Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ایران میں سنی مسجد گرانے کا واقعہ

  الشیخ ممدوح الحربی

ایران میں سنی مسجد گرانے کا واقعہ

ایران میں غلبہ پاتے ہی شیعوں نے مسجد فیض جو خالص سنی لوگوں کی تھی اور مشہد شہر میں تھی اس پر مسلح حملہ کیا اور مکی مسجد میں تو نمازیوں کی خونریزی بھی کی، یہ زہدان میں سنیوں کی سب سے بڑی مسجد تھی جو کہ ایرانی بلوچستان کا دارالخلافہ ہے مسجد اور اس سے متعلقہ مدرسہ جو ہے اسے خمینی انقلاب کے چوکیداروں نے اور ایرانی نمائندوں نے مل کر گرایا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو عراق کی جنگ تھی دوسری وجہ یہ ہے کہ شیعوں کو یہ برداشت نہ تھا کہ ایرانی شہر مشہد میں یہ سنیوں کا نمازوں میں جمع ہونا اور نمازوں میں اس مسجد کا معمور ہونا یہ بھی انہیں نہ بھاتا تھا۔ مشہد شہر کے وسط میں سنی مسجد جو کہ امام رضا کے مزار کے قریب تھی اور خمینی کے والد کا گھر بھی قریب تھا جو اس انقلاب کا بانی تھا شیعی تعصب اس مسجد کو برداشت نہ کر سکا۔ حکومت نے ایک سال پہلے حج کی پروازوں کا روٹ بدل دیا تھا۔ جو بلوچستان، خراسان اور مشہد سے کرما تک حجاج کو اٹھاتی تھی تاکہ مشہد کی مسجد میں رش بڑھ نہ جائے، ان کی وجوہات کی بناء پر حکومت ایرانی مسجد گرانے کی فکر میں تھی۔ ایرانی مذاکراتی جماعت نے یہ مطالبہ مان لیا کہ سنیوں کو اس مسجد کے عوض مال دیا جائے گا تا کہ اس مسجد کی جگہ مسجد بنا سکیں۔ لیکن سنی علمائے کرام نے فتویٰ دیا کہ مسجد کو بدلنا یا اسے فروخت کرنا نا جائز ہے۔ اس کے بعد حکومتِ ایرانی نے یہ تجویز دی کہ سنیوں کو اس مسجد مشہد کی فلاں مسجد کی جگہ دیتے ہیں، مقصد یہی تھا یہ مسجد غیر آباد ہو لیکن یہ تجاویز قبول نہ ہوئیں۔ تو حکومتِ ایران کے نمائندوں نے مسجدِ فیض کا محاصرہ کر لیا اور پندرہ کرین بھیجے اور مسجد میں لوگوں کی آمد ورفت بند کر دی یہ کرین ساری رات چلتے رہے اور مسجد کی دیواروں اور دروازوں کو گراتے رہے۔ ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا، قرآن پاک اور جائے نماز بھی نہ نکالے نہ ہی کتب نکالیں اور جو وہاں موجود تھا اسے گرفتار کر لیا گیا اور کچھ کرین کے نیچے آکر مر گئے۔ جب یہ خبر پھیلی تو سنیوں پر بجلی گری غم پھوٹ کر نکل رہا تھا ہر جگہ غم کے آنسو بہاتے تھے اور انہوں نے اس کے خلاف بازار بند کر دیئے خصوصاً زہران میں جو کہ بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں بھی تجارتی مراکز بند رہے۔ لوگ ایک دوسرے سے خشمگین چہروں سے ملاقات کرتے تھے اور اندر ہی اندر غم واندوہ سے نڈھال تھے۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون۔