شیعوں سے صلح کا معاملہ کب جائز ہے؟
شیعوں سے صلح کا معاملہ کب جائز ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ماہِ محرم میں سلامت پورہ کے علاقے میں مختلف جگہوں سے شیعوں نے جلوس نکالا اور اس میں حضرات شیخینؓ و ازواج مطہراتؓ کو گالیاں دی گئیں خصوصاً حضرات شیخینؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کو بہت گالیاں دی گئیں۔ اس پر اہلِ سنت نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، حکومت نے ابتداءً کاروائی کی ہے اب اس کی وجہ سے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ (صلح) کرنا چاہتے ہیں کہ ہم آئندہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں نہیں دیں گے، حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی مرتبہ صلح کر کے دوبارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ اگر ہم ان سے صلح نہ کریں تو حکومت ان کے ماتمی جلوس پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دے گی۔ ان حالات کے پیش نظر آپ شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔ کہ ان کے ساتھ صلح جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ حضرات شیخینؓ کو گالی دینے والا اور اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگانے والا کافر ہے۔ اور کافر کے ساتھ معاہدہ اور صلح اس وقت جائز ہے جب اس میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو، اور اگر معاہدہ کرنے میں مسلمانوں کے لیے بہتری نہ ہو تو ان کے ساتھ معاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ نہ کرنے میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں ان کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جائے، بشرطیکہ مسلمانوں کو صلح نہ کرنے میں بہتری پر اطمینان ہو۔
(ارشاد المفتین:جلد:1:صفحہ:478)