حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ کا فرمان
سوال: فقہاء نے لکھا ہے کہ مسلم کے فعل میں اگر ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان کا ہو تو اس کو ایمان پر حمل کرنا اور مؤمن ہی کہنا چاہیے۔
جواب: علماء میں یہ مشہور ہے کہ جس میں ننانوے، وجہیں کفر کی ہوں اور ایک وجہ ایمان کی ہو تو اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ سو جاننا چاہیے کہ اس کلام کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو شخص اسلام اور دین کی ننانوے باتوں کا منکر اور مکذب ہو اور ایک بات دین کی مانتا ہو اس کو کافر نہ کہا جائے، یہ سراسر غلط اور مہمل ہے، کیونکہ اس معنی پر تو یہود و نصاریٰ کو کافر کہنا جائز نہ رہے گا، کیونکہ یہود و نصاریٰ کم از کم پچاس فیصد اسلام کی باتوں کو مانتے ہیں، بلکہ دنیا میں کوئی کافر ایسا نہیں کہ جو اسلام کی تمام باتوں کا منکر ہو۔
علماء کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی مجمل اور محتمل کلمہِ کفر زبان سے نکالا جس کے معنی میں ننانوے احتمال کفر کے ہیں اور ایک احتمال ایمان کا بھی ہے تو ایسے محتمل اور مشتبہ قول کی بناء پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ (فتاویٰ رشیدیہ: جلد،1 صفحہ، 197)