عراق کے اندرونی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیعراق کے اندرونی شیعہ
مکانی اور بشری اعتبار سے شیعان عراق جدا جدا ہیں۔ قم شہر میں مجلسِ اعلیٰ کو مرکزیت حاصل ہے اور حزب الدعوہ حوزہ علمیہ کربلا پر غالب ہے۔ اہلِ اسلامی تنظیم محمد صادق شیرازی کی مرکزیت کا میلان رکھتی ہے۔ قم کربلاء اور نجف تینوں شہروں میں شیعوں کو اپنے ساتھ ملانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے پیروکار رکھتا ہے۔ مرکزی حیثیت سیدنا حسینؓ کے مزار کو حاصل ہے۔ اتنا وسیع ہونے کے باوجود کربلاء میں ان کا مزار لوگوں سے معمور ہے اور دعا کے لیے آدمی اس کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔
شیعوں کی اندرونی ساخت میں تقسیم سازی نے ایک اور شاخ پیدا کر دی ہے کہ بیرون عراق کے شیعہ، اور اندرون عراق کے شیعہ، جو اندرونی شیعہ ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت ساری مشکلات جھیلی ہیں اور صدام حسین کی بہت ساری سختیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ان کا بڑا تیار صدر ہے۔ ان تیاریوں نے متحدہ امریکہ سے بہت تعاون لیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کا بڑا عبد العزیز حکیم جو انقلابِ ایران کی مجلسِ اعلیٰ کا لیڈر ہے یہ 23 برس کویت میں رہا تھا اور یہ عراق میں جب داخل ہوا تو امریکی ٹینک پر سوار ہو کر آیا تھا۔ ایک بڑا غلط دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تمام شیعہ صدام حسین سے تکالیف اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے، عراق کے جنوب میں تقریباً 80 فیصد صدام کی بعث پارٹی کے لوگ تھے۔ ان میں سے بہت زیادہ مناصب پر شیعہ فائز تھے۔ یہ وضاحت الحیاه اخبار نے 6۔12۔2004ء میں کی تھی۔
شوریٰ اور ولایت کے معاملے میں عراق کے شیعہ مختلف ہیں۔ مجلسِ اعلیٰ اور اہلِ اسلامی ایک طرف ہیں۔ مجلس اور حزب الدعوہ ایک طرف ہیں۔ اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجلسِ ایرانی دولتِ اسلامیہ سے متاثر ہے اور تنظیم، عمل، حزب الدعوۃ سے اختلاف کے نتیجہ میں وجود میں آئی تھی۔
تیار صدر جسے عراق کی آب و تاب کہا جاتا تھا اور ان کا دینی مرکز ہے، اس نے ایران کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کر لیا تھا۔ اور مقتضیٰ صدر طہران کے نظام کا انتظار کرتا رہا کہ یہ ولایتِ فقیہ کا قابلِ اقتداء نمونہ بن سکتا ہے یا نہیں۔ یہ اپنے اپنے مفادات اور مصلحتوں کے مطابق رنگ پکڑ رہے تھے۔ مقتضیٰ صدر نے کہا تھا:
اريد ان يحكم العراق رجل دین شیعی سواء كان عراقيا او ايرانيا افضل ان يحكمه شخص مثل الخمينی من ای عراقی علمانی۔
میں چاہتا ہوں کہ عراق پر شیعہ مذہب آدمی حکومت کرے عراقی ہو یا ایرانی ہو یہ کوئی بات نہیں اور میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ خمینی جیسا آدمی ہو خواہ عراق کے کسی بھی علاقہ سے ہو یا علمان سے ہو۔
یہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ ان شیعوں کے نزدیک ممکن نہیں کہ عراق پر سنی حکمران ہو۔ اس کے مقابلہ میں سیستانی ولایتِ فقیہ کا نظریہ شروع میں چھوڑ بیٹھا تھا۔ اس نے عراق پر قبضہ سے پہلے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں وہ کھلے طور پر کہتا ہے: دین والے لوگ عدالت، قوتِ نافذہ اور سیاست سے دور رہیں۔ اسی طرح کا فتویٰ اس کے بیٹے کا ہے۔ اور محمد باقر حکیم بھی جو کچھ عرصہ پہلے قتل ہوا تھا، یہ بھی ولایتِ فقیہ کا قائل تھا مگر عراق کے حالات کے مطابق وہ ڈھل گیا تھا۔
شیعہ علمانیہ کے نظریات کا حامل گروہ حزب الوفاق ہے اس کا لیڈر ایاد علاومی ہے۔ یہ ایک موثر وطنی تنظیم ہے، اس کا بانی خائن، جاسوس احمد حلبی ہے، یہ سلطنت علانیہ کے بانی ہیں۔ لیکن یہ پگڑی والے شیعوں کے زیرِ اثر ہونے کا خود اعتراف کرتا ہے۔ ان آپس میں ٹکرانے والے معاہدوں کی سطح پر بطورِ مثال مجلسِ اعلیٰ جو حکیم کی لیڈری میں ہے اس کی بنیاد ایران میں رکھی گئی ہے اور اسے ایران کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ اس کے باوجود فوراً امریکیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی مضبوط حفاظت کرتا ہے اور یہی حکیم کو بہت سے امریکی ٹینک پر بیٹھ کر آیا تھا۔ اس نے صدام کے نظامِ حکومت کو گرانے میں پوری جدوجہد کی ہے لیکن جب ان کا مقصد پورا ہو گیا کہ صدام کو گرا لیا تو باقر حکیم نے اعلان کیا: میں امریکی حملہ کا بالکل ہمنوا تھا۔ اب امریکیوں کو خبردار کرتا ہوں کہ یہ مسلح مقابلہ چھوڑ دیں۔ اگر انہوں نے صدام کے بعد عراق میں رہنا ہے تو غیر مسلح ہو جائیں۔ اس کے برعکس سیستانی کی امریکی ذمہ داروں نے بھرپور مدح سرائی کی کیونکہ اس نے قبضہ کے متعلق مثبت موقف اختیار کیا تھا یہ اس سے بعد کی بات ہے جب اس نے 2002ء میں فتویٰ دیا:
ان من يساعد الأمريكان سيحيط به العار فی الدنيا و يلقى العقاب فی الآخرة۔
جو امریکیوں کی مدد کرے گا اسے دنیا میں عار ہوگی اور آخرت میں سزا ملے گی۔
لیکن اب اوپر یہ امریکیوں کو غیر مسلح ہو کر رہنے کی اجازت دے رہا ہے۔ ثابت ہوا شیعہ تنظیموں میں اختلاف ہوا تھا۔ مقتضیٰ صدر یہ شیعی باپ کا بیٹا تھا۔ یہ اس باپ کا بیٹا تھا جو شیعوں کا مرکز تھا۔ اس کا نام محمد صادق صدر تھا، اسے صدر صدام کے ساتھیوں نے قتل کر دیا تھا۔ 1999ء کی بات ہے اس کے والد کی وفات کے بعد ایران میں قوتیں اس کے حق میں مجتمع ہو گئیں۔ لیکن اس کی شخصیت باپ جتنی متاثر کن نہ تھی ، اس کی تعلیم کم تھی گفتگو کا سلیقہ نہ تھا۔ اظہار مانی الضمیر سہولت سے نہ کر سکتا تھا۔ یہ نو عمر بھی تھا، یہ خود پر اتنا زیادہ اعتماد کرتا تھا کہ غرور کی حد تک پہنچ جاتا تھا۔ اس کی ساری صلاحیت یہ تھی کہ یہ محمد صادق الصدر کا بیٹا تھا۔ اور مقتضیٰ صدر کے تعلقات ایران حکومت سے کبھی اچھے اور کبھی برے تھے۔ اس کے اور سیستانی کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔ اور حکیم کی جماعت سے بھی رابطہ اچھا نہ تھا جب کہ یہ دونوں عراق کے شیعوں کے دنیا میں اصلی اور بنیادی شخص تھے، اس گروہ کے پیدا ہو جانے کی وجہ کوفہ نجف اور کربلا تھے۔ ان کی وجہ سے عراق کی ہر دہلیز مقدس تھی۔ طبعی طور پر صدر کا تعلق اسلامی انقلاب سے پریشان کن تھا۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتا ہے:
ما اعرف شيا عنه ما اعرف ماهی اهدافه ، ماهی نتائجه ما الذی يريده هل هو ما ذون من الحاكم الشرعی الذی ماذونون منه لا انا ما اعرف لم اتعل به ولم احاول۔
مجلسِ اعلیٰ کے بارے میں اس سے سوال ہوا تو اس نے کہا: میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا مجھے اس کے اہداف و مقاصد کا بھی علم نہیں۔ اس کے نتائج سے بھی نا آشنا ہوں۔ شرعاً یہ جائز ہے یا ناجائز مجھے اس کا بھی پتہ نہیں نہ میرا اس سے رابطہ ہے اور نہ رابطہ کی کوشش ہے۔ اس سے پوچھا گیا اس مجلس کی سرگرمی کے متعلق پسندیدگی کا اظہار کریں اس نے کہا: میں نے اس کی سرگرمی کا دور دیکھا ہی نہیں۔
2003۔2۔25 میں ریڈیو کے ایک پروگرام میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا۔ جب سید محمد باقر حکیم عراق پہنچا تو اس کا بھرپور استقبال ہوا تھا۔ تیار خائی کے قتل میں ایسے قرائن پائے جاتے ہیں کہ مقبوضہ عراق جب یہ تیار عبد المجید حوئی آیا تو اس پر حملہ کرنے میں مقتضیٰ الصدر کا کردار پایا جاتا ہے۔ اس سے جب سوال ہوا کہ حوئی کے قتل کے بعد جو ہیجان پایا جاتا ہے اور اس پر جو تہمت لگائی گئی ہے اس بارے میں کیا خیال ہے تو مقتضیٰ نے کہا حوئی نے ایک ناپسندیدہ شخص ساتھ ملایا جس کا نام حیدر کلیدار ہے یہ سابقہ نظام کا ایک رکن تھا۔ حوئی نے اسے حسینی مرکز میں داخل کر لیا ہے۔ اور حوئی نے ایک یہ کام بھی کیا تھا کہ یہ برطانیہ کے ٹینک پر سوار ہو کر عراق آیا تھا۔ مزید کہا:
كان للخولى تصرفات شحنت الشعب العراقی كله ضده لان الشعب العراقی كله كان محبا للسيد الصدر۔
حوئی کے بعض اقدامات نے اہلِ عراق کو اس کے مخالف کر دیا تھا۔ عراقی سارے کے سارے سید الصدر سے محبت رکھتے تھے۔
گویا کہ یہ اعتراف کر رہا تھا کہ حوئی قتل ہونے کے ہی لائق تھا۔