Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عراق کے متعلقہ ایرانی عزائم کا تذکرہ

  الشیخ ممدوح الحربی

عراق کے متعلقہ ایرانی عزائم کا تذکرہ

علمائے سنت کے سرخیل شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہؒ نے کہا تھا:

وكذالك اذا صار لليهود دولة بالعراق تكون الرافضة من اعظم اعوانهم فهم دائما ما يوالون الكفار من المشركين واليهود والنصارىٰ ويعاونونهم على قتال المسلمين و معاداتهم۔

عراق میں جب بھی یہودیوں کی حکومت ہوگی یہ رافضی شیعہ اس کے سب سے بڑے مددگار ہوں گے۔ یہ ہمیشہ کفار و مشرکین یہود و نصاریٰ سے دوستی کرتے رہے ہیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر مسلمانوں سے عداوت اور کفار سے معاونت کرتے رہے ہیں۔ جب یہ تاثرات شیخ الاسلامؒ تحریر فرمارہے تھے یہ اس وقت ہوا نہ تھا۔ نہ انہوں نے زندگی میں یہ مشاہدہ کیا ہوگا انہوں نے شیعہ کتابوں میں پڑھا تھا وہ ان کی تاریخ سے آشنا تھے۔ اس عالم ربانیؒ کی عقل ربانی کے حاشیہ پر نقش ہونے والے خیالات کا ہم آج آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، سات سو سال پرانے کلمات ہیں ان کی صدائے بازگشت آج ہم عراق میں خود سن رہے ہیں اور یہ روشن تبصرہ ہماری آنکھیں کھول رہا ہے۔ہم امریکی اور ایرانی سیاسی اختلافات میں نہیں جانا چاہتے۔ یہ شاید خمینی انقلاب برپا کرنے تک تھے۔ کہا کرتے تھے۔

الموت الأمريكا والشيطان الأكبر۔

کہ مرگ برامریکہ امریکہ شیطان بزرگ تر است۔ کہ امریکہ مر جائے، امریکہ بڑا شیطان ہے۔

یہ ایک نعرہ تھا۔ وگرنہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لبنان میں جن فلسطینیوں نے پناہ لی تھی انہیں قتل کرنے میں شیعوں کی ملیشیا امل نے امریکہ سے تعاون کیا تھا۔ اور صیہونی دشمن یہودیوں کو شاید علم تھا یہ بھی وہی کہتے ہیں جو ایرانی انقلاب کی قیادت نے محفلوں میں اور سالگروں کے مواقع پر دوٹوک کہا تھا:

بأن دول الخليج غير مستقلة و يجب تحرير مكة والمدينة من ايدي الطواغيت۔

کہ خلیج کی ریاستیں عارضی ہیں مستقل نہیں، اور مکہ و مدینہ کو طاغوتوں کے ہاتھ سے آزاد کروانا لازم ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسی منصوبہ کی تکمیل کے لیے 1986 ء یا 1987 ء میں انہوں نے بیت اللہ پر حملہ کر کے اس کی حرمت پامال کی تھی اور گولیاں برسائی تھیں۔ اور اسلحہ سپلائی کیا تھا۔ سینوں کے خلاف ان کے سینوں میں دفن شدہ کینہ لاوہ بن کر پھوٹا تھا یہ حملہ نہ تھا۔

امریکہ کے ہاں خلیج کی اہمیت:

خلیج کی ریاستوں میں امریکہ کے اہم مفادات ہیں۔ ان کی وجہ سے یہ ریاستیں امریکہ کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور امریکی طرز عمل سالہا سال سے یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی کا دوست نہیں، دنیا میں اس کا کوئی ضابطہ نہیں نہ ہی کوئی اخلاقی قدر ہے نہ ہی انسانیت ہے یہ فقط اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے، نہ کویت سے نہ سعودیہ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں یہ تو اپنے مفادات دیکھتا ہے۔ پینٹاگون سے بیان آیا تھا۔ 1995ء میں اس نے کہا تھا:

ان اعلىٰ واهم مصلحه امينة للولايات المتحدة فی منطقة الشرق الأوسط هی الحفاظ على تدفق النفط دون عائق فی منطقة الخليج الى اسواق العالم و باسعار مستقرة فحوالي (%70) من احتياطی النفط فی العالم يقع فی منطقة الشرق الأوسط ولذاك يزيد اعتماد الولايات المتحدة الأمريكية وشركاءها الاقتصاديين العالمين اكثر فاكثر على نفط منطقة الخليج۔

شرقِ اوسط کے علاقہ میں متحدہ امریکہ کی اہم ترین مصلحت اور اعلیٰ ترین مفاد یہ ہے کہ (70) فیصد عالمی تیل اس علاقہ میں موجود ہے بغیر کسی رکاوٹ تیل کے چشموں تک رسائی کے لیے خلیج کے علاقہ تک پہنچنا ہماری آرزو ہے تا کہ دنیا کی منڈی اور اس کے بھاؤ کا معاملہ مستقل طور پر ہمارے ہاتھ میں رہے۔ امریکہ اور اس سے اقتصادی اشتراک رکھنے والے تمام ملک خلیج کے تیل تک رسائی حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ پر اعتماد ہیں۔

خلیج کا شرقِ اوسط کا علاقہ صرف امریکی مفادات کے لیے ہی اہم عصر اور موثر ذریعہ نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کی مصلحتوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اسرائیلی وجود اور امریکہ کا اسے سپورٹ کرنا اور صدام حسین کو کویت پر حملہ کرنے کا سگنل دینا اور پھر کویت کو ہولناک طاقت کے ذریعہ فوجیں بھیج کر آزاد کروایا اور اس علاقہ میں امریکہ کا قدم جمانا اور آخر کار عراق پر امریکی حملہ، یہ سارے معاملات اسی وجہ سے رونما ہوتے ہیں کہ امریکہ کی در پردہ یہ کوشش ہے کہ بس اپنے مفادات خلیج سے حاصل کرے تیل پر قبضہ کرے اب بھی جدید عراق کے نام سے یہی کوشش کر رہا ہے یہ اس سے ہرگز نہ ٹلے گا اگرچہ اسے حلیف بدلنے پڑیں معاہدے توڑنے پڑیں اپنے مفادات کی خاطر یہ سب کچھ کرے گا۔

ایرانی انقلاب بپا کرنے کے مفادات:

ایران میں جب انقلاب بپا ہوا تو اس نے اپنے دینی اور اعتقادی اہداف و مقاصد بیان کیے تھے۔ اور اپنے توسیعی عزائم کی پردہ کشائی کی تھی۔ اس کے ایک ذمہ دار ابو حسن بن صدر نے نہار عربی اخبار میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا جو کہ 1980ء میں اس نے دیا تھا کہ:

ان ايران لن تتخلى او تعيد الجزر الثلاثة الا ماراتية۔

امارات کے تینوں جزیرے ایران نہ تو خالی کرے گا نہ انہیں واپس کرے گا۔

مزید کہا:

ان اقطار ابوظبی و قطر وعمان والكويت والسعودية ليست دولا مستقلة بالنسبة لايران۔

ابوظہبی، قطر، عمان، کویت، سعودی عرب یہ مستقل ریاستیں نہیں۔ ایران ایک مستقل ریاست ہے۔

ایرانی بحری کمانڈر نے خمینی کے ساتھ ایک اجتماع کے دوران کہا تھا کہ عراق فارس کا حصہ ہے (4۔18۔1980) ایک روحانی پیشوا صادق نے کہا کہ ایران ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کرتا ہے بحرین ہمارا ہے۔ اب اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے کہ ایران کے یہ عزائم تبدیل ہو چکے ہیں تو یہ اس کا وہم ہے، کیونکہ ایران کا بنیادی مقصد ہے کہ ان کے مہدی کے آنے سے پہلے ان کی پوشیدہ آرزؤں کی تعمیل کی تمہید ہو جائے۔ اور انکا ایران میں اعلانیہ مداخلت کرنا یہ ان کی کتابوں میں موجود منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اسکے خلاف کرنا اپنے مذہب کو بدلنے اور شیعہ عقائد سے خیانت کرنے کے زمرہ میں آتا ہے۔

ایرانی سیاست پر بات کریں تو یہ ان کے مذہبی اور دینی مرکز کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہم قم اور نجف کے مرکز کو ملاحظہ کریں تو یہ سیستانی ایرانی کی قیادت میں یکجا ہیں۔ یہ قم کے آیت اللہ کی قیادت میں ہے اور اس کے منصوبوں کی تعمیل کرتا ہے اور اس سیستانی کے تعلقات ایرانی گروہوں حزب الدعوہ والمجلس الاعلیٰ کے ساتھ بھی گہرے ہیں۔ یہ ہماری بات کی واضح دلیل ہے کہ سیستانی خامنئی کا مقلد ہے۔ اور یہ خامنئی ایران کے شیعوں کا بیسویں صدی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اور قم میں اپنے ماننے والوں کا مرکز و محور ہے۔