Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فلپائنی شیعہ

  الشیخ ممدوح الحربی

فلپائنی شیعہ

 طہران میں خمینی کرسئی صدارت پر جب سے براجمان ہوا ہے۔ ملاں اور آیات کی پگڑی کے نیچے شیعیت چھپا کر اور خمینی خرافات کی بھر مار لیے اسے دینی رنگ دے رہا ہے اور اسے میڈیا کے ذریعے عام کر رہا ہے۔ اور اس وقت سے ایران کی سفارت بیرون ملک صرف شیعہ مذہب عقائد پھیلانے میں بھی سرگرم عمل ہے۔ فلپائن میں بیرون ملک اسے سب سے بڑا ٹھکانہ میسر آیا ہے اور شیعہ عقائد کے لیے بڑا متحرک ملک ہاتھ آیا ہے۔ یہاں اس کے پنپنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، ایرانی طلباء جو فلپائن میں زیرِ تعلیم ہیں انہوں نے یہاں خود کو منظّم کیا ہے اور اس تنظیم کا نام "متحدہ ایرانی طلباء" رکھا ہے۔ 

شیعہ نے یہاں مختلف طریقوں سے کام کیا ہے اور فلپائنی مسلم معاشرہ میں اپنے اہداف و مقاصد تک رسائی کے لیے کئی زاویوں کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ 

  • یہ مالی حربہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ فلپائنی مسلمانوں کو ورغلانے کا بہترین طریقہ ہے۔ یہ بے شمار دولت لے کر فلپائن گئے انہیں یقین تھا کہ یہ مال اس عنصر میں یہ بہت قوی اثر رکھتا ہے یہاں کے مسلمان سخت فقر و فاقہ سے دوچار ہیں۔ انہوں نے عیسائی مشنریوں کی طرح مسلمان عوام کو خرید لیا۔ 
  •  حربہ یہ اختیار کیا کہ فلپائنی علماء اور داعیوں کو ایران کی سیر کی دعوت دی، یہ چیز شروع سے ایران کی توجہ کا مرکز رہی ہے کہ سنی علماء کو ایران کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے اور اس کے تمام لوازمات اور اخراجات خود برداشت کرتے ہیں اور ساری سہولتیں میسر کرتے ہیں۔ ٹکٹ، پاسپورٹ اور ایرانی امراء سے ملاقات وغیرہ ساری رسمی کاروائیاں حکومتِ ایران خود سرانجام دیتی ہے۔ اور ایرانی سفیروں سے ان کے پاسپورٹ کی توثیق تک کروا دی جاتی ہے جو یورپ جانا چاہے وہ سفر کی اجازت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے، یہ سب کچھ ایران کا سفارتخانہ ہی کر دیتا ہے۔ فلپائنی حکومت کو اس کا پتہ تک نہیں ہوتا۔ یہ چیز بہت ہی المناک اور دلفگار ہے کہ فلپائنی مسلمان جنہوں نے ایران کی سیر کی ہے، ایک دو علماء کے سوا کوئی بھی اس شیعی چال سے نہیں بیچ سکا۔
  • ان شیعوں نے فلپائن میں مکاری کا یہ طریقہ اپنایا ہے کہ یہ اجلاس اور کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں، جن پر یہ بے شمار روپیہ صرف کرتے ہیں، یہ شیعی دین کے مواقع پر منعقد ہوتی ہیں، یومِ عاشوراء پر یا ملکی سالگرہ پر منعقد کرتے ہیں۔ 1984ء میں پہلی فلپائنی کانفرنس ہوئی جو "لاجینا“ شہر میں ہوئی، جو "مانیلا" دارالخلافہ کے قریب ہے۔ اس کی نگرانی علی مرزا کر رہا تھا جو کہ فلپائن میں فکر شیعہ کا سرگرم ترین آدمی ہے یہ اپنے عقائد کی اشاعت کا مرکز ہے۔ فلپائن میں مشہور ہے:

 ان على ميرزا هذا مرتبط باجهزة الاستخبارات الايرانية 

"یہ علی مرزا ایرانی اطلاعات کا رابطہ مرکز ہے۔“ 

اس علی مرزا نے فلپائن کے (70) سے اوپر سنی علماء کو دعوت شرکت دی۔ یہ مقامی علماء تھے اور دعوت نامہ یہ تھا (توحید صفوف علماء مسلمی الفلبین) کہ فلپائن کے مسلمان علماء کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے اس کانفرنس میں آپ کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ جب یہ کانفرنس ختم ہوئی کانفرنس میں شرکت کرنے والے مندوبین میں سے سات کو رسمی دعوت دی گئی کہ یہ دورۀ ایران کریں۔ اس وقت سے لے کر آج تک ان سات میں سے پانچ بنیادی طور پر فلپائن میں شیعہ مذہب کے داعی بن چکے ہیں ان کا سربراہ علوم الدین سعید ہے۔ اب انہوں نے اسے فلپائن کے امام کا لقب دے رکھا ہے۔ 

  • وسائل اعلام، یعنی میڈیا کے ذریعے شیعیت پھیلاتے ہیں، فلپائنی شیعوں نے سماعی اور تلاوتی، یعنی وہ وسائل جن کا تعلق سننے سے ہے اور وہ وسائل جن کا تعلق پڑھنے سے ہے وہ ان سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اپنی کتابیں اور مطبوعات عربی زبان اور انگریزی میں ان کے تراجم کروا کر انہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا بڑا علوم الدین سعید کئی شیعہ کتابوں کو اپنی مقامی "مارنا" زبان میں ترجمہ کر کے شائع کر رہا ہے اور یہ اپنی کتابیں اور مطبوعات مدارس اور اسلامی اداروں میں تقسیم کر رہے ہیں اور ڈاک کے ذریعے دوسرے اشخاص تک پہنچاتے ہیں۔ خصوصاً یہ کتاب ”ثم اھتدیت" جو کہ گمراہ تیجانی کی ہے اسے عام پھیلا رہے ہیں۔ فلپائنی شیعہ نے مراوی شہر میں میڈیا کو تین گھنٹے اپنی نشریات جاری رکھنے کے لیے کرائے پر لے رکھا ہے۔ اور اس دوران سنی علماء سے مذاکرات بیان کرتے ہیں۔ "مانیلا" میں ایرانی سفارتخانہ میں ثقافت کے شعبہ میں ہفتہ وار پروگرام نشر کیا جاتا ہے اسے "اذاعة ہدایت" اور "صوت الاشار" ، یعنی ہدایت کی نشر و اشاعت اور رشد و ہدایت کی آواز کے نام سے نشر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خمینی اور خامنائی کی ہزاروں تصاویر جمعہ اور جماعتوں اور مساجد کے سامنے اور اپنی دینی مجالس میں تقسیم کرتے ہیں۔
  •  ان کی فلپائن میں شیعیت پھیلانے کی چال یہ ہے کہ یہ لائبریریاں اور مساجد قائم کرتے ہیں اور خاص مدارس بناتے ہیں۔ اس میں ایرانی شیعہ ان سے تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے فلپائن پر جہاں فلپائنی مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے وہان تین لائبریریاں قائم کر رکھی ہیں۔ دو تو شہر "مرادی" میں قائم کی ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی 95 فیصد آبادی ہے اسے یہ حزب اللہ کا نام دیتے ہیں۔ بعض ثقافت پسند جو کہ مغربی ثقافت کے نام پر فلپائن میں کام کرتے ہیں یہ ان کی نگرانی کرتے ہیں ۔ اس لائبریری کے ساتھ ایک طبع خانہ بھی ہے۔ دوسرا مکتبہ "وردة الزمان" ہے اس کی نگرانی شیعہ علماء کر رہے ہیں، تیسرا مکتبہ تاجک جو کہ مانیلا دارالخلافہ کے قریب قریب ہے اسے مکتبہ امام خمینی کے نام سے پکارتے ہیں۔ 

شیعہ مساجد جو کہ فلپائن میں بنائی گئی ہیں ان میں یہ اپنی مذہبی رسومات اور خاص اذکار ادا کرتے ہیں اور جب مخلص ائمہ نے ان کے ناک میں دم کیا تو پھر انہوں نے سنی منبروں کو چھوڑا۔ وگرنہ اس خبیث دعوت کی پہچان سے پہلے یہ سرِ عام منبروں پر سنی مساجد میں بیٹھ جاتے تھے ان کی بڑی اور بنیادی مساجد مرادی شہر میں واقع ہیں۔ جو جزیرۀ منڈاناؤ میں ہے۔ اس سے ملحقہ مدرسہ اطفال المسلمین ہے۔ اس کی امامت علوم الدین سعید کے پاس ہے۔ اس کا نام کربلا رکھا ہوا ہے۔ دوسری مسجد جزیرہ بسیاس میں ہے جو کہ فلپائن کے وسط میں ہے۔ تیسری مسجد الابتک میں پائی جاتی ہے۔ جو کہ مانیلا میں ہے، یہ مانیلا دارالخلافہ ہے۔ اس کا جزیرہ روزون میں یہ مسجد ہے۔ ثابت ہوا انہوں نے فلپائن کی سلطنت کے بڑے بڑے شہروں کو اپنی مساجد سے ڈھانپ رکھا ہے۔ فلپائن میں شیعوں نے مالی لالچ دے رکھے ہیں دارالخلافہ مانیلا کے قرب و جوار میں ایک بہتی معایلک میں ایک عربی مدرسہ ہے اس کے مضامین میں انہوں نے ایک فارسی زبان کا مضمون بھی رکھا ہوا ہے جو عربی زبان کے حساب سے ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہو یہ شیعہ فلپانی مسلم معاشرہ میں رخنہ اندازی کرتے ہیں اس کے لیے انہوں نے تین تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جو مسلمان قوموں کے درمیان انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ 

  1.  اہلِ بیت کے نام سے تنظیم ہے اس میں دین بدل کر شیعہ ہونے والے علماء شامل ہیں، جیسا کہ علی سلطان ہے، جنید علی، عبدالفتاوح لاوی ہے۔ 
  2. جمعیت ہے جو نوجوانوں پر مشتمل ہے اس کی اصل بانی حزب اللہ ہے۔ اس کی نگرانی شہر مرادی میں رہنے والے مغربی ثقافت والے کرتے ہیں۔ 
  3. جمعیت نسائیہ اسے فاطمہ تنظیم کا نام دیا جاتا ہے یہ فلپائن کے دارالخلافہ مانیلا شہر میں واقع ہے اہلِ علم خواتین اس میں شامل ہیں اور شیعی مذہب سے نیا نیا لگا رکھنے والی عورتیں بھی شامل ہیں۔

 انہوں نے اپنی تعداد میں اضافہ کے لیے اور فلپائن میں اپنا مذہب پھیلانے کے لیے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ عیسائی فلپائنی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں اس طرح فلپائنی نئی نسل پیدا کر رہے ہیں جو قلب و قالب میں شیعہ ہوتی ہیں۔ اس کے ذریعے شیعہ بعض عیسائیوں کو دعوت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے وہ شیعہ مذہب میں لگاؤ پیدا کر رہے ہیں اور باقاعدہ تعزیہ نکالتے ہیں۔ نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور یہ بات کافی المناک ہے بعض فلپائن میں عرب طلباء بھی ان سے متاثر ہو رہے ہیں اور وہ ان پر مال صرف کر رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے متعہ کے نام پر ہونے والے زنا کو یہ نکاح کا نام دے کر دھوکہ دے رہے ہیں۔