Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

آیت غاز

  مولانا اللہ یار خانؒ

آیتِ غاز

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْهُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا الخ۔ (سورۃ التوبہ آیت 40)۔

ترجمہ: اگر تم نے رسول اللہﷺ کی امداد نہیں کی تو کیا اللہ تعالیٰ خود اس کی امداد کر چکا ہے جب کفار نے انہیں گھر سے نکالا تھا تو وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب رسول اللہﷺ اپنے دوست کو فرما رہے تھے کہ غم مت کر محقق بات ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے بس اللہ تعالیٰ نے اس پر سکینہ نازل فرمائی اور اس کی امداد ایسے لشکر سے فرمائی جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے۔

 نصرتِ الہٰی کی حیثیت اور صورت:

نبی کریمﷺ کی ایک دعا قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے وھو ھذا:

 رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا۝ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 80)۔

ترجمہ: خدایا مجھے اچھے طریقے سے داخل کریں اور اچھے طریقے سے نکالیں اور اپنی طرف سے مجھے غالب مددگار عنایت فرما دیں۔

 یعنی رسول کریمﷺ نے اپنے رب سے سلطاناً نصیراً کی درخواست کی تھی جس کے ساتھ من لدنک کا کا وصف پڑھا دیا کہ مددگار غالب بھی ہو اور تیرا مقرر کردہ ہو آیت میں جس مددگار کا ذکر ہے اس کی حیثیت تو معلوم ہو گئی کہ غالب بھی تھا اور رب العالمین نے اپنی طرف سے مقرر فرمایا تھا مگر وہ کون تھا؟۔

شیعہ تفسیر مجمع البیان ابوعلی طبرسی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

انہ کان ھو و ابوبکرؓ إِذۡهُمَا فِى ٱلۡغَارِ و لیس معھما ثالث ای ھو احد اثنین و معناہ فقد نصرہ اللہ منفرداً من کل شیء الا من ابی بکرؓ۔ 

ترجمہ: مراد یہ ہے کہ ایک تو رسول اللہﷺ تھے دوسرے سیدنا ابوبکرؓ تھے جب وہ دونوں غار میں تھے تیسرا کوئی نہیں تھا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے رسول کریمﷺ کی امداد کی ہر شے سے منفردا سوائے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے۔

معلوم ہوا کہ جس سلطاناً نصیراً کی رسول اللہﷺ نے دعا کی وہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکرؓ کی صورت میں رسول اللہﷺ کے لیے منتخب فرمایا۔

 آیت کے الفاظ سے ایک اور حقیقت بھی واضح ہوتی ہے یعنی اذا اخرجهٗ کی ضمیر سے ثانی اثنین حال واقع ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت محمد رسول اللہﷺ غار کی طرف روانہ ہوئے تو سیدنا ابوبکرؓ آپﷺ کے ہمراہ تھے یعنی گھر سے نکلتے وقت وہ ثانی اثنین تھے۔

شیعہ مفسر علامہ فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر منہج الصادقین میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

پس پیغمبر شب پنجشنبہ در شہر مکہ امیر المومنین علی رادرجائے خود بخو ابا یندو خوداز خانہء ابوبکرؓ و برفاقت ابوبکرؓ بیرون آمد درہماں شب بداں غار متوجہ شد۔

اور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب حیات القلوب جلد 2 صفحہ 310 پر لکھا ہے: 

ترا امر کردہ است کہ ابوبکرؓ رہمراہ خود ببری۔ 

یعنی رسول کریمﷺ کو جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کو ہمراہ لے کر چلیں۔

بات تو صاف ہے کہ رسول کریمﷺ کو بذریعہ وحی حکم ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ساتھ لے یعنی سیدنا ابوبکرؓ بحکمِ الہٰی اس مہم میں حضور اکرمﷺ کی مدد کے لیے منتخب ہوئے اور حضورﷺ نے دعا کی تھی سلطاناً نصیراً کی تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق سیدنا ابوبکرؓ سلطاناً نصیراً قرار پائے مگر یہاں ملا باقر مجلسی کے ایک بیان سے بات کچھ پچیدہ ہوگئی ہے ملا صاحب اس سے کتاب کے جلد 1 صفحہ 175 پر لکھتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ مسلمان ہیں فاسق ہیں۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری خدائی میں اپنے آخری نبیﷺ کی مدد کے لیے ایک فاسق ہی ملا تھا؟ اور نبی آخر الزماںﷺ نے 13 برس کی مسلسل جدوجہد سے ایک مسلمان بھی ایسا تیار نہیں کیا تھا جس پر اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ انتخاب پڑتی؟ کاش کوئی دانشور اس معمہ کو حل کر دے۔

ایک اور شیعہ عالم علامہ بازل ایرانی نے اپنی مایہ ناز کتاب حملہ حیدری طبع 1209ھ اعجاز حیدری میں لکھا ہے:

چنیں گفت راوی کہ سالار دیں! چوں سالم بحفظ جہاں آفرین

زنزدیک آں قوم پر مکر رفت بسوئے سرائے ابوبکرؓ رفت

نئے ہجرت او نیز آمادہ بود کہ سابق رسولش خبردادہ بود

نبی بردر خانہ اش چوں رسید بگوشش ندائے سفر در کشید

چوں ابوبکرؓ ازاں حال آگاہ شد! زخانہ بوں رفت و ہمراہ شد

گرفتند پس راه یثرب به پیش نبی کند بغلین از پائے خویش

بسر پنجه آه راه رفتن گرفت! پائےخودزدشمن نهفتن گرفت!

چوں رفتند چندے زد امانِ دشت! قدوم فلک سا مجروح گشت 

ابوبکرؓ آنگہ بدوشش گرفت! ولی زیں حدیث است جائے شگفت

کہ درکس چناں قوت آید پدید کہ بار نبوت تو اندکشید!

برفتند القصہ چندے دگر! چوگر دید پیدا نشان سحر!

بجستند جائے کہ باشد پناہ! زچشم کساں دور یکسوز راہ

بدیدند غارےدراتیرہ شب کہ خواندےعرب غارتورش لقب

گرفتئددرجوف آں غارجا! ولی پیش ینہاد بوبکرؓ پائے

بہرجا کہ سوراخ یارخنہ دید! قبارابدریدوآں رخنہ چید

بدیں گونہ تاشد تمام آں قبا یک رخنہ نگذشت بانداز قضا

برآں رخنہ گوئند آں یار غار کف پائے خود رانمود استوار

نیا ید جزوا وشگر فاز کسے کہ دورازخرومی نماید بسے

بغاراندرون درشب تیرہ فام چساں دید سوراخ ہارا تمام

دراں تیرہ شب یک بہ یک چوں شمرد یکے کامدا افزوں برو پافشرو

نیا مد چنیں کاراز غیرِ او! بدیں سال چوپر داخت ازرفت رو 

درآمد رسول خدا ہم بغار نشستند یکجا بہم ہرد ویار

بغار اندرون تاسہ (3)روز وسہ(3) شب بسر بردآں شاہ بفرمان رب

شدے پور ابوبکرؓ ہنگام شام بہ بردے دراں غارآبو طعام

نمودے ہم ازحال اصحابِ شر حبیبِ خدائے جہاں راخبر!

کہ ہستنددر جستجوآں گروہ شب وروز در شہر و صحر اوکوہ

وگر راعئے بود عامر بنام کہ کردے شبانی بہ بیت الحرام 

کہ او نیز اسلام آوردہ بود! زابریق توفیق مے خوردہ بود

شدے شب بہ نزد بشیر و نذیر بہ بردے برش ہدیہ جامے زشیر

جز ایشاں دگزار صدیقؓ وعدو نہ بدہیچ کس واقف ازرازاو 

نبی گفت پس پور بکررا کہ اے چوں پدر اہل صدق وصفا 

دو جمازہ باید کنوں راہوار! کہ مارا ساند بہ یثرب و یار 

برفت از برش پور بوبکرؓ زود بدنبال کارے کہ مرمودہ بود

ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے:

  1. نبی کریمﷺ کو مکہ سے ہجرت کا حکم ہوا تو رفیق سفر بھی اللہ نے متعین کر دیا۔
  2.  آپﷺ سیدنا ابوبکرؓ کے گھر پہنچے دروازہ کھٹکھٹایا سیدناصدیقؓ ہجرت کے لیے تیار تھے کیونکہ حضورﷺ نے پہلے ہی باحکمِ خدا آپؓ کو آگاہ کر رکھا تھا۔
  3. دونوں چل پڑے کچھ دور تک یوں چلے کہ حضورﷺ نے جوتے اتار لیے اور پنجوں کے بل چلتے گئے۔
  4. آپﷺ کے پاؤں زخمی ہو گئے تو سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضورﷺ کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔
  5.  غارِ ثور کے پاس پہنچے تو سحر ہوگئی سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے غار کے اندر جا کر اسے صاف کیا جہاں جہاں کوئی سوراخ دیکھا اپنی قمیض پھاڑ کر بند کرتے رہے ایک سوراخ باقی رہ گیا اور قمیض ختم ہوگئی وہاں اپنا پاؤں رکھ دیا۔
  6.  تین شب و روز غار میں بس دونوں ہی رہے۔
  7.  سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا بیٹا شام کو کھانا لاتا اور دن بھر کی خبریں بتاتا رہا اور آپ کا غلام عامر رات کو بکریاں لاتا دودھ پلاتا اور پاؤں کے نشان مٹاتا۔
  8.  حضورﷺ کے حکم کے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا بیٹا گھر سے دو اونٹنیاں لایا جو سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے اسی غرض سے تیار کر رکھی تھی۔

علامہ بازی کے اس بیان سے ذیل کے نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

  1. سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو ان کے گھر سے باحکمِ الہٰی حضورﷺ ساتھ لائے تھے شیعہ کا یہ کہنا سیدنا ابوبکر صدیقؓ بعد میں پیچھے سے آ ملے تھے سفید جھوٹ سے بھی کچھ اونچی چیز ہے 
  2.  اللہ تعالیٰ نے اس مدد کا بڑے اہتمام سے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے۔
  3.  علامہ باذل کو تعجب ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے اپنے کندھوں پر وارِ نبوت کیسے اٹھایا یہ تعجب ہی خواہ مخوا مستقل سر درد بنا ہوا ہے ورنہ بات صاف ہے کہ حضور اکرمﷺ نے عملاً ثابت کر دیا کہ میرے بعد تعلیماتِ نبوت کا بوجھ اٹھانے والا یہی شخص ہے جو آج بارِ نبوت اٹھا کے اس سنگلاخ زمین میں ان نوکیلے پتھروں پر چلتا ہوا اس عمودی بلندی پر چڑھا جا رہا ہے اسی والہانہ شیفتگی کے ساتھ یہ میرے دین میری امانت کی حفاظت کرے گا حالات کی نامساعدت مشکلات کے طوفان اس کے حوصلے کو پست نہیں کر سکیں گے جس طرح اس نے آج میرے وجود کی حفاظت کے لیے اپنی قبا پھاڑ پھاڑ کر غار کے سوراخ بند کیے ہیں اسی طرح میرے لائے ہوئے دین کی حفاظت کے لیے اپنا تٙن مٙن دٙھن قربان کر دے گا اور کوئی چور دروازہ باقی نہ رہنے دے گا اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے کس محنت سے فتنہ ارتداد جھوٹے مدعیانِ نبوت مانعینِ زکوٰۃ کے فتنے کو کچلا اور اللہ کی کتاب کی حفاظت کے لیے کیسا قول پروف انتظام کیا کہ اسلام کے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس کی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔

چنانچہ ایک سکہ بند دشمن اسلام ولیم میور لکھتا ہے:

دنیا میں غالباً کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو 1200 برس تک ایسے خالص متن کے ساتھ رہی ہو۔

 صرف ہجرت کے وقت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی خدمات کا خلاصہ یہ ہے کہ:

  1.  گھر کا سارا سرمایہ جو 40 یا 46 ہزار تھا ہمراہ لے لیا۔ 
  2.  بیٹی زاد سفر تیار کر رہی ہے اور ذی النطاقین کی سند ملتی ہے۔ 
  3. بیٹا شام کو کھانا لاتا ہے۔ 
  4.  غلام رات کو ریوڑ لا کر دودھ پیش کرتا ہے۔ 
  5.  ہجرت کے لیے سواری کا انتظام سیدنا صدیقِ اکبرؓ کرتا ہے۔
  6.  اپنی جان اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ کفار نے جو انعام حضورﷺ کے لیے مقرر کیا اسی انعام کا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو پکڑنے کے لیے اعلان کیا۔

اس ایک موقع پر اتنی خدمات کس نے پیش کر کے دکھائیں تاریخ سے پوچھو کریدو ریسرچ کرو جواب نفی میں ملے گا مگر اس کے باوصف کچھ لوگ جنہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت کی الاٹمنٹ کا کاروبار انہیں سونپا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ سیدنا صدیقؓ بھلا کہاں جنتی ہو سکتا ہے اگر خدا اپنے فیصلوں میں ایسے دانشوروں کا محتاج ہوتا تو اس کا امکان ہو سکتا تھا مگر وہ علیم و خبیر تو ان حقائق کی بنا پر فیصلے کرتا ہے جن کا پورا علم اس کے بغیر کسی کو نہیں اگر بات مشوروں پر ہوتی تو مصطفیٰﷺ کی رفاقت کے لیے سیدنا صدیقؓ کا انتخاب کیونکر عمل میں آتا۔

حقائق کا منہ چڑانے کے لیے چند ایک باتیں بنائی جاتی ہیں۔ مثلاً:

  • حضورﷺ نے تو اونٹوں اور گدھوں پر بھی سواری کی ہے اس لیے سیدنا صدیقؓ نے حضورﷺ کو کندھوں پر اٹھا لیا تو کیا ہوا؟۔

بات کا پہلا حصہ تو درست ہے واقعی حضورﷺ نے اونٹوں اور گدھوں پر سواری کی ہے مگر دوسری بات غلط ہے کہ "کیا ہوا" ہوا یہ کہ جس اونٹ پر حضورﷺ نے سواری کی وہ دنیا بھر کے تمام اونٹوں سے افضل ہے بلکہ جس جانور پر حضورﷺ نے سواری کی وہ اس جنس کے تمام جانوروں سے افضل ہے اس لیے جس انسان کے کندھے پر حضور اکرمﷺ کا وجود باسعود قیام پذیر ہوا وہ انسان بھی افضل البشر بعد الانبیاء ہے یہ جو کچھ ہوا اس کی قدر وہ لوگ کیا جانے جو مقامِ مصطفیٰﷺ کے متعلق ترنگ میں آ کر یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ:

 غلط الامین فجاز ھا عن حیدر تااللہ ما کان الامین امینا۔

(مجالس المومنین جلد 2 صفحہ547)۔

  •  دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی کو حضورﷺ نے رات اپنے بستر پر سلایا تھا یہ قربانی بہت بڑی ہے۔

یہ واقعہ تو درست ہے مگر خدا جانے قربانی کو ناپنے یا تولنے کا پیمانہ کیا ہے اگر حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے جان پیش کر دی درست اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے جان پیش کر دی مال پیش کیا اور سارا کنبہ پیش کر دیا۔

کفار نے نہ تو سیدنا علیؓ کے لیے کوئی انعام مقرر کیا نہ انہیں قتل کیا مگر سیدنا صدیقؓ کے لیے تو اتنا ہی انعام مقرر کیا جتنا حضور اکرمﷺ کے لیے اعلان کیا تھا۔ بہرحال حقیقت اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی قربانی بڑی ہے۔ 

ہاں شیعہ کی کتاب احتجاج طبرسی صفحہ 241 پر اس بڑائی کا عقلی اور استدلالی رنگ میں ایک نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے "بڑی قربانی" کے متعلق کسی حد تک اظہار ہوتا ہے۔

عن سعد بن عبداللہ القمی الاشعریٰ قال بلیت باشد النواصب منازعۃ فقال لی یوما بعد ما ناظرتہ تبالک ولاصحابک انتم معاشر الروافض تعتقدون المھاجرین والانصار بالطعن علیھم وبالحجود لمحبۃ النبیﷺ فالصدیقؓ فوق الصحابۃؓ بسبب سبق الاسلام الا تعملون ان رسول اللہﷺ انما ذھب بہ لیلۃ الغار لانہٗ خاف علیہ کما خاف علی نفسہ ولما علم ان یکون خلیفتہ فی امتہ وارادان یصون نفسہ کما یکون خاصتہ علیہ السلام کیلا یخل حال الدین من بعدہ ویکون الاسلام منتظما وقد قام علیھا علی فراشہ لما کان فی علمہ انہ لو قتل کا یختل الاسلام بقتلہ لانہ یکون من یقوم مقامہ لاجرم لم تبال من قتلہ قال سعد انی قلت علی ذالک اجوبۃ لکنھا غیر مسکتۃ۔ 

ترجمہ: سعد بن عبداللہ قمی کہتا ہے کہ میں سخت سنی سے مناظرہ میں مبتلا ہوا اس نے مناظرہ کے بعد مجھے کہا ہلاکت تمہارے لیے اور تمہارے شیعہ کے لیے تم مہاجرین و انصار پر طعن کرتے ہو اور ان کی صحابیت کا انکار کرتے ہو باوجود اس کے کہ وہ محبوبِ رسولﷺ تھے سیدنا ابوبکر صدیقؓ تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہے بوجہ سبقت اسلام کے تم نہیں جانتے کہ ہجرت کے روز حضورﷺ سیدنا صدیقؓ کو اپنے ہمراہ غار میں لے گئے تھے کہ جس طرح اپنے مارے جانے کا خوف تھا اس طرح سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے قتل ہو جانے کا اندیشہ تھا حضورﷺ کو علم تھا کہ میرے بعد سیدنا صدیقؓ ہی میرا خلیفہ بلافصل ہوگا اور اپنی جان کی طرح سیدنا صدیقؓ کی جان بچائی کہ سیدنا صدیقؓ کے قتل ہونے سے اسلام میں خلل پیدا نہ ہو پائے اسی وجہ سے سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پر سلایا کہ سیدنا علیؓ قتل ہوئے تو دین میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا ان کی جگہ کوئی دوسرا صحابی کھڑا ہو جائے گا لہٰذا حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کے قتل ہو جانے کی کوئی پرواہ نہ کی سعد کہتا ہے میں نے اسے کئی جواب دیے مگر ان میں سے کوئی جواب مسکت نہیں تھا۔

سعد نے واقعی کئی جواب دیے ہوں گے مگر جو جواب بنائے جائیں وہ مسکت کم ہی ہوا کرتے ہیں مگر جو جواب حقائق پر مبنی ہوں وہی مسکت ہوتے ہیں۔

چند الفاظ کی تشریح:

ثَانِىَ ٱثۡنَيۡنِ:

  1. بات دو کی ہو رہی ہے جن میں اول رسول کریمﷺ ہیں اور ثانی سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہیں یعنی جو دو یار غار ہیں ان میں ترتیب یہ ہے۔
  2. ترتیب دینی اللہ نے اپنے محبوب کو حکم دیا کہ اعلان کیجیے قُلۡ إِنِّىٓ أُمِرۡتُ أَنۡ أَڪُونَ أَوَّلَ مَنۡ أَسۡلَمَ‌ۖ الخ (سورۃ الانعام آیت نمبر 14) یعنی اے نبی! کہہ دیجیے کہ میں اسلام لانے والوں میں پہلا ہوں پھر حضورﷺ کی طرف سے اعلان ہوا وانا اول المومنین کہ میں پہلا مومن ہوں اور حضورﷺ کی دعوت پر پہلا ایمان لانے والا سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہے یعنی ترتیب دینی یہ ہوئی کہ اول نبی اور ثانی سیدنا صدیقِ اکبرؓ۔
  3. ہجرت میں ثانی۔
  4. خلافت میں ثانی۔ 
  5. روضہ اطہر میں ثانی۔ 

عربیت کا قاعدہ ہے کہ اضافت عدد مساوی کی طرف مساوی کے فائدہ ترتیبِ رتبی کا دیتی ہے تو ثانی کی اضافت اثنین کی طرف جو پائی جاتی ہے اس میں یہی حکم ہے یعنی ترتیب رتبی ہے یعنی اول رتبہ نبی کریمﷺ کا اور ثانی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا۔

لِصَاحِبِہٖ: شیعہ تفسیر میزان القران طبع ایران زیر آیتِ غار۔

 إِذۡيَقُولُ لِصَـٰحِبِهِ اذ یقول لصاحبہ والمراد بصاحبہ ھو ابوبکرؓ للنقل القطعی۔ 

صاحبہ سے مراد دلائل قطعیہ سے ثابت ہےکہ سیدنا ابوبکرؓ ہیں۔

 تفسیرِ صافی:

إِذۡيَقُولُ لِصَـٰحِبِهِۦ ھو ابوبکرؓ صاحبہ سے مراد سیدنا ابوبکرؓ ہے یعنی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت نص صریح سے ثابت ہے اس کا انکار قرآن کا انکار ہے اور قرآن کا انکار کفر ہے۔

نقطہ:

لفظ صاحب کی اضافت ذاتِ نبی کی طرف ہو یا اس ضمیر کی طرف جس کا مرجع رسول ہو تو لازماً صاحب مضاف الیہ ہم مذہب ہوگا اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یٰصاحبی السجن میں اضافت صاحب کی قیدیوں کی طرف ہے مگر وہ قیدی حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم مذہب نہیں تھے۔

یہ سوال کم فہمی کی دلیل ہے یہ دھوکہ دینے کی کوشش اس میں اضافت جیل کی طرف ہے معنیٰ یہ ہے کہ اے میرے جیل کے ساتھیو!

 چند نظائر:

  • نبی کریمﷺ کو حضرت موسی علیہ السلام سے تشبیہ دی گئی ہے۔

 اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا ﳔ شَاهِدًا عَلَیْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔ (سورۃ مزمل آیت 15)۔

حضرت موسی علیہ السلام اپنے سفر میں حضرت یوشع بن نوح علیہ السلام کو ہمراہ لے گئے تھے وہی ان کے بعد خلیفہ ہوئے اسی طرح حضورِ اکرمﷺ ہجرت کے سفر میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو ساتھ لے گئے تھے وہی آپ کے بعد خلیفہ ہوئے۔ 

  •  حضرت موسی علیہ السلام نے ہجرت کی حضورﷺ نے بھی ہجرت کی۔

حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ساری قوم تھی حضورﷺ کے ساتھ صرف سیدنا صدیقِ اکبرؓ تھے فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کا تعاقب کیا اہلِ مکہ نے حضورﷺ کا تعاقب کیا۔

اتنا فرق ہے فرعون حضرت موسی علیہ السلام کی گرفتاری کے لیے کسی انعام کا اعلان نہ کیا اور قریش نے دونوں کی گرفتاری کے لیے سو سو اونٹ انعام ٹھہرایا۔ قومِ حضرت موسی علیہ السلام کو سخت پریشانی ہوئی اور کہہ اٹھے انا لمدرکون مگر پریشانی اپنی ذات کے لیے تھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو بھی پریشانی ہوئی مگر حضور اکرمﷺ کی فکر تھی اس لیے حضور اکرمﷺ نے تسلی دی لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا‌ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَڪِينَتَهُ عَلَیْہ حضرت موسی علیہ السلام نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا ان معی ربی سیھدین یعنی معیتِ باری کی نسبت اپنی طرف کی مگر نبی کریمﷺ نے معیتِ باری کی نسبت دونوں کی طرف یعنی اپنی طرف اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی طرف کی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرمان میں ایک صفت باری تعالیٰ ہے دوسری صفت ذات موسیٰ علیہ السلام ہے۔ 

حضورﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ تو قرآنِ کریم میں حزن کا لفظ یا تو انبیاء کے لیے استعمال ہوا ہےایک طرف ذاتِ باری تعالیٰ دوسری طرف ذاتِ رسولﷺ اور ذاتِ سیدنا صدیقؓ ہیں حضور نے فرمایا لَا تَحْزَنْ تو قرآن۔ کریم میں حزن کا لفظ یا تو انبیاء کے لیے استعمال ہوا ہے یا کسی مقرب ولی اللہ کے لیے مثلاً۔ 

  1. حضرت مریم علیہ السلام کو فرمایا فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ الخ۔ (سورۃ مریم آیت نمبر 24)۔
  2. حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو فرمایا: لَا تَخَافِی وَلَا تَحْزَنِی إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ الخ۔ (سورۃ القصص آیت نمبر 7)۔

پھر حزن کا اطلاق اس غم پر ہوتا جو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے کی وجہ سے ہو جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا۔ 

جو حضرت یوسف علیہ السلام کے غم سے جا رہے تھے کہ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ الخ۔ (سورۃ یوسف آیت نمبر 84)۔

چناچہ شیعہ تفسیر میزان القران میں لکھتے ہیں۔

قال لا تحزن خوفا مما تشاہدہ من الوحدۃ والغربۃ و فقد ان الناصر وتظاہر الاعداء وتعقیبھم ایاھما لَا تَحۡزَنۡ فانَّ ٱللَّهَ مَعَنَا‌۔

ترجمہ: فرمایا خوف نہ کرو جیسا تم کو تنہائی مسافری بے یارو مددگار ہونے کا غلبہ دشمن کا اور دشمن کے تعاقب کرنے کا مشاہدہ ہو رہا ہے بس اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔

یعنی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو اندیشہ تھا تو اس بات کا تھا کہ جس متاعِ دو جہان کو رات کے اندھیرے میں کندھوں پر اٹھا کے یہاں لایا ہوں اسے کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔

 معیتِ باری:

معیتِ باری کے کئی درجے ہوتے ہیں اور کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً:

 إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ۝ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 153)۔

 أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُتَّقِينَ۝ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 123)۔  

یہاں ایک طرف ذاتِ باری ہے دوسری طرف صفت خاص ہے اہلِ ایمان کی یعنی وصفِ صبر اور وصفِ اتقا موجود ہے تو معیتِ باری بھی موجود ہے اگر وصف نہیں تو معیت بھی نہیں۔ 

 إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا‌ الخ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 123)۔ 

یہاں ایک طرف ذاتِ باری ہے دوسری طرف ذاتِ رسولﷺ اور ذاتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ۔

اِدھر اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا ذکر ہے نہ ادھر سیدنا ابوبکرؓ کے کسی وصف کا ذکر ہے یعنی ذاتِ سیدنا ابوبکرؓ کو ذاتِ باری کی معیت حاصل ہے اب کوئی شخص سیدنا ابوبکرؓ کی صحابیت کا ایمان کا صداقت کا اظہار کا انکار کر دے تو کوئی بعید نہیں مگر کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو ذاتِ سیدنا ابوبکرؓ کا انکار کر سکے جہاں ذاتِ سیدنا ابوبکرؓ موجود ہے وہاں اس سے ذاتِ باری کی معیت بھی حاصل ہے اور یہ رتبہ بلند پوری دنیا میں صرف دو ہستیوں کو حاصل ہے انبیاء میں محمد رسول اللہﷺ اور امتیوں میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو۔

 ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء الخ۔

ذَٲلِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ يُؤۡتِيهِ مَن يَشَآءُ‌ۚ الخ۔(سورة الجمعہ آیت نمبر 4)۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی عظمت کا انکار کر دینا بلاشبہ بڑی جرأت کا کام ہے مگر اللہ اور رسولﷺ کو بھی تنقید بلکہ تنقیص کا نشانہ بنا لینا اس سے بھی بڑی جرأت ہے ایک شیعہ مجتہد حامد حسین لکھنوی نے اپنی کتاب استقصاء الافہام میں فرمایا ہے کہ لا تحزن نہی ہے اور سیدنا ابوبکرؓ کا رنجیدہ ہونا گناہ و معصیت ہے اس لیے رسولِ خداﷺ نے منع فرمایا یہ منع بتاتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ مرتکب معصیت ہوا تھا۔ 

خود فریبی اور ابلہ فریبی کو فن کاری کہنے یا بیماری بہرحال یہ ہے کچھ اسی قسم کی چیز ذرا قرآنِ کریم سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

  1.  حضرت مریم علیہا السلام کو ارشاد ہوا: لَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا۝۔(سورۃ مریم آیت نمبر 24)۔ یعنی حضرت مریم علیہا السلام مرتکب معصیت ہوئی لہٰذا اس سے منع فرما دیا گیا کہ لا تحزنی مگر اس کے آگے یہ فرمایا کہ تیرے نیچے تیرے رب نے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے یہ اس معصیت کی سزا ہے کیا؟۔
  2. والدہ موسی علیھا السلام کو ارشاد ہوا: لَا تَخَافِی وَلَا تَحْزَنِی إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَؕ۝۔ (سورۃ القصص آیت 7)۔ یعنی والدہ موسیٰ علیہا السلام نے معصیت کا ارتکاب کیا تو خدا نے نہی فرما دی مگر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ ہم تیرے بیٹے کو تیرے پاس لٹا دیں گے اور اسے رسول بنائیں گے یعنی والدہ موسی علیہا السلام کو ایک معصیت کی دو سزائیں سنا دیں اگر کوئی یہ پوچھے کہ یہ سزائیں ہیں یا انعام ہیں یا بشارتیں ہیں اگر بشارتیں ہیں تو اللہ کا نظام بھی عجیب ہے کہ گناہ کرو تو انعام کی بشارتیں ملیں۔
  3.  سیدنا ابوبکرؓ کو نبی کریمﷺ نے فرمایا: لا تحزن اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین نازل فرمائی اگر لا تحزن معصیت کے ارتکاب پر نہی ہے تو نزول سکینہ لازم سزا ہی ہوگی اور اگر ایسا نہیں تو عجیب معاملہ ہے اللہ کا رسول ارتکاب معصیت پر منع کر رہا ہے اور اللہ تسلیاں دے رہا ہے اگر مجتہد صاحب کی بات مانی جائے تو یہاں اللہ و رسولﷺ میں آپس میں ان بن نظر آتی ہے ایک سوال یہ ہے کہ قبل نہی کوئی فعل معصیت کیونکر شمار ہوتا ہے اگر کوئی فعل ہی نہ ہو تو نہی سے کیا یہی مراد ہوگی کہ لازماً کوئی فعل ہوا ہے مثلاً حضور کو ارشاد ہے: وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىٕنِیْنَ خَصِیْمًا۝۔ (سورة النساء آیت نمبر 105) اور وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ الخ۔(سورة النساء آیت نمبر 107)۔

کیا دونوں مقامات پر نہی نہیں تو کیا نبی کریمﷺ نے کسی معصیت کا ارتکاب کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا۔

 ظاہر ہے کہ بات وہ نہیں جو ظاہر کی گئی بلکہ اندر کی اگلنے کے بہانے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان تیروں کا ہدف اللہ اور رسولﷺ کی ذات بھی بنتی ہے۔

 ایک علمی شُبہ:

سوال: فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ میں علیہ ضمیر کا مرجع سیدنا ابوبکرؓ نہیں بلکہ رسول کریمﷺ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ پر تسکین نازل فرمائی۔ 

اگر یہ بات درست تسلیم کی جائے تو پہلے ثابت کرنا پڑے گا کہ رسول کریمﷺ گھبرا گئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر تسلی نازل فرمائی مگر یہ ثابت کہاں سے ہوگا اگر واقعات پر نگاہ کی جائے تو عجیب منظر سامنے آتا ہے کہ حضورﷺ گھبرائے ہوئے تو خود ہیں اور تسلی دے رہے ہیں سیدنا ابوبکرؓ کو کہ غم نہ کر کیا نبی کریمﷺ کی ذات سے ایسی طفلانہ حرکت منسوب کی جا سکتی ہے؟

"پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر ضمیر کا مرجع سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بنایا جائے تو انتشار ضمائر لازم آتا ہے جو جائز نہیں۔ 

یہ تو اچھی بات ہے کہ آدمی ناجائز کام سے اجتناب کرے مگر جائز و ناجائز کے لیے بھی کوئی اصول ہوتا ہے کوئی معیار ہوتا ہے کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آدمی جس کو چاہے ناجائز کہہ دے۔ 

 اہلِ فن کے نزدیک اصول یہ ہے کہ:

  1. انتشار ضمائر اس وقت لازم آتا ہے جب تمام ضمائر کا مرجع واحد ہو یہاں یہ بات نہیں تمام ضمائر کا مرجع رسول کریمﷺ کی ذات نہیں سکینہ ضمیر کا مرجع ذاتِ باری ہے۔
  2. قانون یہ ہے کہ جب ضمائر دائر ہو درمیان مضاف و مضاف الیہ کے تو مرجع ضمیر مضاف ہوگا ناکہ مضاف الیہ کیونکہ کلام میں مقصود بالذات مضاف ہوتا ہے لہٰذا علیہ کا مرجع صاحب ہوگا جو مضاف ہے طرف ضمیر کے جس کا مرجع رسول اللہﷺ ہے۔

 وایدہ بجنود لم تروھا کا تعلق جنگِ بدر سے ہے اور اس کا عطف نصرہٗ پر ہے اگر ضمیر کا مرجع سیدنا ابوبکر صدیقؓ بنایا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں اس صورت میں معنیٰ یہ ہوں گے کہ سیدنا ابوبکرؓ پر جو سکینہ نازل ہوئی اس کی صورت یہ ہوئی کہ اللہ نے ملائکہ سے امداد کی۔

ملائکہ نے اس کے دل میں سکینہ القاء کیا تاکہ ثابت قدم رہے۔