حضرت مولانا مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ کا فتویٰ
سوال: بخاری شریف میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا تھا وہ احمق کوئی حبشیہ، حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں لے آئے اور دریافت کیا کہ کیا یہ مسلمان ہے؟ آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ خدا تعالیٰ جل شانہ کہاں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صاحب سے فرمایا لے جاؤ یہ مسلمان ہے۔
جواب: یہ حدیث بخاری شریف میں نہیں، البتہ صحیح مسلم، ابو داؤد اور نسائی میں اس قسم کی روایت ہے مگر اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اللہ تعالیٰ جل شانہ کے رسول) ہیں۔
جب اس لونڈی نے حضور اکرمﷺ کی رسالت کے اقرار کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم کی تصدیق کر دی تو اس کے اسلام میں کیا شبہ رہ گیا؟
معترض نے حدیث کا جتنا حصہ نقل کیا ہے، حدیث شریف کی کسی کتاب میں اس پر اکتفاء نہیں کیا گیا۔
اگر اسے اسلام قرار دے دیا جائے تو مسلم اور کافر میں کوئی فرق اور امتیاز باقی نہ رہے گا۔ پھر تو منکرینِ توحید، منکرینِ رسالت، یہود و نصاریٰ اور مشرکین سب کے سب مسلمان کی تعریف میں داخل ہو گے۔ یہ ہے آج کل کی وسعت نظر۔ (احسن الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 69)