تفسیر آیات رضوان
مولانا اللہ یار خانؒتفسیر آیات رضوان
لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا۞ (سورة الفتح آیت نمبر 18)۔ل
وَّمَغَانِمَ كَثِيۡرَةً يَّاۡخُذُوۡنَهَا ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا ۞ (سورة الفتح آیت نمبر 19)۔
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيۡرَةً تَاۡخُذُوۡنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمۡ هٰذِهٖ وَكَفَّ اَيۡدِىَ النَّاسِ عَنۡكُمۡۚ وَلِتَكُوۡنَ اٰيَةً لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًاۙ ۞(سورة الفتح آیت نمبر 20)۔
وَّاُخۡرٰى لَمۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَيۡهَا قَدۡ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَاؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرًا ۞ (سورة الفتح آیت نمبر 21)۔
وَلَوۡ قَاتَلَـكُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيۡرًا ۞(سورة الفتح آیت نمبر 22)۔
سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِىۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۖۚ وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبۡدِيۡلًا ۞ (سورة الفتح آیت نمبر23)۔
ترجمہ: بالتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپﷺ سے درخت (شجرۃ) کے نیچے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا اللّٰہ کو وہ بھی معلوم تھا پس اللہ تعالیٰ نے ان میں اطمینان پیدا کر دیا اور ان کو ایک لگتے ہاتھ فتح دے دی اور (اس فتح میں) بہت سی غنیمتیں بھی (دیں) جن کو یہ لوگ لے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بڑا حکمت والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لو گے سردست تم کو یہ دیدی ہے اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے تاکہ یہ (واقعہ) اہلِ ایمان کے لیے ایک نمونہ ہو جائے اور تاکہ تم کو ایک سیدھی سڑک پر ڈال دے اور ایک فتح اور بھی ہے جو تمہارے قابو میں نہیں آئی خدا تعالیٰ اس کو احاطہ میں لیے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اگر تم سے یہ کافر لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگتے پھر نہ ان کو کوئی یار ملتا نہ مددگار اللہ تعالیٰ نے (کفار کے لیے) یہی دستور رکھا ہے جو پہلے چلا آ رہا ہے اور آپ خدا کے دستور میں رد و بدل نہ پائیں گے۔
ان آیاتِ کریمہ میں رب العالمین نے رسول اکرمﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت کرنے والوں کو چند دینی اور چند دنیاوی انعامات سے نوازا دینی انعامات کا اس پاک کتاب قرآنِ کریم میں اعلان فرمایا اور دنیوی انعامات کا بطورِ پیشنگوئی وعدہ فرمایا۔
روض الانف جلد 2 صفحہ 235:
و فی روايت عن جابرؓ كانوا الفا خمس مائة قال سلمه بن الاكوعه بايعنا رسول اللهﷺ على الموت۔
ترجمہ: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ وہ (حدیبیہ والے) 1500 تھے سیدنا سلمہؓ بن الاکوعہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کریمﷺ کے ہاتھ پر جان دینے کی بیعت کی۔
ان پندرہ سو بیعت کرنے والے صحابیوں کے ایمان کی شہادت رب العالمین نے دی ہے ایمان تو بیعت سے پہلے بھی تھا ان کے ایمان کا اعلان کیا اور بتایا کہ میں ان کے ایمان کا شاہد ہوں اور قرآنِ کریم میں اعلان کر رہا ہوں کہ قرآنِ کریم قیامت تک ان کے ایمان کی شہادت دیتا چلا جائے گا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ جس کے ایمان کی شہادت خدا تعالیٰ دے اس سے بڑھ کر کون اور شاہد ہو سکتا ہے؟ کوئی ایماندار جس کا ایمان قرآن پر ہے وہ ہرگز شک نہیں کر سکتا بلکہ قرآنِ کریم کی ان آیاتِ کریمہ کے اعلان کے بعد بھی جو شخص بیعت کرنے والوں کے ایمان میں یا ان کے اسلام میں شک کرتا ہے وہ حقیقتاً ان کے اسلام و ایمان میں شک نہیں کر رہا بلکہ وہ قرآنِ کریم کو مشکوک کہہ رہا ہے جس سے ایمان جاتا رہتا ہے اور وہ وعدہ خداوندی کو جھٹلا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کے ایمان کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اعلان کیا ان کا خاتمہ یقیناً بالایمان ہوگا العیاذ باللہ اگر اسی اعلان کے بعد ان کا خاتمہ بالایمان نہ ہو تو پھر باقی مخلوق کے ایمان کی تو خیر ہی کہاں؟۔
2۔ رب العالمین نے ایمانی شہادت کے بعد ان پر اپنی رضامندی کا اعلان بھی کیا گو راضی تو پہلے بھی تھا رضامندی کا اعلان اس بیعت کے بعد فرمایا اور یہ امر ظاہر ہے کہ جس پر خدا تعالیٰ راضی ہو محض راضی نہیں بلکہ رضامندی کا قرآنِ کریم میں اعلان بھی کر دیا ہے ان کا خاتمہ باکمل الایمان ہی ہوگا اور رضامندی بھی بہ حرف تاکید کے جو لقد ہے قد ہی تاکیدیہ اور اس پر لام بھی ابتدائیہ تاکیدیہ داخل کیا پھر رضامندی بھی صیغہ ماضی سے بیان فرمائی کہ یہ بیعت کرنے والے میرے ازلی محبوب ہیں میں ان سے پہلے سے راضی ہوں خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا اور میری رضامندی سے ہی دنیا سے جائیں گے خدا تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے دلوں کا مالک ہے ہم آج کسی سے راضی ہوتے ہیں اور کل اسی سے ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں آئندہ کے واقعات سے واقفیت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ نے دل بنائے ہیں اور ان کے رازوں سے بھی خوب واقف ہے دیکھیے ابلیس لعین نے کئی ہزار سال عبادت کی مگر رضامندی کا اعلان اس کے متعلق نہیں فرمایا
صد ہزاراں سال ابلیس لعین
بوداز ابدال امیر المومنین
یاد رہے خداوندِ قدوس کی رضامندی کا نام ہی جنت ہے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور جنت محلِ رضا ہے۔
3۔ اپنی رضامندی کے ساتھ بیعت کا ذکر بھی فرمایا حالانکہ رسول اللہﷺ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی متعدد بار بیعت ہوئی مگر قرآنِ کریم میں اس مبارک بیعت کا ایک ہی ذکر فرمایا اس بیعت کی شان اور بیعت کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے اس مبارک شجر کا بھی ذکر فرمایا علامہ باذل شیعہ نے حملہ حیدری جلد 1 صفحہ 215 پر خوب فرمایا:
رسول موید بہ نیروے بخت بیاید سوۓ سایہ آں درخت
بروتکیہ فرمود خیر البشر بہ عزت ز طوبیٰ گزشت آن شجر۔
ترجمہ: رسول اللہﷺ کے تکیہ فرمانے سے اس درخت کی شانِ طوبیٰ درخت سے بھی بڑھ گئی علامہ بازل کے اس قول سے ایک عجیب بات ثابت ہوئی کہ رسول اللہﷺ کے جسمِ اطہر اس برکت و تقدس کا حامل تھا کہ جس چیز سے لگتا تھا اس کی شان بھی دوبالا کر دیتا تھا جب رسولِ اکرمﷺ کے جسمِ اطہر کے مس کرنے سے اس شجر کی شانِ طوبیٰ درخت سے بڑھ گئی تو جن جن انسانوں سے آپ کا وجود مبارک لگا جیسے امہات المومنینؓ ہوئی ان کی کیا شان ہوگی سبحان اللہ۔
سوال: مخالفین حضرات جن کا ایمان قرآنِ کریم پر نہیں ہے کہتے ہیں کہ یہ رضامندی وقتی تھی نہ کہ دائمی بلکہ ایک فعل پر تھی رضامندی کا تعلق فعل سے ہے نہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات سے اور وہ فعل "اذیبایعونک" تھا بیعت کے فعل پر راضی ہوا فعل ایک وقتی چیز تھی رضامندی بھی وقتی تھی رضامندی کی علت اذ تعلیلیۃ ہے لہٰذا متعلق رضا فعل بیعت ہوا نہ کے ذاتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب ذاتوں پر راضی نہ ہوا تو جنتی نہ ہوئے بدیں وجہ آیت وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَـٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَـٰنٍ۬ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنۡہُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ الخ۔ (سورة توبہ آیت نمبر 100)۔ میں بھی رضا کا تعلق فعل ہجرت و نصرت سے ہے نہ کہ ذاتوں سے رضا کا تعلق فعل ہجرت و نصرت ہوا وہ وقت تھا رضا بھی وقتی تھی یہ تقریر سوال علامہ عبداللہ مشہدی نے اپنی کتاب "اظہار الحق" میں کی ہے اور بندہ پر بھی مناظرہ میں یہ سوال ہوا تھا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ دخولِ جنت رضاء الہٰی پر موقوف ہے مگر رضا کا باقی رکھنا حسنِ خاتمہ پر موقوف ہے اور بقائے ایمان پر اور عدم صدور اعمال محبطہ پر۔
الجواب: اول مناظرہ میں جو جواب دیا تھا وہ یہ تھا کہ بہرحال خدا تعالیٰ راضی ہو گیا جب راضی ہوگیا اور جن پر راضی ہوا وہ اہلِ ایمان جنتی مقبول خدا ہوئے "ورضوان من الله اكبر" خداوندِ کریم کی تھوڑی رضامندی بھی بہت بڑا انعام ہے رضا مندی سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں ہے۔
جواب دوم: یاد رہے تعلقِ رضا کی علت فعلِ بیعت نہیں بلکہ "فٙعٙلِمٙ مٙا فِیْ قُلُوْبِهِمْ" ہے خدا تعالیٰ علام الغیب ہے جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے وہ دلوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے بیعتِ رضوان والوں کے دلوں کے رازوں کو جان کر اعلانِ رضامندی فرمایا ظاہری فعل پر تو وہ راضی ہوتا ہے جو اسرارِ قلوب سے جاہل اور انجام کار سے بے خبر ہو کیا خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ ان کے دلوں میں خلاف فعل ظاہر کچھ اور ہے یا علم نہ تھا اگر تھا تو ظاہر ہے کہ دھوکہ بازی ہوئی معاذ اللہ پھر خدا تعالیٰ کے کسی وعدہ پر اعتبار ہی نہ رہ اگر علم نہ تھا تو پھر خدا تعالیٰ معذور ہوا مگر ایسے خدا سے پناہ جس کو انجام کا علم بھی نہ ہو۔
سوم: رضامندی وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے دوسری آیت
وَٱلسَّابِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَاجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَانٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنۡہُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ الخ۔ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 100) اور اس آیت میں تعلق رضاء کی علت سبقت ہجرت و نصرت کو قرار دیا جیسا مفسرین بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سابق فی الہجرۃ ہیں جو ہمرہ رسول خدا ہوئے۔
لا شك ان ابابكرؓ سابق الى الهجرات فهو من السابقين وقد اخبر الله تعالىٰ رضی الله تعالىٰ عنه ای ابی بكرؓ ولا شك ان الرضی معلل بالسبق الى الهجره فتدوم بدوامها فدل ذلك أی صحت ايمانه وامامته وعدم جواز الطعن عليه۔
ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ سابق فی الہجرت ہیں پس وہ سابقینِ اولین مہاجرین سے ہوئے اور خبر دی اللہ تعالیٰ نے کہ وہ ان پر راضی ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ رضا کی علت سبقت ہجرت و نصرت ہے رضامندی دائمی ہوگی کیونکہ ہجرت دائمی ہے پس آیتِ قرآنی سیدنا ابوبکرؓ کے ایمان کی صحت پر خلافت کے صحیح ہونے پر اور طعن کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
خوب یاد رکھیں ہجرت و نصرت اور بیعت یہ عنوان نہیں بلکہ معنون ذاتِ اصحابِ رسولﷺ ہیں باری تعالیٰ کی رضامندی کا تعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات سے ہے ہجرت نصرت اور بیعت تعلقِ رضا کے علت ہیں نہ کہ متعلق لہٰذا یہ کہنا کہ یہ بیعت یا ہجرت و نصرت کے فعل پر راضی ہوا تو قرآنِ کریم سے جہالت کی دلیل ہے باقی رضامندی کا دوام حسنِ خاتمہ اور بقائے ایمان پر رہا ٹھیک ہے جب خدا تعالیٰ نے بیعتِ رضوان والوں کے ایمان کی شہادت دے کر رضامندی کا اعلان فرمایا تو خدا تعالیٰ کو ان کے حسنِ خاتمہ اور بقاءِ ایمان کا آخر عمر تک علم تھا تب ہی تو ایمان پر اعلان فرمایا دلوں کو جانتا تھا اعلان رضامندی میں ان کے خاتمہ بالخیر کی زبردست دلیل ہے آپ کے بے مغز خرافات چند منٹوں کے لیے فرضی طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ فعل پر راضی ہو گیا تو ابھی ایمانی شہادت کے بعد رضامندی کا اعلان فرمایا لَّقَدۡ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ الخ (سورة الفتح آیت نمبر 18)۔ رضا مندی کا اعلان مومن کے لیے فرمایا جس طرح ایمان کا تعلق دائمی ہے آیت میں عموم ہے اس کا کوئی مخصص موجود نہیں ہے اگر ہے تو پیش کریں یاد رکھیں آیت بیعتِ رضوان والوں کے ایمان اور رضامندی کا قطعی طور پر اعلان کر رہی ہے مدلول مطابقی آیت کا ایمان اور رضامندی باری تعالیٰ ہے اب کوئی خبرِ واحد اس کے مقابلہ میں پیش کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے خبرِ واحد اپنے مافوق سے ٹکرا کر خود پاش پاش ہوگی۔
جب بیعتِ رضوان والوں سے کوئی عمل صادر نہیں ہوا جو کہ محبط عمل بنے چہ جائیکہ محبط ایمان ہو اس آیت کے مقابلہ میں فدک کا قصہ پیش کرنا اور حدیثِ قرطاس دہرانا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے یہ قصے مخصص آیتِ قرآنی نہیں ہیں لہٰذا 15 صد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مومن ہونا خدا تعالیٰ کا ان پر راضی ہونا اور ان کا جنتی ہونا اس آیتِ کریمہ سے اظہر من شمس ثابت ہو گیا فھو مقصود ہاں جو شخص بوجہ عناد و عداوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن کرے اسے قرآن سے اس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان اور رضامندی کے اعلان کے بعد عدمِ رضا اور حبط ایمان کا اعلان کیا ہو حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں بھی اعلان فرما دیا:
"انتم خير اهل الارض" تم پوری زمین پر بسنے والوں میں سب سے افضل ہو۔
انعامِ سوم: فٙعٙلِمٙ مٙا فِیْ قُلُوْبِهِمْ ای من الصدق والوفا۔
یعنی ان کے دلوں میں صدق و حق تھا اور بیعت پر وفا کرنا تھی۔
انعام چہارم: فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ قال ابنِ عباس كل سكينة فی القرآن فهی طمانية۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا اعلان ہے کہ قرآنِ کریم میں جہاں کہیں سکینہ کا ذکر آیا ہے اطمینان مراد ہے یعنی اطمینان قلبی قرآنِ کریم نے ان کے ایمان اکمل کی شہادت دے کر اور رضامندی کا اعلان کر کے بعد میں ان کے قلوب پر سکینہ نازل فرما کر دلوں کو مطمئن فرما دیا کہ پھر ایمان میں کسی قسم کی جنبش پیدا نہ ہو جس شخص کا قرآنِ کریم کی اس آیت فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ پر ایمان ہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ہرگز طعن نہیں کر سکتا اگر ان میں بیعت کے بعد کوئی خرابی پیدا ہو تو یقیناً یہ جملہ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ کا وعدہ غلط ہو جائے گا معاذاللہ۔
انعامِ پنجم: وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًاۙ فرمایا بیعتِ رضوان والوں کا ہادی و رہبر ہوں اور ظاہر ہے کہ جس کا ہادی و رہبر خدا تعالیٰ ہو اس کو گمراہ کرنے والا کون ہے۔
فمن يهده الله فهو المهتد یہ ہے نتیجہ نماز پنجگانہ کی دعا کا "ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٲطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ صِرَٲطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ" فاتحہ میں دعا بتائی آخر میں وعدہ فرمایا کہ میں تمہارا ہادی ہوں اور وعدہ بھی بصیغہ مضارع فرمایا کہ اب بھی میں ہادی ہوں اور آئندہ بھی میں ہی ہوں گا لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آئندہ گنہگار ہونے کا الزام غلط ہوا اس الزام کو درست مان لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کے آئندہ کے حالات سے واقف نہیں تھا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔
بہرحال اس آیتِ قرانی سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہدایت یافتہ ہونا ثابت ہوگیا جو شخص ان کے گمراہ ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے وہ قرآنِ کریم کی اس آیت کی تکذیب کرتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے سے بیعتِ رضوان میں شامل ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر پانچ انعامات کا اعلان فرمایا۔
- ان کے ایمان کی شہادت۔
- رضائے خداوندی۔
- ان کے دلوں میں صدق و صفا کے موجودگی۔
- طمانیہ قلب۔
- ان کی ہدایت کی ذمہ داری اور ان کا ہدایت یافتہ ہونا
اگر عصمتِ انبیاء کی ذات سے مخصوص نہ ہوتی تو بیعتِ رضوان والوں کو معصوم کہنا کچھ بعید نہ تھا اب پانچ دنیاوی انعامات کا ذکر ہوتا ہے۔
1۔ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا۞ (سورة الفتح آیت نمبر 18)۔
یعنی فتح خبر
قيل اقام النبیﷺ بالمدينه بعد الرجوع من الحديبية عشر ليال اوخمسة عشر وقيل عشرين ليلة۔
ترجمہ: حدیبیہ سے واپسی کے بعد حضور اکرمﷺ نے مدینہ طیبہ میں دس یا پندرہ یا بیس دن قیام کیا۔
اس کے بعد خیبر پر حملہ کر دیا اور فتح ہوئی اس لیے فتح قریب سے یہی مراد ہے۔
2۔ وَمَغَانِمَ كَثِيْرَةً يٌَاْخُذُوْنَهَا ای من اموال يهود خيبر وكانت خيبر ذات عقار واموال و ذات نخيل فقسمها رسول اللهﷺ بينهم۔
ترجمہ: اور بہت غنیمتیں جن کو وہ لیں گے یعنی خیبر کے یہودیوں کے اموال اور خیبر پر زرخیز جگہ جہاں کھجوروں کے باغات تھے نبی کریم نے یہ اموال ان میں تقسیم کر دئیے۔
3۔ وَعَدَكُمُ ٱللَّهُ مَغَانِمَ ڪَثِيرَةً۬ تَأۡخُذُونَہَا فعجل لكم هذه وكف ايدی الناس عنكم ولتكون آية للمؤمنين وهی المفتوح التی يفتح لهم الى يوم القيامة فيه تسلية للمؤمنين انصرافهم من مكة بصلح فعجل لكم هذه يعنی فتح خيبر وآيت المؤمنين يعنی ولتحصل من بعدكم آية تدلهم على ان ما وهبكم الله تحصيل مثله لهم۔
ترجمہ: وعدہ کیا اللہ نے تم سے بہت غنیمتوں کا کہ تم ان کو لو گے سو جلدی پہنچا دی تم کو یہ غنیمت اور روک دیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے اور تاکہ ایک نمونہ رہے قدرت کا مسلمانوں کے واسطے یہ وہ فتوحات ہیں جو انہیں قیامت تک حاصل ہوتی رہیں گی اس میں اہلِ ایمان کی تسلی کا سامان ہے کیونکہ وہ مکہ سے صلح کر کے واپس ائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ یعنی فتح خیبر کا سامان جلدی کر دیا۔
4۔ وَأُخۡرَىٰ لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا قَدۡ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِہَاۚ قال ابنِ عباسؓ هی فارس و الروم وما كانت العرب تقدر على قتال فارس والروم بل كانوا حولا لهم حتىٰ اقدرهم الله تعالىٰ عليهم بشرف الاسلام (خازن)۔
ترجمہ: اور ایک فتح اور جو تمہارے بس میں نہ آئی وہ اللہ کے قابو میں ہے سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں اس سے مراد فارس اور روم ہیں کیونکہ وہ فارس اور روم کے ساتھ جنگ کرنے پر قادر نہ تھے حتیٰ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ان پر قدرت عطا فرما دی۔
5۔ وَلَوۡ قَـٰتَلَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوَلَّوُاْ ٱلۡأَدۡبَـٰرَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّ۬ا وَلَا نَصِيرً۬ا (سورۃ الفتح آیت نمبر 22)۔
ان پانچ انعامات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بیان فرمایا: سُنَّةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى قَدۡ خَلَتۡ مِن قَبۡلُۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبۡدِيلاً (سورۃ الفتح آیت نمبر 23)۔
ترجمہ: اللہ کا یہ طریقہ پہلے سے چلا آرہا ہے اور اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی.
يعنی سن الله سنت غلبة اوليائه وانبيائه على اعدائه قال الله تعالىٰ لاغلبن انا ورسلی۔
ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے اس کے انبیاء اور اولیاء کو اس کے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکم ازلی میں) لکھ دی ہے:
وقال فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَـٰلِبُونَ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 56)۔
اور وقال بِـَٔايَـٰتِنَآ أَنتُمَا وَمَنِ ٱتَّبَعَكُمَا ٱلۡغَـٰلِبُونَ (سورۃ القصص آیت نمبر 35)۔
وقال تعالىٰ وَكَانَ حَقًّا عَلَيۡنَا نَصۡرُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ (سورۃ الروم آیت نمبر 47)۔
وقال تعالیٰ وَكَفَى ٱللَّهُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱلۡقِتَالَۚ ألخ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 25)۔
ترجمہ: کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ غالب ہے اور اہلِ ایمان کا غالب کرنا ہمارے ذمہ تھا اور جنگ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے آپ ہی کافی ہو گیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وعدے کس زمانے میں اور کس کے ہاتھ پر پورے ہوئے وہی خلیفہ اللہ ہوا وہی خلیفہ رسول ہوا وہی امیر المومنین ہوا اور حدیبیہ والوں کو مخاطب کر کے جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کا مصداق وہی شخص ہوا اس کے خلیفہ برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا تاریخ شاہد ہے کہ حضور اکرمﷺ کے زمانے میں وہ فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور فتح خبر اور فتح مکہ آنے والے فتوحات کا پیش خیمہ اور مقدمہ تھی مگر اسلام نے جزیرہ عرب سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ البتہ خلفائے ثلاثہؓ کے زمانے میں بیرون عرب فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور انہیں کے مبارک عہد میں کفر کی پر شوکت اور مستحکم سلطنتیں اسلام کے زیرِ نگین آئیں اور وہ روم اور ایران کی سلطنتیں تھی ان غیر مسلم قوتوں کو قرآنِ کریم نے أُوْلِى بَأۡسٍ شَدِيدٍ الخ (سورۃ بنی اسرآئیل آیت نمبر 5)۔ اور وَأُخۡرَىٰ لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا الخ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 21)۔ سے ظاہر فرمایا ان شدید قوتوں کے ساتھ خلفائے ثلاثہؓ کے زمانہ میں اسلام کی ٹکر ہوئی اور بفضلِ اللہ انہیں حضرات کے ہاتھوں یہ سلطنتیں پاش پاش ہو گئیں حضور اکرمﷺ کے بعد علی اتصال یہ خلافتیں قائم ہوئی اور انہوں نے کفر کا زور توڑا جس سے ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ سارے وعدے خلفائے ثلاثہؓ کے زمانے میں پورے ہوئے۔
حدیبیہ والوں کے لیے ان وعدوں کے پورا ہونے کی صورت نبی کریمﷺ کے مبارک ہاتھوں سے یوں شروع ہوئی۔
1۔ فَعَجَّلَ لَكُمۡ هَـٰذِهِ الخ (سورۃ الفتح آیت نمبر 20)۔ کے مطابق حضور اکرمﷺ نے مغانم خیبر کی تخصیص بیعتِ رضوان والوں سے کردی اور یہ اموال صرف انہی حضرات میں تقسیم فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا تھا کہ قال تعالی:
سَيَقُولُ ٱلۡمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقۡتُمۡ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأۡخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعۡكُمۡۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُواْ كَلَـٰمَ ٱللَّهِۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا ڪَذَٲلِكُمۡ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبۡلُۖ فَسَيَقُولُونَ بَلۡ تَحۡسُدُونَنَاۚ بَلۡ كَانُواْ لَا يَفۡقَهُونَ إِلَّا قَلِيلاً (سورۃ الفتح آیت نمبر 20)۔
ان المؤمنين انصرفوا من الحديبيه على صلح من غير قتال ولم يصيبوا من الغنائم شيئا وعدهم الله عزوجل فتح خيبر وجعل غنائمها لمن شهد الحديبيه خاصة عوضا عن غنائم اهل مكه حيث انصرفوا عنهم ولم يصيبوا منهم شيئا
قال تعالىٰ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُبَدِّلُوْا كَلَامَ اللّٰهِ ای يريدون ان يغيروا ويبدلوا مواعيد الله لاهل الحديبية حيث وعدهم الله غنيمة خيبرلهم خاصه وهذا قول جمهور المفسرين۔
ترجمہ: جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ عنقریب جب تم (خیبر کی) غنیمتیں لینے چلو گے کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے ساتھ چلیں وہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ خدا کے حکم کو بدل ڈالیں آپ کہہ دیجئے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی یوں فرما دیا ہے تو وہ لوگ کہیں گے بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ خود یہ لوگ بہت کم بات سمجھتے ہیں۔
حدیبیہ سے مسلمان جنگ کے بغیر صلح کر کے لوٹ گئے کوئی غنیمت ہاتھ نہ آئی اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر کا وعدہ فرمایا اور خیبر کے غنائم حدیبیہ والوں کے لیے مخصوص کر دیے یہ گویا اس کے بدلے میں تھا کہ وہ حدیبیہ سے غنیمت حاصل کیے بغیر لوٹے تھے۔
وہ لوگ خدا کی بات بدلنا چاہتے ہیں یعنی یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والوں سے خیبر کی غنیمت کا جو وعدہ کیا ہے وہ ان کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے اس وعدہ کو بدل دیں یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔
اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
اول: یہ کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال کے غیر محفوظ ہونے کا عذر کر کے بیٹھ گئے اور حدیبیہ کی نعمت اور بیعتِ رضوان کی فضیلت سے محروم ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ نے معیتِ رسولﷺ سے منع فرمایا کہ تم آئندہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ ہو کر کسی قوم سے جہاد نہیں کرو گے۔
دوم: فتوحاتِ خیبر کے غنائم سے کوئی حصہ حاصل کرنا غیر اہلِ حدیبیہ کے لیے حرام قرار دیا ہے حضور اکرمﷺ ہی مراد ہوتے تو لم تقدروا کی جگہ لم تقدر ہوتا صیغہ جمع کا ہے مفرد کا نہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ قومیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے أُوْلِى بَأۡسٍ شَدِيدٍ الخ۔ (سورۃ بنی اسرآئیل آیت نمبر 5)۔ اور لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا الح۔(سورۃ الفتح آیت نمبر 21)۔ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں فارس اور روم کی سلطنتیں ہیں یہ وعدہ ان لوگوں کے ہاتھوں پورا ہوا جنہوں نے بیعتِ رضوان میں حصہ لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا جس خلیفہ کے عہد میں یہ وعدہ پورا ہوا وہ اس آیت کا موعود لہ ہوگا یہ امر بھی مخفی نہیں کہ ایران اور روم کی سلطنتیں حضورﷺ کے عہد میں فتح نہیں ہوئی بلکہ خلفائے ثلاثہؓ کے زمانہ میں اسلامی سلطنت میں شامل ہوئیں اس لیے ثابت ہوگیا کہ اس آیت کا مصداق خلفائے ثلاثہؓ ہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف علامہ باذل نے حملہ حیدری میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ دعوت العشیرہ کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کے سامنے بطورِ پیشگوئی فرمایا تھا۔
(حملہ حیدری جلد 1 صفحہ 12 طبع ایران)۔
کہ اے عم چہ بدمی کنم بقوم رہے می نمائم ک یوماً فی یوم
بیابد ازاں حکم ایشاں رواج ستاننداز خسرواں ساج و باج
نہ ملک عرب تادیار عجم گذا رند برحکم ایشاں قدم
ترجمہ: (حضور ﷺ نے فرمایا) چچا جان! میں اپنی قوم کے ساتھ کون سی برائی کر رہا ہوں میں تو انہیں روز بروز ہدایت کی راہ دکھا رہا ہوں ایک دن آئے گا کہ ان کا حکم دنیا میں جاری ہوگا اور سلاطین دنیا ان کے باجگزار ہوں گے عرب و عجم ان کے تابع فرمان ہوگا اور اسی کتاب کے صفحہ نمبر 28 پر ابو طالب کی وفات کے وقت ان کی زبانی بیان کیا کہ
چنیں دیدہ ام من بچشم یقین کہ دینش بگیرد سراسر زمین
نہ ملک عرب تا دیار عجم درآید بفرمان اویک قلم۔
ترجمہ: (ابو طالب نے کہا) میں نے نگاہِ یقین سے دیکھا ہے کہ حضورﷺ کا دین عرب و عجم میں پھیلے گا اور انہی کا حکم دنیا میں چلے گا۔
علامہ باذل ایرانی مجتہد شیعہ نے ان اشعار میں دو باتوں کا اعتراف کیا ہے۔
اول: یہ کہ رسول اللہﷺ کا دین پوری دنیا میں پھیلے گا۔
دوم: یہ کہ مسلمان عرب و عجم کے مالک ہوں گے تو یہ پیش گوئی اور خدا کا وعدہ خلفائے ثلاثہؓ کہ عہد میں پورا ہوا اس کا نقشہ بھی علامہ بازل نے یوں پیش کیا ہے:
چناں شد کہ یک شب بعلمِ نجوم چنیں گشت معلوم والی ءروم
کہ از گردش نیلگوں آسماں رود ملک از دست عیسائیاں
شونداز کساں درجہاں بادشاه کہ دردین شاں ختنہ باشدروا
بروز دگربامداواں پگاه برآمد براندیشہ قیصر بکاه
طلب کردپس نزد خود در زمان حکیماں دا انجیل واں راہباں
چوکردند آن خبر داں انجمن درآمد شہ رومیاں درسخن
بگفت آنکہ از گردش اختراں چنیں گشتہ بردانش من عیاں
کہ برکشورما بزودی شوند مسلط گروہے کہ ختنہ کنند۔
ترجمہ: ہوا یوں قیصر روم کو ایک رات علمِ نجوم کے ذریعے معلوم ہوا کہ عیسائیوں کا ملک ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ قوم بادشاہی کرے گی جن کے ہاں ختنہ کا رواج ہے دوسرے دن صبح اس نے دانشوروں اور علماءِ انجیل اور راہبوں کو دربار میں بلایا جب یہ لوگ جمع ہوئے تو بادشاہ نے کہا کہ مجھے گردشِ آسمانی سے معلوم ہوا ہے کہ بہت جلد ہمارے ملک پر ایک ختنہ شدہ قوم مسلط ہو جائے گی۔
قیصر روم اپنے کواب کی تعمیر معلوم کر ہی رہا تھا کہ سیدنا دحیہؓ کلبی حضور انورﷺ کا دعوت نامہ لے کر اس کے دربار میں پہنچے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ہوجا ورنہ ساری رعیت کا گناہ تجھ پہ ہوگا۔
تاریخ شاہد ہے کہ رومی سلطنت خلفاء ثلاثہؓ کے عہد میں اسلام کی زیرِنگیں آئی اور خلفائے ثلاثہؓ کے جانشین رسول اللہﷺ اور خلیفہ برحق ہونے کی گواہی آسمان کے ستاروں نے بھی دے دی۔
ملاباقر مجلسی نے حیات القلوب میں بھی قیصر روم کے خواب کا ذکر قریباً انہیں الفاظ میں کیا ہے:
واما قیصر روم او ہرقل بادشاہ روم بود گفت درخواب دیدم کہ بادشاہ ختنہ کنندگان ظاہر گردید است۔ (جلد 2 صفحہ 509)۔
3۔ حضور اکرمﷺ نے مقوقس مصر کو جو دعوت نامہ بھیجا اس کے متعلق علامہ بازل نے لکھا ہے:
بود وصف آن خاتم انبیاء کہ عیسی خبر داده ازوۓ بماشود تابع او جہاں سر بسر چہ ازیں ملک وچہ ملکہائے دگر۔
ترجمہ: (مقوقس نے کہا) کہ جو اوصاف تم نے بیان کیے ہیں یہ شخص تو خاتم انبیاء ہوگا اس کی خبر عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیں دی ہے مصر اور دوسرے ممالک اس کے تابع فرمان ہوں گے۔
جب قاصد وآپس آیا شاہِ مصر کا جواب حضور اکرمﷺ کو سنایا:
بفرمودرحق ادایں حدیث بخیلی بملکش نمود آن خبیثولے آنکہ از قدرت ذوالجلال نمی مانداز ملک بروئے بحالشنیدم کر در عہد عادل عمرؓ مقوقس رواں شد بقعر سقربتائید وفضل جہاں آفرین نملکش مسلط شدند اہلِ دیں۔
ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا کہ اس خبیث کے قبضہ میں کچھ عرصہ تک رہے گا پھر اللہ کی قدرت سے اس کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
میں نے سنا ہے کہ عادل سیدنا عمرؓ کے عہد میں مقوقس مصر واصلِ جہنم ہوا اور تائید ایزدی اور فضلِ ربانی سے اہلِ دین اس پر قابض ہو گئے۔
(حملہ حیدری جلد 1 صفحہ 236)۔
فائدہ: حضور اکرمﷺ کی یہ پیش گوئی سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے زمانے میں پوری ہوئی جن کو رسول اللہﷺ نے دیندار کے لفظ سے یاد فرمایا اور علامہ باذل نے عادل عمرؓ کہا۔
4۔ حضور اکرمﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد کسریٰ ایران کو دعوت نامہ لکھا اس نے دعوت نامہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور پاؤں تلے مسل دیا پھر حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ جاؤ اور نبی عربی کو گرفتار کر کے لے آؤ باذان نے فیروز دیلمی کو فوجی دستہ دے کر مدینہ روانہ کیا اس واقعہ کو علامہ باذل نے بیان کیا ہے۔
شما سوئے بازان گردید بار کہ کوتاه شد آن آرزوئے درازبگوئید اول جواب سلام رسانید آنکہ زمن ایں پیامکہ از قدرت قادر ذوالجلال شود پاک گیتی زکفر و ضلالہم اہل ایران واہل یمن بزودی در آئند دردین من۔
ترجمہ: تم بازان گورنر کے پاس لوٹ جاؤ تمہاری آرزو تو پوری نہیں ہوئی اسے سلام کا جواب دو اور میرا پیام سناؤ کہ اللہ کی قدرت سے زمین کفر اور گمراہی سے پاک ہو جائے گی تمام ایرانی اور یمنی بہت جلد میرے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ (حملہ حیدری جلد 1 صفحہ 235)۔
اور ملاباقر مجلسی نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے
اما کسریٰ پس چوں نامہ حضرت راخواند نامہ را درید و حضرت اور انفریں کرد کہ ملک ایشاں بزودی زائل شود و چناں شد۔(حیاۃ القلوب جلد2 صفحہ 511)
پھر لکھا ہے مشت خاک از برائے حضرت فرستاد حضرت فرمود کہ امت من بزودی مالک زمین او خواہد شد۔(حیاۃ القلوب صفحہ 512)
ان ہر دو شیعہ علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ ایران اور یمن کو جلد میری امت فتح کرے گی اور میرا دین وہاں پھیلے گا اور علامہ باذل نے تسلیم کیا کہ یہ زمین عادل سیدنا عمرؓ کے ہاتھوں کفر و ضلال سے پاک ہوئی اور ان کے ہاتھوں وہاں دین اسلام پھیلا جیسے رسول اللہﷺ نے دین من فرمایا تھا اور ظاہر ہے کہ دیندار کے ہاتھوں ہی کوئی زمین کفر و ضلال سے پاک کی جا سکتی ہے ثابت ہوا کہ آیت مدرجہ بالا میں فتوحات کے متعلق قرآنِ کریم کی تمام پیشگوئیاں خلفائے ثلاثہؓ بالخصوص سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھوں پوری ہوئیں گویا اس فاتحِ اعظم کا ہاتھ رسولﷺ کا ہاتھ تھا اور اس کا پھیلایا ہوا دین رسولﷺ کا دین تھا اگر ایسا نہیں تو تاریخ سے قرآن کی اس آیت کا کوئی اور مصداق پیش کیا جائے یا ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ خدا سے بھول ہوگئی یا مجبور ہو گیا اب پھر اس حصہ آیت کو پڑھیے:
وَأُخۡرَىٰ لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا قَدۡ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِہَاۚ الخ (سورۃ الفتح آیت نمبر 21)۔
اور وَلَوۡ قَـٰتَلَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوَلَّوُاْ ٱلۡأَدۡبَـٰرَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّ۬ا وَلَا نَصِيرًا۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 22)۔
5۔ اصولِ کافی جلد سوم روزہ کافی صفحہ 102 پر خندق کا واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا:
لما حضر رسول اللهﷺ الخندق مروا بكدية فتناول رسول اللهﷺ المعول من يد امير المؤمنينؓ او من يد سلمانؓ فضرب بها فترفت بثلاث فرق فقال رسول اللهﷺ لقد فتحت على فی ضربتى هذه كنوز كسرىٰ و قيصر۔
ترجمہ: جب حضور اکرمﷺ خندق پر تشریف لائے تو سیدنا علیؓ سیدنا سلمانؓ کے ہاتھ سے کدال لی اور پتھر پر تین ضربیں لگائیں اور فرمایا کہ میرے لیے کسریٰ و قیصر کے خزانے کھول دیے گئے ہیں۔
کسریٰ و قیصر کے خزانے کس کے ہاتھ لگے تھے؟۔ حضورﷺ نے تو فرمایا فتحت علی مجھ پر کھول دیے گئے اور ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں تو یہ خزانے قیصر و کسریٰ کے اپنے پاس تھے تو جس کے ہاتھ لگے وہ گویا حضورﷺ کے ہاتھ ہی آئے اور وہ حضورﷺ کا سچا جانشین ہوا اور وہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے بغیر بھلا کون تھا؟ علامہ باذل نے اس واقعہ کو پیش کیا ہے۔
کہ یک گوشہ سنگ از شکست دراں وقت برتے ازاں سنگ جستکہ روشن شد آن دشت و صحرا تمام برآورد تكبير خير الانامبضرب دوم ضلع دیگر شکست بد انگونہ برقے از وباز جستبفرمود تکبیر باردوم بزوپس براں سنگ ضرب سومدریں بارہم جست برقے چناں نبیﷺ بتکبیر رطب اللساںشد ایں بارآن سنگ زیروزبر نماندا احتياجش بضرب دگردراں دم بدو گفت سلمان چنیں کہ اے خاک راہت سپہر بریںندیریم ہر گزکہ گردو پزیر بدینگونہ برقے زسنگ وحديدچہ بدایں وباشد چہ تعبیرآں بہ تکبیر چوں برکشوری زباںبپاسخ چنیں گفت خیر البشر کہ چوں جست برق نخست از حجرنمودند ایوان کسریٰ بمن دوم قیصر روم سوم از یمن سبب را چنیں گفت روح الامیں کہ بعد ازمن انصار واعوان دینبرآں ملکتہا مسلط شوند بہ آئین من اہل ان بگردندبریں مژده وشكر لطف خدا بہر بار تکبیر کردم اداشنیدند آں مژده چوں مومناں کشیدند تكبير شادی کناں۔
خلاصہ: آپﷺ کی پہلی ضرب سے پتھر کا ایک حصہ ٹوٹا اس سے روشنی ظاہر ہوئی حضورﷺ نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا دوسری ضرب سے کچھ حصہ اور ٹوٹا اور روشنی نمودار ہوئی حضورﷺ نے اللہ اکبر کہا تیسری ضرب پر بھی یہی عمل ہوا اور پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا سیدنا سلمان فارسیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ کیا معاملہ تھا میں نے پتھر اور لوہے کے ٹکرانے سے ایسی روشنی کبھی نہیں دیکھی حضورﷺ نے فرمایا پہلی مرتبہ مجھے روشنی میں کسریٰ ایران کے شاہی محل نظر آئے دوسری مرتبہ قیصر روم کے محل تیسری مرتبہ یمن کے محل نظر آئے اس کا مطلب جبرائیل علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ میرے بعد دین کے حامی اور مددگار ان ممالک پر قابض ہو جائیں گے اور ان میں اسلام کا قانون رائج ہوگا۔ اس بشارت کو سن کر میں نے شکرانہ کے طور پر تکبیر کہی مسلمانوں نے جب بھی یہ مژده سنا تو خوشی سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا۔ (حملہ حیدری جلد 1 صفحہ 165)۔
اور ملاباقر مجلسی نے (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 219) پر لکھا ہے:
ودر ہر مرتبہ برقے ساطع می شد کے جہاں روشن می شد واللہ اکبر می گفت و صحابہؓ اللہ اکبر می گفتند پس فرمود کہ در برق اول قصر ہایء یمن را دیدم خدا آن را بمن دادو در دوم قصر ہایء شام راد یدم و خدا آن را بمن داد ودر برق سوم قصر ہایء مدائن راد یدم و ملک شاہان عجم را بمن داد وپس خدا فرستاد کہ لِيُظۡهِرَهُ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ۔
ترجمہ: ہر ضرب سے جو روشنی نکلتی اس سے گویا ایک جہان روشن ہو جاتا تھا اور حضور اکرمﷺ اللہ اکبر کہتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تکبیر کا نعرہ بلند کرتے آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے روشنی میں یمن کے محل دیکھے کہ خدا نے وہ محل مجھے دے دیے دوسری مرتبہ شام کے محل دیکھے کہ خدا نے مجھے دے دیے تیسری مرتبہ مدائن کے محل دیکھے کہ خدا نے مجھے دے دیئے پھر خدا نے یہ وحی بھیجی کہ آپﷺ کے دین کو تمام ادیان عالم پر غالب کرے گا خواہ مشرکوں کو یہ بات نہ بھائے۔
خندق کا کشفی واقعہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے ان تمام ممالک کے فتح ہونے کے متعلق حقیقت کشف طور پر دکھائی گئی پھر بقول باقر مجلسی بذریعہ وحی یہ پیش گوئی کی گئی اور علامہ باذل کے کہنے کے مطابق حضور اکرمﷺ نے صاف فرمایا: میرے دین کے حامی اور ممد میرے بعد ان ممالک پر مسلط ہوں گے اور مجلسی کے قول کے مطابق حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ "بمن داد" مجھے دیے ان باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایران و روم شام و یمن جن لوگوں کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں وہی دین حق کے حامی اعوان و انصار تھے اور ان کا مسلط ہونا بعینہ رسول اللہﷺ کا مسلط ہونا ہے یعنی حضور اکرمﷺ کے سچے جانشین تھے اگر خلفائے ثلاثہؓ کو کامل الایمان حامیانِ دین جانشینِ رسولﷺ تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ خدا نے بھی غلطی کی۔ جبرائیلؑ نے بھی دھوکہ کیا اور رسول اللہﷺ نے بھی غلطی کی یا اس پیشگوئی اور اس آیت کا مصداق ڈھونڈنا پڑے گا مگر تاریخ کے اوراق سے خلفائے ثلاثہؓ کے بغیر اس کا کوئی اور مصداق ملتا ہی نہیں۔
اور حیات القلوب صفحہ 271 جلد 2 علامہ مجلس شیعہ یوں فرماتے ہیں:
ابنِ شہر آشوب وغیرہ روایت کردند کہ روزے آنحضرت نظر کردبسوۓ ذراعہای سراقہ بن مالک کہ باریک و پرمویءلود پس فرمود کہ چگونہ خوابدبود حال تو درہنگام دست رنج ہا بادشاہ عجم رادردست ہائے خود کردہ باشی پس چوں در زمان عمرؓ اور ابطلبد و دست رنج ہاے بادشاہ عجم را دست ہائے او کردو فرمود کہ چوں مصر را فتح کنید قبطیاں را مکشید کہ ماریہ مادر ابراہیم از ایشاں است و فرمود کہ رومیہ رافتح خواہید کر دوچوں اور افتح کنید کلیسائی کہ در جانب شرق آن واقع است انرامسجد کنید۔
خلاصہ: ابنِ شہر آشوب نے اور دوسروں نے بھی بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے سراقہ بن مالک کے بازوؤں کی طرف دیکھا جو بالوں سے پر تھے اور باریک تھے تو فرمایا کہ اے سراقہ تو اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب بادشاہِ عجم یعنی ایران کے کنگن تو اپنے ہاتھوں میں ڈالے گا پس جب سیدنا فاروقؓ اعظمؓ کا زمانہ آیا ان کے زمانے میں مدائن جو دارالخلافہ ایران تھا فتح ہوا تو سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے سراقہ بن مالک کو طلب کیا اور شاہِ ایران کے کنگن سراقہ کے ہاتھ میں ڈال دیے اور حضور نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب مصر کو فتح کرو گے تو قوم قبطیہ کو قتل نہ کرنا اور حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب شہرِ رومیہ کو فتح کرو گے تو وہ گرجا جو جانب مشرق واقع ہے اس کو مسجد بنا دینا۔
فوائد: بتاؤ یہ تین پیشنگوئیاں کس زمانے میں پوری ہوئیں الفضل ما شهدت به الاعداء سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے حضور اکرمﷺ کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے خود سراقہ کو بلایا اور شاہِ ایران کے کنگن اس کے ہاتھ میں پہناۓ اور باقی دونوں وصیتوں کو بھی نہایت اہتمام سے پورا فرمایا جزاه الله عنا خير الجزاء۔
سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے اپنے عہد میں دین کی حفاظت اور اشاعت کے لیے مسجدیں بنانے کا یہ اہتمام کیا کہ جو مقام قبضہ میں آیا وہاں مسجد بنانے کا فوری طور پر حکم دے دیا اور مساجد میں ائمہ اور موذنوں کا تقرر فرمایا جن کی تعداد چار ہزار تک ہے اور نو سو جامع مسجدیں تعمیر کی گئیں اور بیت المقدس کی تعمیر بھی سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے کرائی اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
إِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّڪَوٰةَ وَلَمۡ يَخۡشَ إِلَّا ٱللَّهَۖ فَعَسَىٰٓ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ ٱلۡمُهۡتَدِينَ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 18)۔
قرآنِ مجید نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے کامل الایمان ہدایت یافتہ ہونے کی شہادت دے دی بلکہ قرآنِ کریم تو یہ اعلان کرتا ہے کہ:
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِينَ أَن يَعۡمُرُواْ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ الخ(سورۃ التوبہ آیت نمبر 18)۔
اس لیے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خدمت اسلام کا انکار نہیں کیا جاسکتا بیعتِ رضوان والوں کی وفاداری اور ان کی شان کا اعتراف اور سیدنا عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے اس وقت کیا جب اسلام نہیں لایا تھا علامہ باذل نے حملہ حیدری کے (صفحہ212 جلد 2 ) پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
کہ من آنچہ دیدم زیاران او ازاں سر بکف جانثار ان اودر ایران ودر روم ودر زنجبار نہ دیدم زینک و بدآن دیار کہ دارند پاس شاہ خود چنیں بسائند بر نقش پائش جبیں محمدﷺ گر انداز و آب دہن برآں آب خوں می کند انجمن کہ گیر ند و مالند بر چشم ورد وزاں آب تازہ کنند آبرو غرض اے دلیران ما نام وننگ نہ دار د برائے شما سرفہ جنگ کہ ایشاں زمابر نہ تابندرو بجا ہائے نازک رسد گفتگو ہماں بہ کہ ایں قصہ کوتاہ کنید ازاں پیش کہ راکند راہ دہيد۔
خلاصہ: میں نے حضورﷺ کے ساتھیوں کو جان قربان کرنے کے لیے سروں کو ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے دیکھا میں نے ایران روم اور زنجبار کے علاقوں میں کوئی ایسا (نیک اور بد لوگوں میں) نہیں دیکھا جو اپنے بادشاہ کی عزت اتنی کرتا ہو جتنی کہ حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی عزت و قدر کرتے ہیں اور جس طرح وہ حضورﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں دوسرا کوئی نہیں جلتا اگر حضورﷺ منہ سے پانی (تھوک) زمین پر پھینکتے ہیں تو اس کو حاصل کرنے کے لیے جملہ حضرات خون گرانے کو بھی تیار ہوتے ہیں اس (تھوک) کو حاصل کرنے کے کے اپنی آبرو کو تازہ کرنے کے لیے آنکھوں اور چہروں پر ملتے ہیں غرض یہ کہ وہ آپﷺ کے خلاف جنگ کرنے سے گریز نہیں کریں گے حالات نازک مرحلہ پر آ پہنچے ہیں بہتر یہ ہے کہ اس قصہ کو مختصر کریں پیشتر اس کے کہ وہ زبردستی مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے راستہ مانگیں انہیں راہ دے دو۔
فوائد: اہلِ حدیبیہ کی عقیدت جانثاری اور وفاداری کا اعتراف ایک کافر نے کیسے جامع انداز میں کیا اور شیعہ عالم نے ایسا عمدہ بیان کیا اب اس بیعت کی تفصیل بھی علامہ باذل کی زبانی سنئے۔
(حملہ حیدری جلد 2 صفحہ 215)۔
رسولﷺ موید بہ نیر وے بخت بیامد سوئے سایہ آن درخت برو تکیہ فرمود خیر البشر بعزت ز طوبیٰ گزشت آن شجر بفرمود تاہل دین حنیف بیائیدنزدش وضیع و شریف دلیراں ہماں دم بفرمان او کمر بستہ رفتند از چار سو چوں مجمع نمودند انصاردیں بدیشاں چنیں گفت سلار دیں کہ جہال گردن کشان قریش نہاد نداز کثرت وکین و طیش فراترز اندازہ خولیش پاء کنوں نیست مارا بجز جنگ رای بپاسخ بگفتند اصحاب دیں کہ یاری وہت باد جاں آفریںبحکم تو بو دیم در انتظار چوں بر جنگ رائے تراشد قرار قدم پیش بگزار و مارا بہ بیں کہ چومی می زنیم آسماں بر زمین بدیشاں نبی آفریں کرد و گفت کہ تائید حق باشما باد جفت ولی از شماخواہم اے اہل دیں بحکم خدا بیعت ایں چنیںکہ وگرآن کہ از گردش آسماں نگردید فیروز بر دشمنان ہمہ گشتہ گر دید درکار زار نہ گیرید درپیش راہ فرار
خلاصہ: حسنِ اتفاق سے حضورﷺ درخت کے سایہ میں تشریف لائے آپﷺ کے اس درخت سے تکیہ اور سہارا کی وجہ سے اس کی شانِ طوبیٰ سے بھی زیادہ ہو گئی حضورﷺ نے ہر طبقہ کے لوگوں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے کہا کہ وہ قریب آ جائیں چاروں طرف سے فوراً دلیرانِ اسلام جمع ہو گئے حضورﷺ ان سے مخاطب ہوئے کہ قریش حد سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اس لیے سوائے جنگ کے اب کوئی چارہ کار نہیں ان دیندار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کو جواب دیا اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو ہم تو آپ کے حکم کے منتظر ہیں اگر آپ کی رائے مبارک جنگ کرنا ہے تو دیکھیں کہ ہم آسمان کو کس طرح کاٹ کر زمین پر لاتے ہیں حضورﷺ نے آپ کو شاباش فرمائی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد آپ کے شاملِ حال ہو میں آپ سے حکمِ خداوندی کے تحت بیعت لینا چاہتا ہوں کہ دشمن کے خلاف اس قدر ثابت قدمی سے لڑیں کہ حرم پاک حاصل کر لیں دوسرا یہ کہ اگر بالفرض آپ دشمن پر کامیابی حاصل نہ کر سکیں اور جنگ کا نقشہ بدل جائے تو آپ تمام اپنی جانوں کو اس میدانِ کارزار میں قربان کر دیں گے اور راہِ فرار کبھی بھی اختیار نہ کریں گے۔
فائدہ: یہ بیعت صرف جان قربان کرنے کے لیے لی گئی اور دیکھیے کہ ان جانثاروں نے کس شوق اور کس خوشی سے حضور اکرمﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر جانثاری کا عہد کیا گو اس موقع پر جانثاری کا عملی مظاہرہ نہ ہو سکا مگر وہ لوگ اس جماعت میں سے ہی تھے جنہوں نے اس عہد کو یوں پورا کیا کہ روم کی سلطنت جو چار صد سال سے ایک خاندان میں چلی آرہی تھی اس میں دین کا ڈنکا بجا دیا اور ایران کی حکومت جس کے استحکام میں گیارہ صدیاں گزر گئی تھیں کفر و ضلالت سے اس مقدس گروہ کے ہاتھوں پاک ہوئی جس کی قیادت جانثارِ رسولﷺ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھ میں تھی سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے تیرا ہجری میں مسندِ خلافت سنبھالی سب سے پہلے حضور اکرمﷺ کے نامہ مبارک کی بے حرمتی کرنے کا انتقام لینے کے لیے ایرانیوں سے جنگ کرنے کا منصوبہ بنایا اور 15 ہجری میں ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی اس میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے اضطراب کا وہی عالم تھا جو حضورﷺ کا جنگِ بدر میں تھا سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے صبح کی نماز میں بھی مسلمانوں کی فتح کے لیے دعا قنوت پڑھنا شروع کر دیا اور عام بھرتی کا اعلان کر دیا سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو سپہ سالار بنا کر اس محاذ پر بھیجا کل تعداد ساٹھ ہزار بتائی جاتی ہے جن میں ایک ہزار صحابی تھے اور ان میں ننانوے بدری صحابی تھے دوسری طرف ایرانیوں نے اپنی ساری قوت اور ساری دولت اس فیصلہ کن جنگ میں جھونک دی نتیجتاً ایک لاکھ ایرانی قتل ہوئے اور چھ ہزار مسلمان شہید ہوئے اور مسلمانوں کا ایران پر قبضہ ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ
وَأُخۡرَىٰ لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا قَدۡ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِہَاۚ الخ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 21)۔
کے ہاتھوں پورا ہوا۔ قادسیہ کی جنگ میں تائید غیبی کے جو چند واقعات پیش آئے وہ بھی سن لیجئے
- جنگ کے پہلے روز ہرمزان حاکم آزر بائیجان ایک تیز رو گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں آیا اور کہا "آج ہم عربوں کو کچل دیں گے" کسی نے کہا "کہو اگر خدا نے چاہا" جواب میں کہنے لگا "خدا چاہے نہ چاہے" یہ الفاظ سنتے ہی سیدنا منذر بن حسانؓ نے ایک تیر مارا اور وہ گھوڑے سے گرا اور مر گیا۔
- جنگ کے دوسرے روز سیدنا عمرو بن معدی کربؓ نے ایرانی فوج پر تنہا حملہ کر دیا کئی ایرانی قتل کیے آخر فوج نے انہیں گھیرے میں لے لیا ان کا گھوڑا مارا گیا تو ایک ایرانی سپاہی کے دوڑتے ہوئے گھوڑے کو ٹانگ سے پکڑ کر کھڑا کر لیا ایرانی سوار گھوڑے سے اتر کر بھاگا اور آپ اس کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔
- جنگ کے پہلے روز ایک ایرانی پہلوان گھوڑے پر سوار اکڑتا ہوا اور بکواس کرتا ہوا میدان میں آیا اس کے مقابلہ میں ایک کمزور پست قد اور دبلا پتلا مسلمان باہر نکلا ایرانی نے پہلے وار میں اسے گھوڑے سے گرا دیا اس نے اپنے گھوڑے کی رسی اپنی کمر سے باندھی ہوئی تھی جب وہ مسلمان کا سر کاٹنے لگا تو اچانک گھوڑا ڈر کر بھاگا اور وہ ایرانی پہلوان کو گھسیٹتا ہوا چلا گیا اس مسلمان نے فوراً اٹھ کر تعاقب کیا اور اسے قتل کر دیا۔
- لڑائی کے اختتام پر ایرانیوں نے دریا کا پل توڑ دیا کہ دارالخلافہ کو مسلمانوں سے بچا لیں سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا کہ کچھ پرواہ نہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور بارگاہِ الہٰی میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے عدل و انصاف کا واسطہ دے کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا ساری فوج نے ان کی تقلید کی جب تھک جاتے تھے قدرت الہیٰ سے دریا میں خشک جگہ نمودار ہوتی اور وہ آرام کر لیتے ساری فوج صحیح سلامت دریا کے پار ہو گئی صرف ایک آدمی کا لکڑی کا پیالہ پانی میں رہ گیا جس کو دریا کی لہر نے باہر پھینک دیا۔
اسی طرح کا خرقِ عادت کا واقعہ روم کی لڑائی میں پیش آیا جب مسلمانوں نے یرموک کی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد حمس کا محاصرہ کیا مسلمانوں کے نعرہ تکبیر سے قلعہ کی دیواریں گر گئیں اور زلزلہ آگیا اور عیسائی صلح کرنے پر مجبور ہو گئے ایسے واقعات اس آیتِ کریمہ کا حصہ "قَدۡ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِھَا" کی حقیقت کی ایک جھلک نظر آتی ہے یعنی "حفظها الله للمؤمنين لا يجری عليها هلاك الى ان يأخذها المسلمون" کا احاطہ الحراس بالخزان یعنی ملکوں اور خزانوں کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے اس طرح محفوظ رکھا تھا جیسے کوئی محافظ خزانے کی حفاظت کرتا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ذریعے مسلمانوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہو کر رہے ۔
نبیﷺ کے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی۔