افغانی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیافغانی شیعہ
افغانستان میں شیعہ پانچ اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں:
- ہزارا
- فرسوان
- قزلباش
- شورک پارسال
- پشتون
ہم نہایت ہی اختصار سے ان پانچوں پر تبصرہ کرتے ہیں:
1: ہزارا۔ شیعہ افغانستان میں کثرت سے ہیں اور مضبوط قوت والے ہیں۔ مؤرخ اس بارے میں مختلف ہیں کہ ان کا تاریخی پسِ منظر کیا ہے۔ ایک قول ہے مغلوں میں سے ہے۔ ان کی صفت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں تنگی مائل اور سر کی طرف اٹھی ہوتی ہیں اور ان کی داڑھیاں ان کی ٹھوڑیوں پر ہی ہوتی ہیں۔
ان کے چہرے کی شباہت چینیوں کے چہرے جیسی ہوتی ہے۔ تاہم ہر ہزاری شیعہ نہیں ہوتا۔ زیادہ ان میں سے شیعہ ہیں ان میں سنی بھی ہیں اور کچھ ان میں سے اسماعیلی شیعہ ہیں۔ ہزارہ سنی یہ قلعہ نو یہادت میں رہتے ہیں حکومت افغانستان میں ہزاری شیعوں کا اجتماع سب سے بڑا ہوتا ہے یہ افغانستان میں وسطیٰ علاقہ کو مرکز بناتے ہیں۔ پامیان غزنی اور زکان، سمنجان، بلخ، جوزجان، باروان پر مشتمل ریاستیں جو ہیں ان میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ غزنی میں 42 ہیں۔ لمیان میں سارے شیعہ ہیں۔ لوردہ میں 22 فیصد ہیں۔ یہ ہزارا میں شیعہ وادیوں اور پہاڑوں میں بھی رہتے ہیں۔ ان کے اور امیر عبد الرحمٰن کے درمیان 1880ھ بمطابق 1901ء میں جنگ ہوتی تھی جب یہ پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ ہزارا کے دو بڑے قبیلے ہیں۔ (1) باسکو (2) ڈینوزنکیکو، ان کے علاقہ میں سخت ٹھنڈک ہے جس کی وجہ سے ان کی بہت بڑی تعداد ہجرت کر جاتی ہے۔ افغانستان کے دارالخلافہ کابل اور قندھار اور غزنی وغیرہ میں چلے آئے ہیں۔ پاکستانی علاقوں میں بھی ہجرت کر آتے ہیں لاہور وغیرہ میں بھی آ جاتے ہیں۔
یہ ہزارہ میں سے چھوٹے جاجوری 1900ء میں ان کی تعداد (4500) خاندان تھی۔ اور قبیلہ جاجا میں تو (8470) خاندان تھے انہوں نے غزنی کے شمال کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ ان کی تعداد تقریباً (3090) خاندان ہیں۔ اور بامیان کے شمال مغرب میں بھی رہتے تھے اور قبیلہ بھٹائی زانکی ان کی تعداد تقریباً (1600) خاندان ہے۔ افغانستان میں تقریباً شیعوں کی تعداد (87000) ہے۔
ہزارا شیعہ عبادت کے لیے مساجد نہیں بناتے یہ کربلا اور مقدس مقامات کی زیارت کو ہی عبادت تصور کرتے ہیں۔
(2) قسم فارسوان شیعہ ہیں۔ یہ فارسی بولتے ہیں۔ سیستان کے علاقہ میں رہتے ہیں۔ جولمپوس ریاست میں ہے۔ فارسوان کی تعداد تقریباً چھ لاکھ ہے۔ یہ ہراة کی ریاست میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور ایرانی سرحدوں پر بھی موجود ہیں یہ زراعت کا کام کرتے ہیں۔
(3) افغانی شیعہ قزلباش ہیں۔ قزلباش کا مطلب ہے سرخ سر تمام صفوی لشکر سرخ پگڑیاں باندھا کرتا تھا۔ اس لیے انہیں قزلباش کہتے ہیں یہ دارالخلافہ کابل، ہرات، قندھار میں رہتے تھے۔ یہ اپنے مضبوط تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سلوزی اور پوشتیہ قبائل سے یہ فائدہ لیتے ہیں۔ جس میں یہ افغانستان کا بانی احمد شاہ 1747ء میں اترا تھا۔ قزلباش شیعوں کی اکثریت مہذب اور تعلیم یافتہ ہے۔ انہوں نے افغانستان کے بادشاہ کا حملہ روکا تھا یہ افغانی اطلاعات کے سلسلہ میں کافی تجربہ رکھتے ہیں افغانستان میں شیعوں کے معاملات کا یہی اہتمام کرتے ہیں۔ شیعہ ایک واحد گروہ ہے جو ملک میں مسجدوں کا مالک ہوتا ہے ان کے دین کے دوسرے شیعوں سے بھی رابطے ہوتے ہیں یہ کربلا کی زیارت کرتے ہیں۔ مشہد کی زیارت بھی کرتے ہیں۔ سیدنا حسینؓ کا ماتم بھی کرتے ہیں یہی ان کی عبادت ہے۔
(4) افغانی شیعوں کا نام شورکی پارسال ہے یہ ترکمانی، پروانی اور فارسی زبان بولتے ہیں اور ان کی تعداد کم ہے۔
(5) افغانی شیعوں کی قسم پوشتنیہ ہے پاکستان میں انہیں توری شیعہ کہتے ہیں پکتیاویاست میں رہتے ہیں۔ جو حکومتِ پاکستان کے قریب ہے خلیلی قبیلہ میں بھی شیعہ ہیں یہ قندھار میں رہتے ہیں۔