مولانا محمود احمد میرپوری کا فتویٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا کہنا
مولانا محمود احمد میرپوری کا فتویٰ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا کہنا
سوال: کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو علی مولا اور مشکل کشا کہنا درست ہے؟۔
جواب: عربی زبان میں مولیٰ کہ مختلف معانی ہیں، مثلاً مالک و سردار، غلام، انعام دینے والا، محبت کرنے والا، پڑوسی، مہمان، ساتھی، آزاد شدہ غلام وغیرہ۔
اس لئے اگر کوئی شخص حضرت علیؓ کو اپنے ساتھی، محبت کرنے والا یا پیار کے معنی میں مولیٰ کہتا ہے تو یہ جائز ہے، لیکن اگر کوئی شخص سیدنا علیؓ کو آقا و مالک سمجھ کر پکارتا اور بلاتا ہے (جیسا کہ شیعوں کا عقیدہ ہے) تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ حقیقی مالک و مختار صرف اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔
مشکل کشا یعنی مشکل یا مصیبت دور کرنے والا کہنا، یا پکارنا یا عقیدہ رکھنا بالکل ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص سیدنا علیؓ کا نام اس عقیدے کے ساتھ پکارتا ہے کہ وہ مشکل دور کرنے پر قادر ہیں تو یہ واضح شرک ہے۔ کیونکہ حضرت علیؓ نہ زندگی میں (اسباب کے بغیر) مشکلیں حل کرنے پر قادر تھے نہ موت کے بعد وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی درج ذیل آیات پر اگر غور کر لیا جائے تو مشکل کشائی کا یہ مسئلہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕ وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ بِخَيۡرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞ (سورۃ الانعام: آیت 17)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں مصیبت سے دو چار کر دے تو اس کے سوا اس مصیبت کو ٹالنے والا اور کوئی نہیں تو کیسی کو بھلائی پہنچائے تو وہ ہر بات پر قادر ہے۔
وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ۚ وَاِنۡ يُّرِدۡكَ بِخَيۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِهٖ الخ۔
(سورۃ یونس: آیت 107)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالیٰ کیسی کو تنگی میں ڈال دے تو اس تنگی کو اس کے سوا اور کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر کسی کے ساتھ بھلائی کا فیصلہ کر لے تو اس کے فضل کو کوئی رد بھی نہیں کر سکتا۔
اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمۡۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۞ (سورۃ آل عمران: آیت 160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور اگر اس نے تمہیں رسوا کر دیا تو پھر کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے اور مومنوں کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھیں۔
اب ان آیات کے بعد یا علی مدد کہنا اور :علی مشکل کشا: کہنا کس زمرے میں آتا ہے۔قرآنی احکام کی روشنی میں اس کا تعین کرنا چنداں مشکل نہیں۔
سیدنا علیؓ کے دور میں جو مشکلات پیش آئی وہ زندگی میں ان مشکلات کو حل نہ کر سکے۔ پھر خود اچانک شہید کر دیئے گئے۔ اور پھر ان کے لختِ جگر سیدنا حسینؓ کو ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیا مگر وہ کسی کی بھی مدد نہ کر سکے اور نہ ہی مشکل حل کر سکے۔ تو آج کسی کے پکارنے پر اس کی مشکل حل کرنے یا مدد کرنے پر آخر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟ اس طرح کے عقائد و خیالات قرآنی تعلیمات سے جہالت کی بنا پر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ (فتاویٰ صراطِ مستقیم: صفحہ 68)