Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کا فرمان


فقہائے کرام نے یہ اصول بتایا ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانوے احتمالات موجب کفر ہوں اور ایک احتمال موجب ایمان ہو تو اُس ایک احتمال کو ترجیح دی جائے گی اور اس کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے۔

یعنی مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسا جملہ بولا یا ایسی عبارت لکھ دی کہ جس میں ننانوے احتمالات کفر کے ہیں اور ایک احتمال صحیح محمل پر محمول کیا جا سکتا ہے تو اس صورت میں بھی اس کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے ننانوے اُمور کفر کے بولے اور ایک جملہ ایمان کا بولا تو ایمان والے جملے کا اعتبار ہو گا اور اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ننانوے باتیں کفر کی کرے اور ایک بات ایمان کی کرے تب بھی وہ مؤمن رہے گا۔

یہ جملہ و فقرہ ایک ہی ہے چاہے زبانی بولا ہو یا تحریراً لکھا جائے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ اس کی تشریح میں مختلف احتمالات ہو سکتے ہیں لیکن ترجیح اس احتمال کو دی جائے گی جو موجب ایمان ہو۔

مطلب یہ نکلا کہ اس کے کلام کی حتیٰ الامکان ایسی تشریح کی جائے گی جو کفر کی طرف نہ لے جانے والی ہو۔ لہٰذا جب تک ایسی کسی تشریح کا احتمال ہو گا اُس وقت تک ہم اس کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے، البتہ جب کسی شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے اپنے کلام کے ذریعے ماثبت من الدين ضرورة کا انکار کیا ہے اور اس کی تشریح میں کسی اور معنیٰ کا احتمال نہیں تو پھر اس کے اوپر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ (کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات: صفحہ، 119)