سوڈانی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیسوڈانی شیعہ
اب ہم افریقی ملک سوڈان کے بارے میں حالات بتانا چاہتے ہیں۔ سوڈان ایک ایسا ملک ہے جسے جنگوں نے اور انقلابات زمانہ نے کمزور کر دیا ہے اور اسے گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ تباہ کن فقر و فاقہ کے پہاڑ کی زد میں کراہ رہا ہے۔ بھوک نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ اور اس میں پناہ گزینوں کی نیند حرام ہو چکی ہے، یہ ہلاکت خیز طوفانوں کی زد میں چلا آ رہا ہے۔ شرانگیز قوتیں اس پر چڑھ آئی ہیں اور ہر جگہ سے یہ انتقام کا نشانہ بن رہا ہے۔ اس کے ہر حصہ میں صوفیوں نے اپنے منحرف نظریات کی طنابیں ڈال رکھی ہیں۔
انہی ظروف و حالات نے شیعوں کے لیے یہ سرزمین شاداب کر دی ہے انہوں نے اپنی قوتیں یکجا کیں اور اپنی خفیہ طاقتیں مجتمع کر کے یہاں پھینک دیں، مثلاً نائیجیریا بنین، سنگال، کامرون، وغیرہ میں یہاں انہوں نے معمولی تگ و دو اور تھوڑے وقت میں بڑے بڑے نتائج بہ آسانی حاصل کر لیے تھے وجہ یہ ہے کہ سنی اپنے سوڈانی بھائیوں سے دور تھے، شیعوں کو کامیابی کا موقع مل گیا۔ سوڈان میں ایک شیخ نے المناک لہجہ میں کہا تھا:
سبحان الله ليس فی السودان الا مسلم مالكی او جنوبی وثنی وها نحن نسمع اليوم بنصارىٰ ورافضة وملحدين وعلمانيين
"ہم تو سوڈان میں مسلمان یا بت پرست کا نام سنا کرتے تھے۔ اب ہم عیسائی، شیعہ، بے دین اور علمانیوں کا نام بھی یہاں سے سن رہے ہیں۔“
جو بھی سوڈان میں شیعہ دعوت پر غور کرے گا اسے یہ چیز نظر آئے گی کہ یہ اپنی پرخباثت دعوت کے میدان میں کئی محاذوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی پوری توجہ کا مرکز ہے یہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جتنا ہمارے لیے لوگوں کو شکار کرنا ان حالات میں ممکن ہے شاید اس کے بعد کبھی نہ ہو، اس کے لیے یہ کئی مراکز سے کام کر رہے ہیں۔
نمبر(1) طلبہ کا مرکز ہے۔ یہ شیعوں کی دعوت کا مرکز ہیں، یہ یونیورسٹیوں کے طلباء ہیں، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی، یہ شیعوں کے ہاں خاص مقام رکھتے ہیں ان کے مؤثر ہونے کا اندازہ لگائیں، خرطوم یونیورسٹی میں تین سالوں کے درمیان شیعوں نے تیرہ مرتبہ مختلف ناموں کے تحت ان سے رابطہ کیا ہے۔ دوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں کا اندازہ خود لگا لیں۔ یہ رابطہ جو ہے اس میں ثقافتی اور دعوتی سرگرمیاں مضبوط ہوئی تھیں اور انہی ناموں سے یہ ملاقات کرتے تھے۔ فکر شیعہ سے یہ کتنے زیادہ اور شدت کے ساتھ متاثر ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ تربیتِ اسلامیہ کے اساتذہ کے ساتھ یہ مسلمہ مسائل پر زبردست مناقشہ اور سوال و جواب کرتے ہیں۔ مثلاً عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، شیخینؓ کی خلافت، ام المومنین سیدہ عائشہؓ کی براءت اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی براءت ثابت ہے یا نہیں؟ وغیرہ مسائل پر یہ ٹھیک ٹھاک بحث کرتے ہیں۔ ایک استاد سے انہوں نے ایسی تکرار کی کہ خرطوم یونیورسٹی کا یہ استاد لاجواب ہو گیا اس سے اندازہ لگائیں یہ شیعی فکر اور نقطۂ نظر ان میں کس قدر شدید انداز میں دخل اندازی کر چکا ہے۔ ان طلباء میں دعوت شیعہ اتنی زیادہ کامیاب ہو چکی ہے کہ ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء اور دعوت دینے والے ہر مجلس میں بات ہی اسی موضوع فکر شیعہ پر کرتے ہیں۔
(2) وہ طلباء مرکز ہیں جو یونیورسٹی کی نچلی سطح پر ہیں شیعوں نے ان پر اثر ڈال رکھا ہے مگر ان میں وہ اتنے کامیاب نہیں جتنے پہلی قسم کے طلباء میں کامیاب ہیں، سوڈانی قبیلوں میں شیعی مدارس کھولے جا رہے ہیں تاہم کئی ان میں سے بند ہو رہے ہیں۔
(3) وہ طلباء ہیں جو مدارسِ قرآنیہ میں سے ہیں ان میں بھی انہیں کامیابی مل رہی ہے۔ یہ پرانے زمانے سے کافی تعداد میں ہیں ان کے شیوخ مال سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ شیوخ خود اپنے دین اور عقیدہ سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر ان کی اپنے طلباء پر تاثیر بہت ہوتی ہے اور یہ شیعہ جب ان کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو ساتھ ان کے لیے غذا، پوشاک اور تحائف لے کر جاتے ہیں، کتب اور مصاحف بھی تحائف میں دیتے ہیں اور طلباء پر بھی تقسیم کرتے ہیں، ان ملاقاتوں کے دوران دروس اور لیکچرز دیتے ہیں۔ اور خرطوم یونیورسٹی کے ماتحت تعلیمی مراکز اور ادارے میں ممتاز آنے والے طلباء میں بھی تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ ان اداروں سے سندیں حاصل کرنے کے بعد انہیں ایران میں تعلیم دلواتے ہیں۔ اس طرح یہ طالب علم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک شیعیت میں پھنس جاتا ہے۔
محور:1 محور و مرکز، شیعوں کا یہ صوفی ہیں، سوڈان میں شیعہ ان کے ذریعے ہی اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔ یہ صوفیوں کے طریقوں اور سلسلوں کا مرکز و محور ہیں، ان صوفیوں کی ایک قسم تو عملاً شیعہ ہی ہیں بلکہ شیعوں کے داعی ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں، شیخ محمد ریح حمد بھی ان میں سے ہے، یہ آدمی صوفیوں میں سے ہے اس کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں۔ اس نے بڑا اہتمام کیا ہے حتیٰ کہ یہ بہت بڑے منصب تک پہنچا ہے یہ ذکر و ذاکرین کی کانفرنس کا جوائنٹ سیکرٹری ہے۔ یہ کانفرنس صوفیوں کے
سلسلوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ رکھتی ہے، ایک شیخ ابوزرون ہے۔ سوڈان کی سطح تک اس کے پیروکار بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں یہ سرِعام لوگوں سے میل ملاقات رکھتا ہے، اس نے جب سے یہ شیعہ سیاہ لباس پہن رکھا ہے کبھی نہیں اتارا۔ صوفیوں کی ایک دوسری قسم ہے جو رافضیوں کی طرف مائل ہے کیونکہ ان سے انہیں مالی سہارا بہت ملتا ہے مگر یہ شیعیت میں شامل نہیں ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی مساجد شیعوں کے لیے کھول رکھی ہیں۔ اس کے پیروکاروں اور مریدوں کے دل بھی شیعوں کے لیے کھلے ہیں۔ یہ قدم آگے اور قدم پیچھے والی گونا گوں کی کیفیت میں ہیں۔ شیخ یاقوت ان میں سے ہی ہے۔ یہ سوڈان میں صوفیوں کے بہت بڑے سلسلہ والے ہیں، اس شیخ کی شیعہ مسلسل ملاقات کرتے رہتے ہیں، شیخ ددبدر بھی ان میں سے ہے، ایرانی داعی شیعہ نے افریقہ کے براعظم کی سطح پر جو کہ محمد شاہدی ہے، نے بھی اس شیخ سے ملاقات کی تھی۔
محور:2 جو شیعیت کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ علمی قیادت ہے جو توجہ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علمی اداروں کے مدیر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحیم علی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ کرار ہے اور ڈاکٹر حسن مکی ہے، یہ ڈاکٹر حسن مکی نے تو میڈیا میں شور برپا کر دیا تھا۔ اس نے جلیل القدر صحابی سیدنا عثمان بن عفانؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اپنی آراء بیان کی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیعی فکر اس کے اندر دخل انداز ہو چکی ہے۔ اور یہ اس سے شدید متاثر ہے اور اس کی کوشش ہے کہ لوگوں کو ادھر مائل کرے۔ سوڈان میں جو حقیقی کامیابی شیعوں کو حاصل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر اخبارات جو عوام میں مقبول ہیں ان پر ان کا ہولڈ ہے۔ "الوفاق" اخبار ہے، یہ ان کے مضامین اور مسائل اور عقائد پھیلاتا رہتا ہے۔ اور واضح کرتا ہے کہ تحریر کرنے والا شیعیت سے متاثر ہے اور شیعوں کی کتابیں اعلانیہ دن کی روشنی میں بغیر کسی رکاوٹ کے فروخت ہو رہی ہیں اور فروخت کرنے والے انہیں خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اور ایسی معلومات شائع ہو رہی ہیں کہ ایرانی سفارتخانہ کی گنتی کے مطابق سوڈان میں پندرہ ہزار کی تعداد میں شیعہ موجود ہیں۔ اور بعض مکمل بستیاں ہی شیعہ ہو چکی ہیں۔ مدینہ ابیض کے قریب ام دم بستی شیعہ ہے۔ یہ ایرانی سفارتخانہ کے لیے بڑے فخر کی بات ہے، اس نے اس کامیابی پر اظہارِ برتری کیا ہے۔ یہ وہ بستی ہے جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گالی دی جاتی ہے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پر ہر جمعہ لعنت کی جاتی ہے۔ خطیب خود لعنت کرتا ہے۔ اللہ اس پر بھی وہی کرے جس کا یہ مستحق ہے۔
سوڈان کے شمال میں الکربہ نامی بستی بھی شیعہ ہو چکی ہے اور شمالی سوڈان میں ہی ایک قبیلہ الرباضاض یہ بھی شیعیت میں آ چکا ہے، دارفور ریاست میں جو کہ سوڈان کے مغرب میں ہے تین
بستیاں شیعہ ہیں۔ شیعہ بنانے میں ان کے داعی اور بڑے ان علاقوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اور شیعیت کے سوڈان میں پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ایران تعلیم کی سہولتیں دے رہا ہے، ان طلباء کی وجہ سے سوڈان کی مسلم سرزمین میں شیعہ عقائد سرایت کر رہے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ سرزمین ایرانی ثقافتی مرکز کے نام سے نہایت موزوں ثابت ہوئی ہے، ایران نے سوڈان میں مہدی مروی کو اپنا سفیر متعین کر دیا ہے۔ جو سوڈانی اور ایرانی تعلقات مضبوط کرنے کے میدان میں سرگرم عمل ہے، اس نے یہ ثقافتی مرکز قائم کیے ہیں۔ اس سفیر کی نمایاں ترین سرگرمی یہ ہے کہ اس نے سوڈانی تنظیم جو "الصداقہ الشعبية العالمیہ" کے نام پر تھی اسے "الصداقہ السودانيہ الایرانیہ" میں ضم کر دیا ہے، دونوں کو ایک کر دیا ہے۔ یہ جمعیت ایرانی سفارت کا کام دیتی ہے۔ اور اس نے ایرانی ثقافتی مراکز میں دعوتی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لیا ہے۔ اس جمعیت کے ارکان ان لائبریریوں میں جاتے ہیں جو ان مراکز کے تابع ہیں اس طرح شیعی سرگرمیوں میں تیزی آ جاتی ہے۔ قابلِ غور یہ بات ہے کہ صوفیوں کے ساتھ ایرانی شیعوں کا ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ تعلقات مزید پختہ ہو رہے ہیں۔ اس میں یہ شیعہ یہ چال چلتے ہیں کہ صوفیوں سے کہتے ہیں۔ اہلِ بیت سے محبت میں ہم اور تم دونوں ایک ہو جاتے ہیں ۔
تھیں میری اور رقیب کی راہیں جدا جدا
آخر کو منزل جاناں پر دونوں ایک ہو گئے
اور یہ چیز آپس میں تعاون کا باعث بن جاتی ہے کہ ان کے عقیدہ کی بنیاد ایک ہے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ مادی اور مالی لالچ بھی دیتے ہیں۔ اس سے ان کے ان شیوخ سے رابطے اور پختہ ہوتے ہیں۔ اور شیعوں کو ان شیوخ کے مریدوں تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ اور انہیں ان کے سامنے تقریر کرنے اور لیکچر دینے کا موقع مل جاتا ہے، یہ ان کی بستیوں اور مساجد میں انہیں شیعیت کا درس دیتے ہیں اور یہ بات بڑی مؤثر ثابت ہو رہی ہے کہ ان کا بنیادی نقطہ اہلِ بیت سے محبت کرنا متفق علیہ ہے۔ اس سے تعاون ہو رہا ہے، یہ چیز خواہ فرد ہو یا جماعت ظاہر ہے اثر اندازہ ہوتی ہے اور پھر یہ نقطہ نظر ایک ہے، لہٰذا آپس میں تعاون کریں سوڈان میں ایران کے شیعوں نے یہی چیز پیدا کی ہے اور اسی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اسے وہ پورا کر رہے ہیں، ایرانی سفارت کے ذریعے، مراکز کی شکل میں چوکیداروں کی صورت میں خدمت گاروں کے روپ میں سیکرٹری کے طور پر ڈرائیوروں اور مترجموں کے انداز میں یہ شیعیت پھیلا رہا ہے۔ اس ملازمت میں کوئی جفاکشی سے کام کرنے کا پابند نہیں کیا جاتا، بس جتنا ممکن ہو اتنا کرتا ہے، اصل تو شیعہ تعلقات قائم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں سوڈان میں شیعہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو معاشرہ میں ضروری ہیں اور مفید ہیں، مدارس قائم کر رہے ہیں ادارے اور تنظیمیں وجود میں لا رہے ہیں اور ثقافتی مراکز بنا رہے ہیں جن کے ذریعے عقیدہ شیعیت پھیلایا جا رہا ہے، در پردہ یہ ساری کارستانی ایرانی سفارتخانہ کی ہے، جو ملکوں میں معاشرہ کو شیعیت میں ڈھالنا چاہتا ہے، ان میں سے نمایاں خرطوم یونیورسٹی ہے جو ان کی ثقافت کا مرکز ہے، یہ ہندوستان کے سفارتخانہ کے قریب ہے۔ یوں سمجھیں یہ شیعیت کی فکر کی اشاعت میں مدبر عقل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان کے مرکز کا ایک شعبہ ثقافت اور میڈیا ہے یہ ویڈیو اور آڈیو کیسٹیں اور ایرانی اخبارات کو تقسیم کرتے ہیں، ان ویڈیو کیسٹوں میں جو اہم ترین چیز پیش کی جا رہی ہے وہ حضرت علیؓ کی ولایت ہے۔ اور حضرت صدیق اکبرؓ کی بیعت کو باطل ثابت کیا گیا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر خصوصاً حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پر سبِّ وشتم کیا گیا ہے۔ جنہیں یہ مرکز میں آنے والوں میں مفت تقسیم کرتے ہیں اور وہ کتابیں جو شیعی نظریات پیش کرتی ہیں انہیں بھی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اور خصوصاً طلباء کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ خطرناک سرگری یہ ہے کہ یہ ایرانی جامعات میں مفت تعلیم کی پیشکش کرتے ہیں اور ان میں جامعہ خمینی میں تعلیم پر پُرزور طریقہ اپناتے ہیں کیونکہ اس میں فقہ جعفریہ پڑھائی جاتی ہے۔ عرصہ(9) سال کے دوران سوڈان میں سے بہت بڑی طلباء کی تعداد اس جامعہ خمینی میں داخل ہوئی ہے اور خصوصاً طالبات ان میں زیادہ ہیں۔ اس جامعہ سے وہ کافی تعداد میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر ایرانی مراکز ثقافتیہ میں متعین ہوئی ہیں اور بعض خرطوم میں ایرانی سفارتخانے میں ملازم ہوئی ہیں۔
شیعوں نے دوروں کے نام پر بھی شیعیت دلوں میں اتارنے کا کام شروع کر رکھا ہے، مختلف موضوعات اور مہارات کا دورہ کرواتے ہیں، مثلاً فارسی زبان میں دورہ کرواتے ہیں یہ عوام اور ثقافتی لوگوں کے لیے رکھا ہوتا ہے۔ لغت کی تعلیم کے دوران بھی یہ اپنے شیعی افکار و آراء پڑھا جاتے ہیں اور امامت کا نقطہ نظر امام کے لوٹنے کا نظریہ اور پاؤں پر مسح کرنا وغیرہ شیعہ عقائد پر بحث کر جاتے ہیں۔ یہ اس طرح بہت سارے پڑھنے والوں کو اپنے شیعی جال میں پھانس لیتے ہیں۔ یہ فارسی زبان کے شہد میں شیعہ نظریات کا زہر ملا کر پلاتے ہیں۔ بات میں مثال اس طرح لے آئیں گے کہ جعفر صادقؒ نے کہا ہے:
التقية دينی ودين آبائی فمن لا تقية له فلا دين له
”کہ تقیہ میرا دین ہے اور میرے باپوں کا دین ہے جو تقیہ نہیں کرتا اس کا دین نہیں۔“
اس کی تشریح کرتے ہیں اور طلبا کو اس کی طرف مائل کرنے کے لئے دعوت دیتے ہیں، یہ ان کی خبیث مکاری ہے۔ دوروں میں اپنے مذہب کی کتاب ”الفقہ علی المذاہب الخمس“ بھی پڑھاتے ہیں حنفی، حنبلی، شافعی، مالکی، چار مذاہب یہ مراد لیتے ہیں اور پانچواں مذہب شیعہ فقہ مراد لیتے ہیں، جسے یہ فقہ جعفریہ کہتے ہیں۔ ان دوروں میں معلمین ایران سے آتے ہیں، ان میں سے حمید طیب حسینی ہے، عدنان تاج ہے، صالح ہاشمی ہے، امیر موسوی ہے، علاء الدین واعظی۔ ایوب حائلی ہے اور یہ ہمیشہ ان مذاہب میں سے فقہ جعفری کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر معاملہ میں ان کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ امام جعفر صادقؒ معصوم امام ہیں۔ اور تمام سنی مذاہب نے ان سے ہی علم لیا ہے اور بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے امام جعفر صادقؒ سے پڑھا ہے، وہ کہا کرتے تھے: (لولا السنتان لهلك النعمان) اگر امام جعفرؒ سے میں نے دو سال نہ پڑھا ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا۔
حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے ثابت نہیں کہ امام صاحبؒ نے یہ کہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے تقریبا فقہ جعفریہ کے نوے دورے ہوئے ہیں، اس کے مقابلہ میں سنی لوگ سوڈان میں سخت کمزور سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جنہیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے ثقافتی مرکز میں علم منطلق کے دورے بھی کروائے جاتے ہیں وہاں خلاصتہ المنطق پڑھائی جاتی ہے۔ اس سے طلباء کے عقائد میں شک پیدا کیا جاتا ہے، ابتدا اس منطق سے کرتے ہیں مگر اندر ہی اندر سے سنی طلباء کو شیعہ بنانے کی راہ ہموار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اصول فقہ کے دوروں میں کیا جاتا ہے یہ دورے خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طلباء میں رکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً "ام درمان الاسلامیہ یونیورسٹی" اور "جامعہ القرآن الحکیم والعلوم الاسلامیہ" کے طلبہ کو کروائے جاتے ہیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر ایرانی مدرس اس موضوع کو خود پڑھاتا ہے۔ اس میں شیعہ اور سنی اختلاف پر بحث کی جاتی ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اختلاف بتاتے ہیں اور محمد بن عبدالوہابؒ کی دعوت و تحریک کو برے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعنت کے مسئلہ پر باقاعدہ بحث کرتے ہیں اور بہت تعداد میں طلباء کو مائل کرتے ہیں۔
یہ جو ممتاز حیثیت سے فارغ ہوتے ہیں یہ طلبا عقیدہ شیعہ میں رچ بس جاتے ہیں یہ ان کے دورہ لگانے والے داعی بن کر جاتے ہیں، یہ ایکسر سائز کرنے والے نوجوان جہاں جمع ہوتے ہیں وہاں چکر لگاتے ہیں، ان کی محفل میں پہنچ جاتے ہیں حصاحیص کے شہر میں بھی یہ اس لیے آئے تھے اور پھر یہ تو نوجوانوں کو انفرادی دعوت دیتے ہیں تاکہ یہ شیعہ مذہب کی طرف مائل ہوں اور اسے قبول کریں۔