سنگالی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیسنگالی شیعہ
ایران کے سفارت خانے کی جدوجہد سے شیعیت پھیل رہی ہے۔ یہ سفارتخانہ رسائل اور کتابیں پھیلاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے شیعیت پنپ رہی ہے اور ایرانی انقلاب کی سالگرہ پر ایران کی دعوتی پیش کش بھی اس میں معاون ہے اس کے ساتھ ساتھ کہ ایرانی سفارت اپنا کام دکھا رہی ہے۔ تو سنگال میں بھی ایرانی سفارتخانے کی ہی کارکردگی ہے اس نے وہاں مالی تعاون ڈال دیا کتابوں اور اخباروں کے ذریعے معلومات پیش کیں اور وہ لوگ ایرانی سفارتخانہ میں آنے لگے اور وہاں سے درس لینے لگے وہاں انہوں نے ایک تحریک بنا لی جس کا نام "حلقة المثقفين“ رکھا۔
انگریز کے استعمار کے بعد لبنانی شیعوں کی افریقہ کی طرف ہجرت میں کمزوری آ چکی تھی۔ تاہم لبنانی اپنی فطرت کے مطابق اور شیعی نظریات کی وجہ سے سنگالی مسلمانوں کی ثقافت سے علیحدہ ہی رہے تھے اور اپنے خاص عبادت خانوں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ 1964ء میں موسیٰ صدر ہر افریقی شہر میں گیا جس میں لبنانی موجود تھے، اس نے باہر تمام شیعوں کو جمع کیا اور ان کا ایک امام و مرشد مقرر کیا اور اس کی تنخواہ لگائی جو کہ مجلس شیعی ادا کرتی تھی۔ اور سنگال میں باہر والے لبنانیوں پر عبدالمنعم زینی کو مقرر کیا، لبنانیوں نے اسے ایک بڑا ہی شاندار مرکز تیار کر کے دیا۔ ڈاکارلمس وزارت مالیہ کے قریب یہ مرکز بنایا تھا۔ اس کا نام "المرکز الاجتماعی الاسلامی" رکھا۔ اسے 4 فلور بنایا۔ ایک تہہ خانہ تھا جہاں اجلاس وغیرہ ہوتا، پہلے فلور پر جمعیۃ الھدیٰ خیریہ کا دفتر بنایا۔ تیسرے فلور پر ادارہ عامہ کا دفتر تھا۔ یہاں ڈسپنسری سے معمولی پرچی پر علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں مدرستہ الزہراء بھی قائم ہے۔ عبدالمنعم زینی یہاں تدریسی خدمات سر انجام دیتا ہے۔ جہاں کئی سنگالی لوگ درس لیتے ہیں جب یہ قابلِ اعتماد سطح تک ہو جاتے ہیں تو انہیں لبنان یا ایران بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔
لبنانی شیعوں نے عبدالمنعم زینی کی زیر نگرانی کاروں کے اڈے کے قریب ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کی ہے۔ اس کا نام "مسجد الدویش" ہے۔ اور اس نے وہاں سنگالی امام مقرر کر رکھا ہے، یہ عبدالمنعم سے ہی پڑھا ہوا ہے اور یہ تقیہ کرتے ہوئے لوگوں کو جمعہ و جماعت کروا رہا ہے۔ یہ سنی جماعتوں اور جمعہ کے انداز پر ہی جمعہ و جماعت کرواتا ہے مگر درمیان میں شیعی طریقہ بھی لے آتا ہے۔ دین سے ناآشنا مقتدیوں کو پتہ نہیں چلتا مگر وہ اپنے نظریات ملا رہے ہیں۔ عبدالمنعم کی سرگرمی یہ ہے کہ کیجاوای کے علاقہ میں اس نے ایک عربی مدرسہ کھولا ہوا ہے جس میں سنگالی بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں یہ نہایت ہی خفیہ انداز میں شیعیت کا زہر گھول رہا ہے۔ اس نے ایک دوسرے آدمی سے بھی مالی تعاون کیا ہے اس نے "کرما دارو" میں ایک مدرسہ کھولا ہوا ہے۔ یہ بستی تاباس سے پندرہ کیلومیٹر پر واقع ہے اور اس مدرسہ کا نام دارالقرآن ہے۔ اخبارات و رسائل اور ایرانی مطبوعات پر سنگالی شیعہ بہت اعتماد کرتے ہیں۔ ایک اخبار کیہھان عربی ہے۔ یہ ایران میں تو روز نامہ ہے اور بیرون ملک کے لیے یہ ہفت روزہ ہے۔ ایک اخبار وحدت اسلامیہ ہے، یہ عربی ماہنامہ ہے۔ ایک صوت الثورة الاسلامیہ ہے۔ جو عراق کا ہفت روزہ ہے۔ ایک ہفت روز فرانسیسی زبان کا ہے۔ یہ کبھی کبھی نکلتا ہے۔ یہ ساری مطبوعات ایران کے سفارتخانے سے حاصل کی جا سکتی ہیں، یہ کتابیں (اور میں ہدایت پا گیا) اور (کتاب میں سچا ہوں) اور کتاب فاسئلوا اہل الذکر جو کہ صوفی گمراہ تیجانی کی ہے وغیرہ کتب بھی ایران کے سفارتخانے سے حاصل ہو جاتی ہیں۔
سنگال میں صوفی سلسلے:
سنگال میں صوفی سلسلے جو ہیں ایران کی پوری کوشش ہے ان سے دوستی رکھے اور انہیں یہ صوفیوں کے مشائخ کو دورۀ ایران کی دعوت دیتے رہتے ہیں، اس سے ان کے صوفیوں کے ساتھ پختہ تعلقات کا پتہ چلتا ہے بلکہ شیعوں اور صوفیوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بعض سنگالی نوجوان حکومت ایران نے افریقہ میں جو دعوتی لٹریچر پھیلا رکھا ہے اس کی وجہ سے شیعہ مذہب اختیار کر رہے ہیں رسائل، اخبارات اور کتابوں سے متاثر ہو رہے ہیں، یہ ایرانی سفارتخانہ تقسیم کر رہا ہے اور یہ نوجوان پھر ایران کا وزٹ کرتے ہیں اور دارالخلافہ ڈاکار کو آ کر اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتے ہیں اور شیعہ نظریہ کا پرچار کرتے ہیں، سنگال اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات شروع میں تو متواتر رہے ہیں مگر اب کشیدہ ہیں۔ کیونکہ سنگالی حکومت نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ایران سنگال کی تحریک اسلامی کو سپورٹ کرتا ہے۔ تو ایران کا سفارتکانہ بند کر دیا اور اس کا سفیر طہران چلا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایران تحریک اسلامی میں تعاون نہیں کرنا چاہتا وہ صرف شیعیت میں تعاون کرنا چاہتا ہے۔ جب یہ بات سنگالی حکومت کے علم میں آئی تو پھر اس نے اپنا سفارتخانہ ایران میں کھول دیا اور ایران نے دوبارہ سنگال میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا۔