انڈونیشی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیانڈونیشی شیعہ
انڈونیشیا ایک مسلمان حکومت ہے اس کی آبادی ایک سو سینتالیس ملین افراد پر مشتمل ہے 60 فیصد جزیرہ جاوا ماڈورا میں رہتے ہیں۔ انڈونیشیا میں 100/89 مسلمان ہیں پھر یہ اہلِ سنت و الجماعت ہیں ان کی قومی زبان انڈونیشین ہے اور انگریزی زبان ثانوی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ انڈونیشیا میں مسلمان یورپی استعمار کے تحت تقریباً تین صدیاں رہے ہیں اور طویل جدوجہد کے بعد 1945ء میں مستقل آزاد حکومت کے طور پر منصئہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ انڈونیشیا میں شیعیت کی ابتداء زیارات اور کتابوں کے تحائف، فلموں کی نمائش اور القدس رسالہ کی اشاعت سے ہوئی۔ اس سے دین پسند نوجوانوں کے دل میں ایرانی انقلاب کا شعلہ بھڑکا اور شیعہ سنی بھائی بھائی والے جھوٹے پرفریب نعرہ نے علماء سنت کی تائید نے ان کے دلوں کی زمین کو مزید تراوت بخشی۔ علاوہ ازیں ایرانی سفارتخانہ نے اپنے دعوتی پروگرام جو قریبی اور دور والے وقت کے لیے بلند بانگ دعووں سے معمور تھے اور رات دن شیعت کے عقیدہ کی نشر و اشاعت میں ہمہ تن مصروف تھے اس سفارتخانہ کے ملازم لوگوں سے اخلاقی طیبہ سے پیش آتے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر انڈونیشیا میں شیعیت پھیلی۔
حسین حبشی کے ایران کے سفارتخانہ کے ساتھ روابط مضبوط ہوئے تو یہ انجیٰ میں معہد اسلامی کا سربراہ بنا اس نے اس ادارہ سے فارغ ہونے والوں کو قم کے شہر میں بھیجنا شروع کیا۔ یہ ایران میں ہے۔ لیکن وہ انہیں قم میں پاکستان اور ملیشیا کے راستے بھیجتا تھا۔ 4 سال بعد یہ نوجوان واپس لوٹتے تو یہ اپنے ملکوں میں شیعوں کے داعی بن کر لوٹتے۔ ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تو انہوں نے خود کو منظّم کرنا شروع کر دیا اور حسب شہر اور ضرورت ذمہ داریاں بانٹ لیں اور یہ سب کچھ عوام اور شیعہ علماء کے ساتھ رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہو رہا تھا۔ ان کی انتھک اور مسلسل کوششوں سے 40 شیعہ ادارے قائم ہوتے ہیں، اب انڈونیشیا کے ہر کونے میں یہ پھیل چکے ہیں۔ ایک جامعہ پون چوت بچا کرتا میں زہراء کے نام سے ہے اس میں مالی تعاون ان ملازمین کی طرف سے ہوتا تھا جو سفارتخانہ میں ملازم ہوتے تھے۔ فاضل محمد اور مختلف حلقے ان سے تعاون کرتے تھے۔ جنینان شادب داد، والا حلقہ، ہر ہفتہ کی رات کے اخراجات کا تعاون کرتا تھا۔ بان دونج میں مطہری کرتا تھا۔ اور اس حلقہ کا سربراہ جلال الدین رحمت تھا۔ یہ آسٹریلیا میں سیاست میں پی ایچ ڈی تھا۔ ایک ادارہ باوکونا میں ہے اس کا سربراہ بارقبا ہے یہ شیعوں کا لیڈر ہے۔ لوگوں نے اس ادارہ میں تخریب کاری کی، اسے بند کر دیا گیا یہ دوبارہ پھر کھول دیا گیا، یہ شیعوں کے داعیوں کا نگران ہے اور شیعوں کے دوروں کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ ایک ادارہ کمبر میں ہے یہ عشماوی کی زیر نگرانی ہے۔ دسیوں ادارے اور بھی ہیں جو عقیدہ شیعہ کی نشر و اشاعت کی مہم چلا رہے ہیں یانجیل میں معہد اسلامی ہے۔
علاوہ ازیں تربیتی ادارے بھی وجود میں آ چکے ہیں جن میں شیعیت کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور انہوں نے جامعات میں اداروں میں، مدارس میں شیعہ اساتذہ لگا رکھے ہیں تاکہ یہ شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرہ کے شور میں اپنے عقائد پھیلائیں۔
ظاہر ہے یہ تمام طریقے عقائد شیعہ کی نشر و اشاعت کے لیے ہی اختیار کیے جا رہے ہیں اور انڈونیشیا میں درمیانے درجہ کے سنی عوام میں شیعی میلان پیدا کرنے کے لیے اپنائے جا رہے ہیں۔ شیعہ نے انڈونیشیا میں کامیاب ترین طریقہ جو شیعہ عقائد پھیلانے کے لیے اپنایا ہے وہ کتابوں کی طباعت کے ذریعے ہے۔ بان ڈونج میں دارالمیزان ہے۔ دارالفردوس والہددایہ جاکرتا میں ہے۔
ان کتابوں میں سے سب سے زیادہ خطرناک کتاب المراجعات ہے اس سے مراد ہے شیعہ عالم عبدالحسین شرف الدین اور شیخ ازہرسلیم البشری کے درمیان خود ساختہ مکالمہ ہے جو جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ایک کتاب (الثقیفتہ اول افتراق الامہ ہے یہ طیب عمر ہاشم کی ہے؟ یہ علوی تھا ایک کتاب (ثم اھتدیت) ہے اس کا مولف صوفی یتجانی ہے جو گمراہ تھا یہ صوفیانہ تصورات سے لبریز، جاہل ہے یہ شیعہ کی بدعات سے متاثر نظر آتا ہے اور ان کے مذہب ہی میں بدل گیا ہے یہ سارا واقعہ مصنوعی اور من گھڑت ہے وسائل کے ذریعے واضح شیعیت کی انڈونیشیا میں دعوت دیتے ہیں۔ القدس، رسالہ یہ ایران کا سفارتخانہ جاری کرتا ہے ایک الحکمتہ ہے اسے جلال الدین اور اس کے دوست نکالتے ہیں بان دونج سے رسالہ الحجتہ نکالا جاتا ہے جسے عشماوی جمیر سے جاری کرتا ہے۔