بزبان حق ترجمان ائمہ کرام رحمۃ اللہ
مولانا اللہ یار خانؒبزبانِ حق ترجمانِ ائمہ کرامؒ
جن حضرات کی حق شناسی حق پرستی اور للٰہیت کی شہادت رب العالمین خود دے اور زبانِ رسالت سے اس اجمال کی تفصیل بھی سنادی جائے تو مزید کسی شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی مگر یہ واضح کرنے کے لئے کہ اہلِ بیتِ نبویﷺ کے دلوں میں ان مقبولان بارگاہِ الہٰی کے متعلق کسی قدر عقیدت تھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ کرامؒ کے ارشادات کا ذکر کر دیا جائے اور ان حضرات کی مستند کتابوں سے اِقتباس پیش کئے جائیں جن کے نزدیک ائمہ کرامؒ کا ارشاد قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
1۔ احتجاج طبرسی میں یحییٰ بن اکثم کی روایت موجود ہے کہ سیدنا باقرؒ سے سوال کیا:
انه نزل جبرائیلؑ علی رسول اللهﷺ وقال يا محمد ان الله عزوجل يقرئك السلام ويقول لك سل ابابكرؓ هل هو راض عنی فانی عنه راض لقال ابوجعفر لست بمنكر فضل ابی بكرؓ۔
ترجمہ: حضرت جبرائیلؑ رسول اللہﷺ پر نازل ہوئے اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرمایا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے دریافت کریں کہ کیا وہ ہم سے راضی ہے میں تو اس پر راضی ہوں۔ پس سیدنا باقرؒ نے فرمایا کہ میں سیدنا ابوبکرؓ کے فضائل کا منکر نہیں ہوں۔
وقال يحيىٰ روى ان السكينة تنطق علی لسان عمرؓ فقال ابی جعفرؒ لست بمنکر فضل عمرؓ ولكن ابابكرؓ افضل من عمرؓ۔ (احتجاج طبرسی صفحہ 239)
ترجمہ: یحییٰ کہتا ہے کہ امام صاحب سے یہ بیان کیا گیا کہ سکینہ سیدنا فاروقؓ کی زبان پر بولتی ہے تو سیدنا باقرؒ نے فرمایا کہ میں سیدنا عمرؓ کے فضائل کا منکر نہیں ہوں ہاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ ان سے افضل ہیں۔
2۔ تفسیر قمی میں زیرِ آیتِ غار یہ روایت درج ہے:
فانه حدثنی ابی عن بعض رجاله رفعه الى ابی عبدالله قال لما كان رسول اللهﷺ فی الغار قال لابی بکرؓ کانی انظر الى الانصار مختبيتين فی الفنيتہم فقال ابو بكرؓ تراهم يا رسول اللهﷺ قال نعم قال فار فيهم فمسح على عينيه فراهم فقال رسول اللهﷺ انت الصديق.
(تفسیر قمی مطبوعہ طہران جلد 4: صفحہ 157)۔
ترجمہ: جب رسول کریمﷺ غار میں تھے تو آپ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا گویا کہ میں سیدنا جعفرؒ اور اس کے ساتھیوں کی کشتی دیکھ رہا ہوں جو دریا میں کھڑی ہے اور انصار کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے صحنوں میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ تو سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا آپ دیکھ رہے ہیں آپﷺ نے فرمایا ہاں سیدنا صدیقؓ نے عرض کی کہ حضورﷺ مجھے بھی دکھائیے حضورﷺ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ دیکھنے لگے تو حضورﷺ نے فرمایا تو سیدنا صدیقؓ ہے۔
جو شخص بزعم خویش محبانِ اہلِ بیتؓ کے نزدیک سب سے زیادہ مطعون ہے اس کے متعلق ائمہ اہلِ بیتؓ شہادت دے رہے ہیں کہ بارگاہِ رسالت سے اسےسیدنا صدیقؓ کے خطاب سے سرفراز فرمایا گیا ہے نبیﷺ صدیق کا خطاب دیں اور اہلِ بیتؓ اس کی شہادت دیں مگر محبانِ اہلِ بیتؓ اس پر طعن کریں تو اسے کیا کہیئے۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو سیدنا علی المرتضیٰؓ پر فضیلت حاصل ہے وہ یوں کہ غزوہ خیبر میں سیدنا علیؓ کو ایک جسمانی وصف شجاعت کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے حیدرِ کرار کے لقب سے نوازا اور رفیقِ خاص سیدنا ابوبکرؓ کو ایک روحانی وصف کمال صدق و دیانت کی وجہ سے صدیق کے لقب سے سرفراز فرمایا اور آیتِ قرآنی کی رو سے نبیﷺ کے بعد سب سے افضل مقام سیدنا صدیقؓ کا ہے۔
غزوہ خیبر میں حضور اکرمﷺ نے سیدنا علیؓ کی دکھتی ہوئی آنکھوں پر دستِ مبارک پھیرا تو آشوبِ چشم دور ہوا اور بصارت درست ہوگئی اور غار میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی مادی آنکھوں پر دستِ مبارک پھیرا اور روشن ضمیر بنا دیا بصارت اور بصیرت میں جو فرق ہے وہی فرق سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کی شان میں ہے مگر دل کا اندھا اس فرق کو کیونکر سمجھے۔
قاضی نور اللہ شوستری نے لکھا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے سیدنا سلمان فارسیؓ سے فرمایا:
ما سبقكم ابوبكرؓ بصوم ولا صلوة ولكن بشیء وقرفی قلبه۔ (مجالس المومنين مجلس سوم صفحہ 89)
سیدنا ابوبکرؓ کو نماز روزہ کی وجہ سے تم پر فضیلت حاصل نہیں بلکہ ایک چیز ہے جو اس کے قلب میں مرکوز کر دی ہے۔
یہ وہی بصیرت ہے جس کا ذکر تفسیرِ قمی کی روایت میں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ بن گئے اور امت میں سب سے افضل ٹھہرے۔
3۔ تفسیر سیدنا حسن عسکری سے ایک طویل بیان کے کچھ اِقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
ان الله اوحى اليه يا محمد ان العلى الا علىٰ يقرأ عليك السلام ويقول لک ان ابا جہل والملاء من قريش قد دبروا علیک یریدون قتلک و امرک ان تستصحب ابا بكرؓ فانه ان انسک و ساعدک و وازرک و ثبت علی ما يعاهدك ويعاقد كان فی الجنة من رفقاتك وفی عرفاتها من خلصانك ثم قال رسول اللهﷺ لابی بكرؓ ارضیت ان تكون معی یا ابا بكر تطلب كما اطلب وتعرف بانك انت الذی تحملنی على ما ادعيه فتحمل عنی انواع العذاب قال ابوبكرؓ يا رسول اللهﷺ اما انا لو عشت عمر الدنيا اعذب فی جميعها اشد عذاب لا ينزل علی موت مريح ولا فرج مینح وكان ذلك فی محبتك لكان ذالک احب التی من ان انغم فيها وانا مالک لجميع ممالک ملوکها فی مخالفتك وهل انا و مالی وولدی واهلى الا فدائک فقال رسول اللهﷺ لا جرم ان اطلع على الله علی قلبك ووجد ما فيه موافقا لما جرى على لسانک جعلک منی بمنزلة السمع والبصر والرأس بمنزلة الروح من البدن۔
(تفسیر سیدنا حسن عسکری مطبوعہ جعفری صفحہ 189)۔
ترجمہ: حضرت جبرئیلؑ بحکمِ خدا نبی کریمﷺ پر وحی لائے کہ اے محمدﷺ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوجہل اور قریش کی جماعت آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر چکی ہے لہٰذا آپ کو چاہئے کہ سیدنا ابوبکرؓ کو اپنا رفیقِ سفر بنائیں اگر وہ آپ کی موانست کریں گے اور عہد پر قائم رہیں گے تو جنت میں بلکہ اعلیٰ طبقہ علیین میں آپ کے رفیق ہوں گے پھر حضور اکرمﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اے سیدنا ابوبکرؓ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم میرے ساتھ ہی رہو اور میری طرح کفار قریش تیرے قتل کے درپے بھی ہوں اور یہ بھی مشہور ہو جائے کہ تم ہی نے مجھے دعویٰ نبوت پر آمادہ کیا ہے اور میری رفاقت کے سبب تم طرح طرح کی تکالیف میں مبتلا ہو سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں وہ ہوں کہ آپ کی محبت میں مجھے سخت ترین مصائب اور بلیات میں مبتلا کیا جائے نہ موت آئے نہ رہائی کی کوئی صورت پیدا ہو تب بھی فی مجھے حضورﷺ کی معیت زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ آپ کو چھوڑ کر میں دنیا میں خوش حال رہوں اور سلاطینِ عالم کی حکومتوں کا مالک بن جاؤں میری جان و مال اور اہل و عیال آپ پر فدا ہوں یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تیری زبان و قلب كو موافق پایا تو یقیناً تمہیں میرے ساتھ وہ تعلق ہوگا جو کان آنکھ اور سر کو جسم سے ہے اور میرے ساتھ وہ نسبت ہو گی جو روح کو بدن سے ہے۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضورﷺ سے جو عہد کیا تھا وہ عمل سے پورا کر دکھایا اور وفا کا صرف حق ہی ادا نہیں کیا بلکہ وفا کی مثال قائم کر دی اور حضورﷺ کی محبت میں گھر بار جان و مال اور اہل و عیال سب کچھ قربان کر دیا۔
یہاں یہ واضح کر دینا مناسب ہوگا ملا باقر مجلسی نے ان روایات کے ترجمہ کرنے میں نا انصافی کی انتہا کر دی ہے مگر پھر بھی یہ الفاظ ان کے قلم سے نکل ہی گئے۔
ترا امر کرده است کہ ابوبکرؓ راه همراه خود بیری۔
کہ اللہ نے آپﷺ کو حکم دیا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کو اپنا رفیق سفر بنائیے۔ (حیاۃ القلوب جلد 2: صفحہ 310) ۔
علامہ فتح اللہ کاشانی اپنی مقبول تفسیر خلاصتہ المنہج میں لکھتے ہیں کہ:
پس پیغمبر شب پنجشنبه در شهر مکه امیر المومنین علی را در جائے خود بخوا بایندو برفاقت ابوبکرؓ بیرون آمده در ہماں شب بداں غار متوجهہ شد
جب شیخ عبد الجلیل قزوینی شیعہ عالم کے ایک ہم عصر سنی عالم نے ان پر اعتراض کیا کہ سیدنا ابوبکرؓ کی رفاقت کی وجہ جو تم لوگ بیان کرتے ہو وہ تو بالکل بے تکی معلوم ہوتی ہے تو شیخ عبد الجلیل نے جو جواب دیا قاضی نور اللہ شوستری نے یوں بیان کیا ہے:
جناب شیخ در جواب نوشتہ کہ این کلمات نہ مذہب علمائے شیعه است بلکہ عوام کا اوباش بطریق استهزاء گویند اگر رسولﷺ شب غار از ابوبکرؓ ترسید از عمرؓ و عثمانؓ ہم می ترسید پس بایستی که ہرسہ رابا خود بردے پس چنانکہ پیغمبرﷺ پنہانے دیگراں می رفت پنہانے ابوبکرؓ نیز می رفت وہمہ حال رفتن و بردن ابوبکرؓ بے حکم خدا نباشد۔
ائمہ کرامؒ کے ارشادات اور مجتہدین شیعہ کے اقرار کے بعد اب اس حقیقت کے انکار کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ہجرت میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی رفاقت و معیت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے طور پر عمل میں آئی مگر یہ رفاقت نہ عارضی تھی نہ وقتی بلکہ ہر حال میں قائم رہی اور ابدی تھی۔
قریش نے تین سال تک حضور اکرمﷺ سے بائیکاٹ کئے رکھا اور آپ شعب ابی طالب میں محصور رہے ان ایامِ مصیبت میں بھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ حضور ﷺ کے ساتھ تھے اس ابتلا کے خاتمے پر ابو طالب کے جو اشعار نقل کئے گئے ہیں ان سے یہ حقیقت واضح ہے۔
قضوا ما قضوا فی ليلهم ثم صبحوا على سهل وسائر الناس رقدوا وهم رجعوا سهل بن بيضاء راضيا وسر ابوبكرؓ بها و محمدﷺ۔ (ناسخ التواريخ جلد 2: صفحہ 622)۔
انہوں نے رات کو جو فیصلہ کیا سو کیا پھر صبح ہوئی اور تمام آدمی ابھی سو رہے تھے انہوں نے سہل بن بيضا کو راضی کر کے لوٹایا اور اس سے سیدنا ابوبکرؓ اور محمد رسول اللہﷺ راضی ہوئے۔
غزوہ بدر میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ حضور اکرمﷺ کے رفیق ہی نہیں تھے مشیر بھی تھے۔
ابوبکرؓ نزد نبی داشت جا بگفت اے بق خلق را رہنما
در آمد بجنگی سپاه ضلال چه فرمائی اکنوں برائے قتال۔
(حملہ حیدری جلد 1: صفحہ 83)۔
اس کتاب میں عروہ سے مکالمہ کے سلسلے میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے جوش حمیت اور محبتِ رسولﷺ کا اظہار کیا گیا ہے اس کا عنوان ہے آمدن عروه بخدمت خیر البشر و استفسار نمودن از مکنون خاطر اظہر و معارضہ نمودن ابوبکر صدیقؓ۔
عروہ کی بات سن کر سیدنا ابوبکرؓ کی کیفیت کا اظہار یوں کیا گیا ہے۔
ع بر آشفت صدیق ازاں گفتگو
اس بر آشفتگی پر عروہ کا ردعمل یہ بیان ہوا ہے۔
پرسید کیں مرد پر شور کیست کدام است اور انسب نام چیست
جواب ملا: چنین گفت با عروہ آنمردویں کہ باشد ابوبکر صدیقؓ ایں۔ (حملہ حیدری جلد 2: صفحہ 211)۔
پھر حدیبیہ میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا حضور اکرمﷺ کے ساتھ ہونا صاحبِ حملہ حیدری نے یوں بیان کیا ہے۔
عنوان مناظرہ سیدنا فاروقؓ با سیدنا صدیقؓ ایک شعر ہے۔
از دہم بدانگونہ پاسخ شنید که سابق زصدیق شنیده بود (حملہ حیدری جلد 1: صفحہ 222)۔
ان روایات میں اس امر کا کھلا اقرار ہے کہ ہجرت کے علاوہ غزوات میں مصائب و بلیات میں اہم معاملات میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو حضور اکرمﷺ کی معیت اور رفاقت حاصل رہی اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی حضورﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی اور بعث بعد الموت بھی رفاقت اور معیت نصیب ہوگیمتذکرہ بالا روایات اور حملہ حیدری میں دوسرے متعدد مقامات پر شیخینؓ کا ذکر سیدنا صدیقؓ اور سیدنا فاروقؓ کے الفاظ سے کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضور اکرمﷺ کے سامنے ان حضرات کو ان ہی القاب سے پکارا جاتا تھا اخیار کے زمانہ میں بھی یہی معمول رہا اور خود متقدمین شیعہ علماء کے ہاں بھی یہی عمل رہا بعد والوں نے جب اپنے مذہب کو مسخ کیا تو یہ القاب بھی اپنے لٹریچر سے غائب کر دئیے ہے۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی فضیلت کے متعلق شیعہ کی تفسیر مجمع البیان میں یوں ذکر کیا گیا:
قال تعالىٰ والذی جاء بالصدق وصدق به واولئك هم المتقون قيل والذی جاء بالصدق رسول اللهﷺ وصدق به ابوبكرؓ۔
ائمہ اہلِ بیتؓ نے شیخینؓ کی فضیلت ہی بیان نہیں فرمائی بلکہ ان کے عمل کو دین میں حجت کا مقام دیا ہے اور ان لوگوں کو گمراہ قراردیا ہے جو شیخینؓ کے مقام نہیں پہچانتے یا ان پر طعن کرتے ہیں۔
5۔ کشف الغمہ شیعہ کے ہاں نہایت معتبر اور مستند کتاب سمجھی جاتی ہے مولوی حامد حسین لکھنوی اپنی کتاب استقصا الافہام میں کشف الغمہ کے متعلق لکھتے ہیں:
آنچه در کشف الغمہ مذکور است آنرا اہل الحق مقبول میسازند وبر انکار آن نمی پردازند۔
اس کتاب میں ایک روایت مذکور ہے:
عبدالله الجعفی عن عروہ عن عبدالله قال سالت ابا جعفر محمد بن علی بن حلیة السیف فقال لا باس به قد حلی ابوبکر الصدیقؓ عنه قبضة سيفه قال قالت اتقول الصديقؓ؟ قال فوثبا الامام وثبة واستقبل القبلة ثم قال نعم الصدیقؓ نعم الصدیقؓ فمن لم یقل له الصدیقؓ فلا صدق الله له قولاً فی الدنیا والآخرۃ۔
کہتا ہے کہ میں نے سیدنا باقرؒ سے سوال کیا کہ تلوار کا قبضہ چاندی کا بنوانا جائز ہے کیا؟ فرمایا کہ ہاں اس لیے کہ جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تلوار پر چاندی کا قبضہ لگوایا تھا راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ اے امام! آپ بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں یہ سنتے امام اپنی جگہ سے اچھل پڑے اور قبلہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا ہاں وہ صدیق ہے ہاں وہ صدیق ہے اور جو شخص اسے صدیق نہ کہے اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق دنیا اور آخرت میں نہ کرے۔ (کشف الغمہ 185)
اس روایت میں کئی امور واضح ہو گئے:
- سیدنا باقرؒ نے جائز و ناجائز سے متعلق ایک دینی مسئلہ میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے فعل کو حجت اور دلیل قرار دیا۔
- نادان لوگوں نے غلط عقائد خود گھڑ لیے اور اپنے آپ پر قیاس کر کے ائمہ اہلِ بیتؓ کو ایسا ہی سمجھا گیا۔
- جب ائمہ کی طرف سے ان کے مَن گھڑت عقائد کے خلاف شیدائیانِ رسولﷺ کی عظمت کا اظہار ہوا تو اپنی اصلاح کرنے کی بجائے ائمہ کی بات پر تعجب ہونے لگا۔
- ائمہ اہلِ بیتؓ نے جب دیکھا کہ کوئی شخص سیدنا صدیقِ اکبرؓ جیسے عظیم صحابی کی عظمت میں کوئی کمی کرتا ہے تو اس گستاخی کو برداشت نہ کر سکے۔
- امام نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ عظمت کا اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اعلان کیا اور تکرار سے اعلان کیا۔
- سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی شان میں کمی کرنے والے کے لیے بددعا کی کہ اس کی دنیا اور آخرت برباد ہو گویا ایسے شخص کی دنیا اور آخرت کی تباہی کی اطلاع دے دی۔
- اہلِ بیتؓ کو ہادی اور رہبر سمجھنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔
- عن جابر قال قال لی محمد بن علی یا جابر بلغنی ان قوما بالعراق یزعمون انھم یحبوننا ویتنا ولون ابابکر و عمر عنھما ویزعمون انی امرتھم بذلک فابلغھم انی الی الله منھم بری والذی نفس محمد بیدہ لو ولیت لتقربت الی الله تعالیٰ بدماتھم لا نا لتنی شفاعة محمد ان لم اکن استغفر لھما واترحم علیھما ان اعداء الله لغافلون عنھما
( حلیة جلد 3 صفحه 185)۔
ترجمہ: جابر کا بیان ہے کہ مجھے سیدنا باقر زین العابدینؓ نے کہا کہ اے جابر مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عراق میں ایک قوم ہے ان کا گمان ہے کہ وہ ہمیں دوست رکھتے ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کو برا بھلا کہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے انہی ( شیخینؓ کو) برا بھلا کہنے کو کہا ہے انہیں میرا پیغام پہنچا دینا کہ میں ان سے پناہ طلب کرتا ہوں اور میں ان سے بری ہوں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں اور قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں غالب بنایا جاتا تو ان کے قتل کرنے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتا مجھے نبی کریمﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں ان دونوں (شیخینؓ) کے لیے استغفار نہ کروں یقیناً یہ اللہ کے دشمن شیخینؓ کی شان سے غافل ہیں۔
7۔ عن جابر الجعفی قال قال لی ابوجعفر محمد بن علی لما ودعته ابلغ اھل الکوفة انی بری ممن تبری من ابی بکرؓ و عمرؓ عنھما وارضاھما۔ (حلیة صفحہ 185)۔
ترجمہ: جابر جعفی کہتا ہے کہ جب میں سیدنا باقرؒ سے الوداع کہہ کے کوفہ آنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اہلِ کوفہ کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ سے بیزار ہے۔
8۔ عن ابی جعفر محمد بن علی قال من لم یعرف فج ابی بکرؓ و عمرؓ فقد جھل السنة۔ (حلیة صفحہ 185)۔
ترجمہ: سیدنا باقرؒ نے فرمایا کہ جو شخص سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی فضیلت کو نہیں پہچانتا وہ سنتِ رسولﷺ سے جاہل ہے۔
9۔ عن ابی سلیمان قال سالت اباجعفر محمد بن علی عن قوله تعالیٰ انما ولیکم الله ورسوله والذین امنو الذین یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون قال اصحاب محمدﷺ قلت یقولون ھو علیؓ قال علیؓ منھم۔ (حلیة صفحہ 185)۔
ترجمہ: ابو سلیمان کہتا ہے کہ میں نے سیدنا محمد باقرؒ سے آیت انما ولیکم اللہ الخ کی تفسیر پوچھی تو امام نے فرمایا کہ اس سے مراد اصحابِ رسولﷺ ہیں میں نے کہا کہ شیعہ کہتے ہیں کہ اس سے سیدنا علیؓ مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ سیدنا علیؓ ان مومنوں میں داخل ہیں۔
متذکرہ بالا چار روایات سے چند امور کی وضاحت ہوتی ہے۔
- سیدنا باقرؒ نے ان لوگوں کو خدا کا دشمن قرار دیا جو فضیلت شیخینؓ کے منکر ہیں۔
- سیدنا باقرؒ نے ان لوگوں کے اس دعویٰ کی تردید کی کہ سیدنا باقرؒ شیخینؓ سے برأت کا حکم دیتے ہیں۔
- سیدنا باقرؒ نے منکرین فضیلتِ شیخینؓ کے مرکز کوفہ میں اہتمام سے پیغام بھیجا کہ میں ان لوگوں سے بیزار ہوں جو شیخینؓ کی فضیلت سے انکار کرتے ہیں۔
- سیدنا باقرؒ نے وضاحت فرما دی کہ جو شیخینؓ کی فضیلت کا منکر ہے وہ دراصل سنتِ رسولﷺ کا منکر ہے
- امام نے آیت قرآنی کی تفسیر کے سلسلہ میں شیعہ کی غلط تعبیر اور غلط تاویل کی اصلاح فرما دی اور واضح فرما دیا کہ ولیکم اللہ سے مراد صرف سیدنا علیؓ نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے جس میں سرِ فہرست شیخینؓ کا نام آتا ہے۔
10۔ عن فرات بن السائب قال سالت میمون بن مھران قلت علیؓ افضل عندک ام ابوبکرؓ و عمرؓ فارتعد حتیٰ سقطت عصاہ من یدہ ثم قال ما کنت الظن ان ابقی الی زمان یعدل بینھما ذرھما کاتار اسی السلام وراسی الجماعة فقلت فابوبکرؓ کان اول اسلاما او علیؓ قال والله لقد امن ابوبکرؓ بالنبیﷺ زمن بحیرہ الراھب حین مربه۔(حلیہ جلد 4 صفحہ93)
ترجمہ: فرات بن سائب کہتے ہیں میں نے میمون بن مہران سے سوال کیا اور کہا کہ آپ کے نزدیک سیدنا علیؓ افضل ہیں یا سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ آپ کانپ اٹھے اور آپ کے ہاتھ سے لاٹھی گر پڑی پھر فرمایا مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں اس زمانے تک زندہ ہوں گا جس میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے ساتھ کسی کو برابر سمجھا جائے ان دونوں کی کیا پوچھتے ہو یہ دونوں اسلام کے اور جماعت کے سردار تھے پھر میں نے پوچھا کہ سیدنا ابوبکرؓ پہلے اسلام لائے تھے یا سیدنا علیؓ۔
فرمایا کہ اللہ کی قسم سیدنا ابوبکرؓ تو بحیرہ راہب کے زمانے میں ایمان لائے تھے جب ان کا گزر اس کے پاس ہوا۔
حملہ حیدری جلد اول میں اس روایت کی تصدیق کی گئی ہے وہاں بحیرہ کو راہب کے بجائے کاہن کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے پورا حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔
عن علی بن الحسینؓ قال اتاتی نفر من اھل العراق فقالوا ابی بکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ فلما فرغوا قال لھم علی بن الحسین الا تخبروتنی انتم المھاجرون الاولون الذی اخرجوا من دیارھم اموالھم یبتغوں فضلا من الله ورضوانا وینصرون الله ورسوله اولٰئِک ھم الصادقون۔
ترجمہ: سیدنا زین العابدینؒ سے روایت ہے کہ میرے پاس عراق کی ایک شیعہ جماعت آئی اور اصحابِِ ثلاثہؓ کے حق میں ناروا الفاظ کہے جب کہہ چکے تو سیدنا زین العابدینؓ نے ان سے کہا کیا تم مہاجرین اولین سے ہو جن کے اوصاف قرآن نے یہ بیان کئے ہیں۔
قالوا لا قلا فانتم الذين والايمان من قبلهم يحبون من هاجر اليهم ولا يجدون في صدورهم حاجه مما اوتوا ويوثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فاولٰئك هم المفلحون قالوا لا قال امانتم فقد تبرأتم ان تكونوا من احد هذين الفريقين ثم قال اشهد اتكم لستم من الذين قال الله عز وجل والذين جائوا من بعدهم يقولون ربنا اغفرلنا ولا خواتنا الذين سبقونا بالايمان ولا نجعل في قلوبنا غلا للذين اٰمنوا ربنا انك غفور رحيم اخرجو افعل الله بكم۔ (حلية جلد 3 صفحہ 136)۔
ترجمہ: جواب میں عراقیوں نے کہا کہ ہم ان مہاجرین میں سے تو نہیں ہیں امام نے کہا تو کیا تم ان انصار سے ہو جن کے متعلق قرآن نے یہ فرمایا انہوں نے کہا ہم ان انصار میں سے بھی نہیں ہیں پھر امام نے فرمایا کہ تم نے اقرار کر لیا ہے کہ تم ان دو جماعت ہو یعنی مہاجرین اور انصار سے تعلق نہیں رکھتے ہو پھر فرمایا کہ میں سنا دیتا ہوں کہ تم بعد میں آنے والے مسلمانوں میں سے بھی نہیں ہو جن کے متعلق قرآن نے یہ فرما دیا۔
اس لیے میرے پاس سے نکل جاؤخدا تمہیں غارت کرے۔
سیدنا زین العابدینؓ نے قرآنِ مجید کی تین آیتیں پیش کر کے عراقی شیعہ جماعت پر واضح کر دیا مسلمانوں کی صرف تین ہی جماعتیں ہو سکتی ہیں۔
اول: مہاجرین جنہوں نے اللہ اور رسولﷺ کی محبت میں اپنا وطن چھوڑا۔
دوم: انصار جنہوں نے ان بےوطن مہاجرین کو اپنے ہاں یوں بسایا جیسے گھر کے افراد ہیں۔
سوم: بعد میں آنے والے جنہوں نے مہاجرین اور انصار کا اتباع کیا ان کے نقوش قدم پر چلے اور مہاجرین و انصار کے حق میں دعا کریں اور دلوں میں ان کے متعلق کوئی میل اور کھوٹ نہ رکھیں۔
اب جو شخص اہلِ بیتؓ سے محبت یا اتباع کے تعلق کا مدعی ہو اسے اپنے متعلق سوچ لینا چاہیے کہ ان تین جماعتوں میں کہیں اس کا مقام ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو لازماً وہ امام کے ارشاد کے مطابق اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جسے امام نے اپنی مجلس سے دھتکار کر نکال دیا۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه۔