Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاری کا فتویٰ رافضی، مرزائی اور بریلوی کو قربانی میں شامل کرنا


محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاری کا فتویٰ

سوال: اگر قربانی کے جانور میں کئی اشخاص شریک ہوں اور ان میں بعض قبر پرست (بریلوی) اور بعض تعزیہ پرست (رافضی) اور بعض ختمِ نبوت کے منکر (مرزائی) وغیرہ جو عند الشریعت مشرک و کافر ہوں، شریک ہو جائیں تو وہ قربانی قبولیت کے درجہ کو پہنچ جائے گی یا مردود اور باطل ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قربانی میں جو مؤمن اور موحد ہیں ان کی طرف سے قربانی قبول ہو جائے گی اور جو مشرک اور کافر ہیں ان کی طرف سے مردود ہو گی۔ 

جواب: واضح ہو کہ امتِ محمدیہ کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے، یہ سب فرقے گمراہ ہیں، صرف ایک طائفہ ناجيه ہے، باقی سب "کلھم فی النار" کے مصداق ہیں۔ پھر ان گمراہ فرقوں میں سے بعض وہ ہیں جن کی گمراہی کفر و شرک کو پہنچ چکی ہے جیسے قبر پرست، تعزیہ پرست، منکرِ ختمِ نبوت ہیں، ان کو اپنی قربانیوں میں شامل کرنا سخت جرم ہے۔ اگر ان کو شامل کیا گیا اور اپنا بھائی مسلمان ان کو تصور کر لیا گیا تو پھر قربانی سب کی مردود ہے، کسی کی بھی قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ قربانی کی جہاں سے ابتدا ہوتی ہے، قرآنِ کریم میں اس کا ذکر ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا یہ اصول بیان فرمایا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلۡمُتَّقِينَ۞ (سورۃ المائدہ: آیت، 27)

یعنی اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے جو متقی ہیں۔ پس غیر متقی کو قربانی قبول نہیں۔ مشرکوں، کافروں، اہلِ بدعت گمراہ فرقوں کا غیر متقی ہونا ہے "اظہر من الشمس" ہے اور جو ان کو اپنے ساتھ قربانی میں شامل کرتے ہیں اور اپنا مسلمان بھائی تصور کرتے ہیں یہ بھی ان کی طرح ہیں۔ پس ایسی قربانیاں جن میں کافر و مشرک شامل ہوں سب مردود ہیں۔ سورۃ الممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خطاب فرما کر یہ حکم دیا ہے يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ تُلۡقُونَ إِلَيۡہِم بِٱلۡمَوَدَّةِ الایة (سورۃالممتحنہ: آیت، 1) تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم محبت کے ساتھ ان کی طرف پیغام بھیجتے ہوں۔ اور آخر آیت میں فرمایا کہ: جس نے میرے دشمنوں سے دوستی کی وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ایماندار قوم کا نمونہ پیش کیا ہے کہ انہوں نے تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد فرمایا: 

إِنَّا بُرَءَٲٓؤُاْ مِنكُمۡ وَمِمَّا تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرۡنَا بِكُمۡ وَبَدَا بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُ ٱلۡعَدَٲوَةُ وَٱلۡبَغۡضَآءُ أَبَدًا الخ (سورۃ الممتحنہ: آیت، 4)

یعنی ہم بیزار ہیں تم سے اور اس چیز سے جن کو تم پوجتے ہو، ہم تمہارے اس طریقہ کے منکر ہیں اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا۔ پس مشرکوں، کافروں سے دشمنی اور بیزاری کا حکم ہے۔ قربانی امورِ شرعیہ ہے، اس میں مشرکوں، کافروں کو جو حق اور اہلِ حق کے دشمن ہیں، شریک کرنا ایمان کے منافی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: لا تصاحب الا مؤمنا کہ مومن کے بغیر کسی شخص کا ساتھی نہ بن۔ 

حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ان امور پر بیت کی تھی علی اقام الصلاة وايتاء الزكوة والنصح لكل مسلم وعلى فراق المشرك یعنی نماز کو قائم رکھنا ہوگا اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور مشرک سے علیحدہ اور جدا رہنا ہوگا۔ جب مشرکوں سے جدا رہنے کا حکم ہے تو پھر قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرنا جو محبت اور مصاحبت اور مجالست کو مستلزم ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: من جامع المشرکین وسکن معه فهر مثله کہ جو شخص مشرکوں سے مل جل کر رہا اور اس کے ساتھ رہن سہن اور قیام رکھا تو وہ ان مشرکوں جیسا ہے۔ تلخیص الحبیر میں یہ حدیث ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: انا بری من كل مسلم مع مشرک کہ میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرک کے ساتھ رہتا ہے۔ ان دلائل سے صاف مترشح ہے کہ اہلِ توحید مؤمن اور اہلِ سنت مسلمان مشرکوں، کافروں، مبتدعین، گمراہ فرقوں کو قربانی میں اپنے ساتھ شریک نہ کریں ورنہ سب کی قربانی مردود ہو جائے گی۔ ہدایہ کے متن قدوری میں ہے: وان کان شریک السنة نصرانیا اور جلا یرید اللحم کم یجز عن واحد منھم یعنی اگر قربانی کے شرکاء میں سے چھ مسلمان اور ایک نصرانی قربانی میں شامل ہو گیا تو کسی ایک کی بھی قربانی نہ ہو گی، سب کی مردود ہو جائے گی۔پس قربانی کے سب شرکاء متقی ہونے چاہیے۔ ساتھیوں میں سے ایک میں متقی نہ ہوا، مشرک، کافر حرام خور ہو تو قربانی برباد ہو جائے گی۔ کیونکہ کے قبولیت کے لیے متقی ہونا شرط ہے. حضور اقدسﷺ نے فرمایا: ان اللہ طیب ولایقبل الا طیبا یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک عمل اور پاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ دوسری حدیث مشکوٰۃ میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص نے کوئی کپڑا دس درہم سے خریدا ان میں سے ایک درہم حرام کا تھا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہ کرے گا جب تک کہ وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جس طرح قربانی اور نماز اور دیگر عبادات کے لیے حلال و طیب مال ضروری ہے اور اس میں اگر ذرا بھی مال حرام کی آمیزش ہو گئی تو وہ عبادت عنداللہ نامقبول قرار پائے گی اس طرح ایک قربانی اگر کئی افراد مل کر کریں تو سب کا متقی اور موحد ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک ان میں مشرک ہوا تو قربانی کی مقبولیت مشکوک ہو جائے گی۔ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے: افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ محکم ایمان کی دلیل ہے۔

پس کوئی اہلِ انصاف بتائے کہ جس شخص کے ساتھ دشمنی ہو، کیا اس کے ساتھ قربانی وغیرہ کسی چیز میں شریک ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، تجربہ شاہد ہے۔ تو پھر کافر دشمن کو شریک کیوں کیا جائے؟

حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو علماء نے ان کو روکا لیکن وہ باز نہ آئے فجالسوھم فی مجالسھم واکلوھم و شاربوھم پھر وہ علماء ان کے ہم مجلس اور ہم مشرب ہو گئے فضرب اللہ قلوبھم بعضھم ببعض فلعنھم علی لسان داؤد و عیسی بن مریم یعنی پس اللہ تعالیٰ نے بعض کے دلوں کو بعض سے مار دیا اور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زبان سے ان پر لعنت برسائی۔ (فتاویٰ حصاریة و مقالات علمیة: جلد، 5 صفحہ، 338)۔