Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ایران میں سنیوں کی داستانِ دلفگار

  الشیخ ممدوح الحربی

ایران میں سنیوں کی داستانِ دلفگار

 سلطنتِ ایران اسی دن اسلام سے آشنا ہوچکی تھی جس دن جزیرہ عرب میں آفتاب اسلام کرن ریز ہوا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام جب اسلام میں داخل ہونے کا دعوت نامہ بھیجا تھا کہ وہ اس دینِ حق میں آجائے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے تو اس بادشاہ نے انکار کر دیا، تکبر کیا اور نبیﷺ کے نامہ مبارک کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، مگر وہ خسارہ میں رہا تباہ ہوا، تاہم آفتابِ اسلام نے ایران میں اپنی شعاؤں کو بکھیرنا شروع کر دیا اور رسول اکرمﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد یہ ملک بقعۂ نور بن گیا۔

 13ھ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے دورِ خلافت کے آخر میں اس کی فتوحات کا آغاز ہوا اور سیدنا فاروقِ اعظم عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت تک یہ سلسلہ جاری رہا اور معرکہ نہاوند میں مسلمانوں کو حقیقی فتح حاصل ہوئی۔ یہ 21ھ میں ہوا تھا، ایران مکمل طور پر مسلمانوں کے زیرِ فرمان تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورینؓ کے عہدِ خلافت میں ہوا۔ 

19ھ میں ایران میں عقیدہ سنی بطورِ مذہب جاری ہوا ۔ اس کے بعد 906ھ میں صفویوں کی حکومت آئی تو انہوں نے اعلان کیا کہ اب ایران کا ملکی مذہب شیعہ ہے درج ذیل میں یہی وضاحت پیشِ خدمت ہے کہ کس وجہ سے ایران کا ملک سنی مملکت سے نکل کر شیعی سلطنت میں تبدیل ہوا۔ 

سرزمینِ ایران تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام سے ہم آگوش رہی، دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح یہ بھی ایک اسلامی ملک تھا۔ تقریباً چوتھی صدی میں وہاں ایک بڑا ہی درد آشنا اور المناک واقعہ رونما ہوا جو ایران کی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوا۔ عباسی سلطنت کا زوال سنی آخری سلطنت کا زوال تھا۔ سنت کا رنگ ایران میں نمایاں تھا اور سارے ایرانی معاشرے پر چڑھا ہوا تھا۔ تاہم بعض ترکی قبائل جو آذربائیجان کے علاقہ میں تھے انہوں نے شیعہ مذہب سے وابستگی کر لی تھی، جنہیں قزلباش کہتے ہیں یہ قبیلہ تصوف کی طرف بھی میلان رکھتا تھا یہ صفویہ فرقہ بھی کہلواتے تھے، اس کا بانی صفی الدین اردبیلی تھا۔ اس صفی الدین کا پوتا اس کا نام اسماعیل صفوی تھا۔ یہ 906ھ میں تبریز میں داخل ہوا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اس جدید سلطنت کا نام صفویہ ہے۔ اس نے اپنے دادا کے نام پر اس کا نام رکھا۔ یہ شیعوں کی پہلی باضابطہ حکومت تھی۔ اس نے ساری سرزمینِ ایران پر شیعی اثر و رسوخ ثابت کیا اور شہر تبریز کو اسماعیل نے پایہ تخت بنایا اور بادشاہ کہلوانے لگا، اس اسماعیل صفوی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سنی لوگوں اور ایران میں موجود موحدوں کو بھاری تعداد میں قتل کیا، اس نے حکم دیا کہ روزانہ موحد سنی علماء اور طلباء میں ستر آدمیوں کو مساجد کی اذان گاہوں سے گرا کر نیچے پھینک دیا جائے اور اس نے شیعوں کی ایک جماعت چھوڑ رکھی تھی جو گلیوں اور قبیلوں میں گھومتی تھی اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سبِّ وشتم کرتی تھی۔ اس جماعت کی نگرانی پر بھی ایک جماعت تھی جسے براءت جویان یعنی خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیزاری رکھنے والا کہا جاتا تھا۔ یہ جب ان خلفاء رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا بولتے تھے، ظاہر ہے سنی سن کر یا تو جواب دیتا کہ تم جھوٹے ہو یا خاموش رہتا، اگر کوئی جواب دیتا تو اس کے پرزے اڑا دیئے جاتے کئی تلواریں اس کے سر پر برستیں۔ اب اہلِ فارس کے سامنے دو ہی صورتیں تھیں۔

  1. یا تو ان خبیث باتوں کو خاموشی سے سنیں۔ 
  2. یا پھر یہاں سے اپنا دین بچا کر بھاگیں اور یا پھر مجبوراً شیعہ بن کر رہیں۔ شاہ صفوی کی اس درندگی نے عثمانی خلیفہ سلیم اوّل کو غضب ناک کر دیا۔ اس وجہ سے دولتِ عثمانیہ اور صفویہ کے در میان جنگیں ہوئیں۔ نتیجہ تو یہ نکلا کہ سلیم اول نے تبریز پر قبضہ کر لیا مگر بعد میں دوبارہ صفویوں نے قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اجتماعی روح فرسا خونریزی کا بازار گرم کر دیا۔ شہر سے تمام سنی ختم کر دیئے۔ ایک دن میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد سنی لوگ تہہ و تیغ کر دیئے۔ اس کے بعد ان صفویوں کی نسل سے حکمران آتے رہے، زیدیہ خاندان، تجلیہ، بہلولیہ خاندان آتے رہے۔ اس کے بعد آیات اور ملاؤں اور پگڑیوں والوں کی حکومتیں آتی رہیں جو آج تک جاری ہیں۔ 

یہ ساری نسلیں اور خاندان صفویہ کے نقشِ قدم پر ہی چلتے رہے ہیں اور جو باقی اہلِ سنت رہتے ہیں ہر نئے دن میں ان شیعوں کی ستم رانیوں کی المناک ضرب کی زد میں آتے ہیں اور ان کی آخری ضرب یہ ہے کہ سنیوں کی خلیجی ریاستوں کے متوازی علاقوں میں انہوں نے ان کی معیشت پر قبضہ کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ سنی قریب والی عربی ریاستوں میں بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔