یمن کے شیعہ
الشیخ ممدوح الحربییمن کے شیعہ:
1990ء میں یمن کے متحد ہونے کے بعد اور اس کی سیاسی، ثقافتی اور فکری فتح کے بعد ایران کے سفارت کاری کے ذریعے یہ جستجو کی کہ شیعہ کا کون سا قبیلہ زیادہ اہم ہے۔
تو اسے پتہ چلا کہ گروہی اور سیاسی اعتبار سے "دہم" قبیلہ زیادہ مناسب ہے۔ اس میں شجاعت و سرکشی پائی جاتی ہے اس کے علاوہ ان میں شیعت پر ڈٹ جانے اور آلِ حمیدالدین کے حکم پر کٹ مرنے کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے، مصری فوجوں کی صفوں میں ان کے ائمہ نے ہی خون ریز جنگ لڑی تھی اور صنعا شہر کے محاصرہ میں یہی پیش پیش تھے اور اس قبیلہ نے بھاری اور ہلکا اسلحہ چلانے کی مشق بھی لے رکھی تھی۔ طیارے گرانا ٹینک تباہ کرنا اور ہر قسم کے اسلحہ چلانے کی انہیں مشق تھی اور سعودیہ کی سرحدوں پر جسے ایران اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے یہ حساس قسم کے لوگ تھے۔ اور یہ دہم قبائل، اسماعیلی یام قبائل کے پڑوس میں رہتے تھے اور نجران جو کہ سعودیہ کا علاقہ ہے اس میں موجود وئلہ شیعہ قبائل کے بھی قریب تھے۔
سرحدوں میں قریب ہونا، عادات و رسومات میں نزدیک ہونا اور نسب میں ملاپ، نے دہم قبائل کا ایران سے گہرا تعلق بنا دیا ہے۔ ایران نے مسلح افواج جو کہ شجاعت اور شیعیت اور تربیت میں بہت مضبوط ہے جمع کر رکھی ہے، انہیں ڈالر یا پھر شیعہ افکار کی غذا دی جاتی ہے اور انہیں اثنا عشری عقیدہ میں رنگا جاتا ہے اور انقلاب ایران کے مقاصد اور ابتدائی باتیں بتائی جاتی ہیں ۔ یمن میں موجود شیعوں اور ایران کے درمیان سفارتی رابطہ رہتا ہے۔ یہ سفارت کار "دہم" قبائل تک پہنچتے ہیں۔ ان کے پاس دعوت کے متعلقہ تمام وسائل ہوتے ہیں، یہ شیعہ عقائد کا بیج بوتے ہیں اور ایرانی انقلاب کے مقاصد سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ شیعہ قافلے جوف عالی کے مقام کو اپنا مرکز قرار دیتے ہیں اور اپنے دینی خیالات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ متون جگہ شیعوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ مطمہ، مصلوب، زاہر، حمیدات یہ سارے زون دہم قبائل کے ہیں اور قریب قریب ہیں۔ یہ ان میں اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
(1)۔ شیعہ یہاں بڑی تعداد میں کتابیں پمفلٹ اور مفت کیسٹیں تقسیم کرتے ہیں اور انفرادی دعوت کے پردہ میں ابنِ تیمیہؒ اور محمد بن وہابؒ پر تنقید کرتے ہیں اور لیکچر دیتے ہیں ان کا عنوان یہ ہوتا ہے، وہابیہ اور یہودیہ کے عقائد میں رابطہ شیعوں نے نجران میں اسماعیلی مکارمہ کی تحریک کے دوران یمن میں اس عنوان والی کیسٹ کو بہت زیادہ تقسیم کیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ سنی علماء نے ثابت کیا کہ فوجی تعلقات شیعوں یہودیوں کے درمیان ہیں۔ شیعوں نے اس موضوع پر بھی کیسٹ تقسیم کی۔
الارھاب الوھابی فی العالم الاسلامی- اور یہ کتاب بھی تقسیم کی الوھابية وخطوھا فی مستقبل اليمن السياسی اور كشف الاربباب فی اتباع محمد بن عبد الوهاب اور ابن فقیه النفظ اور ایک کتاب- صاعقه العذاب فی الور على محمد بن وهاب اور الوهابيه فی صورتها الحقيقة اور العزقه الوهابية فی خدمة من وغيره
کتابیں تقسیم کی، جن میں کفر اور لعنت کے تیر برسائے گئے ہیں۔ نعوذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعنت اور علمائے سنت پر کفر کی بوچھاڑ کی گئی اور انہوں نے اپنے بڑے بڑے علماء کے فتاویٰ بھی نشر کیے جن میں ان کے بقول پندرہ فرعونوں پر لعنت کی گئی ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ سے لے کر یزید تک انہوں نے انہیں شمار کیا ہے۔ شیعہ نظر سے اور خمینی کی آراء کو پھیلانے کے لئے دیگر کتابیں بھی پھیلائیں۔
(2)۔ ایرانی سفارت کاروں نے شیعوں کے قبائل سے پانچ ذہین طلباء کا انتخاب کیا جو میٹرک پاس تھے، ان کے ساتھ ان کی بیویاں بھی تھیں، انہیں ایرانی سفارت خانہ کے اخراجات پر طہران میں حوزہ علمیہ میں پڑھنے کے لئے بھیجا انہوں نے چار سال شیعی عقائد پڑھے اور ایرانی انقلاب کی آراء و افکار سے آشنائی حاصل کی اب یہ واپس لوٹے تو انہیں شیعہ عقائد کے متعلق سہارا دینے میں اس کا دفاع کرنے میں اور اسے پھیلانے میں جس مواد کی ضرورت تھی وہ اس سے آراستہ تھے۔
(3)۔ اسی طرح ایرانی سفارت خانے نے دسیوں طلباء کو صنعاء اور صعدہ میں جعفریہ فقہ میں دوروں کے لئے بھیجا جو سال اور دو سال کا دورہ ہوتا تھا یہ سب اخراجات سفارت خانے نے اٹھائے تھے۔ انہیں شیعی عقائد سے آگاہ کیا گیا اور انہیں اہل ترین داعی بنا کر بھیجا گیا۔
(4)۔ ایرانی سفارت خانہ ان کے ہر شیخ کی کفالت کرتا ہے، ان سے مالی تعاون کرتا ہے، ماہانہ پانچ سو ڈالر دیتا ہے اور ہر شیعہ داعی کو تین سو ڈالر اور ہر طالب علم کو سو ڈالر دیتا ہے۔
(5)۔ ایرانی سفارت خانہ اپنی دینی بیداری رکھتا ہے، شیعی مجالس منعقد کرتا ہے۔ اور انہیں مادی و معنوی سہارا دیتا ہے۔ عیدِ غدیر خم ولادتِ سیدنا علیؓ، شہادت سیدنا حسینؓ کا انعقاد کرتا ہے اور ترویج دیتا ہے۔ شیعوں نے تین مراکز تعمیر کئے ہیں اور دو لائبریریاں ہیں اور کیسٹیں اس کے علاوہ ہیں اور ایک تربیت گاه، متون مقام کے ایک پہاڑ میں ہے یہاں بڑے اور چھوٹے اسلحہ کی یہ تربیت لیتے ہیں۔ اور حکومت ایران اپنے سفارت خانہ کے ذریعے وسائل مہیا کرتی ہے، گاڑیاں وغیرہ دے رکھی ہیں، صنعاء میں انہوں نے ایک مرکز طبی ایرانی قائم کر رکھا ہے جس میں جدید ترین تشخیص کے ذریعہ مفت علاج کی تمام سہولتیں دی جاتی ہیں۔ ایران نے جو تحائف یمن کے شیعوں کو دیئے ہیں اس کے نتیجہ میں صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ ان کے خطباء اور شیعوں کے داعی اپنے دروس کا افتتاح کرتے ہوئے اور اپنے خطبات کے آغاز میں سرِ عام اور کھلے طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر خصوصاً سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ پر اور سنی علماء سرفہرست ان میں شیخ عبد العزیز بن باز اور ابنِ تیمینؒ ہیں اور سعودی حکومت اور ان کے امراء پر لعنت کرتے ہیں۔ اب تو شیعوں کے علماء اپنے دروس اور لیکچرز میں بالکل واضح انداز میں محمد بن عبدالوہابؒ ہی کی دعوت کو اسلام کے لئے یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کے ایک شیخ عبدالکریم جدبان نے ایک کیسٹ کے ذریعے اس خبیث ترین اعلان کا اظہار کیا ہے۔ الحمد اللہ دو کیسٹوں میں ان کا جواب دیا گیا ہے کہ شیعوں اور یہودیوں کے درمیان باقاعدہ رابطے ہیں۔
راقم نے یعنی مولف کتاب ہٰذا نے مزید بتایا ہے کہ شیعوں اور یہودیوں کے درمیان قوی رابطہ ہے اور ان کے عقائد ملتے جلتے ہیں اور اسلحہ کی خریداری میں ایران اور اسرائیل کا آپس میں باقاعدہ تعاون ہے۔
ان کی خباثت کا اندازہ لگائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سنی علمائے کرام کو گدھوں، اور کتوں سے اشارے کرتے ہیں۔
اور یہ غدیرِ خم کے نام پر جو کہ ان کی سب سے بڑی عید ہے اسے دہم قبائل کے تین قبائل میں بپا کی ہے۔ اور یہ واقع ہی ان قبائل کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایرانی ثقافتی گروہ اس عید کی نگرانی کے لئے صحاء اور صعدہ میں آیا تھا۔ اور آٹھ ذوالحج کو صبح ہی یہ قبائل اکھٹے ہو گئے اور انہوں نے مجلس ماتم بپا کی، قصائد پڑھے، اور انہوں نے اس دن کو ولایتِ سیدنا علیؓ اور شیعان سیدنا علیؓ کی دوستی کا دن قرار دیا اور جنہوں نے ولایت کو چھپایا۔ اور انہیں بے یار و مددگار کر دیا ایسے خائنوں سے بیزاری کا دن قرار دیا ہے اور مجلس کے آخر میں انہوں نے ایک تصویر سی پیش کی جس پر سیدنا معاویہ بن سفیانؓ لکھا ہوا تھا اور ایک دوسری طرف تھی جس پر سیدنا عمرؓ لکھا تھا۔ ایک اور تھی اس پر یزید لکھا اور انہوں نے حاضرین سے کہا ان پر گولیاں اور پتھر برساؤ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ انہیں اہلِ بیت کے غدار اور خائن تصور کرتے ہیں۔
سب سے بڑا خطرہ جو اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہ انٹرنیٹ میں موجود ہے کہ یمن میں جو امریکی سفیر ہے یہ شیعوں کے دہم کے قبائل میں خود پہنچا ہے خصوصاً جو یمن کے شمالی علاقہ اور سعودی عرب کے جنوب میں ہیں قبیلہ کے سربراہوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا ہے اور اس کی خوشی میں ہوائی فائرنگ بھی کی ہے۔ اور امریکہ نے اپنے سفیر کے واسطہ سے سو ملین ڈالر اسلحہ کی صورت میں انہیں دیا ہے جس میں طیارہ شکن اور ٹینک شکن توپیں بھی ہیں اور ہر قسم کا اسلحہ بھی دیا ہے اور امریکہ نے انہیں اس اسلحہ کو چلانے کی تربیت بھی دی ہے اور اخراجات خود کیے ہیں اور یمن کے اس قبیلہ کے ہاں ایرانی بھی پہنچتے ہیں جو انہیں ٹریننگ دیتے ہیں۔