Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ کا فتویٰ


سوال: مشہور ہے کہ اگر کسی شخص میں 99 وجہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ تو شارع علیہ السلام نے بہت سے کلمات کو کفر کے لیے وضع کیا ہے۔ تو پھر کلماتِ کفر کو کفر کے لیے وضع کرنے سے کیا فائدہ؟ اگر محض زجر مقصود ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں بڑے بڑے عالم بعض لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر بلکہ حقیقت میں کلماتِ کفر کے ارتکاب پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس فتوے کو کس پر محمول کرنا چاہیے؟

جواب: اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر 99 باتیں کفر کی موجب پائی جائیں تب بھی فتویٰ نہ دیں گے۔ 99 تو بہت ہوتی ہیں اگر ایک امر بھی موجب کفر یقینی پایا جائے تب بھی فتویٰ دے دیں گے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ خود اس امر میں بہت سے احتمال ہیں۔ بعض احتمالات پر تو وہ موجب کفر ہے، اور وہ احتمالات 99 ہیں، اور بعض احتمال پر وہ موجب کفر نہیں اور وہ ایک ہے۔ تو اس صورت میں امر کو محمول اسی احتمال پر کریں گے جو موجب کفر نہیں، اور تکفیر سے احتیاط کریں گے۔ (امداد الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 393)

سوال: اکثر مرزائی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کتب دینیات میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی شخص میں 99 وجہ کفر کی پائی جائیں اور ایک وجہ اس میں اسلام کی ہو تو اس کو کافر نہ کہا جائے گا۔ اور حدیث میں ارشاد ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔

حدیث شریف یہ ہے: عن انسؓ انه قال قال رسول اللّٰہﷺ من صلٰى صلٰوتنا واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتنا فذٰلك المسلم الذي له ذمة اللّٰه و ذمة رسوله فلا تفخرو اللُّه في ذمته 

دوسری حدیث شریف یہ ہے: قال لا اله الا الله فدخل الجنة

اب علماء کرام سے یہ عرض ہے جبکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی بھی اہلِ قبلہ کلمہ گو ہے۔ تو علماءِ دین اس پر کفر کا فتویٰ کیوں لگاتے ہیں۔ اس کا شافی طور پر جواب ارقام فرمائیں۔

جواب: جس شخص میں کفر کی کوئی وجہ قطعی ہو گی کافر کہا جائے گا۔ اور حدیثیں اُس شخص کے بارے میں ہیں جن میں کوئی وہ قطعی نہ ہو۔ اور اس مسئلہ کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی امر قولی یا فعلی ایسا ہو کہ محتمل کفر و عدم کفر دونوں کو ہو م، گو احتمال کفر غالب اور اکثر ہو تب بھی تکفیر نہ کریں گے، نہ یہ کہ تکفیرِ قطعی پر بھی تکفیر نہ کریں گے۔ کیونکہ کافر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس میں تمام وجوہ کفر کی جمع ہوں ورنہ جن کا کفر منصوص ہے، وہ بھی کافر نہ ہوں گے۔(امداد الفتاوىٰ: جلد، 5 صفحہ، 386)

سوال: اگر کوئی شخص ایسے فرقے کی طرف اپنے کو منسوب کرے جس کے کچھ عقائد اسلامیہ ہوں کچھ کفریہ ہوں اس کا کیا حکم ہو گا؟

جواب: قواعد سمعیہ و عقلیہ اس پر متفق ہیں کہ مجموعہ ایمان و کفر کا، کفر ہی ہے۔ وقد صرح به في قوله تعالى : ويقولون نؤمن ببعض وتكفر ببعض و يريدون ان يتخذوا بين ذٰلك سبيلا اولئک هم الكفرون حقا ورنہ دنیا میں ایسا کوئی کافر نہ ہوگا جس کا ہر عقیدہ کفریہ ہی ہو۔  

کثرت سے کافر، صانع کے قائل ہیں۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر ننانوے وجہ کفر کی ہوں اور ایک ایمان کی تو ایمان کا حکم کیا جائے گا، اس سے مراد وہ وجوہ ہیں جن میں دونوں احتمال ہوں، جیسے ایک کلام کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ( امداد الفتاوىٰ: جلد، 4 صفحہ، 587)