Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عراقی شیعہ ملیشیا

  الشیخ ممدوح الحربی

عراقی شیعہ ملیشیا

عراق میں موجود شیعہ ملیشیا نے ایران میں اس سے پہلے واضح خدمات سر انجام دی ہیں تا کہ یہ عراق میں دخل اندازی کر سکیں ۔

اس نے دو طریقوں پر کام کیا ہے۔

  1. القدس فوج کے نام پر کام کیا ہے۔
  2. طریقہ یہ ہے کہ ملیشیا کو مال فراہم کر کے اور اسے اسلحہ مہیا کر کے خاص طور پر ایرانی انقلاب کی مجلسِ اعلیٰ کے فوجی ونگ کو مال اور اسلحہ فراہم کیا۔ ایک تنظیمِ بدر ہے جو کہ تعمیر و ترقی کے نام سے معروف ہے ان کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہے اور یہ صلح ہے۔ بعض خفیہ بیانات سے اشارہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی ماہرین ان کی خفیہ سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں بدر تنظیم کے پردہ میں کیونکہ یہ بظاہر کھیتی باڑی کی تنظیم ہے۔ اصل میں یہ باقاعدہ ٹرینگ یافتہ ہوتے ہیں۔ انقلابِ ایران کی فوجوں کا قائد جنرل یحییٰ رحیم صفوی اور محمد باقر نائب قائد ہے اور جنرل قاسم سلیمان جو القدس، فوج کا سالار ہے۔ جنرل محمد باقر یہ ایران کے اس خفیہ منصوبے کا عراق میں ذمہ دار ہے۔ ان کے اسلامی انقلاب کے مرشدِ اعلیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلقات اور میل ملاپ ہے۔

"الراصد" رسالہ بھی اس کی تائید کرتا ہے یہ رسالہ خاص طور پر شیعی معاملات ہی بیان کرتا ہے۔ چار جنرل اور نو نگران عراق میں خفیہ کارستانیوں کے ذمہ دار ہیں۔ القدس کے فوجی جو فن کے ماہر ہوتے ہیں جزرسانی کے روپ میں حلیہ بدل کر کام کرتے ہیں یہ پانچ ہزار سے زیادہ ہیں۔ اور ماہر ٹریننگ یافتہ ہیں جو عراق میں کام کر رہے ہیں ایک القدس، خاص فوجیوں کا دستہ ہے جو ماہر صنعت و حرفت کے روپ میں کام کرتا ہے یہ سارے فوجی دستے ایران سے باہر کام کر رہے ہیں مگر ایران کے لیے کرتے ہیں۔ ایران کے اندر ان فوجیوں کے لیے ٹرینگ یافتہ فوجیں بڑی تعداد میں کام کر رہی ہیں۔ القدس کے نام پر خارج میں بھی قوتیں ایران کے لیے سرگرم عمل ہیں اور علاقہ کے اثرات کے مطابق کام کرتی ہیں۔ لیکن ان کا اہم مرکزِ عراق ہے۔ اور پھر سعودی عرب، سوریا اور لبنان ہے۔ کم اہمیت والے ممالک افغانستان، پاکستان، ہندوستان، ترکی اور اسلامی جمہوری ملک ہیں۔ علاوہ یورپ کی ریاستیں، شمالی امریکہ اور افریقہ کی شمالی ریاستیں۔ خصوصاً مصر، تیونس، جزائر ، سوڈان اور مغربی ممالک ہیں۔

اس دخل اندازی اور ایرانی رخنہ اندازی سے واضح ہو رہا ہے کہ طہران کا ہدف یہ ہے کہ عراق کی تمام ملیشیا تنظیمیں سیاسی اور مادی تعاون ایران سے لیں جیسا کہ ایران میں انقلاب کے لیے لیا تھا۔ بدر تنظیم ایران کی ٹرینینگ گاہ سے تربیت لیتی ہے اور القدس ایران کی چھ ٹرینگ گاہوں میں تربیت دے رہی ہے۔ طہران کے شمال جامعہ الامام میں اہم ترین تربیت گاہ ہے۔ قم شہر میں بھی اہم ترین تربیت گاہیں موجود ہیں۔ تبریز اور مشہد میں بھی ہیں۔ لبنانی سوریا کی سرحدوں پر بھی ہیں۔ اور بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ عراق میں بھی ایرانی پاسداران کے ماہرین اب بھی تربیت دے رہے ہیں۔ ملیشیا کے اندر جیش نظامی اور عراق پولیس کے دستوں کی صورت میں ایرانی اب بھی عراق میں کام کر رہے ہیں اور عملاً عراقی شیعہ ملیشیا اور پولس دستوں میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ اور یہ دونوں ایران سے متاثر ہیں۔ ایرانی خیراتی اداروں نے ہسپتالوں میں، اجتماعی اداروں کو مالی تعاون دیا ہے۔ علاوہ ازیں مساجد، یتیم خانے اور دیگر اجتماعی خدمات عراق میں سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اجتماعی اداروں کا جال بچھا رکھا ہے۔ انہوں نے عراق میں وکلاء کی تنظیم بھی بنا رکھی ہے اور خیراتی اداروں کے باقاعدہ علیحدہ علیحدہ مناسب نام رکھے ہیں۔ ادارہ المستضعفین، ادارہ امام رضا، شہداء کے ناموں پر ادارے، ان پر لاکھوں ڈالر صرف کر رہے ہیں علاوہ ازیں تنظیمیں ہیں جو ادارے چلا رہی ہیں ان میں اجتماعی رفاہی ادارہ، اقتصادیات اسلامی کا ادارہ ادارہ تعمیر و ترقی، ہلالِ احمر ایرانی کے نام سے ادارہ ہے القدس تنظیم جو انقلابی پاسداران کے تابع ہے۔ یہ جنوب عراق میں تہہ خانے میں اسلحہ کا بندو بست کرتی ہے۔ ان تمام تنظیموں کے قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایران عراق میں اپنا اثر و رسوخ مستقبل میں بڑھانا چاہتا ہے۔