Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ایرانی ملاؤں کی جیلیں

  الشیخ ممدوح الحربی

ایرانی ملاؤں کی جیلیں

ان شیعوں نے یہاں تک نوبت پہنچا دی ہے کہ یہ سنی علماء کو ختم کر دیتے ہیں، جرم یہی ہے کہ یہ وہابی ہیں، چند سالوں میں ایرانی حکومت نے نامور تین علمائے کرام کو شہید کر دیا۔ شیخ فاضل ناصر سبحانی، یہ بڑے جید عالم دین تھے یہ کردستان میں رہتے تھے، انہیں رمضان المبارک کے مہینہ میں شہید کر دیا گیا۔ شیخ فاضل عبد الحق یہ جامعہ اسلامیہ ابی بکر کراچی سے سند یافتہ تھے انہیں ایک سال تک سخت قید و بند میں رکھا گیا، پھر انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ یہ توحید بتاتے ہیں اور مردوں کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کے قائل نہیں اور وہابی عقیدہ پھیلاتے ہیں، اس لیے ابھی ختم کر دیئے جائیں۔ شیخ عبد الوہاب صدیقی یہ جامعہ اشرفیہ اسلامیہ لاہور سے فارغ ہوئے یہ سنیوں کے درمیان دعوت دینے کی سرگرمی کی پاداش میں شہید کر دیئے گئے۔ ان ملاؤں کی قید میں ہمارے سنی بھائیوں کی صورتِ حال نہایت تنگی اور محرومی کی ہوتی ہے ان کے قید خانے ہیں، جہاں ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے اس سے بڑی بدبودار ہوائیں چلتی ہیں جس سے بڑی تباہ کن بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یہاں بند لوگوں کو آفتاب میں دھوپ سے لطف اندوز ہونے کی تو بات ہی نہیں سورج نظر بھی نہیں آتا، قضائے حاجت کے لیے جاتے ہوئے آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں اور رات اور دن میں وضو کرنے یا قضائے حاجت کے لیے صرف چار مرتبہ باہر نکالا جاتا ہے اور نہانا اور کپڑوں کو دھلائی کی اجازت مہینہ میں دو مرتبہ ہوتی ہے یہ بھی صرف پندرہ منٹ میں کرنا ہے۔ ان قیدیوں کو اشعار پڑھنے تعزیہ کی رسومات ادا کرنے کی اجازت صبح سے آدھی رات تک دی جاتی ہے، یہ بھی ان کا ایک انداز ہے کہ سزا دینے کے لیے جھوٹی اور غمزدہ کرنے والی کہانیاں قیدی بنائیں بعض کو تہ خانے سے رات کو باہر نکال لاتے ہیں۔ ایرانی قید کا مطلب ہے کہ ساری عمر قید میں ہی تمام ہوگی۔ یہ پہلے سبقت لے جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں، انصار ہوں یا مہاجر ہوں۔ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ ہی پر عظیم بہتان باندھتے ہیں، شیعوں کی جیلوں میں جسمانی سزا شدید ترین انداز میں دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک آدمی دیکھتا ہے اس کا بھائی مظلوم قتل کیا جارہا ہے یا دیکھ رہا ہے کہ اس کی بہن پر زیادتی ہو رہی ہے، اس کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے اور پھر مظلوم قتل کر دی گئی ہے وہ اس کے دفاع پر اختیار نہیں رکھ سکتا، اس کو جگر پاش تکلیف ہوتی ہے جب مسکین عورت کو بندوق کے بٹ مارتے ہیں اور خاص باڈی گارڈ ان پر آوازیں کستے ہیں اور یہ نعرے بلند کرتے ہیں: اللہ اکبر خمینی رہبر۔

ہمارے ایک مخلص دوست نے بتایا کہ ایک رات جیل خانہ کی بجلی ساڑھے دس بجے رات بجھ گئی، ساتھیوں نے کہا: وقت گزاری کے لیے ہم عربی اشعار ہی گنگناتے ہیں دو گھنٹے بعد اچانک قریب والے تہہ خانوں سے عورتوں کی چیخییں سنائی دیں۔ ہم آنکھوں پر ضبط نہ کر کے، اشکبار ہو گئے بس اتنا ہی کر سکتے تھے ان بیچاریوں کو چیر پھاڑ کرنے والے درندوں کے پنجوں سے چھڑوا نہ سکتے تھے۔ صبح ہوئی تو ہم نے ایک آدمی سے پوچھا یہ آوازیں کیسی تھیں؟ اس نے کہا: میں نے تو اس سے بھی بدتر منظر دیکھا ہے، یہ جو شیعہ باڈی گارڈ ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ جب یہ کسی دو شیزہ کو شوٹ کرنا چاہتے ہیں تو ایک گارڈ سے اس کا متعہ کا نکاح کرتے ہیں اس سے زیادتی کا ارتکاب کرنے کے بعد اسے شوٹ کر دیتے ہیں۔ ان پگڑیوں والے اور آیات کہلوانے والوں کی طرف سے جو مسلمانوں پر کوہِ غم واندوہ ٹوٹا ہے قید و بند میں یہ ان کے ساتھ کتنا بے دردی سے پیش آتے ہیں۔ اس رلا دینے والی داستان کو سینیے۔ ایک آدمی تقریباً ساٹھ برس کا تھا۔ اس کی پشت پر ایک ہزار آٹھ سو درے مارے گئے اس کی کمر اور پاؤں کوٹ دیئے گئے، ایک کپڑے میں اپنے قدموں کے لوتھڑے اٹھائے ہوئے تھا۔ جو ان لوہے کی سلاخوں کی ضربات سے بکھرے پڑے تھے۔ اس کے باوجود وہ کہتا ہے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ بات تھی کہ ایک بار انہوں نے مجھے بلایا اور کہا: یا تو اعتراف کر لو، یا ہم تیری بیوی کو بھی مبتلائے درد کریں گے۔ ہم اسے اس قریب والے کمرے میں لے آئے ہیں۔ میں نے کمرہ سے ایک عورت کی چیخ سنی، میں نے اپنی بیوی پر ظلم کے خوف سے سرافگندہ ہوگیا۔ میں نے کہا: جو چاہو تحریر کرلو میں اس پر دستخط کرنے کو تیار ہوں میری بیوی کو چھوڑ دو، جب میری بیوی میری ملاقات کے لیے آئی تو میں نے اس سے اس بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے گئی: مجھے تو نہیں لایا گیا، تب مجھے یقین ہوا کہ وہ میری بیوی نہ تھی یہ مجھ سے اعتراف کے لیے ایک سازش تھی۔ اسے اتنا زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس بے چارے نے چونا کھا کر خود کشی کی کوشش کی لیکن اللہ کی مرضی نہ تھی وہ بچ گیا۔

ایک قیدی نے رہائی کے بعد بتایا ایک آدمی کو ان شیعوں نے روزانہ پینتالیس دن مسلسل دو سو سے لے کر تین سو تک کوڑے مارے تھے، ایک رات ہم بیدار ہوئے رات ڈھائی بجے کا وقت تھا، ہمارے کمرے میں آگ لگی تھی، اس آدمی نے خود کو ایک بستر میں لپیٹ لیا اور اس پر تیل چھڑکا، آگ لگالی اور ہمارے کمرے میں آگیا اور آخری سانسوں پر تھا اور وہ کمزور سی آواز سے کہہ رہا تھا: "طوبی لی طوبی لی نجوت منهم" میرے لیے مبارک ہے کہ میں ان ظالموں سے نجات پا گیا“

ہم نے آگ بجھانے کی بہت کوشش کی نہ بجھ سکی، ہم نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگادیں، گارڈ نے سمجھا ہم بھاگنے کے لیے کود رہے ہیں، جب انہیں آگ کا علم ہوا تو وہ تہہ خانے کی طرف اور کمرے میں گئے وہ آدمی مر چکا تھا انہوں نے اسے کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور گالی بکنے لگے اور اس کی توہین کی اور اس کا مال روک لیا کہ اس نے آگ بستر کو لگا کر بیت المال کا نقصان کیا ہے۔

ایک طالبہ کی قید کا واقعہ

یہ طالبہ ایوین، قید میں تھی۔ اس کی عمر (26) برس تھی۔ اسے ایوین جیل میں بند کر دیا گیا، یہ ایران کی سخت ترین جیل ہے۔ یہ پہلی دفعہ ظلم کا نشانہ بنیں۔ یہ کہتی ہے: ان ظالموں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور زمین پر چت لٹا دیا، ایک نے میرے قدم کے تلوے پر مارنا شروع کیا، ایک بھاری سلاخ تھی جس کے ساتھ مارا، میں نے جرابیں پہن رکھی تھیں اتنی زیادہ تکلیف ہوئی کہ میں اچھل کر کھڑی ہوگئی اور میں نے کمرہ کے گرد چکر لگانے شروع کر دیئے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے اور جرابیں اتار کر میرا پاؤں بھی باندھ دیا اور میرا سر انہوں نے بستر میں لپٹ دیا پھر میری کمر اور پاؤں پر مارنے کے لیے ٹوٹ پڑے، مجھے نہیں علم یہ مار کب تک جاری رہی، شدت والم کی وجہ سے میں غشی کی کیفیت میں تھی اور ان کی سنگدلی نے یہ ستم ڈھایا کہ وہ خیال کر رہے تھے کہ میں نے انہیں دھوکا دینے کے لیے غشی ظاہر کی ہے، جب انہوں نے مارنا ترک کیا کہ وہ ناشتہ کریں تو میرے قدموں سے خون کے فوارے چل رہے تھے اور ناخنوں سے خون کے چشمے ابل رہے تھے، مجھے وہ کرسی پر بٹھا کرگئے میں شدت خوف اور کپکپی کی وجہ سے اس پر ٹھہر نہ سکتی تھی میں لیٹرین میں گئی تو پیشاب کے ساتھ خون آنے لگا جب وہ واپس آئے تو میں نے ان سے اجازت مانگی کہ مجھے سیدھا لیٹنے دیں مگر ان ظالموں نے اجازت نہ دی۔