Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا

  جعفر صادق

اُمُّ المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
نام: سودہ
والد: زمعہ بن قیس بن شمس قبیلہ عامر بن لوی
والدہ: شموس بنتِ قیس بن زیدقبیلہ بنو نجار
سنِ پیدائش: 40 سال قبل از بعثت
قبیلہ قریش: شاخ بنو عامر
زوجیتِ رسول: 10 نبوی ہجرت سے تین برس قبل
سنِ وفات: 23 ہجری
مقامِ تدفین: جنتُ البقیع مدینہ منورہ
کل عمر: 76 سال تقریباً
نام و نسب:
نام سودہؓ ہے، والد کی طرف سے سلسلہ نسب یوں ہے: سودہ بنتِ زمعہؓ بن قیس بن عبد شمس، جبکہ والدہ کی طرف سےاس طرح ہے: سودہ بنتِ شموس بنتِ قیس بن زید۔
ولادت:
آپؓ کی ولادت نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے 40 سال قبل ہوئی۔
خاندانی پسِ منظر:
آپؓ کا سلسلہ کا نسب نبی کریمﷺ کے نسب مبارک سے لُوی میں جا کر مل جاتا ہے۔ آپؓ کے نانا قیس بن زید، آپﷺ کے پردادا ہاشم کے برادرِ نسبت تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یثرب کے معروف قبیلہ بنو نجار کے چشم و چراغ قیس بن زید کی ہمشیرہ سلمیٰ سے آپﷺ کے پردادا ہاشم کی شادی ہوئی تھی۔
پاکیزہ مزاجی:
آپؓ کے اخلاق و مناقب کے ابواب میں محدثین کرام نے بکثرت روایات نقل کی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ آپؓ بہت پاکیزہ مزاج کی حامل تھیں۔
نکاح اول:
آپؓ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد سکران بن عمرو بن عبد شمس سے ہوا۔ سیدنا سکرانؓ کا قدیم الاسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار ہوتا ہے۔ سیدنا سکرانؓ سے سیدہ سودہؓ کا ایک بیٹا سیدنا عبدالرحمٰنؓ پیدا ہوا۔ جو جنگِ جلولا میں شہید ہو گئے۔
قبولِ اسلام:
نبی کریمﷺ کی دعوتِ دین مکہ کے ہر گھر تک پہنچ رہی تھی، اسی دوران سیدہ سودہؓ نے آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپؓ اپنے خاندان میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون ہیں۔
آزمائشی حالات:
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کرنا اور پھر اس کا اظہار کرنا بہت مشکل تھا، جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تو اس کے گھر والے، اس کا خاندان اور سردارانِ مکہ مل کر اس مسلمان کو قبولِ اسلام کی پاداش میں اپنے ظلم کا نشانہ بناتے اور انسانیت سوز تکالیف سے گزارتے تاکہ کسی طریقے وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ آپؓ نے جب اسلام قبول کیا تو کفارِ مکہ کی طرف سے آپؓ کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور ایک عرصے تک آپؓ ان سب مظالم کو سہتی رہیں۔
تبلیغِ اسلام:
قبولِ اسلام کے بعد آپؓ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہیں، بلکہ اسلام کی مبلغہ بن گئیں اور اپنے خاندان میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی،چنانچہ آپؓ کی پُر اثر تبلیغ سے متاثر ہو کر آپؓ کے شوہر نامدار مسلمان ہو گئے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپؓ کی داعیانہ و مبلغانہ مساعی جمیلہ کی بدولت سیدنا عبداللہ بن سہیل بن عمروؓ، سیدنا حاطب بن عمروؓ، سیدنا سلیط بن عمروؓ، سیدہ فاطمہ بنتث علقمہؓ، سیدنا مالک بن زمعہؓ، سیدنا ابو صبرہ بن ابی رہمؓ مسلمان ہوئے۔
ہجرتِ حبشہ اولیٰ:
جب کفار مکہ کے مظالم کا سلسلہ نہ تھما تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت ملی یہ نبوت کے پانچواں سال رجبُ المرجب کا مہینہ تھا، 11 مرد اور 4 خواتین پر مشتمل ایک قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس دوران آپؓ اور آپؓ کے شوہر سیدنا سکران بن عمروؓ نے مکہ میں رہنے کو ترجیح دی اور حبشہ ہجرت نہ فرمائی۔
ہجرتِ حبشہ ثانیہ:
اس کے ایک برس بعد نبوت کے چھٹے سال میں دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا چنانچہ اس بار 20 خواتین اور 83 مردوں پر مشتمل قافلہ حبشہ پہنچا۔ اس قافلہ سخت جاں میں سیدہ سودہؓ اور آپؓ کے شوہر سیدنا سکرانؓ نے بھی شامل ہونے کا ارادہ کیا، آپؓ کے قبیلہ والوں نے پوری کوشش کی کہ آپؓ ہجرت نہ کرنے پائیں اور آپؓ کے خاندان کا کوئی فرد آپؓ کے ہمراہ ہجرت نہ کرے، لیکن کفارِ مکہ کی خواہشات پر اوس پڑ گئی اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کے شوہر سیدنا سکرانؓ اور خاندان کے کئی دیگر افراد ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان ہجرت کرنے والے مہاجرین میں سے کچھ تو واپس مکہ تشریف لے آئے سیدہ سودہؓ اور ان کے شوہر بھی واپس مکہ مکرمہ لوٹ آئے۔ جبکہ بعض لوگ سیدنا جعفر طیارؓ کے ساتھ حبشہ ہی میں مقیم رہے اور وہ غزوہِ خیبر کے موقع پر مدینہ منورہ پہنچے لیکن اکثر لوگ ان سے پہلے ہی مکہ مکرمہ واپس آ گئے تھے ان میں سیدہ سودہؓ بھی شامل تھیں۔
 پہلا خواب:
حبشہ میں کچھ عرصہ گزرانے کے بعد آپؓ اپنے شوہر سیدنا سکرانؓ سمیت واپس مکہ تشریف لائیں۔ آپؓ کو ایک خواب آیا، اس میں دیکھا کہ آپﷺ تشریف لائے اور آپؓ کی گردن پر قدم مبارک رکھے۔ آپؓ نے اس خواب کا ذکر اپنے شوہر سیدنا سکرانؓ سے کیا، سیدنا سکرانؓ فرمانے لگے: یوں لگتا ہے کہ میں بہت جلد فوت ہو جاؤں گا اور تم نبی کریمﷺ کی زوجہ بن جاؤ گی۔
دوسرا خواب:
ایک اور خواب بھی آپؓ کو آیا اس میں آپؓ نے دیکھا کہ چاند ان کی آغوش میں آ کر گرا ہے۔ آپؓ نے اس خواب کا تذکرہ بھی اپنے شوہر نامدار سیدنا سکرانؓ سے کیا۔ سیدنا سکرانؓ نے فرمایا کہ اس خواب میں یہ اشارہ مل رہا ہے کہ میں عنقریب فوت ہو جاؤں گا اور میرے بعد تم رسول اللہﷺ کی زوجیت کا شرف حاصل کرو گی۔
سیدنا سکرانؓ کی وفات:
حبشہ میں کچھ عرصہ تک رہنے کے بعد آپؓ اپنے شوہر کے ہمراہ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئیں۔ واپس آ کر کچھ دنوں بعد سیدنا سکرانؓ کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ چنانچہ وہ اسی بیماری میں انتقال فرما گئے۔
شادی کی ضرورت:
سیدہ سودہؓ اپنے شوہر نامدار کی وفات پر صدمے سے دوچار تھیں اور دوسری طرف نبی کریمﷺ اپنی جانثار زوجہ سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کی وفات پر پریشان تھے۔ کسی تحریک سے وابستہ قیادت کو گھریلو ذہنی سکون کی کتنی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ نبی کریمﷺ تو دنیا کی سب سے بڑی عالمگیر دینی، سماجی، معاشرتی اور انسانی تحریک کی تنِ تنہا قیادت فرما رہے تھے اور کفار ِمکہ کی اذیتوں کو حوصلہ مندی اور صبر و تحمل سے برداشت کر رہے تھے۔ ایسے حالات میں تسلیاں دینے اور دکھ بانٹنے والی اہلیہ کی وفات، گھر میں اکیلی بچیوں کی تربیت اور دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر خدا کے دین کو ساری دنیا میں پھیلانے کی منظم منصوبہ بندی اور پیش رفت۔ یہ سب مسائل اس بات کے متقاضی تھے کہ آپﷺ کی ذہنی یکسوئی اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ایسی رفیقہ حیات ہو جو بچوں کی پرورش، آپﷺ سے دکھ درد بانٹنا اور اسلام کی عالمگیر محنت میں دست بازو بنے۔
 پیغامِ نکاح کا مرحلہ:
چنانچہ ان حالات کے پیشِ نظر سیدنا عثمان بن مظعونؓ کی اہلیہ سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ آپ کو ایک غمگسار رفیقہ حیات کی ضرورت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں کیونکہ پہلے تو گھر بار کا انتظام اور بال بچوں کی پرورش سب سیدہ خدیجہؓ کیا کرتی تھیں۔ اس پر سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ نے فرمایا کہ کیا میں آپﷺ‎ کے لئے کہیں نکاح کا پیغام دے دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بالکل مناسب بات ہے خواتین ہی اس کام کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کس جگہ پیغام دینے کا خیال ہے؟ سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ اگر آپ کسی کنواری سے نکاح فرمانا پسند کریں تو آپﷺ‎ کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اُس کی بیٹی سیدہ عائشہؓ موجود ہے ان سے نکاح فرما لیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ موجود ہے جو آپ پر ایمان بھی لا چکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: دونوں جگہ پیغام دے دیں۔
سیدہ خولہؓ اور سیدہ سودہؓ کی باہمی گفتگو:
نبی کریمﷺ سے جب اجازت ملی تو سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ پہلے سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ کے پاس آئیں اور کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ پر خیر و برکت کے دروازے کھول دیے ہیں، میں آپ کے پاس جناب رسول اللہﷺ کا پیغامِ نکاح لائی ہوں۔ سیدہ سودہؓ نے فرمایا:
میں محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لائی ہوں، وہ میرے ہادی بھی ہیں اور میرے رہنما بھی، میری ذات کے متعلق انہیں مکمل اختیار ہے۔ وہ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔
سیدہ خولہؓ اور سیدنا زمعہؓ کی باہمی گفتگو:
سیدہ خولہؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ سودہؓ اس پر رضامند ہیں تو وہ آپؓ کے بوڑھے والد زمعہ بن قیسؓ کے پاس گئیں اور جا کر کہا کہ میں محمدﷺ بن عبداللہ بن عبد المطلب کی طرف سے آپ کی بیٹی سودہؓ کے لئے نکاح کا پیغام لائی ہوں۔ زمعہ نے یہ سن کر کہا: ھو کفو کریم۔
بے شک میری بیٹی کی خوش قسمتی ہے محمدﷺ اس رشتے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ لیکن آپ سیدہ سودہؓ کی رائے بھی معلوم کر لیں۔ اس پر سیدہ خولہؓ نے کہا کہ میں نے ان سے بات کر لی ہے اور انہیں یہ پیشکش قبول ہے۔
سودہؓ اُم المؤمنین بنتی ہیں:
سیدہ سودہؓ کے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگے جو آپ نے سیدنا سکرانؓ کی وفات سے پہلے دیکھے تھے۔ سیدنا زمعہ بن قیسؓ نے سیدہ سودہؓ سے نکاح کی اجازت طلب کی اور کہا: اے میری لخت جگر! سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ مجھ سے کہتی ہیں کہ محمدﷺ بن عبداللہ بن عبد المطلب نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے کیا تو اس کے لیے راضی ہے؟ دیکھ بیٹی! میرے نزدیک تو وہ نہایت عزت دار گھرانہ ہے اگر تو بھی راضی ہو تو میں اس معاملہ کو پکا کر دوں؟ سیدہ سودہؓ نے جواب دیا کہ جی ابو جان میری رائے بھی یہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور سیدہ سودہؓ کے والد سیدنا زمعہ بن قیسؓ نے آپ کا نکا ح پڑھایا اور 400 درہم حق مہر مقرر ہوا۔
رسول اللہﷺ نے سیدہ خدیجۃؓ کی وفات کے بعد رمضان 10 نبوی میں سیدہ سودہؓ سے نکاح فرمایا یہ نکاح سیدہ عائشہؓ سے بھی پہلے فرمایا اور سیدہ سودہؓ مکہ مکرمہ ہی میں آپﷺ کے گھر آ گئیں اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
ہجرتِ مدینہ:
سیدہ سودہؓ نبی کریمﷺ کے ساتھ مکہ میں تین سال رہیں اس کے بعد اللہ کی طرف سے ہجرت مدینہ کا حکم آیا۔ نبی کریمﷺ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے۔ چونکہ حالات اس قدر سنگین ہو چکے تھے کہ اس وقت اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے جانا خطرے سے خالی نہیں تھا اس لیے آپﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ اپنے گھر والوں کو ساتھ نہ لے جاسکے۔
چھ ماہ تک سیدہ سودہؓ مکہ مکرمہ میں نبی کریمﷺ کی بچیوں کی دیکھ بھال، تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہیں۔ ایک سن رسیدہ خاتون کے لئے اپنی سوتیلی اولاد سے شفقت و محبت کا برتاؤ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر آپؓ نے سیدہ خدیجہؓ کی صاحبزادیوں کے ساتھ باوجود یہ کہ وہ سوتیلی اولاد تھیں، انہیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا۔ سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ کم و بیش پانچ چھ سال تک سیدہ سودہؓ کی زیرِ تربیت رہیں لیکن ساری زندگی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیشں نہیں آیا، نہ سیدہ سودہؓ کی طرف سے اور نہ ہی سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی طرف سے۔
مدینہ طیبہ میں آپﷺ نے مسجدِ نبوی تعمیر کی اور ساتھ ہی دو مکان بھی تعمیر کرائے۔ اس کے بعد آپﷺ نے رمضان 1 ہجری کو سیدنا زید بن حارثہؓ اور سیدنا ابو رافعؓ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ مقامِ قدید "قُدَیْد ق پر پیش اور پہلے د پر زبر کے ساتھ پڑھنا ہے" سے مزید ایک اور اونٹ بھی خرید لینا تاکہ سیدہ سودہؓ، سیدہ اُمِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ آسانی سے سوار ہو سکیں، چنانچہ سیدنا زید بن حارثہؓ اور سیدنا ابورافعؓ حسبِ حکم مکہ آئے اور خاندانِ نبوت کو بحفاظت ہمراہ لے گئے۔
آیتِ حجاب کا نزول:
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حجاب کے حکم نازل ہونے کے بعد سیدہ سودہؓ قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر نکلیں۔ چونکہ آپؓ کا جسم بھاری بھر کم تھا اس وجہ سے وہ لوگ آپؓ کو باوجود پردے کے بھی قد و قامت کی وجہ سے پہچان لیتے تھے جنہوں نے حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے آپؓ کو دیکھا ہوا تھا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدہ سودہؓ کو دیکھا تو فرمایا: میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ چنانچہ سیدہ سودہؓ الٹے پاؤں واپس پلٹیں۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ رات کو میرے گھر میں کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپﷺ کے ہاتھ میں ہڈی تھی۔ اس دوران سیدہ سودہؓ نے رسول اللہﷺ کو سارا واقعہ بیان کیا۔ آپﷺ پر کیفیتِ وحی طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو ہڈی کو ہاتھ میں تھامے ہوئے فرمایا۔ تمہیں اپنی حاجات کیلئے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
حافظ ابنِ حجرؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: اصل بات یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کو برا لگتا تھا کہ اجنبی لوگ، ازواجِ نبیﷺ کو دیکھیں، حتیٰ کہ انہوں نے آپﷺ سے صراحتاً اس بارے میں کہہ بھی دیا کہ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں۔ پھر اس پر اصرار فرماتے رہے۔ حتیٰ کہ حجاب کے بارے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 53 نازل ہوئی۔
سیدنا عمرؓ اس کے باوجود بھی یہ چاہتے تھے کہ اس میں بھی مزید مبالغہ ہو یعنی اگر وہ پردے میں بھی ہوں، تب بھی ان کی پہچان ظاہر نہ ہو۔ چونکہ یہ بہت تنگی و مشقت والا معاملہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی دوسری آیت 59 نازل فرمائی جس میں اللہ نے انہیں اپنی حاجات کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی۔
نوٹ: پردہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں میری کتاب "مسلمان عورت" ملاحظہ فرمائیں۔
سخاوت و دریا دلی:
سیدہ سودہؓ کا ذاتی طور پر مزاج دنیا سے دوری کا تھا مزید رسول اللہﷺ کی خاص تربیت نے اس پر سونے کا سہاگہ کا کام کیا۔ دنیا کی محبت سے دل بالکل پاک تھا، اس مزاج اور تربیت نے آپ کو سخاوت و فیاضی کے اس مرتبہ تک پہنچایا جو بہت کم کسی کو ملتا ہے۔ آپؓ دستکاری میں مہارت رکھتی تھیں اور طائف کی کھالیں خود بنایا کرتی تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین سیدنا عمر بن خطابؓ نے دراہم سے بھری ہوئی ایک تھیلی سیدہ سودہؓ کی خدمت میں بھیجی، آپؓ نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ بتایا گیا کہ اس میں دراہم ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تھیلی تو کھجوروں کی ہے اور اس میں دراہم ہیں۔ یہ کہا اور تمام دراہم ضرورت مندوں میں کجھوروں کی طرح تقسیم فرما دیے۔ آپ کی ساری زندگی غریب پروری، دریا دلی، فیاضی، سخاوت اور شانِ استغنا کی غماز تھی۔
پابندیِ شریعت:
سیدہ سودہؓ دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ شریعت کی سخت پابند تھیں، عبادات و ریاضت اور زہد و تقویٰ میں بلند شان کی حامل تھیں۔ علامہ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں سیدہ سودہؓ عبادت و تقویٰ اور زہد والی خاتون تھیں، نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواجِ مطہراتؓ سے فرمایا: میرے بعد گھر میں بیٹھنا اس پر سیدہ سودہؓ نے ایسی سختی سے عمل فرمایا کہ پھر کبھی حج کے لئے بھی تشریف نہ لے کر گئیں اور فرماتی تھی کہ میں حج و عمرہ دونوں کر چکی ہوں اور اب رسولِ خداﷺ کے حکم کے مطابق گھر ہی میں بیٹھوں گی۔
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اکرمﷺ کے اس ارشاد کے بعد سب ازواجِ مطہراتؓ نے آپﷺ کے انتقال کے بعد کئی حج کئے لیکن سیدہ زینب بنتِ جحشؓ اور سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ نے آپ کے بعد کوئی حج نہیں کیا اور برابر گھر میں رہیں اور فرمایا کرتی تھیں بخدا رسول اللہﷺ کے فرمان کے بعد ہم اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گی۔
مناسکِ حج میں خصوصی رعایت:
سرور دو عالمﷺ نے 10 ہجری میں حج ادا فرمایا آپﷺ کی تمام ازواجِ مطہراتؓ ہمراہ تھیں۔ سیدہ سودہؓ چونکہ سن رسیدہ بھی تھیں اور جسم قدرے بھاری ہوگیا تھا اس لیے تیز رفتاری کے ساتھ چل پھر نہ سکتی تھیں۔
اُمُّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ہم سفرِ حج میں جب مزدلفہ پہنچے تو اُمُّ المؤمنین سیدہ سودہؓ نے نبی کریمﷺ سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے سے قبل انہیں جانے کی اجازت دی جائے، کیونکہ لوگوں کے ہجوم میں چلنا ان کے لیے دشوار تھا۔ حضورِ اکرمﷺ نے کمالِ شفقت فرماتے ہوئے اجازت مرحمت فرما دی چنانچہ سیدہ سودہؓ رات ہی میں لوگوں سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہو گئیں۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔
نوٹ: اصل مسئلہ یہ ہے کہ دورانِ حج جب مزدلفہ پہنچیں تو رات یہاں گزاریں اور صبح سورج طلوع ہونے کے بعد یہاں سے منیٰ کی طرف روانہ ہوں۔
خوشنودی نبوت کا حصول:
رسول اللہﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے درمیان قرعہ ڈالتے کہ آپﷺ کے ساتھ جانے کیلئے کس کے نام قرعہ نکلتا ہے۔ مزید یہ کہ آپﷺ نے ان کے درمیان ایک رات دن کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی، ماسوائے اس کے کہ سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ نے اپنی باری اُمُ المؤمنین سیدہ عائشہؓ کو دی ہوئی تھی اور اس سے ان کا مقصود نبی اکرمﷺ کی خوشنودی اور رضامندی تھی۔
سیدہ عائشہؓ کی عجیب تمنا:
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: مجھے ازواجِ مطہراتؓ میں سب سے زیادہ سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ عزیز تھیں، میری تمنا تھی کہ کاش میں میری روح ان کے جسم میں ہوتی، اگرچہ سیدہ سودہؓ کے مزاج میں جلال جلد غالب آ جاتا تھا، جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے اپنے گھر رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کی باری سیدہ عائشہؓ کو دے دی اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ میں نے اپنی باری سیدہ عائشہؓ کو دے دی ہے، پھر رسول اللہﷺ سیدہ عائشہؓ کے ہاں دو دن رہتے تھے، ایک دن سیدہ عائشہؓ کی باری کا اور ایک دن سیدہ سودہؓ کی باری کا۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: اُمُ المؤمنین سیدہ سودہؓ کو خطرہ ہو گیا تھا کہ سرور عالمﷺ انہیں طلاق دے دیں گے چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے طلاق نہ دیں مجھے اپنی زوجیت کے شرف سے محروم نہ فرمائیں اور میری باری کا دن سیدہ عائشہؓ کو دے دیا کریں، چنانچہ آپﷺ نے منظور فرمایا،اس پر آیت نازل ہوئی:
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًا‌ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ‌ الخ۔
(سورۃ النساء: آیت، 128)
ترجمہ: اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال، نامناسب رویہ یا بے پرواہی کا ہو تو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔
سوکن کو ترجیح دینا:
سیدہ سودہؓ کے ایثار کا یہ عدیمُ النظیر اور فقیدُ المثال واقعہ ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی منظورِ نظر اور چہیتی بیوی کو اپنی باری کا دن تفویض فرما کر اپنے شوہر کی رضا مندی کا تمغہ بھی حاصل کر لیا اور اپنی سوکن کوبھی راضی کر لیا۔
خصوصیت سیدہ سودہؓ:
اُمُ المؤمنین سیدہ سودہؓ کے خصائص میں سے ایک خصوصیت تھی کہ انہوں نے اپنی باری سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو سپرد کردی ان کا یہ جذبہ ایثار اس وجہ سے تھا کہ وہ اس حبیبہ رسولﷺ کی وجہ سے بارگاہِ نبوت میں تقرب حاصل کریں۔
ظرافت اور حسنِ مزاح:
سیدہ سودہؓ کے مزاج میں اگرچہ جلال جلد غالب آ جایا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں حسِ مزاح اور ظرافت بھی خوب تھی۔ کبھی کبھار آپﷺ کو ہنسانے کی غرض سے عام مزاج سے ہٹ کر چل کر دکھاتیں جس پر آپﷺ ہنس پڑتے۔
سیدہ سودہؓ ایک رات آپﷺ کے ساتھ قیام اللیل میں کھڑی ہو گئی، آپﷺ سے کہنے لگیں: میں نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ نے اتنا لمبا رکوع فرمایا کہ مجھے یوں لگا کہ میری نکسیر پھوٹ پڑے گی اور اپنے ناک کو سہلانے لگیں، اس پر آپﷺ بہت مسکرائے۔
خوش گوار موڈ:
نبی کریمﷺ بہت سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں وقتاً فوقتاً مزاحیہ کلمات اور ظرافت بھرے جملے ارشاد فرماتے، اسی طرح اپنے اہلِ خانہ کے درمیان بھی خوشگوار موڈ میں رہتے۔ گویا آپﷺ اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندگی پوری طرح فطری انداز میں بسر فرمائی جو تکلفات سے بالکل پاک تھیں اور یہی تعلیم اپنی امت کو دی ہے۔
وفات:
سیدہ سودہؓ کی وفات سیدنا عمرؓ کے خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی اور سیدنا عمرؓ کی شہادت 23ھ میں ہے۔