Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

نائیجیرین شیعہ

  الشیخ ممدوح الحربی

نائیجیرین شیعہ

نائیجیریا افریقہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہاں مسلمان آبادی 75 فیصد ہے۔ یہ براعظم افریقہ کی بہت بڑی سلطنت ہے۔ اس کی آبادی بہت گھنی ہے۔ ایک سوال ذہن میں انگڑائی لیتا ہے۔ کہ نائیجیریا میں شیعیت کیسے گھس آئی؟

 اس کا ایک ہی جواب ہے کہ اس ملک میں شیعیت خمینی کے انقلاب کے بعد آئی ہے۔ لبنانی جو کہ شیعہ مذہب سے وابستہ تھے یہ کافی عرصہ یہاں رہے۔ نائیجیرین لوگوں کو ان کے مذہب سے آگاہی نہ تھی۔ اس میں شامل ہونا تو دور کی بات ہے، انقلاب ایران کے بعد جب دنیا کو پتہ چلا کہ ایران میں اسلامی انقلاب آیا ہے تو بہادر اور ثقافت سے آراستہ نوجوان اس انقلاب اور شیعی مذہب سے متاثر ہوئے مگر وہ اس انقلاب اور مذہب کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ 

حکومتِ ایران نے آہستہ آہستہ انہیں مائل کیا اور اپنی طرف کھینچا، اس کے لیے انہوں نے کئی حیلے اور بہانے استعمال کیے۔ غریب نائیجیرین طلباء کو مفت ٹکٹ دیئے کہ وہ انقلاب کی سالگرہ میں حاضر ہوں اور ان فقیر طلباء کا بہت بڑا والہانہ استقبال کیا جیسا کہ بڑے بڑے لوگوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اور انہیں بہت زیادہ مالی فوائد سے نوازا، رسائل، کتابیں اور شیعیت کے متعلق لٹریچر دیا اور ایران میں غیر ملکی زبان میں چھپنے والا "الرسالۃ الاسلامیہ" اور اخبار "المیزان" اور نائیجیرین زبان میں مطبوعہ کتابیں دیں وغیرہ، جو نائیجیریا میں شیعہ مذہب کی زبانِ ترجمان بن گئیں۔ اور ایران نے اپنے مدارس کے دروازے ان کے طلباء کے لیے کھول دیئے اور تعلیمی سہولتیں دی۔ ایران اور عراق میں نائیجیرین طلباء کی تعداد بہت زیادہ ڈگریاں حاصل کر رہی ہے، قم اور نجف میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ نائیجیریا میں ابتدا میں شیعیت کا علی الاعلان پرچار نہ ہوا تھا۔ اسے "اخوان المسلمین" کے روپ میں پیش کیا گیا۔ جو سعید حوی اور سید قطبؒ کی تحریک ہے۔ ابتداء میں انہوں نے نائیجیریا حکومت کے خلاف انقلابی نعرہ بلند کیا اور افراتفری پیدا کی اور جلوس نکالے۔ زاریا، گاڈنا، ساگوٹو اور گانا وغیرہ شہروں میں خونریزی بھی ہوئی۔ اس سے ان شیعوں کو خاصی قبولیت حاصل ہوئی اور درمیانہ طبقہ کے طلباء اور فقراء طلبا اس سے متاثر ہوئے۔ ہر شہر اور بستی میں ان کی درسگاہ قائم تھی۔ جسے فدائی درسگاہ کا نام دیا گیا۔ دس برس تک یہی صورتِ حال رہی، اس کے بعد انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سبِّ وشتم کرنا شروع کر دیا اور سنتِ نبوی اور اس کے راویوں پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے۔ اس سے عقائد کے سمندر میں اضطراب پیدا ہوا ”حرکت اسلامیہ“ کے درمیان طبقہ کے طلباء سخت مضطرب ہوئے۔

 تعلیم و تربیت کے متعلق ان کی بھاگ دوڑ یہ ہے کہ انہوں نے تربیتی ادارے قائم کر رکھے ہیں جو رسماً تو مدارس کی صورت میں نظر آتے ہیں مگر ان میں شیعہ مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے، گانا، پاوشی، زاریا، لاجس، اوکینیا وغیرہ میں بھی شیعی مدارس ہیں۔ جو کہ نائیجیریا کے شہر ہیں۔ یہ قریب کرتے ہوئے ان میں شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر درپردہ شیعہ مذہب پھیلا رہے ہیں۔ یہ ساری چالبازیاں عقائد شیعہ پھیلانے کے لیے کر رکھی ہیں۔ اہلِ بیت کے نام سے مدرسہ کھول رکھا ہے جہاں بہت بڑی تعداد میں طلباء میں نکاح متعہ کے نام پر کشش پیدا کر رہا ہے، یہ پانچ فلور پر مشتمل ہے۔ اس میں کم از کم پانچ سو طالبات کی گنجائش ہے، اس کی ایک جانب طلباء کا ہاسٹل ہے۔ انہیں ماہانہ خرچہ مل رہا ہے۔ نائیجیریا میں رہنے والے لبنانی شیعہ اس مدرسہ سے تعاون کرتے ہیں ۔ ایسے مدرسوں کی پچاس کے قریب تعداد ہے۔ شیعہ کے ذاکروں وغیرہ کے اخراجات بھی نائیجیریا میں لبنانی شیعہ ہی برداشت کرتے ہیں۔ شیعہ اور میڈیا کی یہ صورتِ حال ہے کہ یہ شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کا اہم ترین کامیاب سبب ہے۔ ان کے عقائد کی ترویج اسی سے ہو رہی ہے۔ کتابیں، رسائل، عربی اور انگریزی زبان میں پمفلٹ جو مقامی زبان میں ترجمہ شدہ ہوتا بیان کی طباعت کرتے ہیں اور ان کے بعض رسائل تو پوری ڈھٹائی سے شیعیت کی دعوت دیتے ہیں۔

 اخبار ”سفینۀ نوح“ تو واضح دعوتِ شیعیت دیتا ہے۔ کچھ اخبار واضح تو نہیں مگر پس پردہ اظہارِ تشیع کرتے ہیں۔ "المیزان" یہ ہفتہ وار ہے لوگوں میں اس کی اچھی پذیرائی ہے۔ "الحرکت" "المجاہدہ" رسائل بھی ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کی سکرین پر آتے ہیں۔ آپ ان کی میڈیا کی چابک دستی کا اندازہ لگانا چاہیں تو غور کریں، حکومت نائیجیریا روزانہ تین گھنٹے ان کی نشریات ہی پیش کرتی ہے۔