Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

وہ ممالک جہاں شیعہ موجود ہیں

  الشیخ ممدوح الحربی

وہ ممالک جہاں شیعہ موجود ہیں

سعودی عرب جو کہ حرمین شریفین کا ملک ہے۔ یہ مہبط وحی ہے اور دعوتِ توحید کا مرکز ہے اور مجدد اعظم محمد بن عبدالوہابؒ کی دعوت کا چشمہ یہیں سے پھوٹا۔ اللہ اس کی حفاظت و حمایت فرمائے۔ یہاں کے عوام، امراء اور علماء کو اللہ تعالیٰ ہر برائی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے خیال کے مطابق ایران کے شیعہ نہ تو ناامید تھے نہ ہی اس ملک میں اپنے منصوبوں کی تعمیل سے غافل تھے کہ اس میں انقلاب برپا کریں جو کہ ان کا منصوبہ ہے، قطیف، احساء اور مدینہ منورہ میں ان کے ہمنوا رافضی شیعہ موجود ہیں جو اپنی مذہبی شکل و صورت برقرار رکھنے کے لیے تابوت بھی نکالتے ہیں تاکہ یہ ایران کے سیاسی اور سینی افکار کے منصوبہ جات پورے کریں اور ایران سے اعتماد سکون اور تائید حاصل کریں۔ یہ بات ہمارے حافظہ پر ظاہر ہے کہ سعودی حکومت کے بارے میں جو مؤقف عراق اور ایران جنگ کے درمیان سعودی شیعوں نے اپنایا ہے انہوں نے ایران کو باقاعدہ مادی سہارا دیا تھا اور چندہ جمع کر کے ایران بھیجا۔ سعودی شیعہ نسل میں اضافہ کے لیے مثالی جدوجہد کر رہے ہیں، یہ جلدی شادی کرتے ہیں اور زیادہ بیویاں کرتے ہیں۔ جب کوئی قطیف شہر میں داخل ہو گا اور اس میں چکر لگائے گا تو وہ یہ بینر لگے دیکھے گا، شادی کی مبارک باد دیں اور تہنیتی پیغام ان پر لکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک رات میں قطیف شہر میں ان کی اجتماعی شادیوں کا عید کی مانند اجتماع ہوتا ہے اور اجتماعی شادیاں کر رہے ہیں، ان کے مہرجان میلے پر ایک رات میں (26) شادیاں اور رخصتی ہوئیں۔ سیہات میں (21) نوجوان جوڑے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور دوسرے مہرجان میں (27) جوڑے تھے، تیسرے میں (44) نوجوان شادی کے بندھن میں آئے چوتھے مہرجان میں تقریباً سو دلہنوں اور دلہوں کی شادی ہوئی۔ ان تمام شادیوں کا اعلان اخبارات کرتے ہیں اور بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں، یہ انتہا درجہ کی غفلت اور تباہ کن سادگی ہے۔ جامعہ ملک فیصل میں بھی، دمام اور احساء میں بھی شیعہ موجود ہیں اور یہ مضبوط علمی خصوصیات اور ڈگریاں حاصل کرنے کی فکر میں ہیں، یہ لغت عربی کے شعبہ میں پڑھتے ہیں اور جامعہ کے برآمدہ میں یہ اپنے اجتماعات کرتے ہیں اور جامعہ کے ہاسٹلز میں بھی ان کے اجتماع ہوتے ہیں اور جامعہ کی محدود جگہوں پر یہ نماز پڑھتے ہیں اور بعض لیکچراروں پر اعتراضات بھی کرتے ہیں اور بعض شیعہ طلباء پمفلٹ بھی تقسیم کرتے ہیں جو کہ ان کے عقائد کے ترجمان ہوتے ہیں اور ان کے حسینی مرکز میں شادیوں کے اعلان بھی ہوتے ہیں اور یہ باہر سے آنے والے طلباء کو اپنے مذہب کی دعوت دیتے ہیں، انہیں جب سعودیہ میں موقع ملے اپنے باطل مذہب کی دعوت دیتے ہیں۔ سعودی شیعوں نے بہت سارے شعبوں میں دخل اندازی کر رکھی ہے۔ وزارت میں، حکومتی اداروں میں اور نجی اداروں میں انہوں نے دخل اندازی کر رکھی ہے۔ بعض اداروں میں ان کی اکثریت ہے، وزارتِ صحت میں، وزارتِ زراعت میں، وزارتِ بجلی و ڈاک اور ٹیلی فون میں اور وزارتِ اطلاعات وغیرہ میں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ آرامکو کمپنی میں یہ کافی تعداد میں موجود ہیں۔  

فوجی شعبہ، ٹریفک پولیس اور شہری دفاع میں بھی شیعوں کی تعداد موجود ہے، بحری فوج میں بھی موجود ہیں اور بڑے بڑے اہم عہدے ان کے پاس ہیں۔ اور شعبہ تعلیم میں بھی یہ کم نہیں، تدریس، عدالت، وکالت اور طلباء کی رہنمائی کے شعبوں میں بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی شیعوں کی علانیہ تجارتی سرگرمیاں ہیں، یہ صرف قطیف شہر کی سطح تک ہی نہیں، دمام، حبیل وغیرہ شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم دعا گو ہیں اللہ سعودیہ کو اور شرف سے نوازے اور اس کی حفاظت فرمائے۔ سعودی شیعوں میں دولت مند تاجر بھی ہیں۔ ان کی صنعتیں اور کمپنیاں میدانِ تجارت میں چمک دمک دکھا رہی ہیں۔ ایک وطنی روٹی کی کمپنی ہے۔ یہ روٹی تیار کر کے البان مضافات میں بھیجتی ہے اس کا مالک شیعہ ہے۔ اس کا نام عبداللہ مطرود ہے۔ ایک جواد کمپنی ہے یہ بھی شیعہ کی ملکیت میں ہے جو کہ احساء میں رہتا ہے اس کی تیار کردہ کھانے پینے والی اشیاء پورے سعودی عرب میں پھیلی ہوئی ہیں۔ سیہات کے نام سے ان کی کمپنی ہے یہ حکومتی سطح پر مشہور کمپنی ہے۔ ایک ابو خمیسن کمپنی ہے یہ بھی کئی قسم کی تجارتیں کر رہی ہے۔ شیعوں کے صاحب ثروت لوگ تجارتیں کر رہے ہیں اور لمبے چوڑے مال سمیٹ رہے ہیں اور مشرقی علاقہ میں سونے کی تجارت بھی یہ کر رہے ہیں۔ سبزی منڈیاں مشرقی علاقہ میں زیادہ تر شیعوں کے تصرف میں ہیں اور ان کے ہاتھوں گروی ہیں۔ اس لیے یہ حیرانگی کی بات نہیں، تعزیہ کے دنوں میں پھلوں اور سبزیوں کے بھاؤ چڑھ جاتے ہیں۔ خصوصاً (10) محرم کو وجہ یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد میں شیعہ ہوتے ہیں یہ اس دن خرید و فروخت سے چھٹی کرتے ہیں یہی صورتِ حال کھجوروں کی تجارت میں ہے۔ مدینہ منورہ میں احساء کے علاقہ کی زیادہ تر کھجوریں شیعوں کے ہاتھ میں ہیں۔ کیونکہ ان کی وہاں آبادی زیادہ ہے اور عجوہ کھجور جو کہ مدینہ ہی میں پیدا ہوتی ہے یہ بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ احساء اور قطیف زیادہ زرخیز ہیں اور عجوہ اگرچہ مدینہ میں ہی پیدا ہوتی ہے مگر جہاں یہ پیدا ہوتی ہے مدینہ کے اس علاقہ میں زیادہ تر شیعہ ہی رہتے ہیں۔ 

مزید سنیں! مچھلی منڈی جو مشرقی علاقہ میں ہے یہ بھی ان شیعوں کے زیرِ اثر ہے۔ قطیف میں مچھلی بازار سارے سعودیہ کا مرکز ہے۔ یہاں یہی شیعہ تجارتی جگہوں بڑی بڑی دکانوں اور ڈسپنسریوں اور تجارتی مراکز اور بیکریوں اور طبع خانوں اور مختلف کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اس میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس مشرقی علاقہ میں جو پریشان کن چیز ہے وہ یہ ہے کہ اس علاقہ میں سنی علماء کی بہت قلت ہے۔ تھوڑی تعداد میں ہیں، قطیف میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء رہتے ہیں۔ ان کے ہاں طلبا اور پیروکار لوگوں کی تعداد اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہی ہے۔ قطیف کی ہر بستی میں شیعہ عالم موجود ہے اور شیعوں کے نزدیک مقدس اور صاحب مرتبہ واعظ جو ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ سعودیہ میں کئی جگہیں ایسی ہیں جن میں ان کے حسینی مراکز ہیں اور شیعہ امام بارگاہیں ہیں، جب آپ کو موقع ملے اذان کے وقت قطیف میں داخل ہوں تو اشہد ان علیا ولی اللہ اور حی علی خیر العمل کی صدائیں آپ کے کانوں میں گونجیں گی۔ ان امام بارگاہوں میں یہی ٹولیوں میں بیٹھے ہیں رانوں پر ہاتھ مار رہے ہیں، کربلا کی کنکریوں پر سجدہ کر رہے ہیں اور اپنی نماز اپنے طریقہ پر ادا کر رہے ہیں، یہاں ان کی مسجد زہراء ہے۔ مسجد عمار بن یاسر ہے، مسجد سیدنا حسینؓ ہے، مسجد سیدنا علیؓ ہے، مسجد قلعہ ہے، مسجد سیدنا عباسؓ ہے۔ ان کے حسینی مرکز ان کی اطلاعات کے منبر تصور کیے جاتے ہیں اور سعودی شیعوں کے لیے ایک کشادہ مجمع گاہ ہیں ان میں یہ شادیاں طے کرتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں، تعزیہ کرتے ہیں ان کی بہادری پر انہیں اکساتے ہیں، ان میں سنی لوگوں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ 

جو بات حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ ان کے حسینی مرکز ایک ایک قبیلہ میں ایک ایک سے بھی زیادہ تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہاں نذرانے پیش ہو رہے ہیں اور ان پر پاکیزگی کی مہر لگی ہوتی ہے۔ یہ مراکز، حسینیہ زہراء ہیں۔ سیہات میں حسینیہ امام منتظر ہے اور حسینیہ الناصر ہے، قطیف میں حسینیہ الزائر ہے۔ حسینیہ سیدنا زین العابدینؓ ہے حسینیہ الرسول الاعظم ہے۔ جو عجیب تر بات ہے وہ یہ ہے کہ بہت سارے حسینی مرکز حزب اللہ البانی کی سپورٹ کرتے ہیں ایک خفیہ راز دار نے بتایا کہ ہر سعودی شیعہ ان حسینی مراکز میں آتا ہے اور جو کچھ وہاں ہوتا ہے وہ سنتا ہے، واعظ کے پاس بیٹھتا ہے، اس کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے، ان کے مذہب کی ابتدائی خرابیاں جو ان کے بڑے چھوٹے، مرد و عورت کے دلوں میں ہوتی ہے وہ مضبوط کرتا ہے۔

 شیعہ کی ہر بستی میں فلاحی ادارہ ہے۔ جو بے شمار منصوبہ جات پورے کرتا ہے اور شیعوں تک اعانت پہنچاتا ہے، احساء میں یہ فلاحی ادارہ "جمعیۃ العمران الخیریہ" کے نام سے ہے، دوسرا ادارہ "جمعیۃ المواساة الخيريہ" ہے۔ ایک "جمعیۃ البطالیہ" ہے۔ یہ فلاحی ادارے بہت سارا تعاون کرتے ہیں، شادی کے لیے تعاون کرتے ہیں، عوامی مفادات میں کام کرتے ہیں، خصوصاً جہاں شیعہ رہتے ہیں وہاں بڑا خیال رکھتے ہیں اور حسینی مرکز بناتے ہیں ، مردوں کے لیے غسل خانے اور قبرستان کی اصلاح کرتے ہیں شیعہ تنظیم مختلف آلات بھی خریدتی ہے، کمپیوٹر، ٹائپ رائٹر، درزی کا کام علاوہ ازیں ریاض الاطفال کے نام سے مدارس قائم کرتے ہیں اور ان کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ ادارے بیماروں کا بہت خیال رکھتے ہیں اور انہیں علاج و معالجہ کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ ان خیراتی اداروں کے اخراجات (2) ملین، تین سو اکیاسی ہزار ریال ہیں خیراتی ادارہ "المنصور الخیر" یہ جو کہ احساء میں ہے پچھلے سالوں میں سے ایک سال اس نے (2) ملین چھ لاکھ ریال خرچ کیے ہیں۔ سعودی شیعوں کا عقیدہ وہی ہے جو دنیا کے دوسرے شیعوں کا ہے۔ یہ شرک اور بت پرستی کے عقیدہ پر ہیں اور قبر پرست ہیں۔ توحید کے ملکوں میں یہ اپنے شرکیہ مظاہر اور بدعات علی الاعلان سرانجام دے رہے ہیں اور یہ قبروں کو پختہ کرتے ہیں اور انہیں قبہ نما بلند بناتے ہیں اور ان پر عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور میت قبر کے قریب فوت شدہ کی فوٹو رکھتے ہیں اور کبھی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور اس پر ستون بناتے ہیں اور بعض قبروں پر عَلم گاڑھ دیتے ہیں۔ 

قطیف کے ایک گاؤں میں ایک قبر ہے ان کا خیال ہے وہ سیدنا یسع علیہم السلام کی قبر ہے، اس پر انہوں نے عَلم گاڑھ رکھے ہیں اور اس کی ایک جانب انہوں نے نماز کے لیے جگہ بنا رکھی ہے اور اس کے قریب ایک باکس سا بنا رکھا ہے اس میں شرکیہ ورد وظائف اور تسبیحات ہیں۔ اور ایک باکس ہے یہ قبر کے نذرانوں کے لیے ہے اس قبر کے نزدیک اور بھی چونے گچ پکی قبریں موجود ہیں ۔ قطیف اور اس کے اردگرد کی تمام قبریں ایک مناسب ترتیب سے ہیں۔ سعودی شیعہ قبروں اور مزاروں کی تصاویر بھی پھیلاتے ہیں اور ان کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ جیسا کہ کاظم کا روضہ ہے،سیدنا علیؓ اور سیدنا باقر کا روضہ ہے، سیدنا حسینؓ کا روضہ ہے۔

 یہ تصاویر رنگین ہوتی ہیں انہیں بازاروں میں اٹھائے پھرتے ہیں اور سر عام فروخت کرتے ہیں اپنے علماء اور مجتہدین کی تصاویر بھی دست بدست لیتے ہیں جیسا کہ خمینی اور خامنئی ہے اور انہیں حاصل کر کے اور گھروں اور دکانوں میں لٹکا کر اور فروخت کر کے فخر کی کمائی تصور کرتے ہیں یہ سٹکرز بھی فروخت کرتے ہیں جن میں ان کے ائمہ کے نام، جائے پیدائش اور وفات لکھی ہوتی ہے۔ اور جہاں کی مقبرے ہیں وہ مقامات لکھے ہوتے ہیں۔ یہ زینت و زیبائش اور انورار بھی روشن کرتے ہیں اور بینرز بھی لگاتے ہیں اور حلویٰ بھی تقسیم کرتے ہیں اور اپنی حسینی مراکز میں لیکچر کے لیے مجالس بھی منعقد کرتے ہیں اور اپنے مذہبی تہوار بھی مناتے ہیں۔ جیسا کہ غدیرِ خم کی عید اور امام کی ولادت کی خوشی کا دن ہے۔ یہ سیاہ جھنڈے لہراتے ہیں، قصائد پڑھتے ہیں اور ایسے بینرز لٹکاتے ہیں جن پر آہ و بکاہ کے الفاظ تحریر ہوتے ہیں۔ سیدنا حسینؓ اور دیگر شیعہ اماموں کی وفات پر غم و اندوہ کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ ایک بینر پر یہ لکھا تھا: 

يا حسين الدنيا بعد فراقك مظلمة۔ 

اے سیدنا حسینؓ دنیا تیری جدائی کے بعد اندھیرا۔ 

شیعوں کی گھنی آبادیاں

سعودی عرب میں شیعہ مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور کہیں زیادہ ہیں کہیں کم ہیں۔ مدینہ منورہ میں شیعوں کی متعدد جماعتیں ہیں۔ ان میں سے ایک نخاولہ ہے ان کی اکثریت اثنا عشری شیعوں پر مشتمل ہے۔ یہ مسجدِ نبویﷺ کے جنوب میں رہتے ہیں اور جنوب مشرق میں زیادہ ہیں ان کے ہاں جلدی شادی کرنے کی وجہ سے اور اجتماعی شادیوں کی بناء پر ان میں شادی کی زیادہ سہولت کی وجہ سے ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نخاولہ مختلف قبائل میں پائے جاتے ہیں۔ 

شریم، خوالده، دراوشہ دواوید، محاربہ، فار، اصابعہ، زوابعہ، وتشہ، زیرہ، جرافیہ، معاریف   وغیره میں پائے جاتے ہیں۔

بعض القاب اور نسبتیں ایسی ہیں جنہیں نخاولہ استعمال کرتے ہیں اور سنی لوگ بھی وہ نسبت رکھتے ہیں۔ ہم ان کی وضاحت کیے دیتے ہیں تاکہ فریب خوردگی سے محفوظ رہ سکیں۔ اور شیعہ دھوکہ دہی اور جھوٹ کا جال بننے پر در پردہ جو اپنی پرسکون انداز میں سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں ان سے آگاہ ہو سکیں۔ 

(الفحل) یہ لقب اہلِ سنت استعمال کرتے ہیں۔ نخاولہ میں بھی یہ نسبت پائی جاتی ہے یہ وداوید کی ایک قسم میں سے ہے۔

(الحربی) یہ اہلِ سنت کے قبائل استعمال کرتے ہیں نخاولہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ دھوکہ دینے کے لیے الحربی حاء پر زبر سے پڑھتے ہیں۔

(انحفیری) قصیم کے کچھ سنی قبائل استعمال کرتے ہیں۔ مگر نخاولہ شیعہ بھی یہ نسبت لگاتے ہیں۔ 

(العیسائی) یہ حضرمی اہلِ سنت استعمال کرتے ہیں لیکن نخاولہ شیعہ بھی استعمال کرتے ہیں۔

 (الصافی) (الصاوى) (المدنی) (المالکی) (السمیری) (الجرید) یہ ساری نسبتیں سنی استعمال کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ نخاولہ شیعہ بھی انہیں استعمال کرتے ہیں، مدینہ کے بعض شیعہ قبائل میں نخاولہ شیعوں کی تعداد بہت کم ہے، ان میں تشیع بعد میں آیا ہے۔ ان کے آباء و اجداد زیادہ تر سنی تھے۔ جہالت اور مالی لالچ اور سخت غربت نے انہیں شیعیت کی طرف مائل کیا اور شیعہ ان سے حسنِ سلوک کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ شیعہ بن گئے۔ تاہم دیگر قبائل کی بہ نسبت یہ قلت میں ہیں ان کے زیادہ تر رشتہ دار اب بھی سنی ہیں، حرب قوم کا قبیلہ عوف جو ہے ان کی تعداد اس میں بہت کم ہے۔ قبیلہ "کلی" میں تھوڑی سی زیادہ ہے۔ یہ حرب کے قبائل میں سے سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ اس میں چند شیعوں کے قصہ خواں ہیں وہ بھی چند گھر ہیں۔ زیادہ تعداد اور زیادہ آبادی سنیوں کی ہے۔ (الحمد للہ علیٰ ذالک)

 بنو عمرو قبیلہ میں اہلِ تشیع زیادہ ہیں۔ تاہم اگر مجموعی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو یہ معمولی ہیں۔ لیکن ان کی خطرناکی یہ ہے کہ یہ سنیوں کے ناموں پر نام رکھ کر ناداں آدمی کو گمراہ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ مشہدی شیعہ بھی ہیں۔ مکہ مدینہ کے قریب پائے جاتے ہیں یہ تعداد میں بہت ہی کم ہیں محمد بن عیسیٰ مشہدی ان کا سیکرٹری ہے۔ مدینہ میں بڑے بڑے اشراف شیعہ ہیں۔ نخاولہ کے بعد ان کی تعداد ہے۔ یہ بنو ہاشم میں سے سادات ہیں۔ ایک قسم سنیوں کی ہے اور ایک قسم شیعوں کی ہے۔ 

"سوارجیہ" میں ایک بستی انہی اشراف کی ہے، یہ مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مکہ مکرمہ، جدہ، طائف اور سعودیہ کے جنوبی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ احساء، قطیف میں زیادہ ہیں۔ مکہ، مدینہ، جدہ میں کم ہیں۔ ان میں سے زیادہ کے رابطے حزب اللہ لبنانی کے ساتھ ہیں۔ ریاض میں اسماعیلی مکارمہ شیعہ پائے جاتے ہیں۔ سعودیہ کے جنوب الحبیبہ میں پائے جاتے ہیں اور نجران شہر میں بھی محدود تعداد میں شیعہ موجود ہیں۔

دوسری بحث:

 1971/11/30ء میں حکومتِ ایران نے فوجی حملہ کیا اسے برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے ان عربی جزیروں پر حملہ کیا تھا۔ طمبہ کبریٰ اور طمبہ صغریٰ پر حملہ کیا یہ دونوں رأس الخیمہ کے ماتحت تھے۔ تیسرا جزیرہ ابو موسیٰ ہے جس پر حملہ کیا۔ یہ شارجہ کے زیرِ اثر تھا اس کے رہائشیوں کو ساحل عمان کے ملک امارات میں دھکیل دیا حکومتِ ایران نے بحرین کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ یہ تینوں جزیرے ہمارے حوالہ کرو قبضہ کرنے کے باوجود تین ماہ بعد یہ مطالبہ پورا ہوا تھا۔ یہ بھی تجارت کی صورت میں ہوا خلیج سے برطانیہ کے جانے (48) گھنٹے بعد ان کا قبضہ دیا۔ 

یہ جزِیرے ساخت یا آبادی کی کثرت کے لحاظ سے اہم نہ تھے ہرمز کی تنگنائے کی وجہ سے یہ تجارتی موقع محل کے لحاظ سے یہ نہایت ہی اہم تھے۔ (75 فیصد عالمی تیل یہاں سے ہو کر جاتا ہے 18 فیصد متحدہ امریکہ ریاستوں کا اور یورپ کا 52 فیصد)، جو ہیں ہر (11) منٹ بعد تیل کی سب سے بڑی نقل و حرکت اسی ہرمز کی تنگنائے سے ہو رہی ہے، یہ سب کچھ ایرانی فوجی دستوں کی حمایت و نگرانی سے ہو رہا تھا۔ اس تنگنائے کا حدود اربعہ بیس میل ہے عراقی، کویتی، سعودی اور قطر کے تیل کے ٹینکر یہیں سے گزرتے ہیں علاوہ ازیں ابوظہبی کے تیل کی گزرگاہ بھی یہی تھی۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تینوں جزیرے ایران کے لیے کس قدر اہم تھے اور بعض عرب جزائر ایسے تھے جنہیں ایران نے بغیر کسی مدافعت کے قبضہ میں لے لیا تھا۔ ایک جزیرہ ثرٰی بھی انہی میں سے ہے جو ابوظہبی اور شارجہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ 1964ء کی بات ہے وہاں انہوں نے ایک اہم جنگی ائرپورٹ بھی بنا رکھا ہے۔ 1950 میں جزیرہ ہنگام پر جو کہ رأس الخیمہ کے قریب ہے اس پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اسی طرح ایرانی شیعوں نے جزیرہ الغنم، جو کہ عمان کے تابع ہے اس کے تجارتی لحاظ سے اہم ہونے کی بنا پر اس پر قبضہ کر لیا۔ 

فارسی تمام حکومتیں یہ پختہ یقین رکھتی ہیں کہ خلیج فارس، شط العرب سے لے کر مسقط تک اس کے جزیروں سمیت اور بندرگاہوں سمیت، سارا فارس ان کا ہے۔ کیونکہ ان علاقوں کو فارسی کے علاقے کہہ کر منسوب کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ ہمارے ہیں عربوں کے نہیں۔ چودہویں ہجری کے آغاز میں ایرانی شیعوں نے اسی اعتقاد کے پیشِ نظر لڑنا شروع کر دیا تھا۔ بحرین میں ایرانیوں کی تنظیم کا سربراہ جسے گلوم کے نام سے پکارتے ہیں یہ برطانیہ کے داراعتماد میں باورچی کا کام کرتا تھا۔ یہ دس برسوں میں بڑے اہم تاجروں کی فہرست میں آ گیا ہے۔ بحرین کی حکومت میں جاگیر فروش ہے۔ سلمان کی بندرگاہ میں بحری جنگی کشتیوں کا نمائندہ ہے۔ 

دبئی میں ایرانی شیعوں کی ایک جماعت ہے میگور اور برطانوی اس کا لیڈر ہے۔ قطر میں تاج کو جاسوسی اور منصوبہ بندی کا مرکز قرار دیا گیا ہے یہ برطانوی دارالاعتماد میں باقائدہ رابطہ رکھتا ہے۔ بعض ایرانی شیعہ خلیج عربی میں تجارت کے میدان میں نمایاں ہیں، یہ بڑے نامور تاجروں میں شمار ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔ بھبھائی، کاظمی، مزیدی، سلیمان حاجی حیدر ولاری اور اس کی اولاد، عبدالرضا اسماعیل اشکنائی محمد صدیق خلیل لاری، اکبر رضا، فریدونی، قبازرد، معرفی، بوشہری، دشتی وغیره۔ 

ایرانی تاجر بڑی بڑی کمپنیوں پر چھائے ہوئے ہیں ایک کمپنی استیراد المواد الغذائیہ ہے استيراد الخضار اور اعمال الصیرفہ قابلِ ذکر ہیں یہ ہر تجارت پر تسلط جمانے کے لئے کوشاں ہیں اور برآمد و درآمد اور بڑی پرانی فوڈ کمپنیوں پر ان کی نظر ہے علاوہ ازیں یہ رہائشی علاقوں اور زمینوں اور زرعی زمینوں اور جائے نماز کی تجارت وغیرہ پر چھا جانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ 

خلیج کی ریاستوں میں ایرانی شیعہ رہائش اختیار کرنے کے بہانے اسلحہ کی تجارت کرتے ہیں۔ 1961ء میں بحرین پر حملوں کے درمیان یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک شیعہ کے گھر کافی تعداد میں اسلحہ ہے جسے "سردار" کہتے ہیں، ایک اور ایرانی کے گھر اسلحہ کی اطلاع ملی جو کہ ایک معمار تھا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایرانی فوج میں ملازم ہے۔ 1965ء میں چار آدمیوں سے اسلحہ برآمد ہوا جو ایرانی شیعہ تھے یہ حکومت قطر میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار ہوئے بعد میں ان کا معاملہ پردہ راز میں چلا گیا وجہ یہ تھی یہ اسلحہ ایرانی تاجروں کے لئے لایا گیا تھا جنہوں نے قطر کی شہریت اختیار کر رکھی تھی۔ اور یہ اعلیٰ سوسائٹی میں شمار ہوتے تھے۔

 کویتی حملوں کے دوران 1965ء میں سالمیہ کے محلّہ میں دھماکہ ہوا تب پتہ چلا کہ ایرانی بیکری میں اسلحہ تھا۔ ایرانی ایک اور بیکری میں بھی اسلحہ چھپانے کا انکشاف ہوا تھا۔ علاوہ ازیں سمندری رستہ بھی اسلحہ سپلائی ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ یہ خلیج میں موجود ایرانیوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ دبئی اور بحرین میں اسلحہ کی سپلائی دوائیوں کے باکسوں میں بند کرکے کی گئی جو ایران سے آئے تھے بحرین کے بازار منامہ میں ایک دوائیوں کی دکان جس کا مالک جعفر تھا وہاں سے کافی تعداد میں اسلحہ پکڑا گیا۔ 

1964ء میں ایرانی ڈاکٹروں کی زمین میں جو کہ رأس الخیمہ میں ان کے لئے مخصوص تھی اس کی ایک کھیتی سے اسلحہ ملا یہ کوئی ڈیڑھ سو کے قریب افراد لگے ہوئے تھے کہ اس اسلحہ کو جمع کریں ڈاکٹروں سے ملنے کے بہانے یہ اسلحہ پہنچاتے تھے، جسے منظّم اور خفیہ طریقہ سے یہاں پہنچایا جاتا۔ 1965ء میں شیعوں کے حسینی مرکز سے جو قطر کے جھرمیہ کے علاقہ میں تھا۔ فوج نے آدھی رات کے وقت چھاپہ مارا وہاں بیس آدمی ایرانی شیعہ جنگی مشقیں کر رہے تھے انہیں گرفتار کیا اور سارا اسلحہ ضبط کر لیا۔ انہوں نے حسینی مرکز کو بھی اپنی خفیہ، مشکوک اور خطرناک سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ حکومت کویت میں شیعوں کی سرگرمیوں کی جستجو کی گئی ہے کہ یہ اپنے منصوبوں کی تکمیل میں بہت قریب ہو چکے ہیں، حالانکہ انہوں نے لمبی مدت کے لئے بنائے تھے ان کی بائیس امام بارگاہیں ہیں اور شیعوں کی یہ امام بارگاہ صرف نماز کے لئے نہیں ہوتی وہاں ان کے اجتماعات ہوتے ہیں نشر و اشاعت کا ادارہ ہوتا ہے اور اس میں متعدد کمیٹیاں ہوتی ہیں جو ان کے خاص و عام معاملات کو منظّم کرتی ہیں وہاں کتابیں تقسیم کرتے ہیں اور شیعی لٹریچر شائع کرتے ہیں۔ جو ان کے گمراہ کن نظریات کا پرچار کرتا ہے۔ 

کویت میں شیعوں نے صرف اپنی امام بارگاہوں پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ انہوں نے قلعہ نما حسینی مراکز تعمیر کر رکھے ہیں مختلف علاقوں میں ان کے تقریباً ساٹھ سے زیادہ حسینی مراکز ہیں۔ دعیہ میں دس سے اوپر میں نبید الجار میں نو سے اوپر ہیں عبداللہ سالم کے علاقہ میں دو حسینی مرکز ہیں منصورہ میں دس سے اوپر ہیں مشرق کے علاقہ میں سولہ سے اوپر ہیں صلیخات میں بارہ سے اوپر ہیں۔ 

علاوہ ازیں کویت میں شیعوں کے طبع خانے ہیں جو کتابچے اور پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں اور یہ مفت بانٹتے ہیں۔ اور یہاں کمرے بھی موجود ہیں جہاں کویت کے باہر سے آنے والے شیعہ ٹھہرتے ہیں۔ 

کویت میں شیعوں کے ادارے اور تنظیمیں بھی ہیں جیسا جمعیت الثقافة الاجتماعیہ ہے جو حولی کے علاقہ میں ہے یہ کویت کی تنظیم الشباب کی سرپرستی کرتی ہے ایک شیعوں کے میٹرک کے طلباء اور علمی اداروں کی تنظیم ہے یہ اس کی بھی سر پرستی کرتی ہے۔

 یہ جائیدادیں، عمارتیں بھی خریدتے ہیں ان کا مقصد ہے کہ ان کے اپنے محلے ہوں یہ سنیوں سے بڑی مہنگی قیمت پر مکانات خریدتے ہیں یا گھروں کا تبادلہ کرتے ہیں اور جائز و ناجائز ہر حربہ اختیار کرتے ہیں صرف اس لئے کہ یہ اپنا خاص محلہ بنائیں ۔ انہوں نے اپنے غرباء شیعوں کو چند سالوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ہے، اس لئے کہ ہمارے مستقل محلے بن جائیں جہاں شیعوں کے علاوہ دوسرا نہ رہتا ہو۔ ان کی ان منصوبہ بندیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ خلیجِ عرب میں وزنی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بحرین میں یہ تقریبا 50/100 ہیں ۔ دبئی اور دبئی اور شارجہ میں 30/100 میں کویت میں 20/100 ہیں۔ عراق میں 50/100 ہیں۔