Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان وراثت


سوال: ایک شخص نے ایک کتابیہ (عیسائی) عورت سے شادی کی، اس سے اس کی اولاد ہوئی۔ پھر اس (شوہر) کا انتقال ہو گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ

  1. کیا وہ عیسائی عورت اپنے شوہر کی وارث بنے گی؟
  2. اور اس کی اولاد نے اگر عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہے، تو کیا وہ وارث بن پائیں گے؟ 
  3.  اگر بچے نا بالغ ہیں تو کیا وہ وارث بنیں گے؟

جواب: سیدنا اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے نہ کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے۔

اس حدیث شریف کے تحت علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا اور جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور فقہاء، تابعین اور بعد کے علماء کے نزدیک مسلمان بھی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔

میراث سے محروم کرنے والے چار اسباب ہیں۔ ایک سبب دین کا اختلاف ہے، یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہ ہو گا۔

حضرت عمر و بن شعیب اپنے والد اور دادا سیدنا عبداللّٰہ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا دو مختلف ملتوں کے افراد ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں کہ دین کا اختلاف بھی مانع ارث ہے، اور اس سے مراد اسلام اور کفر کے درمیان اختلاف ہے۔ علامہ علاؤ الدین حصکحیؒ لکھتے ہیں کہ دین کا مختلف ہونا مانع ارث ہے، یعنی کہ کفر اور اسلام کا اختلاف۔ 

اس مسئلہ شرعی اصول کے تحت کتابیہ عورت (خواہ نصرانی ہو یا یہودی) اپنے متولی مسلمان شوہر کی وارث نہیں بن سکتی۔ مسلمان شوہر اور کتابیہ عورت کی اولاد اگر نابالغ ہے تو وہ دین میں خیر الابوین کے تابع ہیں، یعنی انہیں مسلمان تصور کرتے ہوئے ان کے مسلمان باپ کی وراثت میں حصہ دیا جائے اور اگر وہ بالغ ہیں تو مسلمان ہونے کی صورت میں اپنے باپ کے وارث بنیں گے لیکن اگر خدانخواستہ بالغ ہونے کے بعد نصرانی یا یہودی بن گئے ہیں تو مسلمان باپ کی وراثت سے محروم رہیں گے۔ 

(تفہیم المسائل: جلد، 3 صفحہ، 369)