افریقی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیافریقی شیعہ
1959ء میں خمینی کی قیادت میں سرزمین فارس میں ایرانی انقلاب کا آغاز ہوا، دنیا میں شیعہ نے اپنے لیڈر پن کا اظہار شروع کر دیا۔ اور اس نے شیعیت کی نشر و اشاعت اور حمایت کی ذمہ داری اپنے کندھے پر ڈال لی۔ اس نے ایسے جذبات کا اظہار کیا جس سے نمایاں ہوتا تھا کہ یہ اپنے عقائد معمورہ ہستی تک پہنچائیں اور اعتقادات کا وسیع پیمانے پر پرچار کریں۔ ایران میں بیٹھ کر شیعوں کے لئے ممکن تھا کہ یہ دنیا کے مختلف کناروں میں اپنے مذہب کو پہنچا سکتے تھے۔ ان میں سے ایک مشرقی افریقہ کا علاقہ تھا جس میں شیعہ مذہب کی سرگرمیاں وسیع انداز پر پھیلائی جا سکتی تھیں پہلے اس میں سفارت کار اور ایرانی قونصلیٹ بھیجے تاکہ یہ جائزہ لیں کہ ان کے ضروری منصوبے یہاں کس حد تک پورے ہو سکتے ہیں اور خصوصاً اس نے ساحلی علاقوں اور مہبط وحی کا جزیرۀ عرب جو ساحل افریقہ کے قریب ہے ان علاقوں میں نمائندے بھیجے تاکہ وہ جائزہ لیں اور یہ ایران کے شیعہ اسے اپنا مرکز بنائیں۔ اس میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ اس علاقہ کی ثقافت اور تہذیبی مراکز کو فتح کیا جائے۔ ان مراکز سے پھر علمی مراکز ، اجتماع کے لیے ہال اور نشریات کتابیں وغیرہ شائع کرنا اور دینی کیسٹیں جو شیعہ مذہب کی دعوت دیں انہیں عام کیا جائے۔ کینیا کے وسط میں اسی قسم کا ایک مرکز واقع ہے۔ نیروبی کے دارالخلافہ میں تجارتی اہمیت کی جگہ پر بھی واقع ہے۔ کینیا والا مرکز بذاتِ خود ایرانی قونصلیٹ کی نگرانی میں کام کر رہا ہے جہاں یہ مال حاصل کرتا ہے، مادی و روحانی سہارا لیتا ہے، علاوہ ازیں سیاسی حمایت بھی حاصل کرتا ہے۔ ان مراکز کو شیعہ تنظیمیں چلاتی ہیں جو تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور متعدد زبانیں جانتی ہیں، انگریزی عربی اور جو وہاں کے باسیوں کی بولی ہو وہ جانتی ہیں۔ ان مراکز کے ساتھ ملحقہ علمی لائبریریاں بھی ہوتی ہیں جو مختلف علوم کی کتب پر مشتمل ہوتی ہیں۔ تفسیر کے متعلقہ علوم، حدیث کے متعلقہ علوم ، فقہ و اصول فقہ، لغت، ادب، تاریخ، سیرت اور دیگر علوم کی کتب ان لائبریریوں کی زینت ہوتی ہیں، رسالے، اخبارات ماہنامے ہفت روزے یا سالانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں، جن پر شیعہ مذہب کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے کیونکہ یہ حکومتِ ایران میں چھتے ہیں۔
(2)۔ شیعوں کا مقصد افریقہ میں یہ تھا کہ علمی مدارس کھولے جائیں، زیادہ تعداد میٹرک سکولوں کی ہو، شیوں نے تعلیمی سطح پر مختلف مدارس اس علاقہ میں قائم کیے ہیں جو دارالخلافہ اور بڑے بڑے شہروں میں پائے جاتے ہیں ان میں مدرس مقامی شیعہ ہی ہیں مگر ان کا بڑا ایرانی روحانی پیشوا ہوتا ہے۔ اسے فقیہ کہتے ہیں۔
(3)۔ شیعہ افریقہ میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں میں دعوت پھیلانا چاہتے ہیں۔ اب وہاں شیعوں کی بدعات پر کان دھرنے والے بہت لوگ ہیں، انہوں شیعہ عقائد والوں میں سے منتخب لوگ لیے اور انہوں نے معاشرہ میں عقائد پھیلانے کے لیے تندہی سے کام کیا اور ان کی تنخواہیں افریقہ میں موجود ایرانی سفارتخانہ اور قونصلیٹ ادا کرتا ہے۔ حقیقت ہے کہ شیعہ مختلف اسلوب و انداز کے ذریعہ لوگوں کو ورغلاتے ہیں، مال سے اور جو ان کے گمراہ کن افکار و نظریات کے حامل نوجوان ہوتے ہیں انہیں پڑھائی کے لیے عطیات کے ذریعے ساتھ ملاتے ہیں۔ ان کا شیعہ طابع، یعنی کتابیں بیچنے والا اس بات کو بہت اچھا سمجھتا ہے کہ انہیں اس زہریلے عقائد کی طرف متوجہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ پورا تحفظ حاصل ہے۔ افریقہ کے شرق پر شیعہ کے قدم مضبوط ہیں اور یہ شیعیت کی اشاعت میں بڑی جدوجہد کر رہا ہے اور اپنی شیعہ ایرانی حکومت کی دوستی کا حق ادا کر رہا ہے۔ ان کی پہلی فرصت میں یہ کوشش ہے افریقہ کے نومسلموں کے عقیدہ میں تزلزل پیدا کیا جائے اور انہیں شیعہ بنایا جائے۔ اور صومالیہ میں جو پناہ گزین ہیں انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور ٹیلی ویژن کے اسٹیشن کھول کر دیئے جائیں۔ خصوصاً تنزانیہ میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ پڑھائی کے طریقے پورے اہتمام سے رائج کرتے ہیں۔ مسلمان جو ساحلی علاقوں میں ہیں انہیں شیعہ بنانے پر ان کی توجہ مرکوز ہے۔ صوفیوں اور شیعوں کے گمراہ کن عقائد میں مماثلت ہے، اس لیے یہ افریقہ کے ساحلی علاقوں میں صوفیوں کے مراکز پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ تعلیمات اسلام اور عقائد صحیحہ کے متعلقہ کتب شائع کریں اور انہیں عام پھیلائیں خصوصاً محمد بن عبدالوہابؒ کی کتب عام شائع کریں تاکہ ان گمراہوں کا دفاع ہو سکے۔ ایرانی شیعہ کینیا میں ایک یونیورسٹی تعمیر کر رہے ہیں حزبِ فورکینی کا نائب امیر کہتا ہے، یہ پروفیسر راشد رمزی کے مخالف گروپ سے ہے، یہ کہتا ہے:
ان هناك خطوات جارية لبناء جامعة فی منطقة الساحل بكينيا۔
”کینیا کے ساحل پر یونیورسٹی تعمیر کرنے کی کوششیں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔“
اور میں ایران کی دعوت پر دو ہفتہ کے لیے جا رہا ہوں وہاں میں پاسداران انقلاب کے سامنے یہ بات کروں گا اور اس منصوبہ کی عمل داری کے لیے میں ایران کے سفارتخانہ سے بھی ملوں گا۔ اس منصوبہ کے متعلقہ حکومتِ ایران میں افریقی معاملات کے متعلقہ آفیسر اور وزارت تعلیمات کے نائب وزیر سے میری بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں نہایت ہی رنج و الم سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی عرب ممالک کی اسلامی یونیورسٹیوں میں یہ افریقی ملکوں کے طلباء کو قبول نہیں کرتیں، مگر مجبور ہو تو کرتی ہیں جب کہ ایران نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے چھوڑ رکھے ہیں ۔ یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔!