Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تفسیر آیت اظہار دین

  مولانا اللہ یار خانؒ

تفسیر آیتِ اظہارِ دین

هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَیٰ بِاللَّهِ شَهِيداً۝ (سورة الفتح آیت نمبر 28)

وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت دی اور سچا دین (اسلام) دے کر (دنیا میں) بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی گواہ ہے۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۝ هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ۝ (التوبه آیت نمبر 32۔33)

ترجمہ: چاہتے ہیں کہ بجھا دیں روشنی اللہ کی اپنے منہ سے اور اللہ اپنی روشنی پوری کئے بغیر نہ رہے گا خواه کافر برا مانتے رہیں اس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر تاکہ اس کو غلبہ دے ہر دین پر اور اگرچہ مشرک اسے برا مانتے رہیں۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ متِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۝ (الصف آیت نمبر8)

ترجمہ: چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کی روشنی کو اپنے منہ سے اور اللہ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی پڑے برا مانیں کافر۔

قرآنِ مجید میں ان تین مقامات پر اظہارِ دین کا اعلان معمولی سے اختلاف سے کیا گیا ہے پہلی آیت سورۃ الفتح کی ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی بظاہر اس مغلوبانہ صلح سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں کو بڑا رنج پہنچا یہ سورۃ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجروح دلوں کے لئے مرہم ثابت ہوئی اس ساری سورت میں عجیب عجیب طریقہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلداری کی گئی ہے کہیں ان کے فضائل بیان فرمائے کہیں انہیں فتح عظیم کی خوشخبری سنائی کہیں فتوحات کے وعدے دیئے گئے اور کہیں انہیں یقین دلایا گیا کہ تمہارے دین کو غلبہ دیا جائے گا تمہارے اور تمہارے دین کے دشمنوں کو تمہارے ہاتھوں ذلیل کیا جائے گا اور کہیں اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ دیا گیا قرآنِ شریف میں بعثتِ رسولﷺ کے دو اہم مقاصد بیان کئے ہیں۔ 

اول یہ کہ دینِ حق کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کیا جائے دوم یہ کہ اخوتِ اسلامی پیدا کر کے اقوامِ عالم سے انتشار افتراق اور فتنہ و فساد کو ختم کیا جائے مگر ان دونوں میں بھی پہلا امر مقصد ہے اور دوسرا اس مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا پہلے سے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ حضور اکرمﷺ نے کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں باہمی اتحاد اور اخوت کا جذبہ پیدا کر لیا تھا پھر دیکھنا یہ ہے کہ اس جذبہ کے ذریعے کیا حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں دین کے غلبہ کا مقصد پورا ہوا ؟۔

اس آیتِ کریمہ کا حقیقی مفہوم سمجھنے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ غلبہ سے کیا مراد ہے؟ اس کی دو صورتیں ہیں اول دلائل و براہین سے یعنی اپنے دین کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے ایسے دلائل پیش کئے جائیں کہ دوسرے تمام مذاہب کا بطلان ثابت ہو جائے اور دینِ حق کی حقانیت واضح ہو جائے یہ غلبہ علم و استدلال کا ہے جو کتابوں یا ذہنوں تک محدود رہتا ہے دوسرا غلبہ وہ ہے جو قوت اور حکومت سے جہاد کے ذریعے اقوامِ عالم پر حاصل ہو آیتِ قرآنی میں دونوں قسم کا غلبہ مراد ہے قرآنِ شریف میں جن قوموں کے حالات بیان کئے گئے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا کہ استدلال اور برہان کا غلبہ مادی قوت کے سامنے بظاہر کامیابی نہیں ہوتا دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے جو دلائل اور معجزات پیش کئے ان کے مقابلے میں استدلال کے میدان میں تو فرعون ہار گیا مگر اس کے پاس طاقت تھی اقتدار تھا اس لئے غالب ہی رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ملک چھوڑنا پڑا اس طرح قریشِ مکہ حضور اکرمﷺ کے مقابلے میں دلائل و براہین کے میدان میں ہار گئے مگر قوت ان کے پاس تھی اور حضور اکرمﷺ کو وطن چھوڑنا پڑا مگر یہ وہی مکہ ہے کہ جب حضورﷺ آٹھ سال بعد حاکمانہ قوت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو سردارانِ قریشِ کو ہار مانے بغیر کوئی چارہ نظر نہ آیا جس طرح دین کے غلبہ کے لئے اہلِ دین کا اتحاد اور اتفاق ضروری ہے اس طرح دلائل سے غلبہ بھی سیف و سناں کا محتاج ہے بہرحال ان آیات میں غلبہ سے مراد غلبہ سیف و سناں ہے جس کی دلیل سورۃ الفتح کا نفسِ مضمون ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کفار کی مغلوبیت اور مغانمِ کثیر کی خوشخبری سنائی اور غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ کر کے کفار کی مغلوبیت کے بعد حاصل ہو یعنی غنیمت بغیر جہاد حاصل کرنا محال ہے خندق کی کھدائی کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے کشفی صورت میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کو مسلمانوں کے قبضہ میں آنا مشاہد فرمایا ملاباقر مجلسی نے آیت کی شانِ نزول میں یمن ایران روم و شام پر مسلمانوں کے فتح کرنے کا ذکر کیا ہے پورا حوالہ گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو کشف کے طور پر ان ممالک کے بادشاہوں کے محلات دکھائے پھر آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ الخ نازل فرما کر وحی کی مہر ثبت فرمادی یعنی اے میرے رسولﷺ آپ کے کشف کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ممالک جو اس وقت دنیا کی مستحکم ترین سلطنتیں ہیں آپ کی امت کے قبضہ میں دے دی جائیں گی اور آپ کے دین کو غلبہ حاصل ہو گا اور ظاہر ہے کہ حکومتیں دلائل سے مغلوب نہیں ہوتیں بلکہ طاقت اور جہاد سے غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح وَأُخۡرَىٰ لَمۡ تَقۡدِرُواْ عَلَيۡہَا قَدۡ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِہَا‌ الخ میں ایران اور روم کی حکومتیں مسلمانوں کے قبضہ میں دینے کا وعدہ فرمایا اور وہ وعدہ جہاد کے ذریعے پورا ہوا اس طرح لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ الخ سے ان سلطنتوں میں دین حق کے غلبہ کی خوشخبری سنائی یہ خیال رہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ الخ سے فتح مکہ مراد نہیں ہے کیونکہ مکہ میں کوئی مستقل حکومت بھی نہ تھی اور اہلِ مکہ کا کوئی ایسا دین نہ تھا جو استدلالی اور مادی قوت کے ذریعے دنیا کے معتدبہ حصہ پر چھایا ہوا ہو پھر ملاباقر مجلسی نے وعدہ غلبہ میں ایران روم شام اور یمن کا ذکر کیا ہے لہٰذا مراد بھی وہی ہوئے اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ یہ وعدہ امام مہدی کے زمانہ میں پورا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ ان لوگوں سے کیا جو صلح حدیبیہ اور بیعتِ رضوان میں شامل تھے امام مہدی نہ اس زمانہ میں موجود تھے نہ مخاطب تھے نہ انہوں نے یمن روم شام اور ایران کو فتح کیا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے حدیبیہ والوں سے اور حکومت اور خزانے دے امام مہدی کو اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہئے پس معلوم ہوا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ الخ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حکومتوں پر جو اس وقت دنیا کی مستحکم ترین حکومتیں تھیں اور ان دینوں پر جو اس وقت اقوامِ عالم کے ذہنوں پر مسلط تھے دینِ حق کو غالب کرنے کا وعدہ فرمایا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دینِ حق کا ایسا دو گونہ غلبہ یعنی استدلال اور اقتدار کا غلبہ مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کے زمانہ میں اقوامِ عالم پر حاصل نہیں ہوا لہٰذا جس دور میں یہ وعدہ پورا ہوا وہ اس آیت کا مصداق ٹھہرا اور اس دور کی حکومت قرآن کی موجودہ حکومت ٹھہری اور اس دور کے حاکم کا ہاتھ رسولﷺ کا ہاتھ ٹھہرا اور جانشین کے ہاتھوں اس پیشگوئی کا پورا ہونا بعینہ ایسا ہے جیسے رسول اللہﷺ کے ہاتھوں یہ وعدہ پورا ہوا اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین کو ایسا غلبہ خلفائے ثلاثہؓ بالخصوص سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھوں حاصل ہوا۔ اظہارِ دین کا خلاصہ یہ ہوا کہ:

  1.  جو دین رسول اللہﷺ لے کر معبوث ہوئے حضور اکرمﷺ نے اس کی دعوت عام دیدی اور پورے کا پورا دین ظاہر کر دیا لہٰذا جو دین رسول اکرمﷺ نے پیش نہیں فرمایا وہ نہ دین حق ہے اور نہ دین رسولﷺ جو دین اس وقت ظاہر نہ ہوا مستور رہا وہ بھی دین رسولﷺ نہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ رسولﷺ نے بعثت کا حق ادانہ کیا معاذ اللہ۔
  2.  علمائے شیعہ کو اس حقیقت کا اقرار ہے کہ آیتِ اظہارِ دین سے مراد فتوحات ایران و روم ہیں کہ دین اسلام ان پر غالب آئے گا اور یہ حکومتیں اور ان کے مذہب مغلوب ہو جائیں گے۔
  3. یہ حکومتیں اور ان کے خزانے رسول اکرمﷺ کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ آئیں گے جیسا کہ علامہ باذل نے بیان کیا ہے کہ:

بہ پاسخ چنیں گفت خیر البشر کہ چوں جست برق نخست از حجر

نمودند ایوان کسری بمن! دوم قیصر روم سوم از یمن

سبب راچنیں گفت روح الامین که بعد از من انصار و اعوان دین

براں مملکتها مسلط شوند! بہ آئین من اهل آن بگردند۔

 اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود حضورﷺ نے یہ واضح فرما دیا کہ اظہارِ دینِ حق کی پیشگوئی میرے اعوان و انصار کے ہاتھوں پوری ہوگی چنانچہ حضور اکرمﷺ کے جانثار اعوان و انصار نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پیش گوئی پوری کر دکھائی فجزاهم الله عنا احسن الجزاء۔

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدند

خدا رحمت کنداین عاشقان پاک طینت را۔