تفسير آیت معیت
مولانا اللہ یار خانؒتفسير آیتِ معیت
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥۤ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡۖ تَرَٮٰهُمۡ رُكَّعً۬ا سُجَّدً۬ا يَبۡتَغُونَ فَضۡلاً۬ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٲنً۬اۖ سِيمَاهُمۡ فِى وُجُوهِهِم مِّنۡ أَثَرِ ٱلسُّجُودِۚ ذَٲلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى ٱلتَّوۡرَٮٰةِۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى ٱلۡإِنجِيلِ كَزَرۡعٍ أَخۡرَجَ شَطۡـَٔهُ فَـَٔازَرَهُۥ فَٱسۡتَغۡلَظَ فَٱسۡتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعۡجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِہِمُ ٱلۡكُفَّارَۗ الخ۔ (سورة الفتح آیت نمبر 29)۔
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپﷺ کی صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں کبھی سجدہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے آثار بوجہ تاثیرِ سجدہ کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ان کے یہ اوصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوی کیا پھر وہ موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگے تاکہ ان سے کافروں کو جلاوے۔
یہ آیت سورۃ الفتح کی آخری آیت ہے یہ سورۃ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زخمی دلوں کے لیے مرہم کا کام دیا۔
اس میں سب سے پہلے حضور اکرمﷺ کا نام لے کر آپﷺ کی صفتِ رسالت کا بیان ہوا چونکہ اس فصل میں سارے کمالات آ جاتے ہیں اس لیے حضورﷺ کے صرف اسی وصف کا تذکرہ فرما کر کوزے میں دریا کو بند کر دیا ہے پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیبیہ والوں کے اوصاف بیان فرمائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ کمالات حضور اکرمﷺ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہی تو ہیں اس لیے یہ بتانا مقصود تھا جس استاد کے شاگردوں جس مربی کے تربیت یافتہ لوگوں میں یہ اوصاف اور یہ کمالات پائے جائیں اسے استاد کے کمالات کا اندازہ کر لو قاعدہ ہے کہ استاد کا کمال اس کے شاگردوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے اور مرشد کے کمال کا اظہار اس کے مریدوں سے ہوتا ہے اوصاف دو قسم کے ہوتے ہیں ایک صفت بحالہٖ اور دوسرا بحالِ متعلقہ ہیں ان کے بیان کا مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تسلی اور دلداری تھی اس لیے تفصیل سے بیان فرمائے آیت کے دو حصے ہیں محمد رسول اللہﷺ ایک دعویٰ ہے والذین معہ الخ اس دعویٰ کی دلیل ہے حضور اکرمﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا اس دعوے کے ثبوت کے لیے چشم دید گواہ کون ہیں؟ کفار قریش یہودِ مدینہ؟ یہ تینوں فرقے اسلام داعی اسلام اور قرآن کے دشمن تھے پس چشم دید گواہ جن کی گواہی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے وہ صرف مہاجرین اور انصار تھے اگر کسی دعویٰ کے گواہ سارے کے سارے جھوٹے اور مجروح ہوں تو وہ دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوتا اس لیے اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اعتماد نہ کیا جائے اور ان کو جھوٹا سمجھا جائے تو حضور اکرمﷺ کی نبوت کیوں کر ثابت ہوگی۔
قرآنِ کریم نے حضور اکرمﷺ کی نبوت پر چار قسم کے دلائل بیان فرمائے ہیں:
- گزشتہ کتبِ مقدسہ کی پیشنگوئیاں جو حضور اکرمﷺ پر صادق آئیں۔
- وہ معجزات جو حضور اکرمﷺ سے ظاہر ہوئے۔
- وہ تعلیمات جو آپﷺ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیش کیے۔
شاگردوں کی وہ جماعت جن کے کمالات اور فضائل کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی پہلے تین قسم کے دلائل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں کیونکہ یہی چشم دید گواہ اور ناقل ہیں۔
قاعدہ ہے کہ کسی دعویٰ کے گواہ سے شہادت لینے سے پہلے اس کی سیرت کے متعلق اطمینان کر لیا جاتا ہے اگر اس کی سیرت قابلِ اعتبار نہ ہو تو وہ مردود و الشہادت قرار دیا جاتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کی نبوت کے عینی شاہدوں کی سیرت کے تمام پہلو چند الفاظ میں بیان فرما دیئے ہیں کہ:
أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡۖ تَرَٮٰهُمۡ رُكَّعً۬ا سُجَّدً۬ا يَبۡتَغُونَ فَضۡلاً۬ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٲنً۬اۖ سِيمَاهُمۡ فِى وُجُوهِهِم مِّنۡ أَثَرِ ٱلسُّجُودِۚ ذَٲلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى ٱلتَّوۡرَٮٰةِۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى ٱلۡإِنجِيلِ الخ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 29)۔
یعنی ان کے ظاہر و باطن کے لیے بے داغ اور مثالی ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا سب سے پہلے ان کے معاملات کے متعلق فرمایا کہ ان میں غصہ اور رحمت دونوں صفتیں ملکہء راسخہ کی حیثیت سے پائی جاتی ہیں ان اوصاف کا اظہار اور استعمال ٹھیک اپنے محل پر کرتے ہیں۔
قال الرازی جميعهم أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡۖ وصف الشدة والرحمة وجد في جميعهم قال تعالىٰ والف بين قلوبهم لو انفقت ما فی الارض جميعا ما الفت بين قلوبهم ولكن لله الف بينهم اذله على المؤمنين اعزة علی الكافرين قال صاحب المظهری رغم انف الروافض الذين يزعمون ان اصحاب محمد كانوا يتباغضون بينهم۔
ترجمہ: امام رازی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحیم ہیں کیونکہ شدت اور رحمت کا وصف سب میں پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اتفاق پیدا کر دیا ہے اگر آپ دنیا بھر کا مال خرچ کرتے تب بھی ان کے قلوب میں اتفاق پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ ہی نے ان میں باہم اتفاق پیدا کر دیا اور فرمایا مہربان ہوں گے مومنوں پر تیز ہوں گے کافروں پر صاحب مظہری نے فرمایا روافض کی ناک خاک الود ہو جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہم بغض رکھتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں ایک اور موقع پر بھی اس جمعیت کی تائید ہوتی ہے کما قال اللہ تعالیٰ وٙاعْتَصِمُوْا بِخَبْلِ اللّٰهِ جَمِیعاً اس میں جمیعاً حال ہے وٙاعْتَصِمُوْا کے فاعل سے یا مفعول بِخَبْلِ اللّٰهِ سے یا دونوں سے۔
معناه حال كونكم مجتمعين فی الاعتصام يعنى خذوا فی الاعتصام یعنی خذوا فی تفسير كتاب الله وتاويله ما اجتمع عليه الامة ولا تذهبوا الى خبط ارائكم على خلاف الاجماع وعلى تقدير ان يكون حالا من المفعول والمعنی اعتصموا بجميع كتاب الله ولا تفرقوا عن الحق ولم يتفرق الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين فی زمان النبیﷺ ولا فی خلافة ابی بكرؓ وعمرؓ وعثمانؓ رضوان الله عليهم اجمعين واول بغی كان على الامام الحق خروج اهل مصر على عثمانؓ واول اختلاف وقع فی امر القصاص كان من معاويهؓ واول اختلاف فی الدين اختلاف الحروريه الذين خرجوا علىٰ علیؓ ثم اوقع الخلاف ورفض الحق عبدالله بن سباء منشأ الروافض ثم ظهر مذهب الاعتزال فی زمن التابعين فتبشرا باذيال الفلاسفه واشتغلوا بقيل وقال و احيوا كثرة الجدال و تركوا ظواهر كتاب الله المتعال وسنة نبية ومذهب السلف اهل الكمال بتقليد ارائهم الكاسدة والمنشتات والضلال۔ (مظہری جلد 2 صفحہ 102)۔
ترجمہ: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس حالت میں تم سب اکٹھے ہو کر کتاب اللہ سے تمسک کرو یعنی تم کتاب اللہ کی تفسیر اور معنیٰ وہی لو جس پر امت کا اجتماع ہے خلافِ اجماعِ امت اپنی فضول رائے کے پیچھے نہ چلو اگر مفعول سے حال مانیں تو یہ مراد ہوگی کہ پوری کتاب اللہ کو مضبوط پکڑو اور فرقے فرقے نہ بن جاؤ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضور اکرمﷺ کے زمانے اور سیدنا ابوبکرؓ وسیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے زمانے میں کوئی تفرقہ پیدا نہ ہوا سب سے پہلی بغاوت خلیفہ برق سیدنا عثمانؓ کے عہد میں اہلِ مصر نے کی قصاص کے معاملے میں پہلا اختلاف سیدنا امیرِ معاویہؓ کی طرف سے ہوا دین میں پہلا اختلاف حروریہ کی طرف سے ہوا جو سیدنا علیؓ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے پھر اختلاف واقع ہوگیا اور روافض کے بانی عبداللہ بن سبا نے حق سے روگردانی کی پھر تابعین کے زمانے میں معتزلہ کا مذہب ظاہر ہوا انہوں نے فلاسفہ کی پیروی کی اور ظاہر کتاب و سنت اور مذہب سلف کو چھوڑ کر بحث و جدال میں مشغول ہو گئے اور اپنی بے کار اور بے معنیٰ آراء پر چل کر گمراہ ہو گئے۔
معاملات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دو وصف غصہ اور رحمت بیان فرما کر ان کا محل بیان فرما دیا یعنی حضور اکرمﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان پر غضبناک ہوتے ہیں جن پر اللہ غضبناک ہوتا ہے یعنی کفار لوگوں سے رحمت اور رفت کا سلوک کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں یعنی مومنین یہ وصف اور ان کا برمحل استعمال انسان کے کمال کی دلیل ہے انسان جو گناہ بھی کرتا ہے وہ عصبیہ اور قوتِ شہویہ کے بے محل استعمال کی وجہ سے ہی کرتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملات کی خوبی بیان کرنے کے بعد ان کی عبادات کا پہلو بیان فرمایا عبادات میں سرِ فہرست نماز ہے پھر نماز میں انتہائی عاجزی کے اظہار کا موقع رکوع اور سجدہ ہے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہی دو وصف بیان فرمائے مگر یہ دونوں حالتیں عاجزی کے اظہار کی صرف صورتیں ہیں اس لیے یہ ممکن ہے یہ ایک ادمی صورت تو اختیار کریں مگر اس کے اندر وہ حقیقی روح موجود نہ ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خشوع و خضوع اور اخلاص کبھی بیان فرما دیا کہ يَبۡتَغُونَ فَضۡلاً۬ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٲنً۬اۖ یعنی جہاں ان کے جسم رکوع اور سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار کر رہے تھے وہاں ان کے دل خشوع خضوع اخلاص اور للہیت سے پر ہیں ان کی عبادت کا مقصد محض رضائے الہٰی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ دو وصف بیان کرنے سے یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کمال ظاہر کیا جائے وہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اشارہ بھی کر دیا جائے کہ خلیفہ رسول کے لیے بھی یہ دو وصف ضروری ہیں اس کے بعد خلافت کا ذکر آنے سے اس پہلو کی تائید ہوتی ہے۔
وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ سے مراد معیتِ سفرِ حدیبیہ ہے معیت کے حقیقی معنیٰ سفر میں کسی کے ساتھ ہونا ہے یہ مکان میں کسی کے ساتھ رہنا یا کسی کام میں کسی کا ساتھ دینا ہے اس لیے معیت سے یہاں معیتِ مذہبی سمجھنا غلط ہے کیونکہ یہ معنیٰ مجازی ہے اور جب حقیقی متحقق ہوسکتا ہے تو مجازی معنیٰ لینا اصولاً غلط ہے
مَثَلُهُمۡ فِى ٱلتَّوۡرَٮٰةِۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى ٱلۡإِنجِيلِ اس آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ یہ محبوب ازلی ہیں پہلی کتابوں میں جہاں میں نے محمد رسول اللہﷺ کے اوصاف بیان کیے ہیں وہاں ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوصاف بیان کیے ہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو خاتم المحدثین علامہ حسنین بن محمد تقی ثوری طبرسی شیعہ نے اپنی کتاب فضل الخطاب میں شیخ علی بن طاؤس کا مشاہدہ بیان کیا ہے ان کا لقب رضی الدین ہے ان کا بیان ہے کہ حضرت دانیال کی کتاب الملاہم میرے پاس ہے اس میں یہ عبارت مذکور ہے:
قال السيد الجليل رضی الدين على بن طاؤس فی كتاب كشف المحجه ما لفظه وقفت أنا على كتاب دانيال عليه الصلاه والسلام المختصر فی كتاب الملاحم وهو عندنا الان يتضمن ما يقتضی ان ابابكرؓ وعمرؓ كانا عرفا من كتاب دانيال عليه السلام و كان عند اليهود حديث ملك النبیﷺ و ولاية رجل من يتم ورجل من عدی بعده دون وصيه علىؓ وصفتهما فلما رأيا الصفة فی محمدﷺ فيها تبعاہ واسلما معه طلبا للولايه التی ذكرها دانيالؑ (فصل الخطاب صفحہ 176)۔
خلاصہ: رضی الدین نے کہا کہ حضرت دانیال کی کتاب الملاہم میرے پاس موجود ہے اس میں ایسی عبارت لکھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سدنا عمرؓ نے کتاب دانیال کا علم حاصل کیا تھا یہ یہود کے پاس تھی اور اس میں نبی کریمﷺ کی حکومت اور بنی تمیم اور بنی عدی کے ایک ایک آدمی کی یکے بعد دیگر خلافت کا اس میں ذکر تھا اور یہ کہ یہ دونوں خلیفوں سیدنا علیؓ سے پہلے ہوں گے اس میں ان دونوں خلیفوں کے اوصاف بھی مذکور تھے جب ان دونوں نے رسول کریمﷺ کی صفت دیکھی اور اپنی صفات اپنے آپ میں دیکھیں تو اسلام لے آئے اور حضور اکرمﷺ کے تابع ہو گئے اس خلافت کی طلب کے لیے جس کا ذکر حضرت دانیالؑ نے کیا تھا۔
اس عبارت میں رضی الدین نے تین خلفاء کا ذکر کیا ہے اور سیدنا عثمانؓ کا ذکر نہیں اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں اول یہ کہ محرفین نے تحریف کر دی ہو دوم یہ کہ ممکن ہے کہ سیدنا عثمانؓ کے ساتھ بلوائیوں کی شرارتوں کا ذکر بھی ہو اس لیے سید جلیل نے اس حصے کو حذف کر دیا ہو سید صاحب نے یہ تصویر کیا ہے کہ کتبِ سماوی میں جہاں ذکرِ رسولﷺ اور ذکر اوصافِ رسول تھا وہاں ذکرِ شیخینؓ اور اوصاف شیخینؓ بھی پایا جاتا ہے آخر میں سید جلیل نے اپنے مخصوص مزاج کے مطابق شیخینؓ کے اوصاف کو ان کے عیوب کی شکل دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کے لالچ کی وجہ سے شیخینؓ اسلام لائے مگر وہ یہ بھول گئے کہ ایسا احتمال تو سیدنا علیؓ کے متعلق بھی پیدا کیا جا سکتا ہے حق یہ ہے کہ ان حضرات کو طمع و ضرور تھا مگر حکومت کا نہیں بلکہ حق کے قبول کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے کا طمع تھا جیسا کہ قرآنِ مجید میں اہلِ حق کے متعلق بیان ہوا ہے: وَمَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ ٱلۡحَقِّ وَنَطۡمَعُ أَن يُدۡخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلصَّـٰلِحِينَ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 84)۔
وقال تعالى فی حق الساحرین إِنَّا نَطۡمَعُ أَن يَغۡفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَـٰيَـٰنَآ أَن كُنَّآ أَوَّلَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ(سورۃ الشعرآء آیت نمبر 51)۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ایمان لانے کی وجہ منجمین نے اپنے فن کے حساب سے معلوم کر لی اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ سیدنا ابوبکرؓ کا ایمان تو عزر ہوئے وہی آسمانی تھا علامہ بادل شیعہ نے دونوں حقیقتوں کو ان الفاظ میں بیان کیا (حملہ حیدری صفحہ جلد 1 صفحہ 14)۔
ابا بکرؓ ازاں پس براہ پا گذاشت کہ گفتار کاہن بدل یاد داشت
باد کاہن دادہ بودایں خبر کہ مبعوث گردیکے نامور
زبطحیٰ زمین در ہمیں چندگاہ بود خاتم انبیائے الٰہ
تو باد خاتم انبیاء بگردی چوں اوبگزرد جانشینش شوی!
زکاہن چو بودش بیادایں نوید بیادرد ایمان نشانش چودید
وزاں پس بتدریج چندے دیگر نبی رابفرماں نہاوند سر۔
جوں ہی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کاہن کی بات سنی اسی وقت مکہ مکرمہ کا راستہ اختیار کیا کیونکہ کاہن نے بتایا تھا کہ مکہ مکرمہ میں ایک نامور رسول مبعوث ہونے والا ہے اسی چٹیل سرزمین میں خاتم الانبیاء تشریف لائیں گے آپ ان کے ساتھ ایمان لائیں گے تو آپ ان کے جانشین ہوں گے یہ خوشخبری آپ کو یاد تھی جب آپ نے رسولﷺ میں یہ اوصاف و نشانات دیکھے تو ایمان لائے آپ کے ایمان لانے کے بعد بتدریج اور آدمی بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے اس مضمون کی روایات اہلِ سنت کے ہاں بھی ملتی ہیں۔
عن كعبؓ قال كان الاسلام ابی بكر الصديقؓ بسبب وحى من السماء وذلك انه كان تاجرا بالشام فراى رؤيا فقصا على بحيره الراهب وقال له من اين انت؟ قال من مكه فقال من ايها؟ قال من قريش قال ما يعيش انت؟ قال تاج قال صدق الله رويك فانه يبعث نبيا من قومك تكون وزيره فی حياته وخليفته بعد موته فا سرها ابوبكرؓ حتىٰ بعث النبیﷺ فجاءه فقال يا محمدﷺ مالدليل على ما تدعىٰ؟ قال الروی التى رايت بالشام فعانقه وقبل مابين عينه وقال اشهد انك رسول الله (اخرجه ابنِ عساكر فی تاريخ دمشق)۔
ترجمہ: کعب احبار سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کا اسلام وحی آسمانی سے ہوا اور وہ یوں کہ وہ شام میں تجارتی غرض سے گئے انہوں نے خواب دیکھا بحیرہ راہب کو بتایا اس نے پوچھا تو کہاں سے آیا ہے؟ کہا مکہ سے کہا کس قبیلے سے ہو؟ کہا قریش سے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ کہا تجارت کہا اللہ نے تمہیں سچا خواب دکھایا ہے تیری قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا اس کی زندگی میں تو اس کا وزیر ہوگا اور اس کے بعد تو اس کا خلیفہ ہوگا سیدنا ابوبکرؓ نے اس راز کو دل میں رکھا حضور اکرمﷺ کی بحثت ہوئی سیدنا ابوبکرؓ آپﷺ کے پاس آئے اور کہا آپﷺ کے دعویٰ کی دلیل کیا ہے؟ حضور اقدسﷺ نے فرمایا وہ خواب جو تو نے شام میں دیکھا پھر آپ نے معانقہ کیا ماتھا چوما اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
علامہ باذل نے کاہن لکھا ہے اس روایت میں راہب کا لفظ ہے اگر کاہن تسلیم کر لیا جائے تو اس پیش گوئی کا ذریعہ علم نجوم ہوگا اور اگر راہب تسلیم کر لیا جائے تو اس کا ذریعہ کتبِ سماوی تسلیم کرنا پڑے گا اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا صدیقؓ اکبرؓ کے ایک اور سفر کا ہے آپ علاقہ یمن میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے وہاں قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو سابقہ کتبِ سماوی کا بہت بڑا عالم تھا اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا کیا تم مکہ کے ہو؟ فرمایا ہاں کہنے لگے میرا خیال ہے تم قریشی ہو فرمایا ہاں میرا خیال ہے تم بنی تمیم سے ہو؟ آپ نے فرمایا ایسا ہی ہے اس نے کہا ذرا دیکھو تمہاری ناف پر کوئی نشان ہے جب اس نے سیاہ نشان ناف پر دیکھا تو کہا تو واقعی وہی ہے کتبِ سابقہ میں یہ چار علامتیں درج تھیں اس واقعے کو ابنِ کثیر نے اٙلّٙذِیْنٙ یٙتّٙبِعُوْنٙ الرّٙسُوْلٙ الخ کی تفسیر کے تحت اس عالم کا ذکر کیا جس سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی ملاقات ہوئی۔
وقال فيما انتم؟ واخبرناه تذهب بنا الى منزله فساعة ما دخلت نظرت الى صورة النبیﷺ وازا رجل اخذ بقعب النبیﷺ قلت من هذا الرجل القابض على عقبة قال انه لم يكن نبی الا كان بعده نبی الا هذا النبیﷺ فانه لا نبی بعده وهذا خليفة بعده واذا صفت ابی بكرؓ۔
ترجمہ: اور کہا تم یہاں کیسے آئے ہو؟ ہم نے اسے بتا دیا اور پھر وہ ہمیں لے کر اپنے گھر میں داخل ہوا جونہی میں داخل ہوا میں نے نبی کریمﷺ کی تصویر دیکھی اور دیکھا کہ ایک شخص آپ کی پیٹھ کو پکڑے ہوئے ہے میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ جس نے پیٹھ کو پکڑا ہوا ہے؟ کہنے لگا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے بعد نبی نہ آیا ہو سوائے اس نبی کے کیونکہ اس کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور یہ شخص اس نبی کے بعد اس کا خلیفہ ہوگا جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا ابوبکرؓ تھا۔
اس سلسلے میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا ایک خواب بھی کئی کتابوں میں موجود ہے مگر میرے سامنے اس وقت صرف سیرت کی ایک کتاب ہے اس سے نقل کرتا ہوں۔
رائی القمر نزل إلى مكة فدخل فی كل بيت فله شعبة ثم كان جميعه فی حجره فقصها على بعض اهل الكتاب فعبرها له بانه يتبع النبی المنتظر الذی قد ظل زمانه وانه يكون اسعد الناس به۔ (سيرة حلبيه جلد 1 صفحہ 310)۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے خواب دیکھا کہ چاند مکہ میں اتر آیا ہے اور ہر گھر میں ایک ٹکڑا پہنچ گیا ہے اور پھر تمام ٹکڑے جمع ہو کر سیدنا ابوبکرؓ کی گود میں آگئے ہیں آپ نے اپنا خواب بعض علماءِ اہلِ کتاب کے سامنے پیش کیا انہوں نے یہ تعبیر کی کہ تم اس نبی کے متبع ہو گے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اس کا زمانہ قریب آگیا ہے تم اس نبی سے سب سے زیادہ نفع اٹھاؤ گے اور نیک بخت ترین ہو گے۔
گویا سیدنا صدیقِ اکبرؓ تو حضور اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے ہی آپﷺ کے منتظر تھے اور دعویٰ نبوت سے پہلے یہ حضور اکرمﷺ کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے چنانچہ حضور اکرمﷺ نے جوں ہی دعویٰ کیا آپ نے فوراً ایمان کا اظہار کر دیا اس لیے انہیں نو مسلم بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ نو مسلم تو وہ ہے جس نے انکار کے بعد اقرار کیا ہو سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا انکار ثابت ہی نہیں اس لیے مسلم کہنا درست نہیں۔
اخرج ابو نعیم عن بعض الصحابہ ان ابا بکرؓ/ من بالنبیﷺ قبل النبوة الى علم انه النبىﷺ المنتظر۔ (سيرة حلبيه جلد 1 صفحہ 310)۔
كزرع اخرج شطاه فازره فاستغلظ فاستوى على سوقه۔
ترجمہ: اسلام کو کھیتی سے مثال دی آغاز سے درجہ کمال تک پہنچنے تک کھیتی مختلف مراحل سے گزرتی ہے اسلام بھی ابتدائے دعوت سے کمال تک پہنچنے میں مختلف مراحل سے گزرا اس مثال میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
- بیچ بونے سے کھیتی کا آغاز ہوتا ہے پھر بیج پھوٹ کر باہر آتا ہے پھر پتے اور شاخیں بنتی ہیں اور پودا اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑا ہو جاتا ہے پھر اس میں پھل لگتا ہے۔
- کھیتی کو پروان چڑھانے کے لیے مالک کو نگرانی کرنی پڑتی ہے بیماریوں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے پھر اس کی آبیاری کرتا ہے۔
- کھیتی بتدریج اور علی الاتصال بڑھتی ہے یہ نہیں کہ پہلے پھل لگیں پھر پتے نکلیں اور شاخیں بنیں اور تنا نمودار ہو یا یہ نہیں ہوتا کہ ان میں سے کوئی حصہ منقطع ہو جائے بلکہ یہ سارا علی الاتصال ہوتا ہے۔
اسی طرح اسلام نے بھی بتدریج اور علی الاتصال ترقی کی حضورﷺ نے اسلام کی دعوت دے کر حق کا بیج بو دیا مہاجر اور انصار نے اس کی حفاظت کی اپنے خون سے اسے سینچا حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں اسلام مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے نکل کر عرب کے دوسرے قبائل تک پھیل گیا مگر جزیرہ عرب سے باہر قدم نہ رکھا۔ قیصر و کسریٰ کی دو جابر اور مستحکم سلطنتیں مسلمانوں کے سر پر بیٹھی تھی اور اسلام کو مٹانے کے در پہ تھیں پھر حضورﷺ کے تینوں جانشینوں نے یکے بعد دیگرے اسلام کی کھیتی کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کو کمال تک پہنچایا اور قیصر و کسریٰ کی قوت کو ختم کر کے اسلام کے دائرہ اثر و اقتدار میں توسیع کی اور اسلام علی الاتصال ترقی کر کے کمال تک پہنچا اس آیت سے چاروں خلافتیں موعودہ قرآن ثابت ہوئیں جس کی تورات اور انجیل نے بھی بشارت دی تھی۔
ولا نعم ما قيل فازره الله بمجاهدات الصحابه من المهاجرين والانصار وسقوا زرع الذين بدمائهم فى حيات النبیﷺ وبعد وفاته لاسيما فی خلافة ابی بكرؓ و عمرؓ فاستوىٰ على سوقى وظهر على الاديان كله اخرج شطاه ابوبكرؓ فازره عمرؓ فاستغلظ عثمانؓ فاستوىٰ علیؓ رضی الله تعالى عنهم۔
اگر ترقی اسلام کے سلسلے میں اس ترتیب خلافت کو تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ترقی علی الاتصال نہیں ہوئی درمیان میں منقطع ہو گئی جو خلافِ واقعہ اور خلافِ حقیقت ہے اگر کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تو باہمی جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہا جمل اور صفین میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے سے متصادم ہوئے تو وہ رحماء بينهم کیسے ہوئے؟ اور صلحِ حدیبیہ والوں کو ان اوصاف کا حامل کیوں کر تسلیم کیا جائے۔
اس اعتراض کو درست تسلیم کیا جائے تو تاریخِ اسلام سے وہ جماعت پیش کی جائے جو معیتِ رسول میں بھی ہو اور اس جماعت میں یہ دو وصف أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ اور رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡۖ بھی پائے جائیں اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں پائی جاتی تو معاذ اللہ قرآن کا یہ اعلان غلط ثابت ہوا حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے اس اعلان کی مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے کسی غلط فہمی کی بنا پر وقتی طور پر اچانک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو اس سے ملکہ راسخہ کی نفی نہیں ہو سکتی۔
حضور اکرمﷺ کے بعد حضورﷺ کے پہلے جانشین کی سیرت و اسلامی خدمات کی ذرا سی جھلک ملاحظہ ہو: عگامہ سیوطی الحاوی للفتاویٰ جلد 2 صفحہ 391 میں لکھتے ہیں:
من رفض عبادة الاصنام فی الجاهلية ابوبكر الصديقؓ زيد بن عمرؓو بن نفيل عبدالله بن جحش عثمان بن الحويرث ورقه بن نوفل رباب بن البراء اسعدا و كرب الحميرى قيس بن ساعده الايادی بوقيس بن حرمه۔
ترجمہ: جو لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے متنفر تھے وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ زید بن عمر بن نفیل عبداللہ بن حجش عثمان بن الحویراث ورقہ بن نوفل رباب بن البراء اسعد یا کرب الحمیری، قیس بن ساعدہ ایادی اور ابو قیس بن حرمہ تھے۔
گویا حضور ﷺکے پہلے جانشین اسلام کے محافظ کی شخصی سیرہ اور سلامت طبع کا یہ حال ہے کہ توحید کی دعوت سننے سے پہلے ہی بت پرستی کے خلاف تھے بت پرستی کے مخالفین میں ان کا نام سر فہرست ہے پھر یہ کہ عمر بھر شراب نہیں پی پھر ثابت کیا جاچکا ہے کہ ان کا اعلان ایمان بذریعہ وحی آسمانی ہوا۔
اب دیکھیے کہ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حکومت سے کس قدر ذاتی مفاد حاصل کیا تاریخ شاہد ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ بہت بڑے تاجر اور بڑے دولت مند تھے مگر حضور اکرمﷺ کی محبت اور اسلام کی خاطر اپنا سارا مال قربان کر دیا یہاں تک کہ ایک موقع پر حضور اکرمﷺ نے پوچھا کہ سیدنا ابوبکرؓ اپنے اہلُ و عیال کے لئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب کہا شاعر مشرق نے
پروانوں کو چراغ عنادل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے خدا کا رسول بس۔
چنانچہ خلافت کے پہلے روز کا حال یہ ہے کہ جانشین رسولﷺ خلیفۃ المسلمین دن بھر امور سلطنت میں مصروف رہ کر شام گھر آتا ہے تو رات کے کھانے کے لیے آٹا تک موجود نہیں بازار میں خلیفہ رسول آواز دیتا ہے کہ کسی کو مزدوری کی ضرورت ہو تو مزدور موجود ہے لوگ باہر آ کر دیکھتے ہیں تو خلیفہ رسول آواز دیتا دکھائی دیتا ہے اندر چلے جاتے ہیں آخر ایک آدمی آتا ہے کہ میری بکری لنگڑی ہے اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو خلیفہ رسولﷺ مزدوری کرتا ہے ایک درہم ملتا ہے اور رات کے کھانے کا انتظام ہوتا ہے صورتحال کو دیکھ کر مہاجرین و انصار بیتُ المال سے وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔ مگر دیکھئے کہ وظیفہ کی مقدار کیا ہے از سید ابو القاسم ہوگی صفحہ 22
الاستغاثه فی بدع الثلاثةلما استتب له الامر قطع لنفسه اجرة على ذالك من بيت مال الصدقات فی كل يوم ثلاثة دراهم۔
ترجمہ: جب آپ نے خلافت سنبھالی تو اپنے لیے بیتُ المال سے خود وظیفہ مقرر کیا جو تین درہم روزانہ تھا۔
خلیفہ رسولﷺ کا وظیفہ تین درہم یعنی 12 آنے روز مقرر ہوتا ہے سوچنے کی بات ہے کہ اتنے سے وظیفے سے خلیفہ رسولﷺ نے کتنی دنیا اکٹھی کی ہوگی کتنی جائیداد بنائی ہوگی کتنے محل تعمیر کیے ہوں گے خلافت کا آغاز تو آپ نے دیکھ لیا اب ذرا اس جانثار رسولﷺ اور جانثار اسلام کے عہدِ خلافت کے اختتام کا نقشہ بھی دیکھ لیجئے درة النجفيه شرخ نہج البلاغة جلد 1 صفحہ 308:
ان ابابكرؓ مات ولم يخلف درههما ولا دينارا۔
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ دنیا سے رخصت ہوئے تھے تو ورثہ میں ایک دینار بلکہ ایک درہم بھی نہ چھوڑا ہائےکتنے دلیر ہیں وہ لوگ جو یہ بات کہنے میں شرم محسوس
نہیں کرتے کہ یہ شخص حکومت کے لالچ کی وجہ سے اسلام لایا اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔
مرضِ وفاتِ نبی اکرمﷺ:
28 صفر المظفر 11 ہجری کو حضور اکرمﷺ بیمار ہوئے اسی مرض کو مرضِ وفات کہا جاتا ہے اس مرض میں آپﷺ نے دینی امور میں اپنی نیابت کے لیے اپنے سامنے جس شخص کا انتخاب کیا وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہی تھے جب نماز کا وقت آیا تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا "مروا ابا بكرؓ ان يصلی بالناس" سیدنا ابوبکرؓ کو کہو لوگوں کو نماز پڑھائے مشہور یہ ہے کہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے 17 نمازیں پڑھائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے 21 نمازیں پڑھائیں ان میں وہ نمازیں بھی شامل ہیں جن میں حضور اکرمﷺ خود شامل ہوئے جبکہ آپﷺ کو قدرے افاقہ ہوا اور حضور اکرمﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بائیں پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور جہاں تک سیدنا صدیقِ اکبرؓ قرأت پڑھ چکے ہوتے وہیں سے آگے حضور اکرمﷺ شروع کر دیتے اور حضور اکرمﷺ امام بن جاتے اور سیدنا ابوبکرؓ مقتدی اور اس میں وہ نماز بھی شامل ہے جس میں سیدنا ابوبکرؓ بددستور امام رہے اور حضور اکرمﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی حافظ ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ کے جلد 5 صفحہ 234 پر یوں بیان کیا ہے:
عن عائشةؓ قالتﷺ خلف ابی بكرؓ قاعدا فی مرضه الذی مات فيه۔
ترجمہ: سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی اس مرض کے دوران جس میں آپﷺ کا وصال ہوا ۔
ایسی ایک روایت اسی مذکورہ کتاب کے مذکورہ صفحہ پر سیدنا انس بن مالکؓ سے بھی مروی ہے سیرت حلبیہ جلد 3 صفحہ 387:
ثبت انهﷺ صلى خلف ابی بكرؓ مقتديا به فی مرضه الذی مات فيه ثلاث مرات ولا ينكر هذا الاجاهل لا علم له بالرواية۔
ترجمہ: یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مرضِ موت میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے مقتدی ہو کر تین نمازیں پڑھیں اس بات کا انکار صرف جاہل ہی کر سکتا ہے جس کو روایات کا علم نہ ہو۔
ایک اور روایت ملاحظہ ہو ورد النجفیة (شرح نہج البلاغۃ) مطبوعه ایران صفحہ 224:
ثم اشتد به المرض وكان عند خفة مرضه يصلى بالناس و قد اختلف فی صلواته بهم فالشيعة تزعم انه لم يصل بهم الا صلوة واحدة وهی صلاة التی خرج رسول اللهﷺ فيها يتهاد بين علیؓ والفضل فقام فی المحراب مقامه وتاخر ابو بكرؓ والصحيح عندی وهو الاكثر الا الشهر انها لم تكن اخر الصلواة فی حياتهﷺ بالناس جماعة وان ابا بكرؓ بعد ذلك يومين ثم مات۔
ترجمہ: پھر مرض شدت اختیار کر گیا جب افاقہ ہوتا آپﷺ خود نماز پڑھاتے جماعت کے ساتھ آپﷺ کی نمازوں میں شیعہ کا اختلاف ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ آپﷺ نے صرف ایک نماز پڑھی یہ وہی نماز ہے جس کے لیے آپﷺ سیدنا علیؓ اور سیدنا فضلؓ کے سہارے گھر سے نکلے اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی جگہ محراب میں کھڑے ہوئے اور سیدنا ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے میرے نزدیک صحیح یہ ہے اور یہی مشہور ہے کہ یہ آپ کی جماعت کے ساتھ آخری نماز نہیں تھی اور سیدنا ابوبکرؓ نے اس کے بعد دو روز نماز کی امامت کی پھر حضور اکرمﷺ کا وصال ہو گیا فوائد اس حقیقت پر سب متفق ہے کہ حضور اکرمﷺ کے حکم سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے نمازیں پڑھائی پھر اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ نماز دین کا اہم رکن ہے نبی دین کے معاملے میں خود نہیں بولتا بلکہ بحکمِ خدا بولتا ہے لہٰذا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو رسول خداﷺ نے بحکمِ خدا اپنا نائب بنایا اور اپنے سامنے تمام مسلمانوں کو ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوا دیکھا سیدنا علیؓ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نمازیں پڑھیں اگر اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خدا اور رسول کی نافرمانی کر کے عمداً جماعت سے تخلف کیا بھلا جس شخص کو اللہ کا رسولﷺ اللہ کے حکم سے مسلمانوں کا امام مقرر کر دے اور خود جماعت میں شریک ہو تو کوئی مسلمان اس امام کی امامت سے انکار کر کے مسلمان رہ سکتا ہے اگر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ سیدنا علیؓ نے ان کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھی تو ثبوت پیش کرے جو مسلم فریقین ہو یہ امر فریقین کے نزدیک مسلم ہے یہ حضور اکرمﷺ نے بحکمِ خدا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو امام مقرر کیا اور خود ان کے پیچھے نماز پڑھی اب اگر کوئی شخص حضورﷺ کے مقرر کردہ امام کے پیچھے نماز نہ پڑھے تو اس نے خدا اور رسولﷺ کی صریح نافرمانی کی اور جس کے پیچھے امام الانبیاء نماز پڑھے اس کے پیچھے کوئی مسلمان نماز پڑھنے سے انکار کرے تو اس کا رسول سے تعلق کیا باقی رہ جاتا ہے اور صاحبِ درة النجفیہ نے صحیح اور مشہور مذہب یہی بتایا ہے کہ وفاتِ رسول خداﷺ تک سیدنا ابوبکرؓ ہی امام رہے نہ کسی کو اختلاف ہوا نہ شکوہ نہ کسی نے معزول کیا اور نہ کر سکتا تھا بھلا جسے رسولﷺ بحکمِ خدا اپنا امام اور نائب مقرر کرے اسے کون معزول کر سکتا ہے اس کی امامت کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو خدا کو خدا نہ مانے اور رسول کو اس کا رسول تسلیم نہ کرے یہ بات کسی ہوش مند انسان کا تصور میں بھی نہیں آ سکتی کہ خدا نے اپنے رسولﷺ کو اپنا نائب اور امام بنانے کے لیے ایسے شخص کو مقرر کیا جس کے ایمان میں شبہ ہو۔
اسلام میں قیادت کا مظاہرہ اور قیادت کی سند نماز میں امامت ہی تو ہے اسی وجہ سے ایک لاکھ اور کئی ہزار انبیاء نے امام الانبیاءﷺ کو اپنا قائد تسلیم کرنے کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ شبِ معراج مسجدِ اقصیٰ میں امام الانبیاءﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اس لیے امام الانبیاءﷺ نے اپنے سامنے بحکمِ رب العالمین اپنا نائب اور مسلمانوں کا قائد مقرر کرنے کے لیے سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے نماز کی امامت کرائی بلکہ خود ان کے پیچھے نماز پڑھی فضیلت سیدنا ابوبکرؓ کے لیے اب کسی اور دلیل کی بھی حاجت رہ جاتی ہے پھر یہ ایک مسلمہ عقیدہ ہے کہ امام سب سے زیادہ اعلم اور اتقی ہونا چاہیے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی نگاہ میں سب مسلمانوں سے زیادہ اعلم بالقرآن اور سب سے زیادہ متقی سیدنا ابوبکرؓ ہی تھے اسی لیے ان کو امام مقرر کیا گیا سیرہ حلبیہ میں ایک روایت یوں آئی ہے:
وقال النبیﷺ فی مرضہ ذالک یوما لعبداللہ بن زمعة مر الناس فلیصلوا ای صلواة الصبح وکان ابوبکرؓ غائبا فقدم عبداللہ عمرؓ یصلی بالناس فلما سمع رسول اللہﷺ صوتہ اخرج راسہ الشریف حتیٰ اطلع للناس من حجرتہ ثم قالﷺ لا لا لا ثلاثہ مرات لیصلی بالناس ابنِ ابی قحافہؓ فانقضت الصفوف وانصرف عمرؓ ای من صلوٰة فما برح القوم حتیٰ طلع ابنِ ابی قحافہؓ فتقدم وصلیٰ بالناس الصبح۔
ترجمہ: حضور اکرمﷺ نے اپنے اس مرض میں ایک روز عبداللہ بن زمعہ سے فرمایا لوگوں سے کہو کہ نماز پڑھیں یعنی صبح کی نماز سیدنا ابوبکرؓ موجود نہیں تھے عبداللہ نے سیدنا عمرؓ کو آگے کھڑا کر دیا جب رسول کریمﷺ نے ان کی آواز سنی تو اپنا سر مبارک حجرہ سے باہر نکالا اور تین مرتبہ فرمایا نہیں نہیں نہیں نماز ابنِ ابی قحافہؓ پڑھائے چنانچہ صفیں ٹوٹ گئیں سیدنا عمرؓ پیچھے ہٹے اتنے میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ آگئے آگے بڑھے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔
ایسا کیوں نہ ہوتا جب اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ سیدنا ابوبکرؓ نیابت کرے تو اللہ کا رسولﷺ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے مقرر کردہ آدمی کی جگہ کوئی اور نائب بنے اس لیے عین نماز کی حالت میں رسول اللہﷺ نے تبدیلی کرائی۔
بعد وفاتِ نبیﷺ جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی تو ایک لاکھ کئی ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی آواز نہ اٹھائی کہ غدیر اور قرطاس کے موقع پر جب پہلے بیعت ہو چکی ہے تو یہ نئی بیعت کیوں ہو رہی ہے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے پاس وہ کون سی طاقت تھی جس سے مرعوب ہو کر تمام صحابہ ر کرام ضوان اللہ علیہم اجمعین نے معاذ اللہ منشائے رسولﷺ کے خلاف سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی بات صرف یہی تھی کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مزاج شناس رسولﷺ تھے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ نمازیں سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے بحکمِ خدا اور رسول حضورﷺ کی موجودگی میں پڑھائیں اور کوئی دوسرا پڑھانے لگا تو اس کو خود رسولﷺ نے ہٹا دیا تو اس کے سوا اور کون جانشین رسولﷺ ہو سکتا ہے اور سیدنا علیؓ تو سب سے بڑھ کر مزاج شناسِ رسولﷺ تھے جبھی تو انہوں نے اپنے عہد میں مجمع عام میں خطبے کے دوران فرمایا:
اللهم اصلحنا بما اصلحت به الخلفاء الراشدينؓ قيل فمن هم قال حبيبائی وعمای ابوبكرؓ و عمرؓ امام الهدى ورجلا قريش والمقتدىٰ بهما بعد رسول اللهﷺ وشيخ الاسلام من اقتدىٰ بهما عصم ومن اتبع آثارهما هدى الى صراط مستقيم۔ (شافی شريف مرتضىٰ علم الهدى جلد 2 صفحہ 438)۔
ترجمہ: اے اللہ ہماری اصلاح اس ذریعے سے فرما دے جس ذریعے سے خلفائے راشدینؓ کی اصلاح فرمائی پوچھا گیا وہ کون ہیں؟ فرمایا وہ میرے محبوب میرے بزرگ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں یہ دونوں ہدایت کے امام اور قریش میں سے یہ دونوں کام کے مرد تھے اور رسول اللہﷺ کے بعد یہ دونوں اتباع کے لائق یہ دونوں اسلام کے بزرگ ہیں جس نے ان کی پیروی کی گمراہی سے بچ گیا جو ان کے نقشِ قدم پر چلا سیدھی راہ پا گیا۔
علم الہدیٰ نے یہ روایت اپنی کتاب شافعی میں سیدنا باقرؒ اور سیدنا جعفر صادقؒ سے بیان کی ہے روایت کی سند یوں درج ہے۔
وورى جعفرؒ بن محمد عن ابيه انا رجلا جاء الى امير المؤمنين عليه السلام فقال سمعته يقول فی الخطبه انفا۔
ترجمہ: سیدنا جعفرؒ اور سیدنا باقرؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی امیر المومنین کے پاس آیا کہ میں نے ابھی ابھی آپ سے خطبے میں یہ کہتے سنا۔
سیدنا علیؓ کے اس خطبے سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:
- سیدنا علیؓ نے سب سے پہلے شیخینؓ کو خلفائے راشدینؓ کا لقب دیا اور منبر پر اس کا اعلان کر دیا۔
- اپنی اور اپنی جماعت کی اس طرح کی اصلاح کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کی جیسے شیخینؓ کی اصلاح ہوئی۔
- سب سے پہلے سیدنا علیؓ نے ان دونوں بزرگوں کو شیخ الاسلام کا لقب دیا یعنی ان کے لیے شیخینؓ کی اصطلاح کے موجد سیدنا علیؓ ہیں۔
- سیدنا علیؓ نے شیخینؓ کو اپنا حبیب اور اپنا امام فرمایا جس کو سیدنا علیؓ اپنا امام کہیں اس کی امامت سے انکار سیدنا علیؓ کی مخالفت ہے۔
- سیدنا علیؓ نے اس حقیقت کا اعلان کیا کہ نبیﷺ کے بعد مقتدیٰ اور مہتدا یہی حضرات ہیں۔
- سیدنا علیؓ نے اعلان کر دیا کہ جو شخص شیخینؓ کی پیروی کرے گا گمراہی سے بچ جائے گا اور جو شخص ان کی سنت کی اتباع کرے گا سیدھی راہ پائے گا۔
- سیدنا علیؓ نے یہ خطبہ اس وقت دیا جب وہ خود اقتدار کے مالک تھے اس لیے کسی دباؤ کے تحت ایسی بات کہنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ویسے بھی یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ شیرِ خدا ہو اور غیرِ خدا سے دب کر کوئی خلافِ حقیقت بات زبان سے نکالے۔
- ان حضرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خلیفہ برحق تسلیم نہ کرنا یا ان کو غاصب کہنا سیدنا علیؓ صریح مخالفت ہے۔
- سیدنا علیؓ نے شیخینؓ کو مقتدیٰ فرمایا اقتداء اور اطاعت میں فرق ہے اطاعت کا تعلق حکم ماننے تک ہے اور اقتداء دینی امور میں ہوتی ہے اور ہر حرکت و سکون میں پیروی ہوتی ہے اس لیے امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو مقتدی کہتے ہیں کہ وہ تمام حرکات و سکنات میں امام کی پیروی کرتا ہے اس لیے سیدنا علیؓ نے ان کو مطاع نہیں فرمایا بلکہ مقتدی فرمایا۔
- سیدنا علیؓ نے جو کچھ فرمایا اپنے عمل سے خود بھی ایسا کر کے دکھاتے رہے۔
جیسا کہ کتاب سلیم بن قیس ہلالی جلد 2 صفحہ 224 پر ہے:
وكان علی عليه السلام يصلی فی المسجد الصلواة الخمس فلما صلىٰ قال ابوبكرؓ و عمرؓ رضوان الله عليهم اجمعين كيف بنتِ رسول اللهﷺ۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ پانچوں وقت نماز مسجد میں پڑھتے تھے ایک روز جب نماز پڑھ چکے تو شیخینؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی بیماری کے متعلق دریافت کیا۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد شیخینؓ نے سیدنا علیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کی صحت کے متعلق دریافت کیا یعنی سیدنا علیؓ باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز باجماعت سیدنا ابوبکرؓ کی اقتداء میں مسجد نبویﷺ میں پڑھا کرتے تھے۔
اس روایت میں بیان کرنے والا سلیم ہے جو پانچوں اماموں کا شاگرد ہے سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدنا زین العابدینؓ اور سیدنا باقرؓ (صفحہ: 40)
مشاہدہ: میں نے علومِ ظاہری سے فارغ ہو کر علومِ باطنیہ کی طرف توجہ کی منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے جب دربارِ نبویﷺ تک رسائی ہوئی تو ارادہ کیا کہ بقیہ عمر تخلیہ میں بیٹھ کر یادِ الہٰی کروں گا ایک روز سحر کے وقت اپنے معمول میں دربارِ نبویﷺ میں حاضر ہوا تو اچانک حضور اکرمﷺ کی طرف سے یہ القائے روحانی میرے قلب پر شروع ہوا حضورﷺ نے فرمایا: "اسلام کا مکان پتھروں اور اینٹوں سے تیار نہیں ہوا اس میں میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہڈیاں لگائی گئیں پانی کی جگہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا خون لگایا گیا اور گارے کی جگہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گوشت لگایا گیا اب لوگ اس مکان کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین کی جا رہی ہے اور جو شخص اس کے انسداد کی قدرت رکھتے ہوئے خاموشی سے بیٹھا رہے کل قیامت میں خدا کے سامنے کیا جواب دے گا ایک صوفی عارف عالم کو ہمیشہ خدا پر بھروسہ اور توکل چاہیے جب تک اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود سے کام لینا ہے اس کو محفوظ رکھے گا جب اس کی ڈیوٹی پوری ہوگی اس کو بلا لے گا یہ واقعہ تقسیمِ ملک کے بعد پیش آیا اس وقت سے میں نے اپنی استعداد کے مطابق دینی خدمت کا کام شروع کر دیا وما توفيقی الا بالله۔
سیدنا علیؓ کے دل میں شیخینؓ کی جو قدر اور عزت ہے وہ ان کے مذکورہ خطبے سے صاف ظاہر ہے ایک اور روایت سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔
روی ابوجحيفه ومحمد بن علی وعبد خير و سويد بن غفله و ابوحكيم وغيرهم وقد قيل اربعة عشر رجلا ان علياؓ قال فی خطبه خير هذه الامة بعد بيعها ابوبكرؓ وعمرؓ فی بعض الاخبار انه خطب بذلك بعد انهی اليه ان رجلا تناول ابابكرؓ و عمرؓ بالشتمة فدعا به وتقدم بعقوبته بعد ان شهدوا عليه بذلك۔ (شافی جلد 2: صفحہ 428)۔
ترجمہ: ابوجحیفہ اور 14 آدمیوں سے روایت ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ عام میں فرمایا کہ نبیﷺ کے بعد اس امت کے افضل ترین آدمی سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں بعض اخبار میں ہے کہ سیدنا علیؓ نے یہ خطبہ اس وقت دیا جب انہیں اطلاع ملی کہ ایک آدمی نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ کو برا بھلا کہا پھر سیدنا علیؓ نے اس آدمی کو طلب کیا اور شہادتیں لے کر اس کو سزا دی۔
اور اسی شافی میں جلد 1 صفحہ 171 پر ہے:
خير هذه الامه بعد نبيها ابوبکرؓ و عمرؓ فی بعض الاخبار ولو اشاء عن اسم الثالث لفعلت۔
ترجمہ: سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ نبیﷺ کے بعد اس امت کے بہترین آدمی سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں۔
یہ روایت سیدنا علیؓ سے متواتر ہے ان کے نزدیک اس امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ شیخینؓ کو برا بھلا کہنا سیدنا علیؓ کے نزدیک جرم قابلِ سزا ہے جیسا کہ آپؓ نے عمل سے کر دکھایا۔
اس کے بعد بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق رُحٙمٙآءُ بٙیْنٙھُمْ کے اعلانِ خداوندی میں کسی کو شک باقی رہ جاتا ہے تو یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔
اللهم احسن عاقبتنا فی الامور كلها واجرنا من خزی الدنيا وعذاب الاخره اللهم يا مصرف القلوب صرف قلوبنا على طاعتك۔