تفسیر آیت دعوت اعراب
مولانا اللہ یار خانؒتفسیر آیت دعوتِ اعراب
قُل لِّلۡمُخَلَّفِينَ مِنَ ٱلۡأَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ إِلَىٰ قَوۡمٍ أُوْلِى بَأۡسٍ شَدِيدٍ تُقَـٰتِلُونَہُمۡ أَوۡ يُسۡلِمُونَۖ فَإِن تُطِيعُواْ يُؤۡتِكُمُ ٱللَّهُ أَجۡرًا حَسَنًاۖ وَإِن تَتَوَلَّوۡاْ كَمَا تَوَلَّيۡتُم مِّن قَبۡلُ يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا أَلِيمًا (سورۃ الفتح آیت نمبر16)۔
ترجمہ: آپﷺ ان پیچھے رہ جانے والوں دیہاتیوں سے (یہ بھی) کہہ دیجیے کہ عنقریب تم لوگ ایسے لوگوں (سے لڑنے) کی طرف بلائے جاؤ گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے کہ یا تو ان سے لڑتے رہو یا مطیعِ اسلام ہو جائیں سو اگر تم اطاعت کرو گے تو تم (اس وقت بھی) رو گردانی کرو گے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کر چکے ہو تو وہ دردناک عذاب کی سزا دے گا۔
آیت کا پسِ منظر:
6ھ میں حضور اکرمﷺ نے عمرے کا ارادہ فرمایا اور اعلان فرمایا کہ ہر جوان مسلمان میرے ہمراہ جائے شاید قریش مانع ہوں اور جنگ ہو جائے تو ہمارا نقصان نہ ہو اس دعوت پر 1500 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺ کے ہمراہ ہو گئے مگر بدوؤں کے چند قبائل اس مہم میں شامل نہ ہوئے مثلاً اسلم جہینہ مزینہ غفار اور اشجع جب حضور اکرمﷺ سفر سے واپس آئے تو یہ قبائل طرح طرح کے عذر پیش کر کے اپنی معذوری کا اظہار کرنے لگے درحقیقت وہ معذور نہ تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے ان پر فوری گرفت نہ فرمائی بلکہ انہیں مہلت دی اور فرمایا تمیں موقع دیا جائے گا کہ تم اپنی وفاداری کا ثبوت دو عنقریب ایک بلانے والا تمہیں جہاد کے لیے بلائے گا اگر تم نے اس کی اطاعت کی تو تمہیں نہایت عمدہ اجر ملے گا اگر تم نے پھر بھی اس کی نافرمانی کی تو دردناک عذاب دیا جائے گا اس آیت میں ان دو قبائل کو خطاب کیا گیا ہے۔
اب اس آیت کی تفصیل ملاحظہ ہو:
- سَتُدْعَوْنَ میں فعل کی نسبت کسی خاص فاعل کی طرف نہیں کی گئی یہ دعوت دینا خدا کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے رسولِ خداﷺ کی طرف سے بھی اور نائبِ رسولﷺ کی طرف سے بھی مگر یہ بلانا ان میں سے کسی کی طرف سے ہو یہ بلانا بالکل ایسا ہوگا جیسا خدا اور رسولﷺ کا بلانا اس بلانے والے کی دعوت پر اس کی اطاعت کرنے کا وہی اجر ہوگا جو خدا اور رسولﷺ کی اطاعت پر ہو سکتا ہے اور اس کی نافرمانی کی وہی سزا ہوگی جو اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی پر ہو سکتی ہے۔
- جس طرح غروبِ آفتاب سے فوراً بعد تاریکی نہیں چھا جاتی بلکہ دن کی روشنی کا اثر کافی دیر تک رہتا ہے اور رفتہ رفتہ اندھیرا چھا جاتا ہے اسی طرح آفتابِ رسالتﷺ کے چھپ جانے کے بعد فوراً اندھیرا نہیں ہو گیا بلکہ حضورﷺ کے جانشینوں کے عہد میں آفتابِ رسالتﷺ کی روشنی کا اثر باقی رہا۔
- اِلٰی قٙوْمٍ قوم کا لفظ بطورِ نکرہ استعمال ہوا معلوم ہوا کہ قوم سے مراد قومِ عرب نہیں کیونکہ عربوں کے ساتھ تو اس سے قبل کافی جنگیں ہوچکی تھی اور قومِ عرب بھی مراد ہوتی تو اِلٰی قٙوْمٍ کی جگہ ستدعون الیھم مرة اخریٰ ہوتا۔
- اور اس قوم کی صفت أُوْلِى بَأۡسٍ۬ شٙدِیْدٍ بیان فرمائی اور یہ سوائے ایران یا روم کے اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی کیونکہ اس وقت دنیا کی مستحکم ترین اور جنگجو اقوام صرف یہی قومیں تھیں اس دعوت کے موقع پر یا تو اس قوم سے جنگ ہوگی یا مسلمان ہو جائے گی یا قضیہ مانعة الخلو ہے اسلام لانے کی قید کی وجہ سے اس آیت کے مصداق میں وہ جنگ نہیں آسکتی جو قصاصِ سیدنا عثمانؓ کے سلسلے میں ہوئی یہ جنگ احکامِ خلافت منوانے کے لیے ہوئی تھی اور وہ لوگ پہلے ہی مسلمان تھے اور غیر قوم بھی نہیں تھے اس قید سے وہ جگہ بھی خارج ہوئی جو دشمن کو محض خوفزدہ کرنے کے لیے ہو جیسا غزوہ تبوک گو یہ جنگ عربوں سے تھی مگر اس میں جنگ فی الواقع ہوئی نہ وہ لوگ ایمان لائے۔
- اگر حضور اکرمﷺ پر نبوت ختم نہ ہوتی تو اس آیت کے مطابق اعراب کو بلانے والا نبی ہوتا جس کی اطاعت پر اجرِ حسن کی بشارت اور نافرمانی پر عذابِ الیم کی وعید سنائی گئی یہ بات لفظِ تشبیہ کما سے اور واضح ہو جاتی ہے کما تولیتم من قبل سے اس بلانے والے کی اطاعت و نافرمانی ایسی ہے جیسا رسول اللہﷺ کی اطاعت و نافرمانی مگر نبوت تو ختم ہو گئی اس لیے لازماً یہ بلانے والا نبیﷺ کا سچا جانشین ہی ہوسکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ:
- ان اعراب کو کیا رسول اللہﷺ نے کسی غیر قوم کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے بلایا صلح حدیبیہ کے بعد حضور اکرمﷺ کی عربوں سے تین جنگیں ہوئیں خیبر فتح مکہ اور حنین اور غیر قوم کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے صرف ایک مہم بھیجی گئی جو تبوک کی تھی مگر اس میں نہ مخالف سے جنگ ہوئی نہ وہ اسلام لائے۔
اس دعوت کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مزید وضاحت کر دی جائے سو آیت میں تمام صیغے خطاب کے ہیں:
"سَتُدۡعَوۡنَ، تُقَـٰتِلُونَہُمۡ، فَإِن تُطِيعُواْ، وَإِن تَتَوَلَّوۡاْ ،كَمَا تَوَلَّيۡتُم، يُعَذِّبۡكُمۡ" یہ خطاب ان بدوؤں کو ہو رہا ہے جو عمرہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے تھے ان لوگوں نے واپسی پر وفد پیش کیے کہ: شَغَلَتۡنَآ أَمۡوَٲلُنَا وَأَهۡلُونَا الخ۔ (سورة الفتح آیت نمبر 11)۔ پھر انہوں نے معافی کی درخواست کی کہ: فَٱسۡتَغۡفِرۡ لَنَاۚ مگر یہ سب ظاہری باتیں تھیں حقیقت اللہ تعالیٰ نے بتادی کہ انکا خیال یہ تھا: لَّن يَنقَلِبَ ٱلرَّسُولُ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِلَىٰٓ أَهۡلِيهِمۡ أَبَدًا الخ (سورة الفتح آیت نمبر 12) پھر دعوت دینے والا ایسی قوم کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بلائے گا جو اولی بأس شدید ہے یعنی غیر عرب بھی ہوگی اور سخت جنگجو بھی ہوگی پس اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو عمرہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے تھے پھر عذر کرنے لگے اور معافی مانگنے لگے اور ان کو معافی دینے کے لیے ایک شرط لگائی گئی کہ تمہیں مہلت دی جاتی ہے جہاد کا موقع دیا جائے گا اگر تم نے اطاعت کی تو معافی ہو جائے گی اس تفصیل کے بعد واقعات کی روشنی میں یہ دیکھ لیجئے کہ یہ بلانے والے رسول اکرمﷺ تو نہیں تھے کیونکہ صلح حدیبیہ کے متصل اور جنگِ خیبر ہوئی جس میں شامل ہونے سے اللہ تعالیٰ نے ان بدؤوں کو منع فرما دیا۔
سَيَقُولُ ٱلۡمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقۡتُمۡ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأۡخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعۡكُمۡۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُواْ كَلَـٰمَ ٱللَّهِۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا ڪَذَٲلِكُمۡ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبۡلُۖ الخ (سورة الفتح آیت نمبر15)۔
جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ عنقریب جب تم (خیبر کی) غنیمتیں لینے چلو گے کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے ساتھ چلیں وہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ خدا کے حکم کو بدل ڈالیں آپﷺ کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی یوں فرما دیا ہے۔
پھر غزوہ تبوک سے بھی ان لوگوں کو منع کر دیا گیا کما قال تعالیٰ:
فَإِن رَّجَعَكَ ٱللَّهُ إِلَىٰ طَآٮِٕفَةٍ۬ مِّنۡہُمۡ فَٱسۡتَـٔۡذَنُوكَ لِلۡخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخۡرُجُواْ مَعِىَ أَبَدً۬ا وَلَن تُقَـٰتِلُواْ مَعِىَ عَدُوًّاۖ إِنَّكُمۡ رَضِيتُم بِٱلۡقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ۬ فَٱقۡعُدُواْ مَعَ ٱلۡخَـٰلِفِينَ۔ (سورة التوبہ آیت نمبر83)
ترجمہ: سو اگر اللہ تعالی آپ ﷺ کو (اس سفر سے مدینہ کو صحیح و سالم) ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لائے پھر یہ لوگ (کسی جہاد میں) چلنے کی اجازت مانگیں تو آپﷺ یوں کہہ دیجئے کہ تم کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو گے اور نہ میرے ہمراہ ہو کر کسی دشمن (دین) سے لڑو گے تم نے پہلے بھی بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا تو لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو واقعی پیچھے رہ جانے کے لائق ہی ہیں ۔
اس آیت سے واضح ہو گیا کہ ان لوگوں کو معیت رسولﷺ سے مطلقا منع کر دیا گیا تھا ۔ پھر جنگ حنین ہوئی اول تو جنگ غیر عربوں کے خلاف نہیں تھی پھر قرآن نے ان کی صفت أُوْلِى بَأۡسٍ شَدِيدٍ نہیں بتائی بلکہ وہ تو اقل اور اذل تھے اس لیے اس جنگ میں اعراب کو دعوت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
لم يصح ان النبیﷺ دعا الاعراب يوم حنين وايضا لم يكونوا اولی باس شديد بالنسبة الى عسكر الاسلام بل كانوا قليلا ذليلا فی مقابلة جم غفير۔ (مظہری)۔
ترجمہ: یہ صحیح نہیں کہ حضور اکرمﷺ نے حنین کی جنگ میں اعراب کو دعوت دی ہو اور حنین لشکر اسلام کے مقابلے میں سخت جنگجو بھی نہیں تھے اور تھوڑے اور کمزور بھی تھے۔
اور تفسیر جمل میں ہے:
وفی الاية دليل على صحة امامة ابی بكرؓ و عمرؓ لان ابا بكرؓ دعاهم الى بنی حنيفه وعمرؓ دعاهم الى قتال فارس والروم واما قالوا عكرمه وقالوا قتاده ان ذلك فی هوازن وغطفان يوم حنين فلا لانه يتمنع ان يكون الداعی لهم الرسولﷺ لانه قال لن تخرجوا معی ابدا ولن تقاتلوا معی عدوا فدل على انه اراد غير النبیﷺ ومعلوم انه لم يدو هؤلاء القوم بعد النبیﷺ الا ابو بكرؓ و عمرؓ۔
ترجمہ: اس آیت میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کو سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے جنگِ یمامہ میں دعوت دی اور سیدنا عمرؓ نے فارس اور روم کی جنگوں میں دعوت اور عکرمہ اور قتادہ کا یہ قول کہ انہیں ہوازن غطفان اور حنین میں بلایا گیا درست نہیں کیونکہ حضور اکرمﷺ کا بلانا ممکن نہیں کیونکہ اللہ کے حکم سے وہ اعلان کر چکے تھے کہ تم میرے ساتھ مل کر کبھی جنگ کے لیے نہیں نکلو گے اور ہرگز جنگ نہیں کرو گے یہ دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد نبیﷺ کے علاوہ کوئی اور ہوگا اور اس قوم کو نبی کے بعد سوائے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے کسی نے نہیں بلایا۔
اور دوسری جانب بھی احتمال کا اظہار کیا گیا ہے مثلاً:
شیخ ابنِ مطہر حلی شیعہ دست پازدہ جواب آوردہ است کہ شادی آنحضرت است و جائز است کہ آنحضرت در غزوات دیگر کہ قتال ہم واقع شدہ است دعوت نمودہ باشند اما منقول نہ شدہ باشد۔
حلی نے جواب دینے کی مجنونانہ کوشش کی ہے کہ بلانے والے حضور اکرمﷺ ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے دوسرے جنگوں میں انہیں دعوت دی ہو لیکن وہ نقل ہونے سے رہ گئی ہے۔
اسی طرح بعض مفسرین نے بھی احتمال کو نقل کر دیا ہے مثلاً:
وان قالوا لم يدعوهم النبیﷺ والنفی والجزم به فی غاية البعد لجواز ان يكون ذلك قد وقع و لم ينقل۔
ترجمہ: اور اگر کہا جائے کہ نبیﷺ نے انہیں نہیں بلایا تو اس کی قطعی نفی بعید از قیاس ہے کیونکہ ممکن ہے بلایا ہو مگر ان کا بلانا نقل نہ کیا گیا ہو۔
اور بعض مفسرین نے اس کو مقید کیا ہے کہ جب تک وہ نفاق پر تھے رسول اللہﷺ نے ان کو نہیں بلایا تھا ای لن تخرجوا معی ابدا و انتم ما انتم علیہ ای من النفاق ایسے تمام احتمالاتِ فاسدہ کے متعلق تحفہ اثناء عشریہ میں وضاحت کی گئی ہے۔
درکاکت ایں احتمالات پوشیدہ نیست زیرا کہ در باب اخبار و سیر و تواریخ بمجرد احتمالات سک کردن شان عقلا نیست والا در ہر مقدمہ احتمالے تواں برآورد۔
ترجمہ: ان احتمالات کا گھٹیا پن پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ تاریخ و سیرت کے معاملے میں محض احتمالات کو پلے باندھ لینا داناؤں کی شان کے خلاف ہے ورنہ ہر بات میں احتمال پیدا کیا جاسکتا ہے۔
اور جس نے وانتم ما انتم علیہ ای من النفاق کی قید لگائی ہے تو صاف طور پر قرآن کو اپنے ظاہر سے پھیرنا ہے جو قابلِ قبول نہیں جب قرآن میں ابداً کی قید موجود ہے تو ما انتم کا کیا مطلب؟ اور جن حضرات نے داعی سے مراد رسول اللہﷺ کی ذات بھی لی ہے ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خلفائے ثلاثہؓ داعی ہی نہیں تھے ان کی نفی نہیں کی بلکہ رسول کریمﷺ کو بھی داعی کہا اور خلفائے ثلاثہؓ کو بھی داعی قرار دیا۔ بہرحال جنگِ حنین کے متعلق یہ ثابت نہیں کہ حضور اکرمﷺ نے اعراب کو دعوت دی ہو زبانی احتمالات جو ناشی از دلیل نہ ہو قابلِ تسلیم نہیں۔
پھر یہ بدو خالص منافق نہ تھے بلکہ کمزور ایمان والے تھے اسلئے یہ ما انتم ما انتم علیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا رہا سیدنا علیؓ کے بلانے کا سوال تو بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ محض خلافت تسلیم کرانے کے لئے تھا پھر حضور اکرمﷺ کے عہد میں فتح مکہ والی مہم ہوئی مگر اس میں جنگ تو ہوئی نہیں البتہ عکرمہ بن ابی جہل نے چند اوباش قسم کے لوگ جمع کئے کچھ بنوبکر اور بنو حارثہ نے جمع کئے مگر جب سیدنا خالد بن ولیدؓ پہنچے اور ایک ہلہ میں 28 آدمی قتل کئے تو معاملہ ختم ہوگیا پھر یہ جنگ ہو بھی تو غیر عربوں کے خلاف نہیں اور اُوْلِیْ بَأسٍ شَدِیْدٍ کے مقابلے میں نہیں اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ صلح حدیبیہ میں شامل نہ والے اعراب کو حضور اکرمﷺ نے کسی غیر عرب جنگجو قوم کے خلاف جنگ کرنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ حکمِ خداوندی کے مطابق ان لوگوں کو حضور اکرمﷺ کی معیت سے ہمیشہ کے لئے منع کردیا گیا۔
اب سَتُدْعَوْنَ کا مصداق نائبِ رسولﷺ ہی رہ جاتا ہے چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں:
- غیر عرب اقوام سے جنگیں ہوئیں۔
- اُوْلِیْ بَأسٍ شَدِیْدٍ یعنی سخت جنگجو اور طاقت ور اقوام کے خلاف جنگیں ہوئیں۔
- ان اعراب کو ان جنگوں میں شامل ہونے کے لئے خلفائے ثلاثہؓ نے دعوت دی یا خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت قرآنِ مجید کی موعودہ خلافت ہوئی اور خلافتِ راشدہ ہوئی ان کی اطاعت موجب اجرِ عظیم اور انکی نافرمانی عَذَابٍ اَلِیْمٍ کا سبب ہوئی۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما!۔