جنوب عراق پر شیعہ کی خرمستیاں
الشیخ ممدوح الحربیجنوب عراق پر شیعہ کی خرمستیاں
(اخبار، الحیاة) 6۔12۔2004ء نے ایک تحقیق پیش کی ہے جو نہایت ہی اہم ہے۔ جنوبِ عراق میں شیعیت پھیلانے پر روشنی پڑتی ہے۔ اخبار کہتا ہے:
ان هناك حملة للتطهير الطائفی أدواتها وآلاتها الاغتيالات والخطف ومصادرة المساجد والأوقاف السنية۔
گروہی تطہیر کے لیے حملہ کیا گیا ہے پورے ساز و سامان کے ساتھ، قاتلانہ حملوں کے ذریعہ چھینا جھپٹی سے، مسجدوں اور سنی اوقاف میں بھی حملہ کیا گیا ہے، یعنی سنیوں کو جنوبِ عراق میں نقصان کے لیے یہ جد و جہد ہوئی ہے۔
شیعانِ عراق شیعانِ ایران، اور امریکی قابض یہ تینوں کو اس علاقہ سے مار بھگانے پر لگے ہوئے تھے۔ اور پے در پے زیادتیوں کے مرتکب ہو رہے تھے۔ فیلق بدر کئی علاقوں میں سنیوں پر ستم ڈھارہا تھا۔ لطیفیہ جو کہ جنوبِ عراق میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ عینی شاہدین کے بقول فیلق کے عناصر وہاں جنوبی عراق کے علاقوں میں کھلا اسلحہ استعمال کر رہے تھے اور فضا میں امریکی طیاروں نے فضا کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ایک اور نے بیان کیا جنوبی عراق میں ایرانی نمائندے کاروائی کر رہے تھے۔ اور وہ سنیوں کی جائے پناہ کی اطلاع دیتے تھے۔ کیونکہ ایرانی سرحد ان کے لیے کھول دی گئی تھی، وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم عراقی ہیں۔ صدام حسین کے خوف سے ایران گئے تھے، حالانکہ یہ ایرانی ہوتے تھے، عراقی نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت ایران کی طرف منسوب ہے۔ یہ رہائش کا نام بدل کر پاسپورٹ بنوا لیتے ہیں اور انتخابات میں جھانسہ دینے کے لیے عراق میں داخل ہوتے ہیں۔ اور انتخابات کے بعد واپس چلے جاتے ہیں اور بے شمار جعلی پاسپورٹ تیار کرتے ہیں۔ اور انتخابات میں شیعوں کی اکثریت ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں سنی لوگوں کو عراقی گارڈوں کی طرف سے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تا کہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ عبد العزیز حکیم نے اعلان کیا تھا۔ مجلسِ اعلیٰ کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ یہ علاقہ فلیق بدر سے آئے ہیں تا کہ عراقی انتخابات میں حکومت سے تعاون کریں۔ کچھ دیر پہلے اس نے اشارہ دیا تھا جنوبِ عراق میں بصرہ، میثاں اور ذی قار مقامات پر شیعہ مستقل ذاتی سلطنت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بصرہ میں 2004۔26۔12 میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس میں شیعہ کی مستقل شخصیات اور سیاسی قیادت اور حکومتی ذمہ دار اور خاندانوں کے سربراہ شامل تھے۔ اور اس نے دعویٰ کیا کہ ملکی قانون کی شق 53 مستقل ریاست قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس میں شیعہ کی 600 نمایاں شخصیات موجود تھیں۔ فرات اوسط نجف و کربلا بائل، اور قادسیہ کی ریاستوں اور صوبوں کو بطورِ مثال انہوں نے پیش کیا۔
سب سے زیادہ خطر ناک بیان کا یہ حصہ تھا۔ اس صوبہ کے لیے فریب والی ریاستوں سے تعاون لیا جائے۔ ظاہر ہے اس سے مراد ایران تھا اس طرح عراق میں ایران کا اثر و رسوخ اور بڑھ جاتا ہے اور یہاں عراق میں وہی خونریزی ہوتی جو 1991ء میں ہوئی تھی اور جس علاقہ میں امریکی گھیراؤ و جلاؤ نہیں کر سکے تخریب کاری اور چوری چکاری نہیں کر سکے اور املاک کو نقصان نہیں پہنچا سکے یہ ایرانی سب کسر نکال دیتے اور فیکٹریوں اور کارخانوں اور خزانوں میں لوٹ مار کرتے۔ کیونکہ ایرانی حکومت کے نزدیک یہ فتویٰ ہے کہ دوسری ریاستوں کے مال لوٹنا اور چوری کرنا حلال ہے کیونکہ سنی حکومت کافر ہے، اس کی لوٹ مار جائز ہے شرقِ اوسط اخبار 2004۔3۔4 میں ایک نمائندہ بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایرانی نمائندے نے اپنی متعدد تنظیموں کے ساتھ ساتھ، 18 دفاتر قائم کیے ہیں۔ یہ فقراء سے تعاون اور طبی امداد، غذائی تعاون اور مالی تعاون کے نام سے ہیں۔ ان اداروں کے لیے 70 ملین ڈالر سے زیادہ مخصوص کیے گئے ہیں۔ ان میں 5 ملین ڈالر شیعہ کے دینی رہنماؤں پر صرف ہوتے ہیں جو ایران کے لیے عراق میں کام کرتے ہیں۔ ان کی اس تگ و دو کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایران نے عراق میں سیاسی، اقتصادی اور امن و امان کی صورتِ حال میں پوری دخل اندازی اختیار کر لی ہے اور اس نے عراقی میدان میں ایسے مضبوط پل تیار کر لیے ہیں جن کے ذریعے شیعہ کے مفادات اور اپنے علمی مقامات تیار کر رہا ہے اور اپنی رسومات کا نفاذ کر رہا ہے 2004ء میں ایرانی انقلاب کے پاسداروں کے نائب نے کہا تھا: جب وہ لندن کے وزٹ پر تھا:
بان ایران لديها فی العراق الآن لواء من المجندين لصالحها داخل العراق ولها علاقة مع فصائل اخرىٰ لضمان حماية الأمن القومی۔
ایران، عراق میں اس کی اندرونی اصلاح کے لیے علم تھامے ہوئے ہے اور ایران کے قومی امن کی حمایت کی ضمانت کے لیے دوسرے خاندانوں سے بھی ایران کا تعلق
2004۔4۔11 میں ایرانی نمائندوں نے نجف میں ایک دفتر کھولا ہے جو عراق کے شیعہ فقراء کی مدد کے لیے ہے اور اس نے 70 ہزار نوجوان شیعوں کو قریبی فوج کے ساتھ ملانے کے لیے جمع کیا ہے اور ہر رضا کار کو جو ملیشیا فوج میں ملا ہے اسے ایک ہزار ڈالر ماہانہ دیا جاتا ہے جو کہ 2000 ڈالر تک ہے یہ اخراجات ایران خود برداشت کرتا ہے۔ ٹائمنر اخبار لکھتا ہے:
2005ء میں عراقی مسلمانوں کے لیے ایک یہ مشکل بھی پیدا کی گئی ہے کہ ایران شیعوں کو عراق میں جدید تباہ کن میزائل دے رہا ہے ان کے پاس ایسے ذرائع ہیں جو ایرانی انقلاب کے وقت پاسداروں کے پاس تھے جن کی بدولت انہوں نے کود اور عمارہ شہروں پر غلبہ پا لیا تھا۔ یہ امریکی جنگ سے متصل چند دنوں کے بعد ہی ایرانیوں نے کر لیا تھا۔ یہی کچھ یہ عراق میں کر رہے ہیں۔