Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آیت مودت

  مولانا اللہ یار خانؒ

آیتِ مَوَدت

 قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَىٰ الخ۔(سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 23)۔ 

یہ جملہ سورۃ شوریٰ کی آیت کا حصہ ہے اس کی تفسیر امام بخاریؒ حب الامت ترجمان القران امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے یوں بیان کی ہے سلسلہ سند بیان کرتے ہیں:

حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عبدالملك بن ميسرة قال: سمعت طاوسا عن ابنِ عباسؓ انه سئل أن قوله إلا المودة فی القربیٰ فقال سعيد بن جبير: قربیٰ آل محمدﷺ فقال ابنِ عباسؓ: اجلت عن النبیﷺ لم يكن بطن من قريش إلا كان له فيهم قرابة، فقال: إلا ان تصلوا ما بينی وبينكم فی القرابة۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔

ترجمہ: ان سے إلا المودة فی القربیٰ کا مطلب پوچھا گیا تو سیدنا سعید بن جبیرؓ نے کہا قرابت آلِ محمدﷺ کی مراد ہے یا رسول اللہﷺ تو سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا تم نے جواب میں جلدی کی اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی قریش کے قبیلے سے قرابت تھی اس لیے فرمایا کہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے صلہ رحمی کے پیش نظر اس کا لحاظ کرو۔

ظاہر ہے کہ سیدنا سعید بن جبیرؓ نے اپنے مبہم سے قول کے جواب میں سیدنا ابنِ عباسؓ کا جو تفصیلی اور مدلل بیان سنا تو خاموش ہو گئے ان کا سکوت ہی سیدنا ابنِ عباسؓ کی تائید کی دلیل ہے لہٰذا آیت کا حقیقی مفہوم یہی ہے جو حب امت نے فرمایا۔

حافظ عماد الدین ابنِ کثیر اپنی مشہور تفسیر میں فرماتے ہیں:

وقوله عزوجل: قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة فی القربیٰ أی: قل يا محمدﷺ لهؤلاء المشركين من كفار قريش: لا أسألكم على هذا البلاغ والنصح لكم ما لا تعطونيه وإنما أطلب منكم أن تكفروا اشرّكم عنی وتذرونی أبلغ رسالات ربی إن لم تنصرونی فلا تؤذونی بما بينی وبينكم من القرابة۔

ترجمہ: آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمدﷺ ان مشرکین قریش سے کہیے کہ میں تم سے اس تبلیغ اور نصیحت کے بدلے کوئی مال طلب نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ شر و فساد سے ہاتھ روکو اور مجھے میرے حال پر چھوڑو کہ اپنے رب کے پیغام پہنچاتا رہوں اس کام میں اگر تم میری مدد نہیں کر سکتے تو نہ کرو مگر مجھے ایذا نہ دو میرے تمہارے درمیان جو قرابت کا تعلق ہے اس کا لحاظ کرو۔

اس کے ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کر دی کہ یہ سورت مکّی ہے جب یہ مکہ میں نازل ہوئی تو وہاں وہ آلِ رسول کہاں تھی جو اس سے بعض لوگ مراد لیتے ہیں سیدہ فاطمہؓ کا نکاح نہ سیدنا علیؓ سے ہوا نہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ وجود میں آئے تو رسول اللہﷺ قریشِ مکہ سے کن قربیٰ کی مَوَدت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحیح تفسیر اس آیت کی وہی ہے جو حب الامت ترجمان القران سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کی ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے پھر فرماتے ہیں:

قال ابنِ ابی حاتم حدثنا علی ابنِ حسین حدثنا رجل سماہ حدثنا حسین الاشقر عن قیس عن الاعمش عن سعید بن جبیرؓ عن ابن عباسؓ لما نزلت ھذہ الآیة قل لا اسئلکم الخ

قالوا یا رسول اللہﷺ من ھؤلاء الذین امر اللہ بمجتھم قال فاطمهؓ وولدھا رضی اللّٰه عنھم وھذا اسناد ضعیف فیه مبھم لا یعرف عن شیخ شیعه مسخرق وھو حسین الاشقر ولا یقبل خبره فی ھذا المحل۔ 

ترجمہ: محدث ابی حاتم نے کہا مجھ سے بیان کیا علی ابنِ حسین نے وہ کہتا ہے مجھ سے بیان کیا ہے ایک آدمی نے جس کا نام انہوں نے لیا تھا وہ کہتا ہے مجھ سے بیان کیا حسین اشقر نے اس نے بیان کیا قیس سے اس نے اعمش سے اس نے سیدنا سعید بن جبیرؓ سے اس نے سیدنا ابنِ عباسؓ سے کہ انہوں نے کہا جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہﷺ وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے تو فرمایا سیدہ فاطمہؓ اور اسکی اولاد رضی الله عنھم یہ اسناد ضعیف ہے اس میں راوی مبہم ہے جس کی پہچان نہیں ہو سکتی وہ ایک بوڑھے مخبوط الحواس شیعہ سے روایت ہے وہ حسین اشقر ہے لہٰذا اس کی روایت اس محل میں قبول نہیں۔

ابنِ کثیر نے اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مردود قرار دی اس پر کچھ اور سوال بھی پیدا ہوتے ہیں۔

  1.  آیت میں خطاب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے یا مشرکینِ قریش کو ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تو اسلام کو قبول کر لیا اب ان سے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اس بات کا موقع تو اس وقت ہو سکتا ہے کہ پیغام قبول کرنے سے پہلے وہ اس شش و پنج میں ہوں کہ نہ جانے یہ بات مان لینے کی اجرت کیا دینی پڑے گی لہٰذا یہ بات تو بالکل بے محل ہے خطاب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہو رہا ہے رہا سوال مشرکین کا تو وہ بات ماننے پر تیار ہی نہیں تو ان سے یہ کہنا کہ میری بات اس شرط پر مانو کہ میرے قرابت والوں سے محبت کرنے پڑے گی جب وہ سرے سے بات ماننے کو تیار ہی نہیں تو اس شرط کا اور اضافہ کر دینا تو بالکل بے تکی بات ہے۔ 
  2.  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ سوال کیوں پوچھا کہ وہ اہلِ قرابت کون ہیں کیا انہیں قربیٰ کے لفظ کے معنیٰ نہیں آتے تھے یا وہ رسول اللہﷺ کہ اہلِ قرابت سے واقف نہیں تھے اہلِ زبان کے متعلق یہ سمجھنا کہ ایک عام استعمال کے لفظ کا مفہوم ہی نہیں جانتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق یہ سمجھنا کہ رسول اللہﷺ اس درجہ کی اجنبیت تھی کہ رسول اللہﷺ کے رشتہ داروں کو ہی نہیں جانتے تھے۔ 
  3.  جب رسول اللہﷺ نے اہلِ قرابت کی نشاندہی کی تو وہ کیا سمجھے ہوں گے کہ سیدہ فاطمہؓ کا نکاح ہوا نہیں اولاد کا سوال ہی کہاں! پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پلے کیا پڑا وہ اس فرمان پر عمل کیونکر کرنے لگے لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا زین العابدین کے نام کو آڑ بنا کر بات بنانے کی کوشش تو کی ہے مگر تاریخ اس کا ساتھ نہیں دیتی اور عقل اسے ماننے سے ابا کرتی ہے۔

علامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب فتح الباری شرح بخاری میں کچھ اشارہ کیا ہے:

فاخراج طبرانی و ابن حاتم من طریق قیس ابن ربیع عن الاعمش عن سعید بن جبیر عن ابن عباسؓ قال لما نزلت قالوا یا رسول اللہﷺ من قرابت کا الذین وجبت علینا مودتھم الی الحدیث و اسنادہ ضعیف وھو ساقط لمخالقة هذا الحديث الصحيح والمعنیٰ الا ان تودونی لقرابتی فتحفظونی والخطاب لقریش۔ 

ترجمہ: جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہﷺ آپ کے اہلِ قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے یہ قابلِ اعتبار نہیں یہ روایت بخاری کی صحیح حدیث کے مخالف ہے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو قرابت کا رشتہ میرے اور تمہارے درمیان ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے میرے ساتھ مودت سے پیش آؤ اس سے مجھے تحفظ مل جائیگا یہ خطاب قریش سے ہے۔

یعنی اصولاً یہ بات ہی نا قابلِ اعتبار ہے کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا کہ اہلِ قرابت کون ہیں پھر خطاب قریش کو ہو رہا ہے لہٰذا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا معمول یہ ہے کہ دشمنی بھی ہو تو قرابت کا لحاظ رکھتے ہو میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں لہٰذا اسی اپنے معمول کے مطابق قرابت کا لحاظ رکھتے ہوئے میرا راستہ تو نہ روکو۔

اس روایت کی صحت عدمِ صحت پر علامہ ابن حجر عسقلانی نے ایک اور مقام پر بحث کی ہے فرماتے ہیں:

عن ابن عباسؓ عن طبرانی وابن ابی حاتم واسناد واح فیه ضعیف ورافضی وذکر زمحشری ھو ھنا احادیث ظاھر وضعھا و روالزجاج بما سمع عن ابن عباسؓ من روایة طائوس فی حدیث الباب۔

جو روايت سیدنا ابنِ عباس سے بحوالہ طبرانی و ابنِ ابی حاتم نقل کی ہے اس کی سند واہی تباہی ہے اس میں ایک راوی ضعیف ہے اور ایک راوی رافضی ہے اور زمحشری نے اس مقام پر کچھ حدیثیں ذکر کی ہیں جن کا موضوع ہونا ظاہر ہے اور علامہ زجاج نے اس کو رد کیا ہے بذریعہ اس روایت کے جو سیدنا ابنِ عباس سے طاؤس کی روایت سے اس بات میں روایت ہو چکی ہے۔

محدث جلیل علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے بناوٹی مفہوم والے قول کو رد کیا اس کی روایت کو سندًا و متناً دونوں طرح سے مجروح قرار دیا سندًا اس طرح کہ سند کو ضعیف اور واہی کہا ایک راوی ضعیف دوسرا رافضی اور بعض روایات کو ظاہر الوضع فرمایا اور متناً اس طرح مجروح ہے کہ اس کا مضمون احادیث صحیح کے خلاف ہے لہٰذا آیت کی صحیح تفسیر وہی ہے جس پر مختار مذہب اہلِ سنّت و الجماعت کا اتفاق ہے۔

چند نکات:

 (1) القربیٰ:

مصدر ہے مثل زلفیٰ کہ جو معروف بالام ہے اس کا معرفہ ہونا ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کا مخاطبین کو علم تھا اس وقت سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کا وجود ہی نہیں تھا لہٰذا مخاطبین ان سے واقف کیونکر قرار دئیے جا سکتے ہیں لہٰذا اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو قریش مکہ کو بھی واضح طور پر معلوم ہوں گے۔ لہٰذا یہ مودت مودة فی الرحم ہے مطلب یہ ہوگا: 

لَّاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰى الخ۔ (سورۃ الشوری آیت نمبر 23)۔

میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا ہاں اس صلہ رحمی کا مطالبہ کرتا ہوں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔

 (2)۔ مودة فی القربیٰ: سے آلِ محمدﷺ مراد ہو ہی نہیں سکتا اگر مودة لذی القربیٰ ہوتا تو مراد آلِ محمدﷺ ہو سکتی تھی قرآنِ کریم کی متعدد آیات شاہد ہیں مثلاً:

  1.  فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی الخ۔ (سورة الانفال آیت نمبر 41)۔
  2.  مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذی الْقُرْبَىٰ الخ۔ (سورة الحشر آیت نمبر 7)۔
  3.  فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ الخ۔ (سورة الروم آیت نمبر38)۔
  4.   وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی الخ۔ (سورة ال آیت نمبر 177)۔

یعنی قرآنِ کریم میں جہاں کہیں اس مضمون کی نصیحت یا حکم ہے وہاں ذوی القربیٰ یا اولی القربیٰ ہے فی القربیٰ کہیں نہیں آیا القربیٰ چونکہ مصدر ہے اس لیے اگر اہلِ بیتؓ مراد ہوتے تو یوں ہوتا إلا المودة لاھل القربیٰ۔ 

(3) اگر محبت اہلِ بیتؓ اور اس حالت کی اجرت قرار دی جائے تو اس میں رسول اللہﷺ کی سخت توہین کا پہلو نکلتا ہے جس کی کوئی مسلمان جرأت نہیں کر سکتا وہ یوں کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول اللہﷺ تک جتنے انبیاء کا ذکر قرآن مجید میں تبلیغ رسالت کے سلسلے میں آیا ہے ہر جگہ ایک ہی عبارت ہے کہ اَسْـئـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ کہیں کوئی استثنیٰ نہیں مثلاً:

  1.  سورة الانعام: قُل لاَّ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ۝۔ (نبی کریمﷺ)۔ (سورة الانعام آیت 90)۔
  2.  سورة یوسف: وَمَا تَسْاَلُـهُـمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِيْنَ۝۔ (نبی کریمﷺ) (سورة یوسف آیت 104)۔
  3.  سورة الفرقان: قُلْ مَآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا۝۔ (نبی کریمﷺ) (سورة الفرقان آیت 57)۔
  4.   سورة سباء: قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ اِنْ اَجْرِىَ اِلَّا عَلَى اللّـٰهِ الخ۔(نبی کریمﷺ) (سورة سباء آیت 47)۔
  5.  سورة ص: قُلْ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ۝۔ (نبی کریمﷺ) (سورة ص آیت 86)۔
  6.   سورة ہود: وَیٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًاؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ الخ۔ (نوح علیہ السلام) (سورة ہود آیت 29)۔
  7.   سورة ہود: يٰقَوْمِ لَآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِنْ اَجْرِىَ اِلَّا عَلَى الَّذِىْ فَطَرَنِىْ الخ۔ (قول ہود علیہ السلام)۔ (سورة ہود آیت 51)۔
  8. سورة الشعراء: وَ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۔ (نوح علیہ السلام) (سورة الشعراء آیت 109)
  9. سورة الشعراء: وَ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۔ (ہود علیہ السلام) (سورة الشعراء آیت 127)۔
  10. سورة الشعراء: وَ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۔ (صالح علیہ السلام) (سورة الشعراء آیت 145)۔
  11.  سورة الشعراء: وَ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۔ (لوط علیہ السلام) (سورة الشعراء آیت 164)۔
  12.  سورة الشعراء: وَ مَاۤ اَسْئلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۔ (شعیب علیہ السلام) (سورة الشعراء آیت 180)۔

ان اِقتباسات سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں اول یہ کہ پانچ انبیاء علیہم السلام یعنی نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، لوط علیہ السلام، شعیب علیہ السلام سے ایک ہی صورت میں بالکل ایک جیسے الفاظ میں ایک ہی بیان کا ذکر ہے دوم یہ کہ پانچ مختلف سورتوں میں رسول اللهﷺ سے مختلف الفاظ میں پانچ مرتبہ یہی اعلان کرایا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔

اب یہ سوال ہے کہ سورة الشوریٰ میں جو رسول اللہﷺ سے پانچ مختلف مقامات پر جو اعلان کرایا تو اس میں ایک اجرت کا مطالبہ بھی کرا دیا اول تو یہ سارے انبیاء علیہم السلام سے مختلف روش ہے پھر رسول اللہﷺ سے پانچ مختلف مقامات پر جو اعلان کرایا اس سے بھی یہ مختلف ہے اس سے ایک تو قرآن مجید میں تضاد ثابت ہے دوسرا رسول اللہﷺ خود غرضی اور توہین کا پہلو نکلتا ہے کیا کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس یہ جرآت کر سکتا ہے جبکہ وہ مسلمان ہونے کا مدعی بھی ہو۔

(4) ارشاد باری تعالیٰ ہے: اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ۝۔( سورة یٰس آیت نمبر 21)۔

يعنی اتباع اس شخص کی کرو جو تم سے اجر کا سوال نہیں کرتا اور خود بھی ہدایت یافتہ ہے"۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا کہ اتباع کے لائق وہی ہے جو تم سے اجر کا مطالبہ نہیں کرتا اگر آیت مودة کا وہ مفہوم لیا جائے جس سے محبت اہلِ بیتؓ کا اجر ہونا ظاہر ہے تو گویا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے اتباع سے تو منع کر دیا (معاذ اللّٰه) پھر بھی یہ ارشاد ہے کہ قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ الخ۔ (سورة آل عمران آیت نمبر 31) اور مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ سورة النساء آیت نمبر 80) اب یہ تضاد کیسے رفع ہو۔

پھر محبت اہلِ بیتؓ کو ہی رسالت کا اجر قرار دیا جائے تو دین کی حاجت ہی نہیں صرف محبت اہلِ بیتؓ کافی ہے کیونکہ رسالت کی اجرت جب یہی ٹھہری تو بات ختم ہو گئی دین قبول کرنا تو بس "جھونگا" کی پرواہ کون کرتا ہے۔

 (5)۔ رسول اللہﷺ کی رسالت کی اجرت اور اس کا مقصد جب یہی ٹھہرا کہ اہلِ بیتؓ کی محبت درکار ہے اور بس۔ چنانچہ یہ دعویٰ تو شیعہ ہی کا ہے کہ محبانِ اہلِ بیتؓ ہم ہی ہیں اور رسول اللہﷺ کی رسالت کا صلہ بھی یہی ہے اس لیے نماز، روزہ، حج، زکٰوة، عقیدہ توحید، رسالت سب امور زائدہ ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے مطالبہ صرف اہلِ بیتؓ کا کیا تھا اس عقیدے نے جو گل کھلائے ان کی بہار ملاحظہ ہو:

(الف)۔ روضہء کافی طبع جدید مطبع نجف اشرف صفحہ 142۔

عن ابی عبدالله أنه قال لا یباله الناصب صلی ام زنیٰ وھذہ الایته نزلت فیھم وجوہ عاملة ناصبة تصلی نارا حامی۔

ترجمہ: سیدنا جعفرؓ سے روایت ہے کہ سنی کا نماز پڑھنا اور زنا کرنا برابر ہے یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ہے محنت کرتے تھکتے تھکتے پہنچیں گے دہکتی آگ میں۔

 (ب)۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ 181 پر ہے۔

کل ناصب وان عبد وجتھا منسوب الی ھذہ الآیة عاملة ناصبة الخ وکل ناصب مجتھد فعمله ھباء۔ 

ترجمہ: ہر ناصبی (سُنی) اگرچہ وہ نماز پڑھے اسی آیت کا مصداق ہے اور ہر ناصبی کی محنت اور اس کا عمل غبار کی مانند ہے۔

(ج)۔ مجالس المومنین طبع جدید جلد دوم صفحہ 583۔

ولا تقبل الصلوة الا بحبھم ولا زکٰوۃ فاین عدولنا فی حب قوم بھم اعمالنا متقبلات۔ 

ترجمہ: نماز اور زکٰوۃ بغیر محبت اہلِ بیتؓ کے قبول نہیں ہمارے دشمن کہاں جا رہے ہیں اہلِ بیتؓ کی محبت سے اعمال قبول ہوتے ہیں۔

بہ مذہب درست نمازش درست نیست زاہد اگر زچشمہء حیواں وضو کند

مخالفان علی را درست نیست نماز اگرچہ سینہ اشتر کنند پیشانی۔

لیجئے بات صاف ہوگئی محبانِ اہلِ بیتؓ کی بن آئی کہ اول تو محبتِ اہلِ بیتؓ ہی کامیابی کے لیے کافی وافی ہے اور اگر اس محبت کے ساتھ جو اعمال وہ کریں قبول وہی ہوتے ہیں سنی لاکھ ٹکریں ماریں ان کے پلے کچھ نہیں پڑے گا ظاہر ہے کہ کسی کو توحید رسالت آخرت کا نظریہ قبول کرنے نماز روزہ حج اور زکٰوۃ کی پابندی اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ہے آسان راستہ کیوں نہ اختیار کرے کہ کہدے میں محبِ اہلِ بیتؓ ہوں پھر جو چاہے کرتا پھرے کوئی مواخذہ نہیں (اس عقیدے کی تفصیل معلوم کرنی ہو تو ہماری کتاب "تحذیر المسلمین" کا باب مواد مطالعہ فرمائیں)۔

ایک امر قابلِ غور ہے کہ یہ جو اہلِ بیتؓ سے محبت کرنے کا حکم ہے اس کی عملی صورت کیا ہے؟ محبت کا مقام تو قلب ہے اور قلب کی حالت کوئی معلوم نہیں کر سکتا۔ تو پھر کیا یہ نری شاعری ہے اگر اسی کا نام محبت ہے کہ آدمی بیٹھ کے گیت گاتا رہے اور بس تو اس فن میں تان سین سے لے کر ملکہ ترنم تک بڑے بڑے اہلِ کمال گزر رہے ہیں تو اس معاملہ میں شیعہ کی تخصیص کیونکر ہوئی 

ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محبت ہے تو یہی کچھ بیٹھ کے گیت گاتے رہو البتہ محبوب جدا ہو سکتے ہیں اس لیے محبِ اہلِ بیتؓ صرف وہی ہے جو پیت کے گیت ہی گائے مگر محبوبِ اہلِ بیتؓ ہوں اس طرح انفرادیت تو آگئی مگر کام بڑا آسان ہے کیا کرایا کچھ نہیں صرف گیت گاتے رہو محبت کا مطالبہ پورا ہو گیا محبت کی یہ قسم انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

اگر محبت کرنے سے یہ مراد ہے کہ اہلِ بیتؓ کی خاطر مالی اور جانی قربانی پیش کرو تو سوچنا پڑے گا کہ اہلِ بیتؓ کس کی خاطر جان اور مال قربان کرتے رہے ظاہر ہے کہ ان کی قربانی دین کی خاطر تھی اور یہی بات 23 برس تک رسول اللهﷺ سکھاتے رہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنے مال اور جان کو پیش کرو اس لیے دین کی خاطر تو غیر اہلِ بیتؓ بھی میدان میں نکلے تو اس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے جان اور مال پیش کر دینا اسلام کا مطالبہ ہے پھر اہلِ بیتؓ کی تخصیص کیا رہی۔

اور اگر محبت کرنے سے مراد اطاعت کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: من احب سنتی فقد احبّنی یعنی محبت میں سچا ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ اہلِ بیتؓ نے کس کی اطاعت میں عمریں صرف کیں ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی اطاعت ہی کرتے رہے اس لیے رسول اللہﷺ کی اطاعت ہی اہلِ بیتؓ کی اطاعت ہے اور رسول اللہﷺ کی اطاعت ہی رسول اللہﷺ سے محبت ہے مگر محبانِ اہلِ بیتؓ کا معاملہ یوں نظر اتا ہے کہ اس طرف رخ ہی نہیں کرنا جدھر اہلِ بیتؓ ہمیشہ رواں دواں رہے مگر محبت کا اظہار جس رنگ میں ہوتا رہا اس کی تفصیل درکار ہو تو ہماری کتاب "تحذیر المسلمین" کا باب "امامت" مطالعہ فرمائیں البتہ تین اوصاف ایسے ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے یعنی متعہ ماتم اور تقیہ ممکن ہے یہی اوصاف محبتِ اہلِ بیتؓ کی دلیل کے طور پر پیش کیے جاتے ہوں۔

چند مغالطے اور ان کی اصلاح:

 اہلِ سنت کی بیان کی ہوئی تفسیر سے اجرت ثابت ہوتی ہے یہ اجرت محبت اہلِ بیتؓ نہ سہی جان کی حفاظت کی درخواست سہی لہٰذا اعتراض پھر بھی رفع نہیں ہو سکتا۔

اصلاح: الا المودة فی القربیٰ میں اہلِ سنت نے استثنٰی منقطع بیان کیا ہے مستثنیٰ منقطع وہ ہوتا ہے جو مستثنیٰ منه کی جنس سے نہ ہو اور ظاہر ہے کہ اجرت مستثنیٰ منه ہے مودة مستثنیٰ ہے اور یہ بھی ظاہر ہے مودة فی القربیٰ اجرت کا ہم جنس نہیں ہے کیونکہ اجر شے کا وہ چیز ہوتی ہے جو اسی شے کی وجہ سے ثابت ہو اور مودة فی القربیٰ میں محبت بوجہ قرابت کے ثابت ہوتی ہے تبلیغ و تعلیم رسالت کی وجہ سے نہیں لہٰذا اس کو اجرت رسالت کہنا باطل ہوگا۔

استثنا منقطع کی مثالیں قران کریم میں موجود ہیں مثلاً 

 لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًا۝ اِلَّا حَمِیْمًا وَّ غَسَّاقًا۝ جَزَآءً وِّفَاقًا۝۔(سورة الواقعہ آیت 24۔25۔26)۔

اس آیت میں گرم پانی اور پیپ مستثنیٰ ہیں اور ٹھنڈک اور پینے کی چیز مستثنیٰ منه اور یہ دونوں ہم جنس نہیں ہیں۔

 اہلِ سنت کی تفسیر میں انبیاء علیہم السلام کا غیروں سے ڈرنا لازم آتا ہے جبھی تو رسول اللہﷺ نے الا المودۃ فی القربیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

 اصلاح: ان میں انبیاء علیہم السلام کے ڈرنے کا ذکر تک نہیں بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ میں تمہارا قرابتدار ہوں اور اقارب کی ایذا کو تم بھی جائز نہیں سمجھتے لہٰذا قرابتداری کا لحاظ رکھتے ہوئے اور اپنے مسلمہ اور متداول اصول کا پاس کرتے ہوئے میری ایذا کے کے درپے مت ہو اپنی برادری میں کیا منہ دکھاؤ گے کیونکہ تمہارے معاشرے میں قرابت کا بڑا لحاظ رکھا جاتا ہے۔

اہلِ سنت کی تفسیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد جب کہ اللہ نے جا بجا نصرت کے وعدے کیے ہیں پھر بھی آپ نے الا المودۃ نہ تھا فی القربیٰ کی درخواست ہی دی۔

 اصلاح: قریش کو قرابت داری کے لحاظ کا اصول یاد دلانا ان سے ڈرنے کی دلیل کیونکر بن گئی اللہ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو روزی دینے کا وعدہ فرمایا ہے تو جو لوگ روزی کی تلاش میں تجارت زراعت ملازمت وغیرہ کرتے ہیں انہیں اللہ کے وعدے پر اعتماد نہیں کیا؟ وعدہ پورا کرنا اللہ کا کام ہے مگر اس دار الاسباب میں سبب کا اختیار کرنا بندے کا فرض ہے۔

 رسول اللہﷺ کا خود غرض ہونا لازم آتا ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کی درخواست تو کرتا ہے اہل وعیال کی پرواہ نہیں۔

 اصلاح: الا المودۃ فی القربیٰ سے یہ مفہوم کیوں کر ظاہر ہوا کہ مجھے کچھ نہ کہو میرے اہل و عیال کو بے شک قتل کر دو جب قریش کو قرابت کے لحاظ سے یاد دلائی تو کیا ان قریش کی قرابت صرف رسول اللہﷺ کی ذات سے تھی آپ کے خاندان کے دوسرے افراد سے ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا جس جذبے کی یاد دہانی قرار رہے ہیں اس کی لپیٹ میں صرف رسول اللہﷺ کی ذات نہیں آتی سارے اہلِ قرابت آتے ہیں پھر قریش میں یہ وصف تھا کہ بچوں کو ایذا نہ دیتے تھے پھر انہیں عداوت تو رسول اللہﷺ سے تھی کہ انہیں کفر سے ہٹا کر اسلام کی طرف لانے کی کوشش فرما رہے تھے۔ 

اہلِ سنّت کی تفسیر خلاف عقل ہے کیونکہ خطاب کفار کو ہے کہ تمہارے مذہب کی بیخ کنی کرتا ہوں مگر تم مجھ سے دوستی کرو اور ایذا نہ دو بلکہ میری حفاظت کرو بھلا یہ تفسیر کب موافقِ عقل ہے۔

 اصلاح: اگر واقعہ کی تعبیر یہی ہے تو یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ میں تمہارے مذہب کی بیخ کنی کرتا ہوں تم میرے گھر والوں سے محبت کرو حقیقت یہ ہے کہ یہ بات خلاف عقل نہیں بشرطیکہ عقل موجود ہوں اصل بات دشمنی کی نہیں بلکہ دوستی اور خیر خواہی کی ہے کہ میں تمہیں آگ سے بچاتا ہوں میں تمہیں ذلت سے نکالنا چاہتا ہوں میں تمہیں اپنے خالق سے آشنا کرنا چاہتا ہوں اس لیے اپنے بدخواہ اور اپنے دشمن نہ بنو کم سے کم جس شرافت کا اظہار تمہاری طرف سے ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ میری راہ نہ روکو اور اپنے بھائیوں کو جہنم کا ایندھن بننے پر مجبور نہ کرو۔

خلاصة المباحث:

 اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰى کی تعبیر میں تین مذہب ہیں۔

اول: صحیح و مختار مذہب جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے جسے سیدنا ابنِ عباسؓ سے امام بخاریؒ امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ نے بیان کیا روح المعانی میں اس کا بیان اس طرح ہے

ھذا فی الصحیحین عن ابنِ عباسؓ بل جاء عنه فی روایات کثیرة وظاھرھا ان الخطاب لقریش منھا ما اخرجه سعد ابنِ منصور و ابن سعد و عبد بن حمید والحاکم وصححه وابن مردویه والبیھقی فی الدلائل عن الشعبی قال اکثر الناس علینا فی ھذہ الآیة قل لا اسئلکم فکتبنا الی ابنِ عباسؓ فساله الخ۔ 

ترجمہ: یہی مذہب بخاری مسلم میں سیدنا ابنِ عباسؓ سے مروی ہے بلکہ سیدنا ابنِ عباسؓ سے کثیر روایات میں آچکا ہے اور ظاہر آیت یہ ہے کہ لا اسئلکم خطاب قریش کو ہے ان کثیر حدیثوں میں پہلی وہ حدیث ہے جس کو سعد بن منصور نے ابنِ سعد عبد بن حمید نے اور حاکم نے اور صحیح قرار دیا حاکم نے اور ابنِ مردویہ اور بیہقی نے دلائل النبوة میں امام شعبی نے بیان کیا کہ امام شعبی نے کہا کہ لوگوں نے آیت کے متعلق ہم سے سوال کیے ہم نے سیدنا ابِن عباسؓ کو لکھا انہوں نے جواب دیا جو صحیحین وغیرہ میں بیان ہوا۔ 

جمہور علماء کا یہی مذہب مختار ہے اور حق جمہور کے ساتھ ہوتا ہے۔

دوم: جو کلبی سے منقول ہے کلبی خود شیعہ ہے اور اس کے مذہب کی بنیاد مجروح ضعیف اور موضوع روایات پر ہے کلبی نے قربیٰ سے مراد آلِ محمدﷺ‎ لی ہے۔

روح المعانی میں اس پر اظہار خیال کیا ہے: 

وقیل فی ھذا المعنیٰ انه لا یناسب شان النبوة لما فیه من التھمة فان کثیر طلبة الدنیا یفعلون شیاً ویسئالون علیه ما یکون فیه نفعاً لاولادھم وقرابتھم۔ 

ترجمہ: یہ مذہب اور آیت کے یہ معنیٰ لینا شانِ نبوت کے منافی ہے یہ نبوت پر تہمت ہے اکثر طالبِ دنیا جب کوئی کام کرتے ہیں تو اس کی اجرت میں ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے ان کی اولاد اقرباء کو فائدہ پہنچے۔

اس مذہب کی بنیاد اس روایت پر ہے جس کو علامہ ابنِ جریر نے ابن الدیلم سے نقل کیا جسے سیدنا زین العابدین سے بیان کیا اور دوسری روایت وہ ہے:

خرج بن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویه عن ابی عباسؓ قیل یا رسول اللہﷺ من قرابتكَ ھؤلاء قال علیؓ و فاطمہؓ وابناھما۔

ترجمہ: پوچھا گیا یہ آپﷺ کے قربیٰ کون ہیں فرمایا سیدنا علیؓ سیدنا وفاطمہؓ اور ان کے دو بیٹے۔ 

تفسیر مظہری میں اس کے متعلق لکھا ہے: 

  •  ان ھذا الحدیث غیر صحیح فی اسنادہ حسین الاشقر شیعی غلیظ وھذہ الآیة مکیة ولم یکن لفاطمةؓ حینئذٍ ولد۔ 

ترجمہ: یہ حدیث صحیح نہیں اس کی سند میں حسین الاشقر غلیظ شیعہ ہے اور آیت مکی ہے اس وقت سیدہ فاطمہؓ کی اولاد کوئی نہیں تھی۔ (جب شادی نہیں ہوئی تھی تو اولاد کا کیا سوال) یعنی اس مذہب کی بنیاد ہی مجروح ضعیف اور موضوع روایات پر ہے۔

حسین کوفی کے متعلق میزان الاعتدال میں ہے: 

  •  قال ابو ذرعه منکر الحدیث وقال ابو حاتم لیس بالقوی وقال الجوزجانی شتان للمغیرہ وقال ابومعمر کذاب۔ 

ترجمہ: ابوذرعہ محدث کہتے ہیں منکر الحدیث ہے محدث ابو حاتم کہتے ہیں قوی نہیں الجوزجانی کہتے ہیں غالی شیعہ ہیں سیدنا مغیرہؓ صحابی رسول کو گالیاں دیتا تھا محدث ابومعمر کہتے ہیں کذاب یعنی چوٹی کا جھوٹا ہے۔

  •  حسین ابن عبداللہ الاشقر القمی من غلاة الروافض وذکرہ ابن النجاشی فی مصنفی الشیعة۔

ترجمہ: حسین ابنِ عبداللہ الاشعری قمی غالی شیعہ تھا اور کتب شیعہ کا مصنف تھا ابن النجاشی نے ذکر کیا ہے۔

لسان المیزان:

الحسین ابنِ احمد بن عامر الاشعری ذکرہ علی بن الحکم فی شیخ الشیعة وکان من شیوخ ابی جعفر الکلینی صاحب کتاب الکافی۔ 

ترجمہ: دوسرا حسین ابنِ احمد بن عمر اشعری ہے اسے علماء بن الحکم نے شیعہ کا شیخ عالم لکھا ہے اور لکھا ہے کہ الکافی کے مصنف ابوجعفر کلینی کا یہ استاد تھا۔

 نوٹ: اس سلسلے میں اہلِ سنت کی کتب سے اس کا ثبوت اس لیے پیش کیا ہے کہ استدلال میں مقابلہ کے لیے اصول یہ ہے کہ الزام مقابل کی کتب سے دیا جاتا ہے مگر رفع الزام اپنی کتب سے کیا جاتا ہے۔

میرے کتب خانہ میں قرآنِ کریم کی (56) تفسیریں موجود ہیں تمام مفسرین نے اول یہی قول نقل کیا ہے جو صحیح اور مختار ہے جس کی تفسیر اکثر صحیح روایات میں آ چکی ہے شیعہ نے قلیل روایات وہ بھی مجروح ضعیف و موضوع پر مذہب کی بنیاد رکھی ہے راوی بھی غالی شیعہ ہیں حسین اشقر اور حسین اشعری کے متعلق فہرست طوسی نجاشی و رجال مامقانی میں اس کے غالی شیعہ ہونا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

اس آیت سے تیسرا مذہب تقرب باری تعالیٰ مراد لیا گیا ہے جو اللہ کی اطاعت عبادت اور اعمال صالح سے حاصل ہوتا ہے۔

مگر صحیح اور مختار مذہب وہی پہلا ہے اور اہلِ سنّت والجماعت کا یہی مذہب ہے اور یہی مذہب حق ہے۔