Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ترکی شیعہ

  الشیخ ممدوح الحربی

ترکی شیعہ

جب سے ایران میں شیعی رافضی نظام کا قیام ہوا ہے اس وقت سے ترکی میں عقیدہ اسلامیہ تنقید کے نشانے پر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شیعوں کی طرف سے سخت دباؤ ہے اور ایران اس بات کا باور کرانے کے لیے متعدد اور متنوع وسائل استعمال کر رہا ہے کہ ترکی میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں نظام ایرانی ہی کارگر ہے اور دنیا کی تحریکوں کا رہنما ہے اور کفار کے خلاف اور منحرف و ملحد حکام کے مقابلہ میں جہاد کا علمبردار ہے اور خمینی ہی مسلمانوں کا امام ہے۔ آخر میں ان کا ہدف یہ ہے کہ ترکی عوام کو شیعیت کی طرف مائل کیا جائے خصوصاً ان سادہ لوح افراد کو مائل کریں جو ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں کیونکہ وہ انہیں قریب سے نہیں ملے اور ان کے گمراہ کن اصولوں سے آگاہ نہیں۔ 

ترکی میں شیعی نظام کے مادی امکانات بہت وسیع ہیں کیونکہ یہ بےحد و حساب مال کے انبار خرچ کرتے ہیں۔ 

ان کی سرگرمی یہ ہے کہ ایرانی انقلاب کی دعوت فکر عام کرنے والی کتابیں شائع کرتے ہیں جو سنی عقیدہ کی روسیاہی کرتی ہیں۔ یہ بڑی تعداد میں ترکی کی مختلف ریاستوں میں یہ کتابیں پھیلاتے ہیں اور اس کے ساتھ ایران مالی طور پر اور ڈالروں کے ذریعے اسے سہارا دیتا ہے۔ یہ اپنے نقطہ نظر والی کتابیں ہر ماہ شائع کر کے روانہ کرتے ہیں جو ترکی زبان میں ہوتی ہیں۔ کتاب تعلیم الصلاة على المذہب الجعفری ہے یہ صبری تبریزی نے لکھی ہے یہ ایران کے ترکی میں سفارتخانہ کی طرف سے مفت تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ تقریباً ہر گھر میں پہنچائی جاتی ہے۔ علی شریعتی مطہری، حسین خاتمی، علی خامنائی، زینب بروجردی وغیره ان رائٹروں کی کتب بڑی تعداد میں مفت بانٹی جاتی ہیں۔ عربی کتابیں جو ہیں چونکہ شیعوں کو علم ہے کہ مشرقی ترک میں علماء اور مدارس شرعیہ میں تدریس کا کام عربی زبان میں ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جماعتوں خیراتی اداروں، اور مساجد میں اپنی جو کتابیں بھیجتے ہیں وہ عربی میں ہوتی ہیں جو ان کے عقائد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ترکی میں ایرانی سفارت خانے کے ذریعے ترکی میں تفسیر المیزان طبطائی کی جو کہ بیس جلدوں میں ہے اور المراجعات یہ ایک جھوٹ کا پلندہ ہے جو خود ساختہ انداز پر ایک شیعہ امام اور ازہر یونیورسٹی کے شیخ سلیم بشری کے درمیان مکالمہ گھڑا ہوا ہے۔ انہیں وسیع پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے اس سے ترکی کی کوئی لائبریری خالی نظر نہ آئے گی۔

 ترکی میں شیعوں نے رسائل، اخبارات اور عربی اور ترکی میں پمفلٹ جاری کرنے کا کام بھی زور و شور سے شروع کر رکھا ہے۔ ان کا ایک عجیب منصوبہ ہے یہ ہر دو سال بعد رسالہ کا نام تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک کچھ مدت جاری کیا اب دوسرا خرید لیا۔ یہ اپنے افکار پھیلانے کے لیے مال دے کر اخبار خرید لیتے ہیں۔ چونکہ کافی مال ہوتا ہے اخبارات والے ان سے تعاون کرتے ہیں۔ ترکی زبان میں ان کے مذہب کے ترجمان اخبار تین ہیں۔ (1) شہید (2) ساروش (3) ہلال، ولئ رسالہ بھی ان کا ہے اس کا مدیر اعلیٰ ڈاکٹر کلیم صدیقی ہے، یہ اسے بہت زیادہ تقسیم کرتے ہیں۔ اور مفت بانٹتے ہیں، قارئین کے ایڈرس پر خود ہی پہنچانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ ان اخبارات اور رسائل کے مضامین میں واضح طور پر شیعہ دعوت دی جاتی ہے اور حسب طاقت یہ بڑے بڑے مالی اخراجات کے ذریعے اسلامی اخبارات کو اپنے عقائد پھیلانے اور ان کا دفاع کرنے کا لالچ دیتے ہیں نام سنی لوگوں کا چل رہا ہے درپردہ کام شیعوں کا ہو رہا ہے۔ 

ترکی میں دعوتِ اسلامی کے پردہ میں فارسی زبان کی تعلیم کے رنگ میں چھ ماہ کے دورے کروائے جاتے ہیں اور اس فارسی کو پختہ کرنے والے کو فارسی کتابیں دیتے ہیں اور دو ماہ کے لیے ایران کے وزٹ کے ٹکٹ دیتے ہیں یہ دورہ سفارتخانہ کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ 

انہوں نے میڈیا کا ایک جدید اور خفیہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ ایک گروہ سرحیہ متجولہ، کے نام پر ترکی کے شہروں میں چھوڑ رکھا ہے خصوصاً ترکی کے مشرقی علاقہ میں اسے اسلامی نام دے رکھا ہے۔ یہ عباسی، اور اموی تاریخ سے مثالیں پیش کرتا ہے، سیدنا حسینؓ کی شہادت وغیرہ حساس معاملات کا ذکر کرتا ہے جو ان کے مفاد میں ہیں۔ اور ثابت یہ کرتا ہے کہ اہلِ سنت نے اہلِ بیت پر بہت ظلم مسلط کر رکھا تھا۔ ترکی میں شیعہ تعلیمی طور پر یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ سنی ترک نوجوانوں کو جمع کرتے ہیں اور قم میں حوزات علمیہ میں انہیں پڑھاتے ہیں اور پڑھائی کے اخراجات خود اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب یہ طلباء فارغ ہو کر نکلتے ہیں تو شیعی عقائد میں ڈھل جاتے ہیں اور ترکی معاشرہ میں ان کا کام کرتے ہیں ان کی خطرناک ترین اور ناپاک تخریب کاری یہ ہے کہ ذہین لوگوں کی گریم اور نمایاں طبقہ کو اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ چھوٹے اور پرکشش اور خیرہ کن نعرہ کے پردہ میں ہو رہا ہے سنی، شیعہ کچھ نہیں سب بھائی بھائی ہیں۔ اور پھر ہفتہ اتحاد منایا جاتا ہے ظاہر اتحاد کیا جاتا ہے اور کتابوں میں اور اپنی نشریات میں اہلِ سنت کے خلاف محاذ قائم کر رکھا جاتا ہے۔