر کردم ادا!

شنیدند آل مژدہ چوں مومناں کشیدند تکبیر شادی کناں۔

علامہ باذل نے تو کوئی لگی لپٹی رہنے نہیں دی۔ 

ہتھوڑے کی ضرب سے پیدا ہونے والی روشنی میں جو روم و شام ایران و یمن کے جو عمل دکھائے گئے اس کی تعبیر اور سبب پوچھا گیا تو حضورﷺ نے فرمایا: 

  1. میرے بعد دینِ اسلام کے بچے خادم ممد و معاون ان ممالک پر مسلط ہوں گے ظاہر ہے حضورﷺ کے بعد ان ممالک پر اقتدار خلفائے ثلاثہؓ کو حاصل ہوا گویا حضورﷺ نے بصیرت نبویﷺ سے خلفائے ثلاثہؓ کو یہ سرٹیفیکیٹ دے دیا کہ یہ میرے دین کے محافظ انصار و اعوان ہیں اب اگر کوئی اس حقیقت کا انکار کرے اور خلفائے ثلاثہؓ پر کسی قسم کا طعن کرے تو ظاہر ہے کہ رسول کا دشمن دین کا مخالف اور جھوٹا ہے۔
  2.  ان ممالک میں میرا دین اور میرا آئین جاری کریں گے خلفائے ثلاثہؓ کے حق میں یہ حضورﷺ کا دوسرا سرٹیفیکیٹ ہے کہ یہ نہ صرف دین کے محافظ ہیں بلکہ دینِ اسلام کے داعی مبلغ اور اسلام کو ہیئت مقتدرہ دینے والے ہیں۔
  3.  مومن اس مژدہ پر خوش ہوئے اور آج بھی خوش ہیں مگر جن کو اسلام سے بیر ہے ایمان سے دشمنی ہے وہ آج بھی دانہء اسپند نظر آتے ہیں اپنی اپنی قسمت ہے۔

8: حیات القلوب جلد 2 صفحہ 219۔

خاصه و عامه روایت کردند که در جنگ احزاب آنحضرت کندن خندق را میانهء صحابه قسمت فرمود که ہرچہل ذراع راده نفر حضر نمائند پس درحصهء سلمان و حذیفہ زمین سنگ رسید که کلنگ دراں اثر نمی کرد چون سلمان در خدمت آنحضرت عرض کرد از مسجد احزاب بزیر آمد دکلنگ را از ایشان گرفت و سه مرتبه ز دوه مرتبه شیء ازاں جدا شد دور ہر مرتبه برق ساطع می شد که جہان روشن می شد و الله اکبرمی گفت و صحابه الله اکبرمی گفتند پس فرمود که در برق اول قصر ہائے یمن را دیدم و خدا آن را بمن داد ودر دوم قصر ہائے شام را دیدم و خدا آن را بمن داد و در برق سوم قصر ہائے مدائن را دیدم و ملک شاہاں عجم را بمن داد پس خدا فرستاده که ليظهره علی الدین كله ولو كره المشركون۔

حیات القلوب کے تین حوالے گزر چکے ہیں مگر یہاں ملا باقر مجلسی نے ایک بات کا اضافہ کیا ہے کہ سیدنا سلمانؓ و سیدنا حذیفہؓ کے حصے میں وہ جگہ آئی جہاں نبی کریمﷺ نے اپنے دست مبارک سے ضربیں لگائیں اور ہر ضرب پر فرمایا کہ یہ ملک یہ بمن داد یعنی اللہ نے مجھے دیا ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ یہ ملک تو خلفائے ثلاثہؓ کو اللہ نے عطا کئے پھر حضورﷺ کے فرمان کا مطلب کیا نکلا یہی کہ دین اسلام کی توسیع اور اقتدار میں آنے میں میرے اور خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ میں کوئی فرق نہیں۔

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نا گوید بعد از میں من دیگرم تو دیگری۔ 

دوسری نئی بات یہ بتائی تیسری ضرب پر یہ آیت نازل ہوئی کہ: لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۔(سورة الصف آیت نمبر 9)۔ 

یعنی ان ممالک کے فتح ہونے کا مطلب لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ ہو گا ان ممالک کو فتح کرنے والے حضورﷺ کے اس کام کی تکمیل کریں گے جو آپنے دین کو غالب کرنے کے لئے شروع فرمایا تھا یعنی اللہ پاک نے تصدیق فرمادی کہ خلفائے ثلاثہؓ ہی دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے کام کی تکمیل کریں گئے مگر آیت کا آخری حصہ ذرا قابلِ غور ہے وہ یہ کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خدمات کی رسول کریمﷺ نے بھی بشارت دی اللہ تعالیٰ نے بھی تصدیق کر دی مگر مشرکوں کو یہ بات ہرگز پسند نہ آئے گی واقعی

وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا۝۔ ( سورة النساء آیت نمبر 122)۔

 اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا اور کون ہے؟۔

آج تک مشرکوں کا یہ حال ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ کی دینی خدمات کا اعتراف تو کجا ان کا نام سنتے ہی مشرکوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔

آیتِ استخلاف کی تفسیر کے سلسلے میں موعودین کی تعیین کے لئے شیعہ کتب سے یہ آٹھ اقتباسات مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتے ہیں ایسی ہی دوسری پیشگوئیوں کا ماحصل یہ ہے کہ:

  1.  ان میں سے نبی کریمﷺ کے بعد جو خلفاء مقرر ہوئے ان کی قیادت میں جن لوگوں نے جہاد کیا۔
  2. ( موعودین مہاجرین و انصار کا گروہ ہے۔ 
  3.  جن خلفائے محمدﷺ نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔
  4.  ان کی فتوحات کو رسول کریمﷺ نے اپنی فتوحات قرار دیا۔
  5.  یہی حضرات دین اسلام کے اعوان و انصار تھے۔
  6.  انہی خلفائے ثلاثہؓ نے دین حق کو غالب کیا اور لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ جو نبی کریمﷺ کا مشن تھا خلفائے ثلاثہؓ نے اس کی تکمیل کی۔
  7.  ان کے اقتدار کو نبی کریمﷺ نے "قبضہ اقتدار من" سے تعبیر فرمایا۔
  8.  استخلاف فی الارض کے موعودین خلفائے ثلاثہؓ کی دینی خدمات کا ذکر آئے تو مشرک اس سے جلتے ہیں۔ خلفائے ثلاثہؓ نہ صرف خود کامل الایمان تھے بلکہ انہوں نے عظیم سلطنتوں کو کلمہ پڑھایا اور دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر کے دکھا دیا۔

مہاجرین و انصار اور خلفائے ثلاثہؓ کی فضیلت:

بابِ اول آیاتِ جہاد کے تحت فروعِ کافی کی ایک طویل حدیث کا بقدر ضرورت حصہ نقل کیا جا چکا ہے یہ بہت طویل روایت سیدنا جعفرؒ سے مروی ہے کئی صفحوں پر مشتمل ہے اس سے جو اصول حاصل ہوتے ہیں یہاں پہلے وہی حصے نقل کئے جاتے ہیں۔

 (1)۔ سیدنا جعفرؒ نے فرمایا فروع کافی جلد 5 صفحہ 15 تا 19:

ان جميع مابين السماء والارض لله عزوجل ولرسوله ولاتباعهم من المومنين من اهل هذه الصفة۔

یہ ساری کائنات اللہ کی ہے اور یہ اس کے رسول کا حق ہے اور حضورﷺ کے متبعین اہلِ ایمان کا حق ہے جن میں وہ صفات پائی جاتی ہیں جو بیان ہو چکی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مہاجرین و انصار خلفاء کے عہد میں ہر میدان میں غالب آئے قرآن مجید کا یہی فیصلہ ہے۔ 

أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِين۝۔ (سورة آل عمران آیت نمبر 193)۔

 أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ۝۔ (سورة المائدہ آیت نمبر 56)۔

 انْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُون۝۔(سورة القصص آیت نمبر 35 )۔

(2)۔ فرمایا: ولكن المهاجرين ظلموا من جهتين ظلمهم اهل مكة باخراجهم من ديارهم واموالهم وقاتلوهم باذن اللہ لهم فی ذلك وظلمهم کسریٰ و قيصر ومن كان دونهم من قباٸل العرب والعجم مما كان فى ايديهم مما كان المومنون احق به منهم فقد قاتلوهم باذن الله لهم فی ذلك۔

ترجمہ: ليكن مہاجرین پر دو طرف سے ظلم کیا گیا اہلِ مکہ نے انہیں گھروں سے نکال کر ان کے اموال چھین کر ان پر ظلم کیا اس لئے مہاجرین اللہ کے حکم سے ان کے خلاف لڑے اور قیصر و کسریٰ اور دوسرے قبائل عرب و عجم نے ان پر ظلم کیا کہ جو کچھ ان کے قبضے میں تھا اس کے زیادہ حقدار مہاجرین تھے اس لئے مہاجرین نے اللہ کے حکم سے ان حکومتوں کے خلاف جنگ کی۔

قیصر و کسریٰ اور حکومتوں کے خلاف خلفائے ثلاثہؓ نے جنگ کی اللہ کے حکم سے کی اور فتح حاصل کی ان ممالک کی حکومتوں کے زیادہ حقدار مہاجرین ہی تھے۔ یعنی سیدنا جعفرؒ نے اصولی بات کہہ دی کہ خلفائے ثلاثہؓ ہی خلافت و حکومت کے صحیح حقدار تھے اللہ کے حکم سے انہوں نے جنگ کی اور اللہ نے ان کا حق انہیں دے دیا اگر کسی کو اللہ کی پسند اور اس کے فیصلے کے خلاف شکایت ہے تو بیٹھا سر پیٹتا رہے نادان کو اللہ کا دشمن بننے سے کیا حاصل ہو گا ؟۔

(3)۔ فرمایا: وكذلك ما أفاء الله على المومنين من الكفار فانما هی حقوق المومنین رجعت اليهم بعد ظلم الكفار اياهم فذلك قوله تعالىٰ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ بِأَنَّهُمۡ ظُلِمُواْ‌ۚ الخ ما كان المومنون احق به منهم۔

ترجمہ: اسی طرح کفار کے قبضہ سے مومنوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ مومنوں کا حق تھا جو ان کے پاس لوٹ کر آگیا اسی لئے اللہ نے مہاجرین کو جنگ کی اجازت دی کیونکہ وہ مظلوم تھے اور ان ممالک کی حکومت کے زیادہ حق دار تھے۔

خلفائے ثلاثہؓ نے جنگ کر کے جو کچھ چھینا یہ ان کا حق تھا کفار سے حکومت لی دولت لی یہ ان کا حق تھا لہٰذا خلفائے ثلاثہؓ خلفائے برحق تھے اور یہی آیتِ استخلاف کے اصل مصداق تھے اور آیت استخلاف بقول سیدنا جعفرؒ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت پر نص صریح ہے۔

(4)۔ فرمایا: انما اذن للمومنين الذين قاموا بشرائط الايمان التی وصفناها وذلك انه لا يكون ماذونا له حتىٰ يكون مظلوما ولا يكون مظلوما حتىٰ يكون مومنا ولا يكون مومنا حتىٰ يكون قائما بشرائط الايمان التی اشترط الله عزوجل علی المومنين والمجاهدين فاذا تكاملت فی شرائط الله كان مومنا واذا كان مومنا كان مظلوما واذ كان مظلوما كان ما ذونا له فی الجهاد لقوله تعالىٰ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ بِأَنَّهُمۡ ظُلِمُواْ‌ۚ الخ (سورة الحج آیت نمبر 39)۔

ترجمہ: ان مومنوں کو جہاد کی اجازت دی گئی جو ان شرائط ایمان پر پورے اتریں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے کیونکہ ماذون نہیں جب تک مظلوم نہ ہوں اور مظلوم نہیں جب تک مومن نہ ہوں ان شرائط ایمان کے ساتھ جو اللہ نے مومنین اور مجاہدین کے لئے رکھی ہیں جب وہ شرطیں پوری کر لیں وہ مومن ہیں اور جب مومن ہیں تو مظلوم ہیں اور جب مظلوم ہیں تو ماذون ہیں جہاد کے لئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمايا:أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ بِأَنَّهُمۡ ظُلِمُواْ‌ۚ الخ یعنی امام نے واضح کر دیا کہ مہاجرین مظلوم تھے لہٰذا کامل مومن تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کی اجازت دی اور انہوں نے کفار سے جنگ کر کے اپنا حق واپس لے لیا اور یہ ساری جنگیں خلفائے ثلاثہؓ نے جیتیں لہٰذا خلافت کے حقدار وہی ہیں۔

اس طویل حدیث میں جو اصولی باتیں بیان ہوئی ہیں ان کی وضاحت تو ہوگئی مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے باقی متعلقہ حصے بھی نقل کر دیے جائیں تاکہ پورا نقشہ سامنے آ جائے۔

ثم اخبر تبارک و تعالىٰ انه لم بالقتال الا اصحاب هذه الشروط فقال عزوجل اذن للذين يقاتلون بانھم ظلموا وان الله على نصرهم لقدیر الذين اخرجوا من ديارهم بغير حق الا ان يقولوا ربنا الله وذلك ان جميع ما بين السماء والارض لله عزوجل ولرسوله ولا تباعهم من المومنين اھل هذه الصفة فما كان من الدنيا فى ايدى المشركين والكفار والظلمة والفجار من اهل الخلاف الرسول اللهﷺ والمولى لمن طاعتهما مما كان فيايديهم ظلموا فيه المومنين من اھل هذه الصفات وغلبوهم عليه مما افاء الله على رسوله فهو حقهم افاء اللہ عليهم ورده اليهم وانما معنىٰ الفیء كل ما صار الى المشركين ثم رجع كان قد غلب عليه او فيه فما رجع مما قول او فعل الى مكانه فقد فاء وكذلك ما أفاء الله على المومنين من الكفار فانما هی حقوق المومنين رجعت اليهم بعد ظلمهم الكفار اياهم فذلك قوله تعالىٰ اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا ما كان المومنون احق بہ منهم وانما اذن للمومنين الذين قاموا بشرائط الايمان التی وصفناها وذلك انه لا يكون ماذوناله فی القتال حتىٰ يكون مظلوما ولا يكون مظلوما حتىٰ يكون مومنا ولا يكون مومنا حتىٰ يكون قائما بشرط الايمان التی اشترط الله عزوجل على المومنين والمجاهدين واذا تكاملت فيه شرائط اللہ عزوجل کان مومنا واذا کان مومنا كان مظلوما واذا كان مظلوما كان ماذونا له فی الجهاد لقوله تعالیٰ اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا وان الله على نصرهم لقدير وان لم يكن مستكملا لشرائط الايمان فهو ظالم محن بيفي ويجب جهاده حتىٰ يتوب وليس مثله ماذونا له۔ 

والدعاء الى عزوجل لانه ليس من المومنين المظلومين الذين اذن لهم فی القرآن فی القتال فلما نزلت هذه الایتہ اذن للذين يقالون بانهم ظلموا فی المهاجرين الذين اخرجهم اهل مکہ من ديارهم واموالهم احل لهم جهادهم بظلمهم جهادهم اياهم واذن لهم فی القتال فقلت (ای راوی) فهذه نزلت فی مهاجرين بظلم اهل مكة لهم فما بالهم فی قتالهم كسرىٰ و قيصر و من دونهم من مشركی قبائل العرب فقال (ای امام) لو كان انما اذن لهم فی قتال من ظلمهم من اهل مكة فقط لم يكن لهم الى قتال جموع کسریٰ و قیصر وغير اهل مكة من قبائل العرب سبيل لان الذين ظلموهم غيرهم وانما اذن لهم فی قتال من ظلمهم من اهل مكة لاخراجهم اياهم من ديارهم واموالهم بغير حق ولو كانت الآية انما عنت المهاجرين الذين ظلمهم اهل مكة كانت الآية مرتفعة الفرض عمن بعدهم اذلم يبق من الظالمين والمظلومين احد وكان فرضها مرفوعا عن الناس بعدهم وليس كما ظننت ولا كما ذكرت ولكن المهاجرين ظلموا من جهتين ظلمهم اهل مكة باخراجهم من ديارهم واموالهم فقاتلوهم باذن الله لهم فی ذلك وظلمهم كسریٰ و قيصر و من كان دونهم من قبائل العرب والعجم فی ايديهم مما کان المؤمنون احق به منهم فقد قاتلوھم باذن الله عزوجل لهم فی ذلک وبحجة هذه الآية يقاتل المومنون کل زمان وانما اذن الله عزوجل للمومنین الذين قاموا بما وصفها الله عز وجل من الشرائط التی شرطها الله علی المومنين فی الايمان والجهاد ومن كان قائما بتلك الشرائط فهو مومن مظلوم و ماذونا له فی الجهاد وبذالک المعنىٰ ومن كان على خلاف ذلك فهو ظالم وليس من المظلومين و لیس له فی القتال ولا بالنهی عن المنكر والأمر بالمعروف لانه ليس من اهل ذلك ولا ماذونا له فی الدعاء الى الله عزوجل۔

ترجمہ: پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس نے جہاد کا حکم ان لوگوں کو دیا جو ان اوصاف سے متصف ہیں چنانچہ فرمایا أُذِنَ لِلَّذِينَ الخ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام چیزیں جو آسمان اور زمین کے مابین ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور ان کے متبع ان مہاجرین کی ہیں جو ان صفات سے موصوف ہیں دنیا کا جس قدر حصہ مشرکین كفار ظالم اور بدکار لوگوں کے پاس ہے جو خدا اور رسولﷺ کے مخالف اور ان کی اطاعت سے منحرف تھے اور جو کچھ ان کے قبضے میں تھا انہوں نے ان صفات سے متصف اہلِ ایمان پر ظلم کر کے تیار رکھا تھا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بطورِ فے عطا کیا تھا وہ انہیں اہلِ ایمان کا حق تھا کہ خدا نے انہیں ان ظالموں سے واپس دلایا فیک کے ہی یہ معنیٰ ہیں کہ جو چیز مسلمانوں کی تھی مشرکوں کو قبضے میں چلی گئی تھی پھر مسلمانوں کے پاس آگئی تھی جو قول یا فعل کی قبیل سے اپنے مقام پر لوٹ آئے اس کے لیے کہتے ہیں "فاء" یعنی رجع لوٹ آئی کفار نے ظلم سے جو چیز ہتھیا رکھی تھی وہ مومنوں کا حق تھاچان کے پاس لوٹ آئی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ الخ کیونکہ ان چیزوں کے حقدار تو وہ مومن تھے جو شرائط ایمان پر ہی قائم ہوں جو ہم نے بیان کی ہیں کیونکہ جب تک مظلوم نہ ہو جہاد کی اجازت نہیں اور جب تک مومن کامل نہ ہو مظلوم نہیں کہلاتا اور مومن وہ ہوتا ہے جو شرائط پر پورا اترے جو اللہ تعالیٰ نے مومن مجاہدین کے لیے مقرر کی ہیں جب ان میں یہ شرائط کامل ہوں گی وہ مومن ہوں گے مومن ہے تو مظلوم ہے تو اسے جہاد کی اجازت ملی جیسا کہ فرمایا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ الخ اگر کسی شخص میں یہ شرائط ایمان پوری نہ ہوں تو وہ ظالم ہے ایسے شخص سے جہاد کرنا مومنوں پر فرض ہے جب تک وہ توبہ نہ کرے اس کے لئے جہاد کی اجازت نہیں اور وہ اسلام کی دعوت دینے کا مجاز بھی نہیں کیونکہ ایسا شخص ان لوگوں میں سے نہیں جو مومن اور مظلوم ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جہاد کی اجازت دی۔

جب يہ آيت أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ الخ نازل ہوئی تو یہ ان مہاجرین کے حق میں نازل ہوئی جن کو اہلِ مکہ نے گھروں سے نکالا اور اموال سے محروم کیا اللہ تعالیٰ نے ان مهاجرين کے لئے حلال کر دیا کہ جہاد کریں اہلِ مکہ کے ساتھ جنہوں نے ان پر ظلم کیا تھا راوی کہتا ہے میں نے امام سے کہا کہ یہ آیت ان مہاجرین کے حق میں نازل ہوئی جن کو اہلِ مکہ نے ظلم سے گھروں سے نکالا تھا تو ان مہاجرین کا قیصر و کسریٰ اور دوسرے قبائل سے جہاد کرنا کس بنا پر جائز ہوا؟ امام نے کہا اگر بات نہیں ہوتی کہ مہاجرین کو صرف اہلِ مکہ سے ہی جہاد کرنے کی اجازت ہوتی تو کسریٰ و قیصر اور دوسرے قبائل عرب سے جہاد کرنے کی کوئی سبیل نہ ہوتی کیونکہ انہوں نے تو مہاجرین پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا اور اس آیت کا تعلق مکہ کے بغیر کسی دوسرے سے مطلق نہ ہوتا جب ایسے ظالموں اور مظلوموں کا وجود ہی نہ رہتا تو جہاد کی فرضیت بھی اہلِ مکہ کے ظلم کے خاتمہ کے بعد اٹھ جاتی بات یہ نہیں جو تو نے سمجھی یا میرے سامنے بیان کی اصل بات یہ ہے کہ مہاجرین پر دو اطراف سے ظلم ہوا اہلِ مکہ نے انہیں گھروں سے نکال کر اور ان کے اموال چھین کر ظلم کیا اور مہاجرین نے اللہ کی اجازت سے اہلِ مکہ کے ساتھ جہاد کیا كسریٰ و قیصر اور عرب و عجم کے دوسرے قبائل نے مہاجرین پر یہ ظلم کیا کہ جو کچھ ان کافر حکومتوں نے دبا رکھا تھا وہ دراصل مومنوں کا حق تھا اس لئے مہاجرین نے اس آیت کی رو سے اللہ کی اجازت پا کر کسریٰ و قیصر وغیرہ کے خلاف جہاد کیا اور اس آیت کے تحت ہر زمانے میں مسلمان جہاد کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان اہلِ ایمان کو جہاد کی اجازت دی ہے جو ان شرائط پر قائم ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور جہاد کے سلسلے میں مومنوں پر مقرر کی ہیں جو ان شرائط پر قائم ہے وہ مومن ہے اور مظلوم ہے اور اسے جہاد کی اجازت ہے اور اسی وجہ سے جو ان شرائط کے خلاف ہو وہ ظالم ہے مظلوم نہیں اس لئے اسے نہ جہاد کی اجازت ہے نہ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کی اجازت ہے کيونکہ وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتا کہ اسے جہاد کی اجازت دی جائے یا دعوتِ دین کی اجازت دی جائے۔

سیدنا جعفر صادقؒ نے وہ تمام حقائق بیان کر دیئے جو امرِ واقع بن کر چشمِ عالم کے سامنے آئے اور تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو گئے مثلاً:

  1.  اہلِ مکہ نے جن مہاجرین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر گھروں سے نکالا اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کی اجازت دی۔
  2.  جنہیں اذنِ جہاد ملا وہی کامل الایمان اور مظلوم تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں اذن نہ ملتا کیونکہ سنت اللہ ہی ہے۔
  3.  قیصر و کسریٰ کے خلاف انہی مہاجرین کو جہاد کرنے کی اجازت ملی جو اہلِ مکہ کے ہاتھوں گھروں سے نکالے گئے تھے۔
  4. کفارِ مکہ کے علاوہ دوسروں سے جہاد کرنے کی اجازت اس لئے اللہ تعالیٰ نے دی کہ کفار نے وہ سب کچھ غاصبانہ طور پر اپنے قبضہ میں کر لیا تھا جو ان اہلِ ایمان کا حق تھا۔
  5.  ان مہاجرین نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے قیصر و کسریٰ کے خلاف جہاد کر کے اپنا حق ان سے واپس لے لیا۔
  6. ان مہاجرین نے جو کچھ اپنے حق کے طور پر واپس لیا وہ مال و دولت جائیداد اور حکومت تھی۔
  7. مال و دولت اور جائیداد جو ان مہاجرین کا حق تھا انہیں مل گیا اور ان مہاجرین میں سے حکومت جن کا حق تھا وہ انہیں مل گئی۔
  8. سیدنا جعفر صادقؒ نے صاف بیان کر دیا کہ حکومت خلفائے ثلاثہؓ کا حق تھا جو انہیں مل گئی اگر انہیں خلیفہ حق تسلیم کرنے سے کوئی ہچکچاتا ہے تو ثابت کرے کہ مہاجرین نے قیصر و کسریٰ سے جنگ کر کے جو حکومت واپس لی وہ کس کو ملی؟ بات کیسی واضح اور صاف ہے مگر جسے اللہ اور رسولﷺ کی مخالفت کرنے میں عار نہ محسوس ہو وہ امام کی مخالفت کرنے سے کیوں چوکے گا چنانچہ ایک شیعہ مجتہد سلطان العلماء سید محمد اپنی کتاب "تشید المبانی" میں لکھتے ہیں:

نہایت آنچه ازیں حدیث ظاهر می شود اینست که مهاجرین ماذون بجہاد کسرٰی و قیصر بودند و حقیقت خلافت خلفاء ازاں اصلاً مستفاد نمی شود زیرا که در احادیث معتمد اهل سنت دارد شدہ کہ رسالتمآبﷺ مسلمین را خبر تسلط خلفائے جو روده بود و امر باطاعت آنها نموده بود تیر دلالت صریح براں وارد و در خصوص جہاد فارس فاضل دہلوی نیز مشورہ نمودن خلیفہ ثانی بآنحضرت مذکور ساخته پس بریس تقدیر مازون بودن مهاجرین و انصار برائے جہاد فارس دردم و غیره مستغنی عن البیان است و آنچه جناب امام جعفر صادقؒ در باب اذن آنها فرمود بسبب حقیقت خلافت ثلاثہ۔

ترجمہ: اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مہاجرین کو قیصر و کسریٰ کے خلاف جہاد کی اجازت دی گئی خلفاء کا برحق ہونا اس سے مطلق ثابت نہیں کیونکہ اہلِ سنت کے ہاں نبی کریمﷺ کی حدیث موجود ہے کہ آپﷺ نے مسلمانوں کو خلفائے جور کی خبر دی تھی اور ان کی اطاعت کا حکم دیا تھا نیز فاضل دہلوی نے تحفہ میں لکھا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے جہادِ فارس کیلئے سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا تھا اس لئے مہاجرین و انصار کو جہاد فارس کے لئے اجازت ملنا محتاج بیان نہیں سیدنا جعفر صادقؒ نے جو انہیں ماذون فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے انہیں جہاد کی اجازت دی تھی خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کے حق ہونے کی وجہ سے اجازت نہیں ملی تھی۔

انسان لٹھ لئے عقل کے پیچھے پڑا ہو تو اسے جگ ہنسائی کا خیال بھی نہیں رہتا سلطان العلماء نے یہ تسلیم کیا کہ جہادِ فارس کے لئے مہاجرین ماذون تھے مگر اذن دینے والا صرف سلطان العلماء نے ڈھونڈ نکالا کہ وہ سیدنا علیؓ تھے آدمی عقلی اعتبار سے خواہ کتنا تہی دامن ہو اگر اسے کسی صاحبِ عقل کے پاس بیٹھنے کا کبھی موقع ہی ملا ہو تو وہ سوچ سکتا ہے کہ کسی حکومت میں حکم حاکم کا چلتا ہے یا مشیر کا؟ اور مشیر کا کام مشورہ دینا ہے یا حکم دینا؟ اور مشورہ کی حقیقت ایک رائے ہوتی ہے جسے قبول یا رد کیا جا سکتا ہے یا یہ حکم ہوتا ہے کہ اسے مطلق رد نہ کیا جاسکے سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا سیدنا عمرؓ خلیفہ تھے اور سیدنا علیؓ ان کے ماتحت ایک مشیر رائے لینے کے بعد فیصلہ سیدنا عمرؓ نے کیا یا سیدنا علیؓ کا یہ منصب تھا کہ فیصلہ کرتے اور حکم چلاتے؟ اب کوئی سلطان العلماء ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ حکم مشیر کا چلتا ہے حاکم کی بساط صرف اتنی ہے کہ مشیر کے سامنے درخواست پیش کر دے اور اگر سلطان العلماء نہ ہو تو کم از کم مخبوط الحواس ہونا ضروری ہے۔

اول تو سیدنا جعفر صادقؒ نے صرف اذن کی بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے فرمایا کہ:

  1.  مہاجرین دوہرے مظلوم تھے قیصر و کسریٰ کا ظلم یہ تھا کہ جو کچھ انہوں نے دبا رکھا تھا وہ دراصل مہاجرین کا حق تھا لہٰذا مہاجرین باذن اللہ لڑے۔
  2.  اللہ تعالیٰ نے آیت أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ الخ نازل فرما کر ان مظلوموں کو اجازت دی کہ قیصر و کسریٰ کے خلاف جہاد کریں۔
  3.  اذن انہیں ملا جو مظلوم تھے اور مظلوم وہ تھے جو مومن تھے اور مہاجرین ان تمام اوصاف کے مالک تھے جو مومن کے لئے ضروری ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا الخ فرمایا۔
  4.  یہ عجیب بات ہے کہ گھر کے آدمی اور ما کان و یکون کے جاننے والے امام تو اس راز سے واقف نہ ہو سکے کہ اجازت سیدنا علیؓ نے دی اور سلطان العلماء کے پاس یہ راز سربستہ پہنچ گیا امام تو کہیں اللہ نے حکم دیا سلطان صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے حکم دیا بات وہی ہوئی من چه می سرائم و طنبوره من چه می سراید
  5.  فارس سے جنگ کرنے میں سلطان صاحب کو فاضل دہلوی کا اشارہ مل گیا کہ سیدنا علیؓ سے مشورہ کیا گیا مگر فارس کے علاوہ دنیا بھر کے خلاف جو جہاد سیدنا عمرؓ کے عہد میں کئے گئے ان کے متعلق تو کوئی ایسا سراغ نہیں ملا پھر کسریٰ وغیرہ کے خلاف جنگ کرنے میں مہاجرین کو کس نے اجازت دی اور وہ کیونکر ماذون قرار پائے۔
  6.  اللہ کی طرف سے ماذون ہونے کی شرط مومن ہونا اور مظلوم ہونا ہے اگر اللہ نے اجازت نہیں دی تو سیدنا علیؓ نے کیوں اجازت دی؟ کیا اس لئے کہ سیدنا علیؓ (معاذ اللہ) خدا کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔
  7.  اگر یہ مومن نہیں تھے تو واجب القتل تھے سیدنا علیؓ کا کام یہ تھا کہ خود مہاجرین کے خلاف جہاد کرنے کا مشورہ دیتے اور اگر انہوں نے مہاجرین کو فارس کے خلاف جہاد کرنے کا مشورہ دیا تو ظاہر ہے کہ انہیں کامل الایمان اور مظلوم تسلیم کیا۔
  8.  سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ "بما كان فی ايديهم مما كان المومنون احق به منهم" اب دیکھنا یہ ہے کہ فارس وغیرہ کے پاس وہ کونسی چیز تھی جس کے مہاجرین حقدار تھے اور انہوں نے لڑ کر اپنا حق لے لیا ظاہر ہے یہ سب سے بڑی چیزیں دو ہیں حکومت اور دولت امام کہتے ہیں کہ اس کے زیادہ حقدار مومن تھے سوچئے کہ دولت تو سب مہاجرین میں تقسیم ہوگئی ہر ایک کو مناسب حصہ مل گیا وہی اس کے حقدار تھے مگر یہ دوسری چیز کس کو ملی؟ امام کہتے ہیں جس کو یہ ملی اس کا زیادہ حقدار تھا تو "حقیقت خلافت خلفاء ازاں اصلًا مستفاده نمی شود" کہتے وقت آپ نے اس علم کی تہمت کو کہیں اتار کے رکھ دیا تھا؟ یا تو "بما كان ايديهم" کی تعیین کیجئے اور ثابت کیجئے کہ ان کے پاس حکومت و اقتدار نہیں تھا یہ ثابت کیجئے کہ ان سے اقتدار لے کر مہاجرین نے خلفائے ثلاثہؓ کے علاوہ کسی اور کو دیا سیدھی بات ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے واضح کر دیا کہ مہاجرین مظلوم تھے مومن تھے اذنِ جہاد اللہ کی طرف سے ملا اور انہوں نے قیصر و کسریٰ سے اقتدار چھینا یہ ان کا حق تھا اور خلفائے ثلاثہؓ کو اقتدار ملا لہٰذا حق بحق دار رسید.

سیدنا جعفر صادقؒ نے اس طویل حدیث میں مہاجرین کے قائد خلفائے ثلاثہؓ کی وہ مدح و ثنا کی ہے اور قرآن کریم کی آیت کے حوالے سے ان کا استحقاق اس طرح ثابت کیا ہے کہ کوئی کمی باقی نہیں رہنے دی مگر پھر بھی آخر میں ایک زبردست انتباہ فرمایا ہے۔

فليتق الله عزوجل عبدالا يغتر بالامانی التی نهى الله عزوجل عنها من هذه الحديث الكاذبة على الله التی يكذبها القرآن ويتبرأ منها ومن حملتها ورواتها ولا يقدم على الله عزوجل بشبهة لا يعذر بها فانه ليس وراء المعترض للقتل فی سبیل اللہ الاعمال فی عظم قدرها۔

ترجمہ: انسان کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور ان جھوٹی آرزوؤں پر مغرور نہ ہونا چاہئے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان جھوٹی حدیثوں سے پرہیز کرنا چاہئے جو اللہ پر افتراء باندھتی ہیں قرآن جن کی تکذیب کرتا ہے احادیث کو جھوٹا کہتا ہے اور ان حدیثوں کے راویوں اور ماننے والوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے کوئی شخص اللہ کے پاس کسی شبہ کے ساتھ نہ جائے جس میں وہ معذور نہ سمجھا جائے کیونکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بڑھ کر قابلِ عزت اور قابلِ قدر کوئی شخص نہیں اور تمام اعمال سے عظیم عمل یہی ہے۔

یعنی سیدنا جعفر صادقؒ نے انتباہ کر دیا کہ مہاجرین ماذون من اللہ ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اس سے بڑا کوئی عمل نہیں لہٰذا جھوٹی حدیثوں کے سہارے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن کرنے اور ان کی فضیلت کا انکار کرنے سے آدمی اپنی عاقبت خراب نہ کرے ان کا ماذون ہونا مظلوم ہوںا مومن ہونا اور جنتی ہونا قرآنِ مجید سے ثابت ہے مگر معلوم ہوتا ہے یار لوگوں نے اسے کھوکھلی دھمکی ہی سمجھا اس لئے مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے ثلاثہؓ کے حق وہ باتیں کہیں جو صرف وہی آدمی کہہ سکتا ہے جسے سیدنا جعفر صادقؓ سے دلی عناد ہو۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ اذن تو سیدنا علیؓ کو ملا تھا کہ فارس وغیرہ سے جنگ کر کے ان سے حکومت چھین لیں تو مشکل یہ ہے کہ یہ بات کہنے والوں نے خود اس راہ میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ہے کہ سیدنا علیؓ سے کچھ بن نہیں پڑتا۔

اصولِ کافی طبع نوکشور لکھنو صفحہ 173 سیدنا علیؓ کے لئے ایک وصیت کا پورا باب ہے جو جبرائیلؑ اللہ کی طرف سے نبی کریمﷺ کے پاس لے کر آئے اور حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کو بلا کر سنائی تو حضرت اس کے متعلق بیان کرتے ہیں۔

قال امير المومنین فصعقت حین سمعت الكلمة هذا من جبرائیلؑ حتىٰ سقطت على وجهی وقلت نعم قبلت و رضیت و ان انتھکت الحرمة وعطلت السنن ومزق الكتب وهدمت الكعبة وخضیت لحيتی من راسی بدم عبيط صابرا محتسبا حتىٰ اقدم عليك۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ نے فرمایا جب میں نے جبرائیلؑ کی یہ بات سنی تو میں غش کھا کے گر پڑا اور میں نے کہا کہ مجھے یہ وصیت منظور ہے میں اس پر راضی ہوں اگرچہ میری بے حرمتی کی جائے سنت رسولﷺ معطل ہو جائے قرآنِ کریم کے پرزے اڑا دیئے جائیں خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا جائے اور اگر داڑھی میرے سر کے خالص خون سے رنگی جائے میں ہر حال میں صبر کروں گا اور طالبِ ثواب ہونگا یہاں تک کہ جان دے کر یا رسول اللہﷺ آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔

ظاہر ہے کہ سنت کو معطل کرنا کتاب الہٰی کی توہین کرنا اور امر کعبہ کو منہدم کرنا کفار ہی کا کام ہے اور اگر کفار ان سب باتوں پر تل جائیں تو سیدنا علیؓ کا ان کے خلاف جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہیں تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی بلکہ صبر کرنے اور یہ سب مناظر دیکھ کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا مصداق بن کر ثواب کا امیدوار رہنے کا حکم ہے اور انہوں نے اس حکم کی تعمیل کرنا بخوشی قبول کیا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ قیصر و کسریٰ کے خلاف جنگ کر کے ان سے وہ سب کچھ چھین لیتے جو انہوں نے دبا رکھا تھا اگر ایسا کرتے تو وصیت کی خلاف ورزی کرتے اور خدا سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ کر نقض عہد کے مجرم بنتے یہ درست ہے مگر حیرت ہوتی ہے کہ جنگِ جمل اور صفین میں سیدنا علیؓ نے یہ کیسے بھلا دی؟ شاید اس کی وجہ یہ کہ ان جنگوں میں نہ تو قرآن کو برباد کیا جارہا تھا نہ کعبہ کو گرایا جا رہا تھا اور نہ سنت کو معطل کیا جا رہا تھا اگر یہ لوگ ان میں سے کوئی کام کرتے تو سیدنا علیؓ بالکل نہ لڑتے اور پورے صبر سے کام لیتے مگر جب ان لوگوں نے کوئی کام بھی نہ کیا تو سیدنا علیؓ کو مجبوراً لڑنا پڑا لہٰذا صاحبِ اصولِ کافی نے فیصلہ کر دیا کہ اُذِنٙ لِلّٙذِیْنٙ یُقٙاتِلُوْنٙ الخ کی آیت میں جو اذن دیا گیا ہے وہ سیدنا علیؓ کے لئے نہیں اور اصولِ کافی کا کون انکار کرے جب اس کے ساتھ امام کا یہ سرٹیفیکیٹ موجود ہے کہ ھذا کاف لشيعتنا اس لئے سیدنا جعفر صادقؒ کے پیش نظر یہ وصیت یقیناً ہوگی جبھی تو بات صاف کر دی کہ مہاجرین کو اذن قتال دیا گیا تھا انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی قیصر و کسریٰ کے خلاف جہاد کیا اللہ نے مدد کی اور فارس سے دولت چھینی جو ان کا حق تھا اقتدار چھینا اور خلفائے ثلاثہؓ کو اقتدار مل گیا جو ان کا حق تھا اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا کہ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِى ٱلۡأَرۡضِ الخ اور سیدنا جعفر صادقؒ نے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے ثلاثہؓ کی فضیلت کا اعتراف کیا تو گویا امام نے قرآنِ کریم کی تفسیر فرمادی

سیدنا جعفر صادقؒ کی اس حدیث تک محدود نہیں قدیم شیعہ کتب میں خلفائے ثلاثہؓ کی فضیلت کہیں مجموعی طور پر اور کہیں نام لے لے کر بیان کی گئی ہیں جن میں شیخین کی فضیلت کا خصوصیت سے ذکر پایا جاتا ہے مثلاً:

1۔ تفسیر قمی طبع طهران جلد 2 صفحہ 376:

فقال رسول اللهﷺ ان ابابكرؓ يلى الخلافة بعدى ثم من بعد ابوک (عمرؓ) فقالت من اخبرك هذا قال الله۔

ترجمہ:حضور اکرمﷺ نے ام المومنین سیدہ حفصہؓ سے فرمایا کہ میرے بعد خلافت کا والی سیدنا ابوبکرؓ ہوگا پھر تیرا باپ (سیدنا عمرؓ) ام المومنینؓ نے پوچھا آپ کو کس نے خبر دی؟ تو حضورﷺ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی۔

2۔ تفسیر صافی طبع ایران جلد 4 صفحہ 717:

ان ابابکرؓ و عمرؓ يملكان بعدی و قريب من ذلك ما رواه العياشی۔

ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ میرے بعد والی حکومت ہوں گے اور اس کے قریب وہ روایت ہے جو مفسر عیاشی نے بیان کی ہے۔

3۔ تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن طبع ایران جلد 19 صفحہ 399:

والذی اعرض عنه قوله ان اباک و اباها یلیان الناس بعدی مخافة ان يفشوا۔

ترجمہ: اور جو بات رسول اللہﷺ نے پوشیدہ رکھی وہ یہ تھی کہ اے سیدہ حفصهؓ؟ تیرا باپ (سیدنا عمرؓ) اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا باپ سیدنا ابوبکرؓ میرے بعد حاکم و والی ہونگے اعراض کی وجہ تھی کہ راز فاش نہ ہو جائے۔

4۔ تفسیر منبج الصادقین جلد 9 334:

سخنے را که تحریم ماریہ قبطیهؓ است و حکومت سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ بعد ازاں۔

بعض ازواجہ حدیث کے تحت لکھا ہے جو بات پوشیدہ رکھی وہ سیدہ ماریہ قبطیہؓ کی تحریم اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی حکومت کی بات تھی۔

5۔ تفسیر مجمع البیان طبع ایران صفحہ 314: واعرض عن بعض کے تحت لکھا۔

ان ابابکرؓ و عمرؓ يملكان بعدی و قریب من ذلك ما روى العياشی بالاسناد عن عبدالله بن عطاء المكی عن ابی جعفرؒ۔

ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ میرے بعد خلیفہ ہوں گے اسی کے قریب وہ حدیث ہے جو مفسر عیاشی نے عبداللہ بن عطاء اور اس نے سیدنا باقر صادقؒ کی سند بیان کی ہے۔

كشف الحجہ لثمر والمھجه سید رضی الدین ابی القاسم علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن طاؤس مطبع حیدریه نجف اشرف فصل 86 صفحه 61:

یہ اِقتباس اور اس پر تفصیلی بحث "آیتِ معیت" کے باب میں ملاحظہ ہو۔

7۔ حملہ حیدری علامہ باذل جلد 1 صفحہ 228 ہرقل روم کی پیشگوئی بیان کرتا ہے:

چنین شد که یک شب بعلم نجوم چنین گشت معلوم والیء روم!

که از گردش نیلگوں آسماں رود ملک از دست عیسائیاں

شوند آنکساں در جہاں بادشاہ که دردین شمال ختنه باشد روا۔

8۔ حملہ حیدری علامہ بادل جلد 1 صفحہ 14:

ابابکرؓ ازاں پس براہ پاگزاشت که گفتار کاہن بدل یاداداشت

باد کاہنے داده بود ایں خبر کہ مبعوث گردد یکے نامور

زبطحاز میں ودر ہمیں چندگاہ بود خاتم انبیاء از الٰه

تو باخاتم انبیاء بگردی! چول او بگرد جانشینش شوی

زکاہن چوبودش بیادایں نوید بیا درد ایماں نشانش چودید

ترجمہ: روایات میں کاہن کی جگہ راہب کا لفظ ہے اگر کاہن سمجھا جائے تو اسے علم نجوم سے معلوم ہوا کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ایمان بھی لائیں گے اور حضورﷺ کے پہلے خلیفہ بھی ہوں گے اور اگر راہب تسلیم کیا جائے تو اسے یہ حقیقت سابقہ کتب سماوی سے معلوم ہوئی ہوگی۔

  1.  یہ بات مسلم فریقین ہے کہ حضور اکرمﷺ نے قیصر و کسریٰ اور یمن مصر اور حبشہ کے سلاطین کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے خطوط بھیجے تھے۔
  2.  علامہ بادل کے حملہ حیدری سے یہ اِقتباس گزر چکا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:

همہ اهل ایران واہل یمن بزدوی در آئیند دردین من۔

(3)۔ حملہ حیدری سے یہ حوالہ بھی گزر چکا ہے کہ:

بپاسخ چنیں گفت روح الامیں کہ بعد از من انصار و اعوان دین

بر آں مملکت ہامسلط شوند! بآئین من اہل آں بگردند؟

اب ان آٹھ اقتباسات کو پھر سے پڑھیے ، اور ان سوالوں کے جوابات تلاش کیجئے کہ:

  1.  ان ممالک کو فتح کس نے کیا؟۔
  2. ان ممالک میں جو دینِ فاتحین نے پھیلایا وہ اسلام تھا یا کوئی اور اگر اسلام ہی تھا تو حضورﷺ نے جو دین من فرمایا اس کے پھیلانے والے کون تھے؟۔
  3.  ان ممالک پر مسلط کون ہوئے؟ حکومت کس کی ہوئی؟
  4. ان مسلط ہونے والوں کو حضورﷺ نے اعوان و انصارِ دین جو فرمایا تو وہ کونسا دین تھا؟
  5.  یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضورﷺ کے بعد خلافت خلفائے ثلاثہؓ کے پاس رہی تو اوپر کے چار سوالوں کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ حضورﷺ نے جن سلاطین کو اسلام کی دعوت دی ان کو خلفائے ثلاثہؓ نے فتح کیا ان ممالک میں وہی دین اسلام پھیلایا جس کی حضورﷺ نے دعوت دی تھی لہٰذا وہ ہی اعوان و انصارِ دین ہیں کامل الایمان ہیں اور خلفائے ثلاثہؓ برحق ہیں اور آیتِ استخلاف کے مصداق وہی ہیں ورنہ تاریخ سے اس آیت کا کوئی اور مصداق ثابت کیجئے۔

ہاں اگر یہ کہا جائے کہ خلافت تو واقعی خلفائے ثلاثہؓ نے سنبھالی لیکن یہ ظالم حکمران تھے مگر شیعہ مفسرین نے روایات بیان کی ہیں اور اصولِ کافی میں حضورﷺ کی ان خلفاء کے متعلق جو پیشگوئیاں بیان ہوئی ہیں ان میں کہیں جور و ظلم کا تذکرہ بھی ہے اگر نہیں تو یہ کیا بات ہوئی کہ حضورﷺ نے آدھی بات بتائی اور آدھی راز سربستہ ہی رہی اگر اسے بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال پھر بھی حل نہ ہوگا کہ پھر شیعہ کو یہ راز کسی نے بتایا اور کیوں؟ ضد کا بھی آخر کوئی سلیقہ ہوتا ہے یہ کیا کہ آدمی خدا کی مخالفت پر ڈٹ جائے رسولﷺ کا مدِ مقابل بن جائے اور اپنے ائمہ کا انکار بھی کر بیٹھے اور نہ اس کے ایمان میں خلل آئے نہ اس کے محبِ اہلِ بیتؓ ہونے پر حرف آئے۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا فہم کرشمہ ساز کرے

اس حقیقت سے گریز کی ایک راہ کھلی ہے اور یہ راہ ہی نہیں شاہراہ ہے کیونکہ اس پر ہر قسم کے احکام واقعات کی ٹریفک چل سکتی ہے۔

وہ راہ یہ ہے کہ "امام نے تقیہ کر کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ماذون للجہاد فرمایا ہے اور تقیہ کر کے ہی انہیں مظلوم اور ماکل الایمان بہ شرائط عشرہ بیان کیا ہے" وہ یہ اکسیر ہے جو شیعہ حضرات ہر اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جہاں وہ دلیل کے میدان میں زچ ہو جائیں مگر یہ نسخہ ہر مقام پر کامیاب ثابت نہیں ہو سکتا مثلاً اس معاملے میں غور کیجئے۔

  1.  کیا امام نے کسی مقام پر اس بات کا اظہار کیا کہ وہ بات میں نے تقیہ کے طور پر کہی تھی؟۔
  2. اگر نہیں تو کسی بات پر تقیہ کا لیبل لگانے کا معیار کیا ہے؟ اگر معیار یہ ہے کہ جہاں کوئی دلیل نہ مل سکے وہاں تقیہ کا ٹھپہ لگا دو تو اس سے خود فریبی کے سوا کچھ حاصل نہیں اور ہر سوچنے والا انسان اس نتیجہ پر پہنچے کہ محض ضد ہے جو باطل پر ڈٹ جانے کے لیے ایک آڑ سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر معیار یہ ہو کہ جس بات کے متعلق جی چاہے کہہ دے یہ تقیہ کر کے کہی گئی ہے تو اس وقت بڑی الجھن پیدا ہوگی جب کوئی شخص کہہ دے کہ امام نے تقیہ کر کے اقرار شہادتین کیا تھا پھر امام کا ایمان اور اس کا مذہب کیوں کر ثابت ہوگا یہ ایسا اندھا کنواں ہے جس سے شیعہ لاکھ کوشش کریں نکل نہیں سکتے۔
  3.  اس حدیث میں امام نے قرآن کی آیت کا حوالہ دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ماذون مظلوم مومن صالح ثابت کیا ہے اگر اسے تقیہ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا یہ امام نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا جو لوگ (بقول شیعہ) مرتد کافر ظالم اور غاصب تھے ان کو قرآن کی آیت سے مومن صالح اور خلافت و حکومت کا حقدار ثابت کیا یہ تو صاف طور پر خدا کے خلاف مورچہ لگانا ہوا خدا کچھ کہے امام کچھ کہے کیا امام کا منصب یہی ہے ؟
  4. امام نے تقیہ کر کے ثواب حاصل کر لیا مگر اس حدیث سے جو مخلوق خدا گمراہ ہوئی اس کا گناہ کس کے ذمے امام نے تقیہ کر کے خلق خدا کو جو دھوکہ دیا ہے اس کا اثر تو صدیوں تک اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ہے کیا تقیہ کا ثواب ان تمام گناہوں کو بہا لے جائے گا ؟ تقیہ نہ ہوا طوفانِ نوح ٹھہرا۔
  5.  امام نے تقیہ کیوں کیا حالانکہ امام کو اس سے منع کیا گیا تھا۔

(اصول کافی طبع جدید ایران 59:2 امام باقر نے اپنے بیٹے سیدنا جعفرؒ کو مہر شدہ وصیت یہ دی تھی اور امام نے پڑھی وہ وصیت یہ تھی)۔

ثم دفعہ الی ابنه جعفر ففک خاتما فوجد فیه حدث الناس وافتھم وانتشر علوم اھل بیتک وصدق آباءک الصالحین ولا تخافن الا اللہ عزوجل وانت فی حرز و امان۔

ترجمہ: سیدنا باقرؒ نے وہ وصیت کا لفافہ اپنے بیٹے سیدنا جعفرؒ کو دیا انہوں نے لفافہ اپنے بیٹے سیدنا جعفرؒ کو دیا انہوں نے لفافہ کی مہر توڑی تو اس میں لکھا پایا لوگوں کے سامنے حدیث بیان کر انہیں فتویٰ دے اور اپنے خاندان کے علوم پھیلا اور اپنے نیک آباؤ کی تصدیق کر اور اللہ کے بغیر کسی سے نہ ڈر تو محفوظ اور مامون ہے

ایک تو باپ پھر امام پھر اس کی وصیت بیٹا اور وہ بھی امام مگر دیکھنا یہ ہے کہ آدمی جب جھوٹ بولتا ہے یا یوں کہے کہ تقیہ کرتا ہے جب اسے کسی قسم کا اندیشہ ہو کہ سچی بات کہی تو رسوائی ہوگی یا جان جائے گی تو وصیت میں "ولا تخافن الا اللہ عزوجل" اگر یہ کہے کہ امام نے اس وصیت پر ضرور عمل کیا تو ماننا پڑے گا کہ اس جملے میں "الا" کال لگ یا تو امام نے پڑھا نہیں تھا یا اس وقت تھا ہی نہیں بعد میں تبرکاً داخل کر دیا گیا گویا اصل عبارت یوں تھی "ولا تخافن اللہ عزوجل" یعنی اللہ سے ہرگز نہ ڈرنا اس لئے امام نے جھوٹ کے وبال سے بے نیاز اور اللہ کے خوف سے یکسر آزاد ہو کر بڑی بے تکلفی سے جھوٹ بول دیا پھر "حدیث الناس" کا حکم ہے تو اس میں کوئی لفظ رہ گیا ہے اور امام نے بین سطور پڑھ لیا کہ اس کا مطلب ہے جھوٹی حدیثیں بیان کیا کر اسی طرح "وافتھم" کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ لوگ پوچھیں تو جھوٹے فتوے دیا کر اور "وانتشر علوم اھل بیتک" کو دیکھا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ نے تقیہ کر کے یہ حدیث بیان کی تو وصیت کہ اس حصے کا مطلب یہ ہوگا کہ اہلِ بیتؓ کے علوم کا جوہر اور خلاصہ جھوٹ ہے جس کی تلخی سے بچنے کے لیے اس پر تقیہ کی شرینی کا کوٹ کر دیا گیا ہے۔

امام کے متعلق یہ تصور دلانا امام پر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا شاعر تو محبوب کو ظالم کہتے ہیں مگر یہاں تو عاشقوں نے ادھم رکھا ہے یہاں ایک اور بات قابل غور ہے دیکھنا یہ ہے کہ تقیہ دین ہے یا کفر ہے؟ ظاہر ہے کہ کفر ہوتا تو امام سے منسوب کون کرتا لہٰذا معلوم ہوا دین ہے اگر یہی بات ہے تو شیعہ کو بھی چاہیے کہ تقیہ کر کے صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے ثلاثہؓ کی مدح و ثنا کریں

اس کے تین فائدے ہیں۔

اول یہ کہ تقیہ کا ثواب ملے گا اور وہ اتنا ہے کہ سمیٹا ہی نہیں جا سکتا۔

 دوم یہ کہ امام مفترض الطاعتہ کی اطاعت اور اس کی سنت پر عمل کرنے کا ثواب ملے گا۔

 سوم یہ کہ قوم میں منافرت نہ پھیلے گی اس میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا جس کی ہر زمانے میں بالعموم اور اس وقت بالخصوص شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے مگر جہاں نفس پرستی اور ہنگامہ آرائی ہی محبوب مشغلہ ہو وہاں ثواب کا کسے خیال آ سکتا ہے۔

ع ہائے ان مالیوں نے باغ اجاڑا اپنا۔

خلافتِ نص:

کہا جاتا ہے کہ خلافت کا منصوصی ہونا ضروری ہے اور سیدنا علیؓ کی خلافت منصوصی ہے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کے لیے کوئی نض موجود نہیں نص کیا ہے اور خلافت کے منصوصی ہونے سے کیا مراد ہے اس پر تفصیلی اور مدلل بحث ہماری کتاب "تحزیر المسلمین" میں کی گئی ہے تاریخی ترتیب کی روشنی میں اس موضوع پر اجمالی بیان کیا جاتا ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کی خلافت کے لیے نص کب اور کس صورت میں نازل ہوئی اس سلسلے میں ملاحظہ ہو۔

احتجاج طبرسی صفحہ 29 جلد 3:

وقد بقی علیک من ذلک فریضتان مما یحتاج ان تبلغھما قولک فریضۃ الحج و فریضۃ الو لایۃ والخلافۃ من بعدک الی ان قال فلما بلغ غدیر خم قبل الجحفۃ بثلاثۃ امیال نزل بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ الخ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 67)۔

ترجمہ: (اے میرے رسولﷺ) آپ پر دو فریضوں کا بیان کرنا باقی رہ گیا ہے ایک فریضہ حج دوسرا آپﷺ کے بعد ولایت اور خلافت کا فریضہ آپﷺ جو بہت غدیر خم پر پہنچے جو الجحفہ سے تین مل ادھر ہے تو یہ آیت نازل ہوئی کہ جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا۔

  1. حجۃ الوداع تک سیدنا علیؓ کی خلافت ولایت کے متعلق کوئی شخص بھی جانتا نہیں تھا۔
  2.  غدیر خم پر آیت نازل ہوئی تھی اس کا مفہوم عام ہے کہ جو کچھ تجھے پر نازل ہوا وہ لوگوں تک پہنچا اس میں خلافتِ سیدنا علیؓ کا ارشاد تک موجود نہیں۔
  3.  اس موقع پر سیدنا علیؓ کی خلافت کا حضورﷺ نے کوئی واضح اعلان نہیں فرمایا۔

اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی قابل غور ہے اس واقعہ سے پہلے آیت "اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ الخ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 3)۔ نازل ہو گئی تھی یعنی اس سے پہلے ہی اعلان ہو چکا تھا کہ دین مکمل ہو گیا۔

اب اگر یہ مان لیا جائے کہ غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد خلافتِ سیدنا علیؓ کے اعلان کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دین کا حصہ نہیں تھا ورنہ یہ ماننا پڑے گا "اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ" والی بات (معاذ اللہ) محض بہلاوا ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں بیان کی گئی اور یہ بات ماننا کہ قرآنِ کریم کی کوئی آیت معاذ اللہ بے معنیٰ یا زائد ہے مسلمان کے بس کے بات نہیں لہٰذا لازماً دوسری حقیقت ہی تسلیم کرنی پڑے گی کہ خلافتِ سیدنا علیؓ کا اعلان کرنا دین کا حصہ نہیں اور اس حقیقت کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کی خلافت کا اعلان نہیں فرمایا لہٰذا خلافتِ سیدنا علیؓ کا منصوصی ہونا بس نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔

خلفائے ثلاثہؓ کے متعلق غدیہ کے واقعہ سے پہلے برسوں ایسے اعلان ہوتے رہے جن میں مہاجرین و انصار اور خلفائے ثلاثہؓ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا سرٹیفکیٹ ان کے کامل الایمان ہونے کی سند ان کے جنتی ہونے کا ثبوت ملتا ہے مثلاً۔

(1) وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ الخ۔ (سورة التوبہ آیت نمبر100)۔

(2) لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ الخ۔ (سورة الفتح آیت نمبر 18)۔

(3) وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ ۞۔(سورة الانفال آیت نمبر74)۔

(4) لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ الخ۔ (سورة الحدید آیت نمبر10)۔

پہلی تین آیتوں میں مہاجرین و انصار کے کامل الایمان اور جنتی ہونے کا اعلان ہے چوتھی آیت میں فرق مراتب بیان ہوا ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے جہاد کیا دین کے راستے مال خرچ کیا وہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد دین کی یہ خدمت کی ظاہر ہے خلفائے ثلاثہؓ کا تعلق پہلے بھی گروہ سے ہے لہٰذا اس آیت میں خلفائے ثلاثہؓ کی فضیلت بلکہ افضلیت کا اعلان ہوا ہے اور دونوں گروہوں کے جنتی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔

اگر یہ کہا جائے کہ ان اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے اس موقع خاص پر تو راضی ہوگیا مگر یہ لوگ بعد میں معاذ اللہ مرتد ہوگئے لہٰذا الگ الگ یہ سندات ان کے کسی کام نہیں آ سکتیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا علم ناقص ہے ایک بات کر دیتا ہے نتائج کی اسے خبر نہیں ہوتی اس لیے وہ بات یا تو بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہے یا اللہ تعالیٰ کو بدلنی پڑتی ہے اسی مجبوری کی بنا پر شیعہ نے اللہ تعالیٰ کے متعلق بدا کا عقیدہ ایجاد کیا ہے جس پر تفصیلی بحث "تحزیر المسلمین" میں ملاحظہ ہو۔

دوسری بات یہ تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اللہ کی رضا مندی کی سند کے بعد معاذ اللہ اگر یہ لوگ بگڑ گئے تو رسول کریمﷺ جیسے شخصیت اور آپﷺ کی صحبت میں اس جمِ غفیر میں سے کسی کی اصلاح نہ کر سکی تو پھر بعد میں کوئی کس برتے پر مسلمان ہونے کا یا جنتی ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ بقول شیعہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا علیؓ کو خلیفہ بلافصل ہونے کا وعدہ فرمایا حضور اکرمﷺ سے اس کا اعلان کرایا مگر واقعات اس کے بالکل برعکس ظہور میں آئے کیا خدا کو اپنے وعدے کا کوئی پاس نہیں تھا؟ اگر پاس تھا تو کیا خدا ایسا کمزور ہے کہ بندوں کے سامنے اس کی ایک نہ چلی چپ سادھ لی اور اپنے مخالفین کا کچھ نہ بگاڑ سکا؟ سیدنا علیؓ نے بھی کسی موقع پر خدائی وعدہ کا حوالہ نہ دیا کہ میرا لحاظ نہ صحیح خدا کے وعدے کا تو کچھ خیال کرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ خلافت بلا فصل کے بات محض ایک افسانہ ہے جو بعد میں مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے گھر لیا گیا اس کا تانا بانا کیسے تیار ہوا اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقررہ پروگرام اس انداز سے پورے کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کی قدرت کا اقرار کیے بغیر کچھ بند نہیں پڑتی مثلاً۔

(1)۔ فرعون جیسا سرکش حکمران اپنے ہوا خواہوں کہ بتانے پر اپنی اور اپنی حکومت کی حفاظت کے لیے یہاں تک کر گزرتا ہے کہ قبطی قوم کو من حیث القوم ذلیل و رسوا کر کے چھوڑا پھر قبطیوں کہ بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے کا حکم رائج کیا تاکہ ان کی نسل کا وہ حصہ ہی ختم ہو جائے جو اس کے سامنے صف آرا ہوسکے مگر اللہ تعالیٰ کا پروگرام دیکھیے کہ جس سال بچوں کو قتل کر دینے کا حکم فرعون نے صادر کیا اسی سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا پھر صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کرایا پھر فرعون کے گھر میں ان کی پرورش کرائی پھر انہی کے ہاتھوں اس کو ہلاک کرایا اور اسی کی حکومت کا خاتمہ کرایا۔

تو سوچنے کے بعد یہ ہے کہ فرعون جیسے سرکش سے تو خدا نہ دبا مگر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کیا فرعون سے بھی زیادہ طاقتور تھے کہ ان کے مقابل میں خدا کی ایک نہ چلی اور خدا نے سیدنا علیؓ کی خلافت بلافصل کا فیصلہ کر کے انہیں مدتوں انتظار کرایا اس لیے اس معاملے میں یا تو خدا کو عاجز اور بے بس مانا پڑے گا یا خلافتِ سیدنا علیؓ بلافصل کو افسانہ تسلیم کرنا پڑے گا۔

(2)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں اپنی راہ کا کانٹا سمجھتے ہوئے راہ سے ہٹانے کی تدبیر کی قافلے کے ہاتھوں بیچا پھر مصر میں عزیز مصر کی بیوی نے انہیں جیل بھجوا دیا مگر خدا نے نہ صرف اسے جیل سے نکالنے کی تدبیر کی بلکہ حکومت مصر میں اس منصب پر پہنچایا جو دنیا کے لیے قابلِ رشک تھا اور بتایا کہ "وٙکٙذٙالِکٙ مٙکّٙنٙا لِیُوسُفٙ الخ"۔ (سورة یوسف آیت نمبر 56)۔ اور جو لوگ قدرت قادر کے منکر تھے ان کے لیے اعلان بھی فرمایا کہ واللہ غالب علی امرہ.

 اگر خلافت بلافضل کی بات اللہ کا امر تھا تو اللہ کو غالب آنا چاہیے تھا اور جب یہ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا ہی نہیں ورنہ بندوں کے مقابلے میں مغلوب ہو جانے والا خدا بھی کیا خدا ہوا۔

پھر تاریخ سے اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ جب کوئی ظالم حکمران اللہ والوں کے مقابلے میں اٹھا اللہ نے اس ظالم کی گردن توڑی اور غلبہ اللہ والوں کو عطا کیا مگر یہاں کیا بات ہے کہ بقولِ شیعہ یکے بعد دیگرے تین ظالم حکمران رہے مگر خلافتِ بلافصل کا فیصلہ کرنے والا رب بس دیکھتا ہی رہ گیا۔

اس مقابلے میں خلفائے ثلاثہؓ کے حالات دیکھے جائیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی خلافت منصوصی تھی مثلاً سیدنا علیؓ کی خلافت کا معاملہ تو بقول شیعہ غدیرِ خم تک منصۂء شہود پر نہیں آیا تھا بلکہ کسی کے ذہن اور تصور میں بھی نہیں پایا جاتا تھا مگر نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عملاً خلفائے ثلاثہؓ کو اسی ترتیب کے ساتھ کاروبار سلطنت سنبھالنے کی ٹریننگ کی چنانچہ:

(1)۔ تفسیر قُمی طبع ایران جلد 2صفحہ 434 شیعہ کی پہلی تفسیر۔

وادی یا بس جنگِ سلاسل میں نبی کریمﷺ نے 12 ہزار کافروں کے مقابلے میں پہلے سیدنا ابوبکرؓ پھر سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو امیر بنا کر بھیجا۔

فنزل جبریلؑ علی محمدﷺ واخبرہ بقصتھم وما تعاقدوا علیه وتواثقوا وامرہ ان یبعث فلانا (ابوبکرؓ) الیھم فی اربعه الاف فارس من المہاجرین و انصار الی ان قال ثم قال یا معشر المسلمین انی امرت و جبرئیلؑ امرنی عن اللہ ان ابعث الیھم فلانا (عمرؓ) فی الصحابہ اربعۃ الاف۔

ترجمہ: جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوا اور نبی کریمﷺ کو کفار کے قصہ کی خبر دی جو انہوں نے آپس میں معاہدے کیے تھے ان کی بھی اطلاع دی اور حکم دیا کہ ان کے مقابلے کے لیے مہاجرین و انصار میں سے چار ہزار سواروں کہ ہمراہ سیدنا ابوبکرؓ کو بھیجوں اے جماعتِ مسلمین مجھے حکم ملا ہے اور مجھے جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی طرف سے حکم دیا ہے کہ میں ان کفار کے مقابلے میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو 4 ہزار ہیں بھیجوں۔

(2)۔ تفسیر صافی طبع ایران سورۃ العادیات صفحہ 843۔

فنزل جبرائیلؑ قد اخبرنی وامرنی ان اسیر الیھم ابابکرؓ

بامرہ وان جبرائیلؑ امرنی عن اللہ ان ابعث الیھم عمرؓ فسر یا عمرؓ۔

(3)۔ تفسیر فرات ابراہیم طبع قدیم ایران۔

فنزل جبرائیلؑ علی محمدﷺ فاخبرہ بقصتھم وامرہ یبعث ابا بکر الیھم فی اربعۃ الاف ثم وان جبرائیلؑ امرنی ان ابعث عمرؓ مکانه الیھم۔

(4)۔ حیات القلوب جلد 2 صفحہ 521۔520۔

بس جبرائیلؑ نازل شدہ قصہ ایشا نرا برائے آنحضرت نقل کردو از جانب خدا مامور گردانید آنحضرت راکہ ابوبکرؓ رابا چہار ہزار سوار از مہاجرین و انصار بجنگ ایشاں بفرستد حضرت رسولﷺ ابوبکرؓ مرا از جانب خدا امرمی کند کہ عمرؓ را بجائے اوفر ستم با چہار ہزار سوار باعمرؓ برو بانام خدا۔

یہ چاروں شیعہ کی معتبر کتابیں ہیں ان میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی عمارت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور اکرمﷺ نے انہیں یکے بعد دیگرے امارت سونپی اس کا وزن کم کرنے کے لیے راویوں نے اپنی طرف سے آخر میں یہ دم لگائی کہ سیدنا ابوبکرؓ بھی بھاگ کے آگئے پھر سیدنا عمرؓ بھی بھاگ کے آگئے۔

تقیہ کی آڑ میں ایسی کوششیں کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں مگر اس سے شیخینؓ کی امارت پر اور من جانب اللہ مامور ہونے پر کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ بزدل تھے جنگ سے بھاگ آئے اس انداز سے سوچیں تو اس سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیدنا علیؓ تو ان دونوں سے بزدل جو ان بزدلوں کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور اپنا حق نہ لے سکے اور شیعوں کا خدا ان سے بھی بزدل تھا جو ان بزدلوں سے سیدنا علیؓ کا حق بھی نہ دلوا سکا آدمی سلیقے سے جھوٹ بولے تو کبھی کبھی بات بن جاتی ہے مگر شیعہ راویوں کو تو صرف تقیہ کی عبادت سے غرض ہوتی ہے سلیقہ کا کم ہی خیال رکھتے ہیں۔

گزشتہ صفحات میں شیعہ کی تفسیر قمی تفسیر صافی تفسیر المیزان تفسیر منہج الصادقین تفیسر مجمع البیان اور حملہ حیدری علامہ باذل کے حوالے گزر چکے ہیں کہ حضور اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے خلیفہ ہونے کی خبر دی اگر خلافت منصوصی ہی ہے تو شیخینؓ کی خلافت پر حضورﷺ کا بار بار کا فرمان نص ہے اور اگر اس سے انکار نہ کیا جائے کہ "

وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ۝۔ إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡىٌ۬ يُوحَىٰ۝۔ (سورۃ النجم آیت نمبر 3۔4)

تو حضور اکرمﷺ اپنے سامنے سیدنا ابوبکرؓ کو اپنے مصلیٰ پر کھڑا کر کے عملاً ان کی خلافت پر نص قائم کر گئے۔

آیتِ استخلاف میں خلیفہ بنانے کی نسبت خدا کی طرف سے ہے:

یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ آیتِ استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے مگر خلفائے ثلاثہؓ کو مہاجرین و انصار نے خلیفہ بنایا لہٰذا یہ آیت کا مصداق نہیں بن سکتے۔

چونکہ بات علمی انداز میں کہی گئی ہے اس لیے بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہے مگر یہ علمی نکتہ جب عملی حقائق کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو نہایت بودا نظر آتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ جس طریقے سے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت عمل میں آئی ٹھیک اسی طریقے سے سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنایا گیا اگر استخلاف کی نسبت خلفائے ثلاثہؓ کے حق میں درست نہیں معلوم ہوتی تو کیا سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنانے کے لیے اللہ نے کوئی فرشتے نازل کیے تھے کہ انہیں اٹھا کر تخت خلافت پر بٹھا دیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مہاجرین و انصار نے انتظار کیا کہ سیدنا علیؓ کو اللہ تعالیٰ خود خلیفہ بنائے گا مگر جب انتظار طویل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے مافوق الفطرت انتظام نہ کیا تو مہاجرین و انصار نے سمجھ لیا کہ اللہ تو انہیں خلیفہ بناتا نہیں چلو ہم ہی سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنا دیں مگر یہی کچھ تو وہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کے انتخاب کے وقت کر چکے تھے اگر وہاں انتہا آپ کی نسبت غلط سمت کو مڑ گئی تو سیدنا علیؓ کے انتخاب کے وقت وہ نسبت کیسے درست قرار پائی۔

اگر سیدنا علیؓ کے پاس خلافت پر کوئی نص ہوتی تو خلفائے ثلاثہؓ میں سے کسی کے انتخاب کے وقت پیش تو کرتے مگر تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے کسی موقع پر نص پیش کرنا تو کیا نص کا ذکر ہی نہیں کیا حتیٰ کہ سیدنا علیؓ نے تو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے مقابلے میں نص کی بجائے مہاجرین و انصار کے اجماع کو بطورِ دلیل پیش کیا جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

(2)۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو جو خط لکھا اس کا متن شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ علامہ بحرانی جلد 4 صفحہ 356۔355۔

زعمت انه انما افسد علی بیعتک خطیئتی فی عثمانؓ لعمری ما کنت الا رجلا من المہاجرین اور دت کما اور دوا وصدرت کما صدروا وما کان اللہ لیجمھم علی ضلال ولا یضربھم بعمی واما ما زعمت ان اھل الشام حکام علی اھل الحجاز فھات رجلین من قریش الشام یقبلا فی الشوری ان تحل لھا الخلافۃ فان زعمت ذلک کذبک المھاجرون والانصار۔

ترجمہ: (اے سیدنا امیرِ معاویہؓ) تمہارا خیال ہے کہ آپ کی بیعت جو مجھ سے ہوئی اسے خونِ سیدنا عثمانؓ کے گناہ نے فاسد کر دیا ہے مجھے اپنی جان کی قسم میں مہاجرین میں سے ایک فرد ہوں مہاجرین جس راہ پر چلے ان کی طرح میں بھی اسی راہ پر چلا جیسے انہوں نے چھوڑا ایسے میں نے بھی چھوڑا اور یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ مہاجرین و انصار کو دل کا اندھا بنا کر گمراہی پر جمع کر دے اور اگر آپ شام کے دو قریشی جو شوریٰ کے لیے مقبول ہوئے ہوں پیش کریں کہ ان کے لیے خلافت ہے (میری بیعت کے بعد) اگر آپ کا یہی خیال ہے تو مہاجرین و انصار اس خیال کی تکذیب کریں گے۔

ایضاً جلد 4 صفحہ 357۔

وھی کونھا بیعۃ واحدۃ باتفاق المھاجرین والانصار الذین ھم اھل الحل والعقدہ من امۃ محمدﷺ وھذہ صغریٰ من شکل الاول وتقدیر کبریٰ وکل بیعۃ وقعت کذالک فلا یشنی فیھا نظر ولا یستانف فیھا خیار وکل ما سبق من حال الائمۃ الئلاثهؓ (خلفائے ثلاثہؓ) قبله علیه السلام اذلم یکن لاجدان یثنی فی بیعتھم نظر اولا یستانف خیارا بعد ان عقدھا المھاجرون والانصار لاحدھم ثم اشار الی حکم من لم يدخل فی بيعته و هم قسمان لان من لم يدخل فيها اما ان يخرج عنها او يقف فيها فحكم الخارج عنها ان يكون طاعنا فی صحتها و انعقادها فيجب ان يجاهد و يقاتل حتىٰ يرجع اليها اذهى سبيل المومنين كما سبق وحكم الواقف فيها والمتردی فی صحتها انه مداهن وهو نوع من النفاق و مستلزم للشك فی سبيل المومنين و وجوب اتباعه۔

ترجمہ: اور بیعت ایک ہی ہے جو امتِ محمدیہﷺ کے ارباب حل و عقد مہاجرین و انصار کے اجماع اور اتفاق سے ہوئی ہے یہ صغریٰ شکل اول کا تھا اب کبریٰ جو بیعت مہاجرین و انصار کے اجماع سے ہو جائے اس میں نظرِ ثانی نہ ہوگی اور نہ اس میں کسی کا اختیار چلے گا اور خلفائے ثلاثہؓ کی بیعت کا جو حال گزر چکا ہے ان کی بیعتِ خلافت میں کسی کو نظرِ ثانی کرنے یا نہیں راہ نکالنے کا اختیار نہیں رہا جس بیعت کا انعقاد مہاجرین و انصار کے ہاتھوں ہو چکا تھا پھر سیدنا علیؓ اس آدمی کے متعلق حکم کی طرف اشارہ کیا جو بیعتِ خلافت میں داخل نہیں ہوا کہ اس کے لیے دو راستے ہیں اور وہ آدمی دو قسم کے ہیں یا تو مسئلہ خلافت میں طعن گھر کے مہاجرین و انصار کی مخالف کی راہ اختیار کرے گا تو ایسے آدمی کے خلاف جہاد کیا جائے تاکہ وہ اہلِ ایمان کی راہ پر پلٹ آئے یعنی بیعتِ خلافت میں مسلمانوں کے ساتھ متفق ہو جائے دوسرا وہ شخص جو بیعت تو کریں مگر صحت امامت و خلافت میں متردد ہو اور تسلیم کرنے میں پس وہ پیش کرے وہ ایک قسم کا منافق ہے اسے اہلِ ایمان کی راہ کے متعلق شک ہے اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کی راہ اختیار کرے اور ان کی اتباع کرے اس راہ میں شک کرنا نفاق ہے۔

ایضاً جلد 3 صفحہ 339۔

ایھا الناس ان احق الناس بھذا الامر اقوی لھم علیھم واعلمھم یامر اللہ فیه فان شغب مشاغب استعب فان ابی قوتل و لعمری لئن کانت الامامۃ لا تنعقد حت یتحضرھا عامۃ الناس فما الی ذلک سبیل ولکن اھلھا یحکمون علی من غاب عنھا ثم لیس للشاھد ان یرجع ولا للغائب ان یختار الاوانی اقاتل رجلین رجلا ادعی مالیس له واخر منع الذی علیه۔

ترجمہ: لوگو! خلافت کا سب سے زیادہ حقدار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قوی ہو اور احکامِ شرعی کا زیادہ عالم ہو اگر کوئی اس کا اعتراض کرے تو اسے سمجھایا جاوے اور اگر انکار کرے تو قتل کر دیا جائے میری جان کی قسم! اگر خلافت کا انعقاد اس طریقہ سے ہو کے تمام عوام اس پر جمع ہو جائیں تو اس انعقاد کا کوئی راستہ نہیں لیکن جو خلافت منعقد کرنے کے اہل ہیں اگر وہ فیصلہ کریں تو ان کا حکم غائب پر بھی ہے حاضر کے لیے رجوع کا کوئی حق نہیں اور غائب کوئی اور اختیار کرنے کا مجاز نہیں خبردار میں ان آدمیوں سے لڑوں گا جو خلافت کا حقدار ہونے کا دعویٰ کرے اور اس سے جو امام کی مخالفت کرے گا۔

سیدنا علیؓ کے اس خطبے کی شرح علامہ میثم بحرانی نے یوں کی ہے

الاول بیان احکام الذی ھو احق الناس بامر الخلافۃ و حصر الا حق به فی امرین احدھما اقوی الناس علیه وھو الاکمل قدرۃ علی السیاسۃ والاکمل علما بمواقعا وکیفیاتھا و کیفیت تدبیر المدن والمعروف و ذالک یستلزم کونه اشجع وبیان کیفیۃ انعقاد الامامۃ بالاجماع فبین لقوله لعمری الی قوله ما الی ذالک سبیلا ان الاجماع لایعتبر فیه دخول جمیع الناس حتیٰ العوام اذلو کان ذلک لاوی الی ان کا ینعقد اجماع قط فلم تصح امامه احدا بدالتعذر اجتماع المسلمین بامر من اطراف الارض بل المعتبر فی الاجماع انفاق اھل الحل والعقد من امۃ محمدﷺ فلیس لاحد منھم بعد انعقادھا ان یرجع ولا عن عداھم من العوام ومن غاب عنھا ان یختاروا غیر من اجمع ھؤلاء علیه۔

ترجمہ: پہلے ان احکام کا ذکر ہے جو سب سے زیادہ حقدار خلافت کے متعلق ہیں اس حقدار کو دو اوصاف میں بند کر دیا ہے پہلا یہ کہ سب سے قوی ہو وہ شخص سیاست پر کامل قدرت رکھتا ہے مواقع خلافت کا کامل علم رکھتا ہے شہروں کی آبادی کی کامل تدبیر جانتا ہے فنِ جنگ سے خوب واقف ہے ان اوصاف کا مالک سے زیادہ بہادر ہوگا اجماع کے ذریعے امامت کے انعقاد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اپنے قول "میری جان کی قسم تا اس کا کوئی راستہ نہیں" میں فرمایا اس اجماع کا کوئی اعتبار نہیں جس میں تمام عوام جمع ہوں کیونکہ یہ محال ہے اس طرح تو خلافت پر اجماع ہو ہی نہیں سکتا پھر تو خلافت کبھی صحیح نہ ہوگی کیونکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا اکٹھا ہونا محال ہے بلکہ اجماع معتبر وہ ہے جو امت کے اہلِ حل و عقد صائب الرائے لوگوں کا اجماع ہو اس اجماع سے جو خلافت منعقد ہو جائے اس کے بعد کسی مسلمان کو اختیار نہیں کہ اس سے منہ پھیرے اور نہ کسی غائب کو حق ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح کے بغیر کوئی اور راہ اختیار کرے۔

  1.  حقیقی اور صحیح خلافت وہ ہے جو مہاجرین و انصار کے اجماع سے منعقد ہو کیونکہ امتِ محمدیہ میں اہلِ حل و عقد اور صائب الرائے وہی ہیں۔
  2.  اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ اللہ تعالیٰ مہاجرین و انصار کو دل کا اندھا بنا کر کسی گمراہی پر جمع کر دے۔
  3.  مہاجرین و انصار کے اجماع کے بعد دوسرے لوگوں کا دو قسم کا رد عمل ہو سکتا ہے اول وہ شخص جو اس اجماع پر طعن کر کے مخالفت کی راہ اختیار کرے ایسے آدمی کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے دوسرا وہ شخص جو بیعت تو کریں مگر صحت خلافت میں متردد ہو تو ایسا شخص منافق ہے اس کی راہ مسلمانوں کی راہ سے الگ ہے۔
  4.  حاضرین میں سے جو شخص بیعت کرے اسے رجوع کا کوئی اختیار نہیں۔
  5. جو شخص اجماعی منتخب خلیفہ کے مقابلہ میں خلافت کا حقدار ہونے کا دعویٰ کرے میں اس کے خلاف لڑائی کروں گا۔

سیدنا علیؓ کے اس عقیدے کے آئینے میں خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت اور سیدنا علیؓ کے کردار کا جائزہ لیجیے:

(1)۔ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کا انکار مہاجرین و انصار کے اجماع سے ہوا جو امتِ محمدیہ میں مسلمہ ارباب و حل و عقد ہیں لہٰذا ان ایک لفظ صحیح اور وہ اپنے اپنے وقت خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ثابت ہوئے اور سیدنا علیؓ کا عقیدہ یہی ہے اور یہی اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔

(2)۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے ان کی خلافت کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ان کی بیعت کی یا کوئی دوسرا ردِ عمل اختیار کیا اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے ان حضرات کو خلافت کا صحیح حقدار سمجھ کر ان کی کی اور جس طریقے سے ان کی خلافت منعقد ہوئی سیدنا علیؓ نے ان طریقہ کو صحیح اور معیاری طریقہ بیان فرمایا۔

اگر بقول شیعہ یہ تسلیم کیا جائے کہ سیدنا علیؓ نے ان کی خلافت پر طعن کر کے ان کی مخالفت کی تو سیدنا علیؓ ایسا شخص اس قابل ہے کہ اس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اگر بقول شیعہ بیعت تو تقیہ کر کے کر لی مگر صحت خلافت میں انہیں تردد رہا تو بقول سیدنا علیؓ ایسا شخص منافق ہے اب یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ شیعہ کا قول معتبر ہے یا سیدنا علیؓ کا ارشاد اور عقیدہ۔

اب اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جس کام کی نسبت اللہ کی طرف ہو وہ کام کیسے انجام پاتا ہے یا ظہور میں آتا ہے قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اس حقیقت کی طرف رہنمائی ہوتی ہے مثال کے طور پر چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔

فَلَمۡ تَقۡتُلُوهُمۡ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ قَتَلَهُمۡ‌ۚ الخ۔ (سورۃ الانفال آیت نمبر 17)۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا اللہ نے تلوار چلا کر کفار کو قتل کیا تھا یا اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ تلوار ہاتھ میں لے کر اللہ کے باغیوں کو قتل کریں۔

وَمَا رَمَيۡتَ إِذۡ رَمَيۡتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ‌ۚ الخ۔ (سورۃ الانفال آیت نمبر 17)۔

کیا اللہ نے اپنی مٹھی میں خاک لے کے دشمنان اسلام کی طرف پھینکی تھی یا ہاتھ نبی کریمﷺ کا تھا اور یہ بات حضورﷺ کہ دل میں اللہ نے ڈالی تھی؟۔

وَڪَأَيِّن مِّن دَآبَّةٍ۬ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَهَا ٱللَّهُ يَرۡزُقُهَا الخ۔ (سورة العنکبوت آیت نمبر 60)۔

اللہ رزق کیسے دیتا ہے کیا خوراک کی بوریاں بھر کر آسمان سے پھینکتا ہے یا اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ نے اپنی وسیع زمین میں روئیدگی کی طاقت پیدا کر کے رزق پھیلا دیا اور حیوانات کی جبلت میں داعیہ رکھ دیا کہ اپنا رزق تلاش کریں اور اللہ کے وسیع خزانے سے خاص کریں۔

نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ الخ۔ (سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 31)۔

تمہیں اور تمہارے متعلقین کو اللہ رزق کیسے دیتا ہے کیا اللہ نے آسمانوں پر کہیں روٹی پلانٹ لگا رکھے ہیں کہ پکی پکائی روٹی ہر آدمی کہ گھر پہنچ جاتی ہے یا اس کی صورت یہ ہے کہ سامان رزق زمین میں فراوانی سے پھیلا دیا اور ہر آدمی کے اندر یہ خواہش اور قوت رکھ دی کہ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق خدا کے اس وسیع خزانے سے اپنا اپنا حصہ حاصل کریں۔

اس قسم کی بیسیوں آیتیں اللہ کی کتاب میں جا بجا ملتی ہیں اس اصول میں آیتِ استخلاف پر غور کریں۔

زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا طریقہ کیا یہی ہے کہ آسمان سے ایک تخت اتارا جائے کہ ایک تاج ہو کنگن ہوں فرشتے آئیں اور اللہ کے مقرر کردہ آدمی کو اٹھا کر تختِ خلافت پر بٹھا دیں یا اس کی صورت سنت اللہ کے مطابق یہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے دلوں میں ایک بار ڈال دے ان میں اربابِ حل و عقد کسی موزوں آدمی کو خلیفہ چن لیں ظاہر ہے کہ قابلِ عمل سورۃ وہی ہے جو سیدنا علیؓ نے بیان کر دی کہ خلافت کا انعقاد مہاجرین و انصار کے اجماع سے ہوا جس کو یہ لوگ حقدار سمجھیں اللہ کے نزدیک وہی حقدار ہے۔

اور "لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِى ٱلۡأَرۡضِ" کی عملی تفسیر یہی ہے اور یہی منصوصی خلافت کا مفہوم ہے۔

اگر اس کے بغیر کوئی مراد ہو اور سیدنا علیؓ کی خلافت کو کسی اور مفہوم کے اعتبار سے منصوصی کہا جائے تو اس کی صورت کچھ اس طرح ہو سکتی ہے جیسے ارشاد باری ہے يَـٰدَاوٗدُ إِنَّا جَعَلۡنَـٰكَ خَلِيفَةً۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ الخ۔ (سورة ص آیت نمبر 26)۔ اسی طرح ہونا چاہیے تھا یا علی انا جعلناک خلیفۃ بعد رسول اللہ مگر اس قسم کی کسی نص کا سراغ نہیں ملتا۔

آیتِ استخلاف میں خلیفہ بنانے کی جو نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے اس کی حقیقت بیان ہو چکی البتہ یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ عدم سے جو چیز وجود میں آتی ہے وہ حکمِ الٰہی ہی آتی ہے صفحہ 295 بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں خصوصی شرف اور اعلیٰ درجہ کی عظمت پائی جاتی ہے تو ان کی نسبت ذاتِ باری کی طرف کر دی جاتی ہے جیسے بیتُ اللہ کعبۃُ اللہ مساجدُ اللہ روحُ اللہ وغیرہ اسی طرح منصبِ خلافت کے شرف کے اعتبار سے اس کی نسبت اللہ نے اپنے طرف کی ہے اسی قبیل سے یہ ارشاد باری ہے کہ: وَٱذۡڪُرُوٓاْ إِذۡ جَعَلَكُمۡ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعۡدِ عَادٍ الخ۔ سورة الاعراف آیت نمبر 74)۔ اور وَٱذۡڪُرُوٓاْ إِذۡ جَعَلَكُمۡ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوحٍ الخ۔ (سورة الاعراف آیت نمبر 69)۔

سیدنا علیؓ کے خلافت کا منصوصی ہونا اور مفترض الطاعتہ وغیرہ ہونا دراصل ایک خاص یہودی ذہن کی پیداوار ہے جس کی نشاندہی شیعہ کی کتب میں متعدد مقامات پر کی گئی ہے مثلاً الشیعہ علامہ نوبختی طبع نجف اشرف مطبع حیدریہ صفحہ 40:

اصحاب عبداللہ بن سباء وکان ممن اظھر الطعن علی ابی بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ والصحابۃؓ وتبرا منھم وقال ان علیاؓ علیه السلام امرہ بذلک فاخذہ علی فسئاله عن قوله ھذا فاقربه فامر بقتله فصاح الناس الیه یا امیر المومنین اتقتل رجلا یدعوا الی حکم اھل البیت والی ولایتک والبرأت من اعدائک فیصرہ الی المدائن وحکی جماعۃ من اھل العلم من اصحاب علی علیه السلام ان عبداللہ سباء کان یھودیا فاسلم ورالی علیاؓ وکان یقول وھو علی یھودیتۃ فی یوشع بن نون بعد موسیٰ علیہ السلام بھذہ المقالۃ فقال فی اسلامه بعد وفات النبیﷺ علیؓ بمثل ذلک وھو اول من اشھر القول بفرض اماتۃ علی علیه السلام واظھر البرأۃ من اعدائه وکاشف مخالفیه فمن ھناک قال من خالف الشیعۃ ان اصل الرفض ماخوذ من الیھودیۃ ولما بلغ عبداللہ بن سباء نعیء لی بالمدائن قال للذی نعاہ کذبت لو جئتنا بدماغه فی سبعین عدلا علمنا انه لم یمت ولم یقتل ولا یموت حتیٰ یملک الارض۔

ترجمہ: عبداللہ بن سباء پہلا آدمی ہے جس نے خلفائے ثلاثہؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن اور تبرا بازی شروع کی اور کہا کہ سیدنا علیؓ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے سیدنا علیؓ نے اس کو گرفتار کیا اور اس قول کے متعلق پوچھا تو اس نے اقرار کیا سیدنا علیؓ نے اس کو قتل کر دینے کا حکم دیا اس پر اس کے ہم خیال لوگوں نے واویلا مچا دیا اور سیدنا علیؓ سے کہا کہ آپؓ ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جو لوگوں کو آپ کی اور اہلِ بیتؓ کی دعوت دیتا ہے اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری ظاہر کرتا ہے تو آپ نے ابنِ سباء کو مدائن کی طرف جلا وطن کر دیا اور اصحابِ علی کی ایک جماعت نے بیان کیا کہ عبداللہ ابنِ سباء یہودی تھا پھر مسلمان ہونا ظاہر کیا اور سیدنا علیؓ سے محبت کا اظہار کرنے لگا جب یہودی تھا تو موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق یہی بات کہتا تھا جو اس نے نبی کریمﷺ کے بعد سیدنا علیؓ کے متعلق کہی وہ پہلا آدمی تھا جس نے سیدنا علیؓ کی امامت و خلافت کے فرض ہونے کا اعلان کیا اور تبرا بازی شروع کی اور ان کے مخالفوں کی کھلی مخالفت کی وجہ سے شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ شیعوں کا مذہب یہودیت سے ماخوذ ہے جب مدائن میں ابنِ سباء کو سیدنا علیؓ کے قتل یعنی شہادت کی خبر ملی تو خبر دینے والے سے کہا تم جھوٹ بولتے ہو اگر تم سیدنا علیؓ کا دماغ 70 تھیلیوں میں لپیٹ کے لائے اور 70 گواہ پیش کرتے تب بھی ہم کہتے کہ وہ فوت نہیں ہوئے اور وہ اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک پوری زمین کے مالک نہ ہو جائیں۔

اور رجال مامقانی جلد 2۔3 صفحہ 184 باب عبداللہ بن سباء:

وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامۃ علی واظھر البرأۃ من اعدائه وکاشف مخالفیه وکفرھم فمن ھنا قال من خالف الشیعۃ ان اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیھود۔

ترجمہ: یہ پہلا شخص تھا جس نے سیدنا علیؓ کی امامت کا فرض ہونا مشہور کیا اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کیا اور ان کی تکفیر کی اس وجہ سے شیعہ کی مخالف کہتے ہیں کہ مذہب شیعہ اور رفض یہودیت سے اخذ کیا گیا ہے۔

اسی طرح شیعہ کی اسماء الرجال کی مستند کتاب رجال کشی میں صفحہ 70۔71 پر ابنِ سباء کے پورے حالات درج ہیں۔

ان اِقتباسات سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ کے امامت اور ولایت ان کے مفترض الطاعۃ ہونے کے متعلق کوئی نص یا کوئی سند حضرات خلفائے کے عہد کے اختتام تک سامنے نہ آئی اور سیدنا علیؓ کے عہد میں سامنے آئی تو ایک یہودی کی زبانی اور وہ بھی اس پائے کا ثقہ آدمی کہ سیدنا علیؓ نے اس کے اسم کو اس پر اسے قتل کر دینے کا حکم دیا یہ عجیب نص ہے کہ سیدنا علیؓ کو تو خبر بھی نہیں اور ایک بہروپئے یہودی پر یہ راز منکشف ہو گیا اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ خلافت بلافصل کا موقع سے جاچکا تھا یہ افسانہ تو عجائبات عالم میں شمار ہونے کے لائق معلوم ہوتا ہے محدث جلیل اور مفسرِ قرآن حافظ عماد الدین ابنِ کثیر نے سیدنا علیؓ کی خلافت منصوصی و اجماعی پر اصولی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق تو سیدنا علیؓ خلافت کے حقدار ہو ہی نہیں سکتے۔

البدایه والنہایه جلد 5 صفحہ 252:

ثم کم کان مع علیؓ ابنِ ابی طالب نص فلم کا یجتح به علی الصحابۃ علی اثبات امارته علیھم وامارته علیھم وامامته علیھم فان قالوا (شیعہ) لم یقدر علی تنفیذ ما معه من النص فھو عاجز و والعاجز لا یصلح للامامۃ والا مارۃ وان کان یقدر ولم یفعله فھو خائن والخائن الفاسق مسلوب معزول عن الامارۃ وان لم یعلم بوجود النص فھو جاھل ثم وقد عرفه علمه من بعدہ ھذا محال وجھل وضلال وھذا یحسن فی اذھان الجھلۃ الطغام۔

ترجمہ: اگر سیدنا علیؓ کے پاس اپنی خلافت پر کوئی نص تھی انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے بطورِ حجت کیوں پیش نہیں کی اگر شیعہ کہیں کہ آپ اس نص کو نافذ کرنے پر قادر نہیں تھے لہٰذا پیش نہیں کی اس کا مطلب یہ ہے کہ عاجز تھے اور عاجز آدمی امامت و خلافت کا اہل نہیں ہوتا لہٰذا وہ خلافت کے اہل ہی نہیں تھے اور اگر کہیں کہ قادر تو تھے مگر عمداً ظاہر نہیں کی تو وہ خائن ثابت ہوئے اور خائن تو فاسق ہوتا ہے وہ امارت کا اہل نہیں ہوتا اور اگر کہیں کہ سیدنا علیؓ کو نص کا علم نہیں تھا تو وہ جاہل ثابت ہوئے اور اگر کہیں کہ بعد وفات ان کو نص کا علم ہوا تو یہ ماحول ہے اور جہالت اور گمراہی ہے یہ آخری بات جاہلوں اور باغیوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے ورنہ نص سیدھے سے وجود ہی نہیں۔

علامہ ابنِ کثیر نے شیعہ کے تمام مفروضے بیان کر کے اصولاً ثابت کر دیا کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق تو سیدنا علیؓ مطلق خلافت کے اہل نہیں ثابت ہوئے خلافت بلافصل تو دور کی بات ہے۔

فضیلتِ شیخینؓ اور سیدنا علیؓ:

خلفائے ثلاثہؓ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے ان کے کردار اور بہتان درازی کرنے والے اگر سیدنا علیؓ کی ذات اور ان کے خیالات کا ہی احترام کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو آنکھیں کھل جاتیں مگر جسے اپنی آنکھیں میچ لینے پر ہی اصرار ہو اس کی آنکھیں کون کھولے آئیے ذرا سیدنا علیؓ کے ارشادات دیکھیں۔

(1)۔ شرح نہج البلاغہ علامہ بحرانی طبع جدید جلد 4 صفحہ 362 سیدنا علیؓ کا ارشاد سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں

وکان افضلھم فی الاسلام کما زعمت والضحھم للہ و لرسوله الخلیفۃ الصدیقؓ و خلیفۃ الخلیفه الفاروقؓ ولعمری ان مکانھما فی اسلام لعظیم عام المصاب بھما لحرج فی الاسلام شدید یرحمھا اللہ وجزاھما باحسن ما عملا۔

ترجمہ: (اے سیدنا امیرِ معاویہؓ) جیسا کہ تمہارا خیال ہے کہ اسلام میں سب سے افضل اور اللہ و رسولﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ کھڑا معاملہ رکھنے والا خلیفہ سیدنا صدیق اکبرؓ تھا اور خلیفہ کا خلیفہ سیدنا عمرؓ تھا مجھے اپنی جان کی قسم ان دونوں کا درجہ اسلام ہے بڑا عظیم ہے ان کی موت نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ان پر خدائی رحمت ہو اللہ ان دونوں کو جزائے احسن دے۔

سیدنا علیؓ کے اس مختصر خطاب میں کتنی عظیم حقیتوں کا اظہار ہے۔

  1.  اسلام میں سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔
  2.  اللہ رسولﷺ کے ساتھ ان دونوں جیسا کھرا معاملہ اور کسی نے نہیں کیا۔
  3.  ان کی موت سے اسلام کو بہت نقصان پہنچا۔
  4.  یہ دونوں اللہ کی رحمتوں اور احسن جزا کے مستحق ہیں۔

(2)۔ شافی شریف مرتضیٰ علم الھدیٰ طبع ایران جلد 2 صفحہ 428۔

سیدنا علیؓ نے مجمع عام میں ایک خطبہ دیا جس کا ایک ایک لفظ ایمان افزا ہے فرماتے ہیں

اللھم اصلحنا بنا اصلحت به الخلفاء الراشدین قیل فمن ھم قال حبیبای و عمای ابوبکرؓ و عمرؓ اماما الھدی ورجلا قریش والمقتدی بھما بعد رسول اللہ وشیخا الاسلام من افتدیٰ بھما عصم ومن اتبع اٰثارھما ھدی الی صراط مستقیم۔

ترجمہ: الہٰی ہماری اس طرح اصلاح فرما جیسے تو نے خلفائے راشدینؓ کی اصلاح فرمائی پوچھا گیا کہ خلفائے راشدینؓ کون سے فرمایا میرے دوست میرے بزرگ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ وہ ہدایت کے عوام تھے قریش کے زعیم تھے اور رسول کریمﷺ کے بعد امام اور مقتدی تھے وہ شیخ الاسلام تھے جس نے ان کی اقتداء کی گمراہی سے بچ گیا ہے جو ان کے نقش قدم پر چلا صراطِ مستقیم پا گیا۔

شیخینؓ کے ساتھ سیدنا علیؓ کی عقیدت ملاحظہ ہو:

  1. ان دونوں کو حلیفہ برحق تسلیم کیا۔
  2. سب سے پہلے ان کو خلفائے راشدینؓ کا لقب دیا۔
  3.  اپنا محبوب اور قابلِ احترام بزرگ قرار دیا۔
  4.  قریش میں ان کے ارفع مقام کا ذکر کیا۔
  5.  ان کی ذات کو نبی کریمﷺ کے بعد مسلمانوں کے لیے مقتدی تسلیم کیا یہ اسی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتی ہے جو حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ "اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکرؓ و عمرؓ"۔
  6. ان کی پیروی کو گمراہی سے بچاؤ کا قلعہ قرار دیا۔
  7.  ان کی اتباع کو ہدایت اور صراط مستقیم قرار دیا۔

کیا مدعیانِ محبتِ سیدنا علیؓ کو جھنجوڑنے کے لیے اس سے زیادہ قوت کی بھی ضرورت ہے یاد رہے کہ یہ خطبہ سیدنا علیؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں مجمع عام میں دیا جب انہیں پورا اقتدار حاصل تھا کوئی خوف و خطر نہ تھا کہ تقیہ کرنے کی ضرورت ہو۔

(3)۔ شافی جلد 2 صفحہ 428:

روی ابو حجفه و محمد بن علی و عبد خیر وسوید بن غفله وابو حکیم وغیرھم وقد قیل اربعۃ عشر رجلا ان علیا علیه السلام قال فی خطبته خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکر و عمر وفی بعض الاخبار انه علیه السلام خطب بذلک بعد ما انھی الیه ان رجلا تناول ابابکرؓ و عمرؓ بالشتمۃ قدعا به وتقدم بعقوبۃ بعد ان شھدوا وا علیه بذلک۔

ترجمہ: اور کہا گیا کہ 14 آدمیوں روایت ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا نبی کریمﷺ کے بعد اس امت میں سب سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں بعض روایات میں ہے کہ آپ نے یہ خطبہ اس وقت لیا جب ان کو اطلاع ملی کہ کسی (شیعہ) نے شیخینؓ کو گالیاں دیں سیدنا علیؓ نے اسے طلب فرمایا شہادت لی اور اسے سبِ و شتم کرنے کی سزا دی۔

  1. اس خطبہ میں سیدنا علیؓ نے اپنا عقیدہ بیان فرمایا کہ امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔
  2.  یہ خطبہ اس وقت دیا جب آپ کو اطلاع ملی کہ کسی نے شیخینؓ پر سبِ و شتم کیا ہے یعنی آپ کو ایسے نابکاروں سے بھی واسطہ پڑا جو آپؓ کی محبت کا دم کرتے ہیں اور آپؓ کے محبوبوں کو گالیاں دیتے ہیں۔
  3. آپؓ نے اسے طلب فرما کر شہادت لے کر سزا دی یعنی حجرت سیدنا علیؓ کے نزدیک شیخینؓ پر سبِ و شتم کرنا قابلِ تعزیر جرم ہے آج اگر سیدنا علیؓ ہوتے تو ان کے مواخذہ اور اس جرم کی سزا بھلا کوئی بچ سکتا تھا مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ امام ایک کام کو جرم قرار دیتے ہیں اور امام کی پیروی اور محبت کا دم بھرنے والے اسی کام کو عبادت سمجھتے ہیں۔

ببیں تفاوت راہ ازکجاست تایکجا۔

شافی جلد 1 صفحہ 171 سیدنا علیؓ کا ارشاد:

خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکرؓ و عمرؓ وفی بعض الاخبار ولوا شاء اسمی الثالث لفعلت۔

ترجمہ: نبی کریمﷺ کے بعد اس امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں بعض روایات میں ہے کہ اور اگر میں ایسا چاہوں کہ تیسرے کا نام لوں تو ایسا کر سکتا ہوں۔

اب اگر کوئی کہے کہ یہ تو امام نے تقیہ کر کے کہا تھا تو اسے کہنا چاہیے کہ تم بھی تقیہ کر کے ہی صحیح فضیلت کا اقرار کر لو ایک تو تقیہ کا ثواب لو دوسرے امام کی اتباع کا ورنہ تقیہ یہ ثواب سے محروم اور امام کے باغی شمار ہو گے۔